Tuesday 11 October 2016

دھرم ہندو کا غائب ہے مسلماں کی مسلمانی

عدم مساوات ایک فطری قانون اور عملی حقیقت ہے:
شعیب عالم قاسمی چیف ایڈیٹر آپ کی آواز
مغربی تہذیب نے لوگوں کے دل ودماغ پر ایسا جادو کیا ہے کہ مغربی تہذیب یافتہ طبقہ مردوں اور عورتوں کے درمیان مساوات کو ضروری فرض کرتا ہے ،اور ان کا یہ خیال ہے کہ جس طرح مرد آفس کے کام انجام دیتا ہے اسی طرح عورتیں بھی آفس کی کرسیوں پر ہوں اور عورتوں کا بھی تصور اسی طرف جاتا ہے کہ ہم مردوں کے محتاج نہ ہوں بلکہ مردوں کی طرح ہم کو بھی طلاق وغیرہ کے حقوق حاصل ہوں، ہم بھی مردوں کی طرح سڑکوں کی رونق بنے ہم بھی شاپنگ مال میں دکھائی دیں، لیکن یہ صرف ایک دھوکہ اور مثالی نظیر ہے جس کا عمل سے کوئی تعلق نہیں اور سوچنے کو کچھ بھی سوچا جا سکتا ہے اور کسی بھی چیز کا تصور کیا جاسکتا ہے جس کو خیالی پلا و ¿ سے تعبیر کیا جاتا ہے ،اس کے برعکس عدم مساوات ایک عملی حقیقت ہے اس کا اندازہ آپ کو بغیر کسی تعصب اورجانب داری کے خدا کی مخلوق میں نظر غائر ڈالنے سے ہوگا۔
مثلا آپ جانوروں ہی میں غور کریںکہ بیل گائے سے طاقتور ہوتا ہے،بکرا بکری سے زیادہ قوی ہوتا ہے ،مرغا اپنی مرغیوں پر حاوی ہوتاہے، غرضیکہ تمام نر اپنی مادہ کے مقابلہ میں قوی تر ہوتے ہیں، اسی طرح شیر کی شکل ڈراونی ہوتی ہے جس کا کام چیرپھاڑ ہے،کیا اس میں اس کا اپنا قصور ہے ؟ نہیں بلکہ اللہ رب العزت نے اسے گوشت خور بنایا ہے،ہاتھی کو آپ دیکھیں تو کس قدر عظیم الجثہ ہے اور اس کا کھانا بہت زیادہ ہوتا ہے تو کیا اس میں آپ ہاتھی کی غلطی ثابت کریں گے؟ ہرن کی خوبصورتی میں کیا اس کا اپنا کمال ہے؟ بلبل کی آواز کیا اس کے اپنی پیدا کردہ ہے؟ کوّے کی دل خراش آواز ہے تو کیا اس میں کوے کا دوش ہے؟یہ سب عدم مساوات اللہ رب العزت کی پیداکردہ ہیں۔یہی نہیں بلکہ مذہب کے اندر تقدس کے اعتبار سے مقامات کی حیثیت ایک نہیں خانہ ¿ کعبہ کے اندر آپ نماز اداءکریں گے ایک لاکھ نماز کا ثواب ملے گا یہ شرف اور ثواب آپ کو دنیا کی کسی اور جگہ حاصل نہیں ہوسکتاحالانکہ نماز وہی ہے جس کو آپ دنیا کے دوسرے مقامات پر اداءکرتے ہیں نماز کے اندر قیام وقعود، رکوع وسجود،تسبیح وتحمید سب وہی لیکن صرف جگہ بدلنے سے ثواب کتنا عظیم تر ہوجاتا ہے ۔ذہانت جیسی خدا داد صلاحیت کے اندر انسان یکساں نہیں ہوتاہم دیکھتے ہیں ایک طالب علم صرف استاد سے سننے کے بعد اس کو ہوبہو محفوظ کرلیتا ہے اور بعض طالب علم بہت محنت کرنے کے بعد بھی اس نتیجہ پر نہیںپہونچتے بلکہ ایک گھر کے افراد بھی ذہن کے اعتبار سے ایک درجہ میں نہیں ہوتے حتی کہ بھائی بھائی بھی ذہانت میں مختلف ہوتے ہیں۔انسان خود اپنی ذات کی طرف نظر کرے تو عدم مساوات کا اصول اس پر منکشف ہوجائے دایاں ہاتھ بائیں سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے لیکن یہ قاعدہ بھی کلی نہیں سب کے ساتھ یہ معاملہ نہیں بلکہ بہت سے لوگوںکا بایاں ہاتھ دائیں سے قوی ہوتا ہے،آنکھیں نکل جائے تو انسان مرتا نہیں دل اگر نکل جائے تو انسان بچتا نہیں دنیا کے اکثری نظام میں آپ کو عیاں تفاوت ملے گا،ہماری اس رائے سے آپ اتفاق کریں گے کچھ اختلاف بھی کریں گے تو اس میں بھی عدم مساوات ہوئی۔
اسی طرح مرد اور عورت کے درمیان بھی عدم مساوات ایک امر فطری ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ورنہ تو ہم آپ سے کہیں گے کہ مردوں کو بھی عورتوں کے ساتھ شرکت کرنی چاہئے جس طرح مردوں کے کام آپ عورتوں پر لاگو کرنا چاہتے ہیں تو عورتوں کے کام مردوں پر بھی لاگو ہوں۔اب اگر ایک بچہ ہوا اس کو نو مہینے ماں نے پیٹ میں رکھا تو دوسرے بچہ کو باپ نو مہینے پیٹ میں رکھے مساوات کا تو یہی تقاضا ہے کیا ایسا کوئی کرسکتا ہے ؟ کبھی نہیں عورت کے اندر جو نزاکت اور دلربائی ہے مرد اس کو کبھی نہیں حاصل کرسکتا اور مرد کے اندر جو مردانگی اور بہادری ہے عورت اس کو نہیں پاسکتی اور خود اللہ عز وجل نے مرد کی فضیلت کا قرآن کریم میں اعلان فرمایا ہے۔ (ترجمہ )مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے (سورہ نساءآیت نمبر ۴۳)
لیکن حیف صد حیف مغربی سوچ کے حاملین اندھی تقلید کرنے والوں پر کہ جنہوں نے مغرب پرستی کو ہی اپنا مذہب بنا لیا اور ان کی ہراداءپر لبیک کا نعرہ بلند کرتے ہوئے انہیں کی راہ پر گامزن ہوگئے اور اپنے دین و مذہب کوگویا فراموش کربیٹھے( نعوذباللہ) شاعر نے خوب کہا ہے
 مغربی تہذیب پرکس قدر دنیا ہے دیوانی 
دھرم ہندو کا غائب ہے مسلماں کی مسلمانی
(ساگر ٹائمز)
شعیب عالم قاسمی چیف ایڈیٹر آپ کی آواز













9997786088
shuaibalamqasmi786@gmail.com

No comments:

Post a Comment