Wednesday 12 October 2016

وكثير من الناس

ایس اے ساگر
وطن عزیز میں 'قانون کمیشن' نے بھارتی شہریوں سے، یکساں سول کوڈ اور تین طلاق کے مسئلہ پر اپنی رائے دینے کی اپیل کی ہے. تین طلاق پر بحث کے دوران نوبت یہ آپہنچی ہے کہ ہفتہ کے روز ایک سوالنامہ جاری کیا گیا ہے جس میں شہریوں سے کہا گیا ہے کہ وہ یکساں سول کوڈ پر اپنی رائے پیش کریں. گویا کہ اب اکثریت طے کرے گی کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے! سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 'اکثر لوگ' 'زیادہ تر لوگ' کا یہ سلسلہ کتنا مؤثر ہے .... قومیں افراد کے مجموعے سے تشکیل پاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ افراد کو متنوع صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کرتا ہے۔پھر عملی زندگی میں ان کے سامنے مواقع بھی مختلف آتے ہیں۔ فرد کے اعتبار سے اس طریقۂ کار کا مقصد آزمایش ہے ، مگر اجتماعی طور پر اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یکساں صلاحیتوں اور مواقع ملنے والے افراد ایک گروہ بنتے چلے جاتے ہیں۔ مثلاً کچھ لوگوں کو قیادت کی غیر معمولی صلاحیتیں اور مواقع ملے ہوتے ہیں۔ چنانچہ سوسائٹی کی فکری اور عملی قیادت انھی لوگوں میں سے آتی ہے۔کچھ لوگوں کو مال و اقتدار کے حصول کے غیر معمولی مواقع نصیب ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو علوم و فنون کی طرف غیر معمولی رغبت ہوتی ہے۔ سوسائٹی کی اکثریت وہ ہوتی ہے جن کا تعلق ان میں سے کسی گروہ سے نہیں ہوتا۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنھیں خدا نے غیر معمولی صلاحیتوں سے نہیں نوازا ہوتا ہے یا وہ لوگ جنھیں زندگی میں مواقع نہیں ملے ہوتے یا وہ لوگ جنھیں مواقع اور صلاحیت میں سے کوئی چیز نصیب نہیں ہوتی۔ چنانچہ ان لوگوں سے مل کر عوام الناس کا گروہ وجود میں آتا ہے۔ اور پھر مواقع اور صلاحیتوں میں فرق کے اعتبار سے خود ان لوگوں کے مختلف درجات بنتے چلے جاتے ہیں۔ تاہم مجموعی طور پر ان کی شناخت یہ ہوتی ہے کہ یہ لوگ قوم کی رہنمائی نہیں کرتے، بلکہ مذکورہ بالا گروہ کی متعین کردہ راہوں پر چلتے ہیں۔
اے اللہ مجھے اپنے چند لوگوں میں شامل فرما!
کتاب و سنت سے رجوع کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بازار میں چل رہے تھے، وہ ایک شخص کے پاس گزرے جو دعا کر رہا تھا،
"اے اللہ مجھے اپنے چند لوگوں میں شامل فرما، اے اللہ مجھے اپنے چند لوگوں میں شامل فرما"۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ یہ سن کر رو پڑے اور اپنے آپ کو نصیحت کرتے ہوئے بولے،
"اے عمر، لوگ تم سے زیادہ علم والے ہیں، اے اللہ مجھے بھی اپنے چند لوگوں میں شامل فرما۔"
غور طلب ہے کہ جب بھی کسی شخص سے کسی گناہ کے کام کو چھوڑنے کے لئے کہا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ یہ اکثر لوگ کرتے ہیں ۔ میں کوئی اکیلا تو نہیں۔ قرآن مجید شاہد ہے کہ

وكثير من الناس تأثر بقوة المخلوق، ولم يتأثر بقوة الله، و ذلك لضعف الايمان واليقين، فحرم من الاستفادة من خزائن الله، ومن قدرة الله.
[فقه القلوب :١/٦٠]
اور لوگوں میں سے اکثریت وہ ہے جو مخلوق کی قوت سے تو بہت متاثر ہوتی ہے لیکن اللہ سبحانہ تعالی کی قوت سے قطعا متاثر نہیں ہوتى اور یہ ایمان و یقین کی کمزوری کی بناء پر ہوتا ہے  
پس ( ایسا شخص ) اللہ عزوجل کے خزانوں اور اللہ کی قدرت سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہا ۔ 
[فقه القلوب :١/٦٠]
اللہ عزوجل نے کبھی بھی اکثریت کو حق وحقیقت کا ملاک اور معیار قرار نہیں دیا ہے، بلکہ اس کے برعکس اکثر لوگوں کی مذمت کی ہے اس دلیل کی بنیاد پر کہ وہ طول تاریخ میں ہمیشہ حق کے خلاف رہے ہیں۔ یہاں پر ہم اس سے متعلق کچھ آیات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
۱۔ وان تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اللہ ان یتبعون الا الظن(۱)۔
اور اگر آپ زمین پر بسنے والے لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلیں گے تو وہ آپ کو راہ خدا سے بہکا دیں گے یہ لوگ تو صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں۔
۲۔ و ان کثیرالیضلون باھوائھم بغیر علم (۲)۔
اوربے شک اکثر لوگ اپنی خواہشات کی بنا پر نادانی میں گمراہ ہوتے ہیں
۳۔ وما یتبع اکثرھم الا ظنا(۳)۔ان میں سے اکثر محض گمان کی پیروی کرتے ہیں۔
۴۔ بل جاء ھم بالحق و اکثرھم للحق کارھون، ولو اتبع الحق اھوائھم لفسدت السماوات والارض و من فیھن بل اتیناھم بذکرھم فھم عن ذکرھم معرضون(۴)۔
بلکہ وہ ان لوگوں کے پاس حق لے کر آئے ہیں لیکن ان میں سے اکثر لوگ حق کو ناپسند کرتے ہیں۔
۵۔ وماکان اکثرھم مومنین(۵)۔اور ان میں سے اکثر لوگ خدا پرایمان نہیں لائیں گے۔
۶۔ و قلیل من عبادی الشکور(۶)۔اور میرے بہت کم بندے شکر گزارہیں۔
۷۔ و ما اکثر الناس و لو حرصت بمومنین(۷)۔اور آپ کتنی ہی کوشش کیونہ کریں ان لوگوں میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔
اور دوسری وہ آیات جو دلالت کرتی ہیں کہ کبھی بھی اکثریت کو حقانیت کا معیار و ملاک قرار نہیں دیا گیا اور نہ دیا جائے گا، بلکہ اس کے برعکس ہمیشہ اکثر لوگ باطل پر رہے ہیں اور ان میں سے بہت کم لوگوں کے پاس ایمان اور عمل صالح ہے اور بہت کم لوگ خدا کا شکر کرتے ہیں۔
مجبوری اور بے بسی:
آج کے معاشرہ میں اگر چہ معاشرہ کو ادارہ کرنے کیلئے اکثریت کی رائے پر تکیہ کیا جاتا ہے لیکن بھولنا نہیں چاہئے کہ یہ ایک قسم کی مجبوری اور بے بسی ہے کیونکہ مادی معاشرہ میں قوانین کو مقررہ کرنے اورکسی مسئلہ میں فیصلہ دینے کیلئے کوئی بھی قانون اشکال و اعتراض سے خالی نہیں ہے ۔ اس وجہ سے بہت سے دانشور اس حقیقت کا اعتراف کرنے کے باوجود کہ بیشتر امور میں اکثریت کی رائے غلطی کا شکار ہوجاتی ہے پھر بھی اکثریت کی رائے کو قبول کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے ، پس خلاصہ کے طور پر کہا جائے :
”اکثریت کسی مسئلہ کو حل کرنے کا راستہ ہے حق کا راستہ نہیں“
بہرحال ایک ایسے معاشرہ میں جہاں انسان انبیاء کی رسالت کا اعتقاد رکھتا ہو وہاں بہرحال قوانین کو منظور کرنے میں اکثریت کی رائے پر مجبور ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ انبیاء کے قوانین اور نظام خدا وند عالم کی طرف سے بندوں کے لئے نازل ہوئے ہیں اور ان قوانین میں کسی قسم کا نقص نہیں ہے اور جو کچھ اکثریت ”جائز الخطا“ منظورکرتی ہے وہ خدا کے قوانین سے قابل مقایسہ نہیں ہے جیسا کہ خدا وند متعال فرماتا ہے:
(و ان تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اللہ“(۸)۔
اور اگر آپ زمین پر بسنے والے لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلیں گے تو وہ آپ کو راہ خدا سے بہکا دیں گے۔ حقیقت میں قرآن کریم اس مذمت اور سرزنش کے ذریعہ ایک خطرناک طرز تفکر سے جنگ کرتا ہے اور تمام بشریت کو انبیاء الہی کے قوانین کی طرف راہنمائی کرتا ہے تاکہ اس صحیح قافلہ سے مل جانے کے بعد اپنے آپ اور آج کے معاشرہ کو ہلاک ہونے سے نجات دے۔(۹)۔
'اکثر لوگ' 
"نہیں جانتے" (7:187)
"شکر ادا نہیں کرتے"(2:243)
"ایمان نہیں لائے"(11:17)
"زیادہ تر" تلاش کریں تو پتہ چلے گا کہ زیادہ تر لوگ،
"شدید نافرمان ہیں"۔ (5:59)
"جاہل ہیں" (6:111)
"راہ راست سے ہٹ جانے والے ہیں۔"(21:24)
"سوچتے نہیں۔" (29:23)
"سنتے نہیں" (8:23)
لہذا کیوں نہ اپنے آپ کو چند لوگوں میں شامل کرو جن کے بارے میں اللہ سبحانہ تعالی نے فرمایاِ،
"میرے تھوڑے ہی بندے شکر گزار ہیں"(34:13)
"اور کوئی ایمان نہیں لایا سوائے چند کے"(11:40)
"مزوں کے باغات میں پچھلے میں زیادہ، اور بعد والوں میں تھوڑے" (56:12-14)
حیل حجت :
لیکن اس کا کیا کیجئے کہ سرکاری سوالات کا دائرہ وسیع ہے جیسے شادی، طلاق، بچوں کو گود لینے، دوسروں کے درمیان وراثت جیسے اہم سوالات شامل ہیں. قانون کمیشن  Law Commission  نے آئین ہند کی دفعہ 44 کے تحت خاندانی اصلاحات کے قوانین پر نظر ثانی کے لئے یہ عمل شروع کیا ہے. اس طرح ریاست پورے ملک میں اپنے شہریوں کے لئے یکساں سول کوڈ فراہم کرنے کی کوشش کرے گی. قانون کمیشن کی جانب عامۃ الناس سے یہ درج ذیل سوالات پوچھے گئے ہیں. 
کیا یہ درست نہیں ہے کہ اہل حق اپنے آپ کو چند لوگوں میں شامل کرلیں اور اس کی پروا نہ کریں کہ اور اس راستے میں نہیں اور آپ اکیلے اور تن تنہا ہیں۔
ہندوستانی عدالت سے کتنے فیصلے مسلمانوں کے حق میں صادر ہوئے؟ سماجی روابط کی ویب سائٹس پر بیشمار مشتعل پیغامات گردش کررہے ہیں. حکومت آپ کے خلاف عدالت سے رجوع کرسکتی ہے .ایک حلف نامہ آپ نے دائر کیا، ایک حکومت نے، آپ ١٠٠٠ دستخط لے کر آئیں گے، حکومت  ظفر سریش والا جیسوں سے لاکھ دستخط کرواکے اپنی ناک اونچی کروالے لیگی .بابری مسجد فیصلے کے وقت کانگریس اقتدار میں تھی ..تالا کھلوانے سے لیکر شیلا نیاس تک کانگریس کا کھیل چلتا رہا ...مفاد پرست میڈیا چند سکوں کی غلامی کرتی رہی  اور کانگریس ہندو اور مسلمان دونوں کو بیوقوف بناتی رہی ...جو فیصلہ صادر ہوا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، آپ بخوبی جانتے ہیں امیت شاہ اور گجرات کے سارے مجرم رہا ہو جاتے ہیں --کس نے کئے رہا ؟ فرضی تصادم کی فائلیں غایب  کر دی جانتی ہیں اور ونجارہ جیسے مجرم با عزت رہا ہو جاتے ہیں .حکومت اگر مسلم پرسنل لا بورڈ کو ختم کرنے کی نیت کر چکی ہے تو دستخطی مہم سے کیا ہوگا ..٢٥ کروڑ عوام میں کتنے لوگ شریعت پر ہیں؟ -- انقلاب کہاں س برپا ہوجائے گا..ایسا انقلاب کہ گھروں میں بیٹھی عورتوں کو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی نوبت نہ آئے ... حکومت  کے مذہبی امور میں مداخلت کی آواز ایک عالم میں سنائی دینے کی نوبت نہ آئے .امریکہ میں جب مسز کلنٹن ٹرمپ کے مسلم کارڈ کے خلاف بولتی ہیں تو امریکی پارلیمنٹ میں ان پر بھروسہ جتایا جاتا ہے ...غیبی نظام امت کے خلاف ہے تو حکومت بھی امت کے خلاف ہے .آپ کو حکومت سے نہیں، اپنے اندر پنپتی ہوئی بے دینی سے لڑنا ہے ... تو ابھی سیدھا راستہ بڑی جنگ کا اعلان ہے ...ہندوستان کے ہر شہر کے مسلمان عید، بقر عید اور جمعہ الوداع کی طرح اپنی صفوں کو سڑکوں تک پہنچادیں ...یقین جانئے اس بار باطل اپنی منشا میں کامیاب رہا تو وہ ایک تیر سے کئی شکار کرے گا ...اور ابھی ایسے ہزار تیر اس کے پاس موجود ہیں ،جس کو جھیلنا کسی مسلمان یا تنظیم کے بس کی بات نہیں ہوگی ...
لوگ کہتے ہیں
مرد عورت برابر ہیں
مگر
اللہ فرماتا ہے
“لَيْسَ الذَّكَرُ كَالأُنثَى
ذکر (مرد) انثی (عورت) جیسا نہیں ہوتا “القرآن)
لوگ کہتے ہیں
آج کے دور کے مطابق دین میں تبدیلی وقت کی ضرورت ہے
مگر
اللہ فرماتا ہے
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً
“(1400 سال پہلے )
آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا
اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا “
(المائدہ 3)

آخر میں آپ سے ایک سوال:
لوگ کہتے ہیں
اپنے وطن کی مٹی کی قسم کھاؤ ، اپنی ماں کی قسم کھاؤ
مگر
نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں
“جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے شرک کیا“
(رواہ ابو داود)

لوگ کہتے ہیں
آخر اللہ کو ہماری یاد آہی گئی
مگر
اللہ فرماتا ہے
َمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيّاً
تمہارا پروردگار بھولنے والا نہیں
[مريم : 64]
لوگ کہتے ہیں
ایسا کیوں یا رب ۔۔۔ اتنا ظلم کیوں یا رب ۔۔۔ اتنی سختی کیوں یا رب؟؟
مگر
اللہ فرماتا ہے
لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ
اللہ جو کام کرتا ہے اس کے لیے وہ کسی کے آگے جواب دہ نہیں
اس کی باز پرس نہیں کی جائے گی
[الأنبياء : 23]
لوگ کہتے ہیں
پریشانیوں اور مصیبتوں نے عمر ہی گھٹا دی
*
مگر
اللہ فرماتا ہے
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاء أَجَلُهُمْ لاَ يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلاَ يَسْتَقْدِمُونَ
اور ہر ایک گروہ کے لیے (موت کا) ایک وقت مقرر ہے۔
جب وہ آ جائے تو نہ تو ایک گھڑی دیر ہو سکتی ہے نہ جلدی
[الأعراف : 34]
لوگ کہتے ہیں
آج کا دن بڑا منحوس تھا ، یہ دن میرے لیے بڑا برا دن تھا ، زمانہ بڑا غدار ہے
مگر
اللہ فرماتا ہے
حدیث القدسی
ابن آدم مجھے اذیت دیتا ہے
وہ زمانے (وقت) کو گالی دیتا ہے جب کہ زمانہ “میں “ ہوں
ہر حکم میرے ہاتھ میں ہے
اور میں ہی دن رات کو پلٹاتا ہوں
(متفق علیہ )
لوگ کہتے ہیں
مال جمع کرو یہ تمھارے لیے بہتر ہے
مگر
اللہ فرماتا ہے
َأَنفِقُوا خَيْراً لِّأَنفُسِكُمْ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
(اللہ کی راہ میں) خرچ کرو (یہ) تمہارے حق میں بہتر ہے۔
اور جو نفس کی حرص سے بچا لئے گئے تو وہی ہدایت پانے والے ہیں
[التغابن : 16]
لوگ کہتے ہیں
تعویذ پہن لو پریشانیوں سے بچ جاؤ گے ، کامیاب ہو جاؤ گے
مگر
نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں
اگر تو اسے پہننے ہوئے مر جائے تو کبھی کامیاب نہیں ہوگے
(کبھی جنت میں داخل نہیں ہوگے )
(رواہ احمد وابن حبان)
لوگ کہتے ہیں
اولیاء کی قبروں پر تعظیم کے لیے انہیں سجدہ کرنا اور ان سے دعائیں کرنا جائز ہے
مگر
نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں
تم سے پہلے کی قوميں اپنے انبياء کي قبروں کو مساجد بنالیتی تھيں ،
خبردار قبروں کو سجدہ گاہ نا بنانا
ميں تمھيں اس چيز سے روک رہا ہوں
(مشکوۃ)
لوگ کہتے ہیں
قبر والوں کو پکارو وہ تمھاری پکار سنتے ہیں
مگر
اللہ فرماتا ہے
جسے تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمھارے جیسے بندے ہی ہیں
اور جن کو یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ ان کا کوئی جواب نہیں دے سکتے
(الاعراف 194)(الرعد 14)
....................

۱۔سورہ انعام، آیت ۱۱۶۔
۲۔ سورہ انعام، آیت۱۱۹۔
۳۔ سورہ یونس، آیت ۳۶۔
۴۔ سورہ مومنون، آیت ۷۰ و ۷۱
۵۔ سورہ شعراء، آیت ۸۔
۶۔ سورہ سباٴ، آیت ۱۳۔
۷۔ سورہ یوسف، آیت ۱۰۳۔
۸۔ سورہ انعام، آیت ۱۱۶۔
۹۔علی اصغر رضوانی، امام شناسی و پاسخ بہ شبہات(۱)، ص ۸۷۔

No comments:

Post a Comment