لائے ہیں دل کے داغ نمایاں کئے ہوئے
--------------------------------------------------
--------------------------------------------------
جس طرح نبوت ورسالت کسبی نہیں کہ جو چاہے اپنی ریاضت ومحنت سے حاصل کرلے، ٹھیک اسی طرح اس کے علوم بھی خالص عطیہ خداوندی اور موہبت ربانی ہیں۔ خدا تعالی نے علوم نبوت کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے:
"وعَلّمناهُ مِن لَّدُنّا عِلمًا"
ان علوم کے حاملین کا انتخاب بھی من جانب اللہ ہوتا ہے۔
مَن يُرِدِ ﷲُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّيْنِ وَاِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللہُ یُعْطِیْ (مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ)
’’اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں اس کو دین کی سمجھ عطا فرمادیتے ہیں، میں تو (علم) تقسیم کرنے والاہوں اوراللہ تعالیٰ ہی دینے والے ہیں۔‘‘
اس حدیث پاک سے معلوم ہواکہ دین کاعلم وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کرناچاہتے ہیں، اورجوعلم دین حاصل نہیں کرتے، وہ اللہ کی طرف سے بھلائی اور رحمت سے محروم رہتے ہیں۔ حدیث پاک کے دوسرے جزو
اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللہُ یُعْطِیْ
کا مفہوم یہ ہے کہ علمِ دین کی تقسیم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہوئی؛ لیکن یہ ہے عطیۂ ربّانی۔ اللہ جس کے ساتھ دین ودنیا کی بھلائی کا ارادہ کرلیتا ہے اسی کو اس علم کے اکتساب کے لئے قبول کرتا ہے یعنی قرآن وحدیث کے علوم کی تحصیل کے لئے جن کا انتخاب ہوجائے وہ قسمت کے دھنی اور بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں۔ ہر کہ ومہ کے لئے اس کا انتخاب نہیں ہوتا:
إِذَا أَرَادَ اﷲُ بِعَبْدٍ خَيْرًا، فَقَّهَهُ فِي الدِّيْنِ وَأَلْهَمَهُ رُشْدَهُ.رَوَاهُ الْبَزَّارُ 1700.
اس علم کی عظمت ورفعت شان کا تقاضہ ہے کہ اسے ہر چیز سے “ماوراء “ ہوکے حاصل کیا جائے؛ کیونکہ بغیر قلبی جمعیت اور ذہنی یکسوئی کے اس علم کی تحصیل تقریبًا ناممکن ہے۔ ذہنی انتشار اور ماورائے علم سے روابط و تعلقات محرومی کا باعث بنتی ہیں۔ ہمہ تن مصروفِ عمل ہوئے بغیر مقصد میں درک وکمال کا حصول مشکل ہے:
لايُعْطِيكَ عِلْمٌ بَعضَهٗ حَتّٰى تُعْطِيَهٗ كُلَّكَ.
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے دور طالب علمی میں بیعت کی درخواست کی تھی جسے حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے رد فرماتے ہوئے ختم کتب وفراغت پہ موقوف فرمادیا۔ امام مسلم رحمہ اللہ ایک حدیث کی تلاش وجستجو میں کھجور کا پورا ٹوکڑا کھاگئے اور عشق مقصد میں انہماک نے احساس تک نہ ہونے دیا اور پھر یہی "کمال جستجو" موت کا سبب بھی بنا۔ علامہ عبدالحی فرنگی محلی رحمۃ اللہ علیہ دوران مطالعہ انڈی کا تیل پی گئے اور پتہ تک نہ چلا۔ شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ دور طالب علمی میں گھر سے آئے ہوئے خطوط کو ایک گھڑے میں جمع کرتے رہے اور کبھی چند سطری خط پڑھنے تک کی زحمت نہ فرمائی۔ مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ دیوبند کے رہائشی ہونے کے باوجود دیوبند کی سڑکوں تک سے مکمل واقف نہ تھے۔ "احاطہ مولسری" اور "آستانہ شیخ الہند" کے سوا ساری چیزوں سے بیگانہ تھے۔ ہمارے اکابر علماء دین واسلاف کرام اسی امتیازی شان کے ساتھ علوم نبویہ کی تحصیل میں لگے اور پھر ان حضرات کی شکل میں ایسے محقق، محدث، مفسر، متکلم، قاضی، مفتی اور مصنف ومؤلف، امت کو ملے جن کی فکر آفاقی، نگاہ افلاکی اورپرواز لولاکی تھی۔ علوم ومعرفت کے بحر ناپیدا کنار، غور وتدبر، استنباط واستخراج کی صلاحیتوں سے مالا مال۔ عشق مقصد میں کمالِ جنون کا یہ عالم کہ "پانے کا خمار ہو نہ کھونے کا آزار" شوق کمال نہ خوف زوال۔
وہ ایسے تھے جن کی جوتیوں میں سلاطین ونواب وقت "گنج گرانمایہ" نچھاور کردینے کو فخر سمجھیں۔جن کی تحقیق وتدقیق اور تلاش وجستجو ایسی کہ "قطرے میں دجلہ اور ذرے میں صحراء" کا گمان ہوچلے۔ پَر شومیِ قسمت اور حالات کی ستم ظریفی کہ اب سوز عشق اور جستجوئے پیہم سے عاری طلبہ کی بعض ایسی ٹیم (افراد کی بات ہے۔ کلیات کی نہیں) "ارزاں وفراواں" نظر آتی ہے جو علم وتحقیق کو "حرز جاں" اور "ورد زبان" بنانے کی بجائے حدیث وفقہ پڑھنے والی تپائیوں کے اوٹ میں ہی فیس بک، ٹوئیٹر، وہاٹس ایپ اور دیگر سماجی روابط کی سائٹس کے پیچھے "مثل شمع" پگھل رہے ہیں۔ درسیات میں پختگی، خوب سے "خوب تر کی تلاش" صلاحیت ولیاقت میں استحکام اور مطالعہ وکتب بینی میں شب گزاری کی جگہ فیس بک پہ تبصرے، ٹوئیٹر پہ چٹ پٹے اور چٹخارے ٹوئٹ اور ٹرینڈ چلانے پہ ساری توانائیاں صرف ہورہی ہیں۔۔اپنے درجہ میں امتیازی نمبر اور مقام حاصل کرنے کی جستجو کی بجائے سوشلستان میں تعارف اور تشہیر کا خطرناک رجحان پنپ رہا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اب بعض اوقات "بونے اور کوتاہ قامت" ایسے فضلاء سے ملاقات ہوجاتی ہے جو فراغت کے بعد "روشن خیالی" کا سارا نزلہ اچانک "ڈاڑھی اور ٹوپی" ہی پہ اتارڈالتے ہیں! اسمارٹ موبائل کے پرستار طلبہ دین میں سوشلستان کی سیر (سیر جہاں) کا جنون، کافی تشویشناک بلکہ انتہائی خطرناک ہے۔ ضرورت کو ضرورت کے دائرے میں رکھتے ہوئے استفادہ کی راہ تلاش کی جانی چاہئے۔ طلبہ جن علمائے دیوبند سے انتساب کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں۔ انہوں نے دور طالب علمی میں "بیعت" تک سے منع کردیا۔ انہی کے نام لیوا آج فیس بک اور ٹوئیٹر پہ ہمہ وقت متحرک وفعال رہ کے علمی کمال کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟ کیا اس صورت حال میں کبھی "اوجز"اعلاء السنن" بذل المجہود جیسا کارنامہ انجام پاسکتا ہے؟؟ ہر کام کے لئے آدمی ہے۔ اور ہر آدمی کے لئے کام ہے۔ خدارا اس تقسیم کو سمجھتے ہوئے اپنا قبلہ درست کیجئے! وہاٹس ایپ، ٹیلی گرام وغیرہ ایسے پلیٹ فارم ہیں جن میں شخصیات کی کماحقہ شناخت ہوتی نہیں ہے؛ اس لئے ان سماجی روابط کی سائٹوں کے دبیز پردے کے پیچھے، خود ساختہ مفکروں، محققوں ،زعماء و مصلحین کی بہار آئی ہوئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل مادر علمی کی طرف سے ملٹی میڈیا موبائل پہ پابندی عائد کی گئی تھی۔ یہ فیصلہ بڑا ہی خوش آئند اور دور رس نتائج کا حامل اقدام تھا۔ اسی طرح دارالعلوم کے طلبہ کی بیرون احاطہ ہاسٹلوں میں رہائش وقیام پر بھی سخت پابندی عائد کرنے کی ضرورت ہے، بیرون کی رہائش، شہری طلبہ سے آزادانہ میل جول سارے فتنوں اور تخریبی سرگرمیوں کی بنیاد ہے۔ اس پر بھی قدغن لگانے کی سخت ضرورت ہے۔ ارباب مدارس کو اس جانب گہرے غور وفکر اور اس نئے فتنہ کے تدارک اور سد باب کی جانب موثر لائحہ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
واللہ اعلم
https://saagartimes.blogspot.com/2025/01/blog-post_13.html
No comments:
Post a Comment