Wednesday, 1 January 2025

سینئر صحافی شبیر شاد صاحب کا انتقال

سینئر صحافی شبیر شاد صاحب کا انتقال
سینئر صحافی شبیر شاد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے۔ انا لله و انا اليه راجعون۔ صحافتی حلقوں میں سخت صدمہ ہے۔ شبّیر شاد صاحب کا اس دنیا سے رخصت ہونا اردو صحافت کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اللہ سبحانہ تعالی متعلقین کو صبرجمیل عطا فرمائے اور مرحوم کی مغفرت فرمائے۔ نمازجنازہ بعد نماز عشاء جامع مسجد کلاں سہارنپور اور تدفین قبرستان حضرت قطب شیر، انبالہ روڑ میں ہوئی، سہارنپور کے مشہور تاجر اور مخیر، سابق ممبر پارلیمنٹ حاجی فضل الرحمان قریشی کے قریبی عزیز، روزنامہ انقلاب کے مشہور نمائندے اور بہترین صحافی شبیر شاد صاحب کا انتقال حرکت قلب بند ہوجانے کے باعث ہوا۔ مرحوم تقریبا 65 سال کے تھے۔ شبیر شاد صاحب سے میرا تعارف تو زمانہ طالب علمی سے ہی ہوگیا تھا۔ وہ سہارنپور کے بااثر، معتبر اور بڑے سنجیدہ صحافی تھے۔ ان کی پوری زندگی صحافت میں ہی گزری۔ سہارنپور کے مضافات میں میرے بعض سفر بھی مرحوم کے ساتھ ہوئے۔ وہ سلجھے ہوئے انسان تھے۔ سلجھی ہوئی گفتگو کرتے تھے۔ ایک زمانہ سے وہ روزنامہ انقلاب کے سہارنپور میں نمائندے تھے۔ ان کی خبریں بالکل نپی تلی ہوتی تھیں۔ وہ  لکھتے، مکمل لکھتے تھے۔ جوانی کے دنوں میں ان کے مضامین اور انٹرویو بہت پسند کئے جاتے تھے۔ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ آپ اردو کے بہترین شاعر تھے آپ نے دوران سفر اپنے بہت سے اشعار مجھے سنائے اور ان اشعار سے ان کی ادبیت اور شعریت کا پایہ بلند محسوس ہوا۔ انھوں نے مظاہرعلوم وقف سہارنپور کی ڈیڑھ سو سالہ عظیم خدمات پر اپنے روزنامہ انقلاب کا ایک خوبصورت معیاری نمبر بھی شائع کروایا۔ یہ خصوصی شمارہ 'انقلاب' کے تمام ایڈیشنوں پر مشتمل تھا۔ ادھر چند سال سے ملاقات کا سلسلہ کافی کم ہوگیا تھا۔ ایک دن انھوں نے مجھے فون کیا کہ میں مکہ مکرمہ میں ہوں، حج کے لئے آیا ہوا ہوں۔ ابھی مکہ میں ہی ہوں۔ میں نے کہا کہ حج کا وقت تو بہت پہلے ختم ہوچکا ہے۔ اب آپ وہاں کس لئے رکے ہوئے ہیں۔ انھوں نے بتلایا کہ میری بیٹی اور میرا داماد یہیں ہیں۔ اور بڑی خوشی کے لہجہ میں بتلایا کہ میرا داماد ماشآءاللہ یہاں ایک بڑے اسپتال میں بطور ڈاکٹر کام کرتا ہے۔ اسے حکومت کی طرف سے رہائش اور دیگر مراعات ملی ہوئی ہیں۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ افسوس کہ آج حاجی فضل الرحمان قریشی کی ایک تحریر سے انتقال کی خبر کلفت اثر پڑھنے کو ملی۔ میں مرحوم کے اہل خانہ اور حاجی فضل الرحمان قریشی سے اظہار تعزیت کرتا ہوں اور ان کے غم میں برابر کا شریک ہوں۔ قارئین کرام سے بھی دعاء مغفرت کی درخواست ہے۔ (ناصرالدین مظاہری) 
------------
(آہ شبیرشاد)
ندیم جہاں شبیرشاد آن واحد میں داغ مفارقت دے گئے، 'غم واندوہ کی وہ کیفیت کہ ہرلفظ اور بیانیہ خوں روتا ہے۔ شبیر شادؔ، سہارنپور کے اردو ادب اور صحافت کی دنیا کا ایک ایسا نام ہے جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ نہ صرف ایک ممتاز صحافی تھے بلکہ ایک قادرالکلام شاعر بھی تھے۔ ان کی شخصیت سہارنپورکی مشترکہ تہذیب اور سماجی ہم آہنگی کی جیتی جاگتی مثال تھی، شبیر شادبزم دوستاں روح و آبرو تھے۔ سہارنپور کی دبستان اردو انکے دم سے شاداب تھی۔
شبیر شادؔ کا تعلق سہارنپور کے ایک معززومعروف خاندان سے تھا۔ ان کی تربیت ایسے ماحول میں ہوئی جہاں انسانی تہذیب اور رواداری کی قدریں مقدم تھیں۔ ان کے والد حاجی مقبول رحمتہ اللہ علیہ مشہور مجاہد آزادی اور شہر کے متمول انسان تھے'شبیر شاد نے نوجوانی سے اردو زبان سے محبت کی اور اسے اپنی زندگی کا مقصد بنایا۔ حالیہ شہر سہارنپور کے بام ودر پر دوست پروری اور اردو تہذیب کے نقش و نگار میں شبیر شاد کی مساعی جمیلہ نہایت ممتاز اور واضح ہے۔
شبیر شادؔ نے اردو صحافت کے میدان میں جو خدمات انجام دیں، وہ بے مثال ہیں۔ انہوں نے کئی دہائیوں تک مختلف اردو اخبارات و رسائل میں بطور نمائندہ اور کالم نگار کام کیا۔ ان کے مضامین اور تجزیے گہری بصیرت، غیرجانبداری اور تحقیق پر مبنی ہوتے تھے۔ وہ اپنی تحریروں کے ذریعے سماجی مسائل کو اجاگر کرتے اور حل کے لئے تعمیری مشورے دیتے۔ ان کی صحافت نے سہارنپور میں اردو زبان کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا۔
شبیر شادؔ ایک عمدہ شاعر تھے جن کی شاعری دلوں کو چھولینے والی ہوتی تھی۔ ان کی غزلوں اور نظموں میں محبت، انسان دوستی اور مشترکہ تہذیب کی جھلک نمایاں تھی۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے مابین ہم آہنگی کا پیغام دیا۔ ان کا کلام سہل ممتنع کی بہترین مثال ہے، جہاں الفاظ آسان لیکن معانی گہرے ہوتے ہیں۔
شبیر شادؔ اپنی زندگی بھر ہندستان کی مشترکہ تہذیب کے نمائندہ رہے۔ وہ مختلف مذاہب اور برادریوں کے درمیان اتحاد اور بھائی چارے کے زبردست حامی تھے۔ ان کی شخصیت اور کام نے ہمیشہ لوگوں کو یہ پیغام دیا کہ محبت اور رواداری ہی کسی بھی معاشرے کی ترقی کی بنیاد ہے۔شنیرکے حلقہ یاراں میں ہر مذہب و مشرب کی نمائدگی موجود ہے۔ شبیر حد درجہ شگفتہ مزاج' باغ و بہار' بزلہ سنج اور حاضر جواب تھے. ان کے متین وجود میں ایک شریر بچہ ہمیشہ زندہ رہا. تاہم گفتگو میں انسانی جذبات کے احترام کے قائل تھے۔
شبیر شادؔ کی وفات سے سہارنپور اورصحافت و اردو ادب کو ایک ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے، لیکن ان کی تحریریں، شاعری اور افکار ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ وہ نئی نسل کے لئے ایک مشعلِ راہ ہیں، جو اردو زبان اور مشترکہ تہذیب کے فروغ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
شبیر شادؔ کا نام اردو ادب اور صحافت کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ ان کی شخصیت اور خدمات نے یہ ثابت کردیا کہ ایک فرد اپنی صلاحیتوں اور عزم کے ذریعے معاشرے پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے۔ ان کی یاد ہمیشہ دلوں میں زندہ رہے گی۔ ان کا اس دنیا سے اچانک چلے جانا زمانے بھر کے ساتھ ساتھ میرا ذاتی ناقابل تلافی خسارہ بھی ہے۔
خوشبو دیار لالہ وگل سے خفانہ ہو۔۔۔۔۔
یارب کسی کا دوست کسی سے خفانہ ہو۔ 
(غم زدہ: اشرف عثمانی دیوبندی)( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/01/blog-post.html

No comments:

Post a Comment