سردی کے موسم میں آغوشِ زوجہ سے جسمانی گرماہٹ حاصل کرنے کی شرعی حیثیت
النساء نعمةُ الشتاء
كان السلف الصالح يغالبون زمهرير شتائهم بالارتماء في أحضان نسائهم، ولا سيّما أن الله سبحانه خص المرأة العربية ذات الجاذبية بطبقة دهنية تساعدها على تدفئة الرضيع والضجيع، وهذا من رحمته بنا، ومن فضله عليها.
وجاء في مصنف ابن أبي شيبة أن الفاروق عمر رضي الله عنه رغمَ شِدّةِ اقتدارِه، وقُوّةِ اصطبارِه، كان يستدفئ بامرأته إذا قسا عليه الشتاء، أو اغتسل بالماء.
ورُوِيَ مِثلُ هذا عن ابنه عبدالله رضي الله عنه الذي تعلّم من أبيه الاستدفاء بالزوجة الريانة الملآنة الدفآنة إذا الصوفُ ما أغنَى، ولم يَعُدْ للنار معنى.
وحَكَتْ أمُّ الدرداء عن أبي الدرداء رضي الله عنهما أنه إذا اشتد عليه الزمهرير استدفأ بحضنِها الشريف، وعاش أجواءَ المَصِيف.
وكان هذا النوع من الاستدفاء الطبيعي معروفاً لدى العرب، وخاصة لدي قريش، وقال ابن عباس رضي الله عنه في تأكيد ما سبق: ذاك عيشُ قريش في الشتاء.
ولذا كان الصالحون والنابهون والفاتحون يحرصون على الزواج من العَبْلَةِ الغَضَّة، والقُطْنَةِ البَضَّة، ويَزْهَدُون في الجَرَادَة، وعُودِ المَزَادَة، والله أعلم.
رضي الله عنهم وأرضاهم.. عَلَّمُونا حتى الاستدفاء في الشتاء أسأل الله أن يُدْفِئَ عظامَهم الراقدة في الليالي الباردة۔ —
عورتیں سردیوں کی نعمت ہیں
سلف صالحین سخت سردیوں میں اپنی بیویوں کی آغوش میں پناہ لیتے تھے، خاص طور پر کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عرب عورت کو ایک مخصوص چکنائی والی تہہ عطا کی ہے جو اسے بچے اور شوہر کو گرم رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ اللہ کی ہم پر رحمت اور اس پر اس کا فضل ہے۔ مصنف ابن ابی شیبہ میں آیا ہے کہ خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ، اپنی طاقت اور صبر کے باوجود، سردیوں کی سختی یا غسل کے بعد اپنی بیوی کے ساتھ گرماہٹ حاصل کرتے تھے۔ اسی طرح ان کے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہی روایت ملتی ہے کہ جب اون کے کپڑے کافی نہ رہتے اور آگ سے بھی گرمی نہ ملتی، تو وہ اپنی بیوی کے نرم و ملائم جسم کے ذریعے سردی کا مقابلہ کرتے تھے۔ ام درداء رضی اللہ عنہا نے بھی روایت کیا ہے کہ ابو درداء رضی اللہ عنہ سخت سردی میں ان کی آغوش میں گرمی محسوس کرتے اور گرمیوں کا سا سکون پاتے تھے۔ یہ قدرتی گرماہٹ کا طریقہ عربوں، خاص طور پر قریش میں عام تھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا: یہ قریش کا سردیوں میں گزر بسر کا طریقہ تھا۔ اسی لیے صالحین، اہلِ دانش اور فاتحین عموماً نرم و ملائم اور خوش جسم بیوی سے شادی کو ترجیح دیتے تھے اور دبلی پتلی اور سخت مزاج عورت سے اجتناب کرتے تھے۔ اللہ ان سب سے راضی ہو اور ان کی قبروں کو ان سرد راتوں میں گرم رکھے۔ آمین
سوشل میڈیا پہ ان دنوں یہ عربی تحریر وائرل ہے
مركز البحوث الإسلامية العالمي کے بانی اور حلقہ کے دیگر بالغ نظر اور ممتاز اصحاب علم وفکر نے اس پہ مختلف زاویئے سے غور فرمایا اور اپنے اپنے طرز پہ اس کی تشریح وتوضیح کی۔ بانی حلقہ مفتی شکیل منصور القاسمی نے زیرگردش اس عربی مضمون پہ اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا:
"عورتیں خدا کی نعمت ہیں، ان کی جسمانی ساخت بھی شوہروں اور بچوں کے لئے جسمانی راحت وآرام کا ذریعہ ہے، ان میں خلاق اکبر نے متضاد صفات رکھی ہیں، جس طرح وہ سردیوں میں گرماہٹ کا کام کرتی ہیں ویسے ہی گرمیوں کے موسم میں ٹھنڈک پہنچانے کا کام بھی بفضلہ تعالیٰ انجام دیتی ہیں، موجودہ موسم سرما (جنوری) کے تناظر میں زیرنظر تحریر تو مناسب ہے ؛واگرنہ یہ سِکّے کا صرف ایک رخ ہے، دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ عورتیں "نعمة الصيف" بھی ہیں، اسلاف امت سے موسم سرما میں اگر استدفاء منقول ہے تو موسم گرما میں استبراد بالزوجہ بھی منقول ہے، ممکن ہے کوئی دل جلا بندہ موسم گرما میں اس پہلو کو بھی اجاگر کردے
صبر آزما انتظار سے خلاصی کے پیش نظر جب تک کے لئے صرف ایک روایت (اسنادی حیثیت پہ بحث سے قطع نظر) کا تذکرہ مناسب سمجھتا ہوں:
قَالَ عَبْدُاللَّهِ بن مَسْعُودٍ: "إِنِّي لأَسْتَدْفِئُ بِهَا فِي الشِّتَاءِ، وَأَتَبَرَّدُ بِهَا فِي الصَّيْفِ" المعجم الكبير 9194–حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"بے شک میں سردیوں میں اپنی بیوی کے ذریعے گرماہٹ حاصل کرتا ہوں اور گرمیوں میں اس کے ذریعے ٹھنڈک حاصل کرتا ہوں۔")
سردی وگرمی میں بیویوں سے قربت، ازدواجی تعلقات، ان کی آغوش سے جسمانی گرماہٹ وبرودت کے حصول سے صَرفِ نظر ، مذکورہ عربی مضمون میں درج احادیث بندہ عاجز کی رائے میں ایک خصوصی سیاق رکھتی ہیں، وہ یہ کہ زوج غسل جنابت سے فارغ ہوکر (زوجہ کے اغتسال جنابت سے پہلے) پھر بغل گیر ہوکر قدرے استدفاء کرسکتا ہے، یعنی ان احادیث میں جنبیہ بیوی سے اختلاط وملاصقہ کی گنجائش کو بتانا مقصود ہے کہ یہ اختلاط اس کے اغتسال ثانی کا موجب نہیں ہے، اس نوع کی روایات سردیوں میں ازدواجی تعلقات کی اہمیت کو ایک ثقافتی اور تاریخی پس منظر میں بیان کرتی ہیں، اس حوالے سے بعض سلف صالحین کے طرزِعمل کا ذکر بھی موجود ہے؛ لیکن اس کی حیثیت صرف ثقافتی ہے؛ شرعی نہیں! اس کا مطلب یہ نہیں کہ سردیوں میں شب وروز بس ہیٹر سمجھ کر چمٹا بیٹھا رہے۔ عربی تحریر کے عنوان سے کچھ یہی تاثر ابھرتا ہے۔
فقط واللہ اعلم
————————————-
مفتی توصیف صاحب قاسمی اس پہ اظہار خیال فرماتے ہوئے لکھتے ہیں: "مفتی صاحب اچھا ہوا آپ نے صراحت کردی؛ ورنہ ہندوستانی پس منظر میں اتنا سا استدفاء بھی موجب غسل ہی ہے، پھر بھلا غسل کے بعد یہاں استدفاء تو کجا ، بلکہ فرار ہی ہوتا ہے." محمد توصیف قاسمی
—————————
مفتی فہیم الدین صاحب قاسمی بجنوری مدظلہ کی رائے یہ ہے:
"نا چیز کی ذاتی دریافت یہ ہے کہ گھر میں بیوی سے فاصلہ رکھنا چاہیے، بستر جدا ہوں، اہلیہ بچوں کے ساتھ سوئے اور آپ دوسرے روم میں تنہا پڑے رہیں، جوانی کا ایک نیا تجربہ کریں گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تفصیل زنا سے متعلق بیان کی ہے کہ ہر عضو حصے دار ہے، دیکھنا چشم کا زنا ہے، لمس ہاتھ کا زنا ہے، الی آخرہ پھر شرم گاہ بتائے گی کہ دیکھنا اور چھونا کس نوعیت کا تھا اور دونوں کی نیت پاک تھی یا آلودہ۔ یہ تفصیل حلال تعلق پر بھی منطبق ہے، جب ہم بیوی کے ساتھ چپکے رہتے ہیں تو جنسی عمل جاری رہتا ہے، چھونا، دیکھنا، بات کرنا؛ یہ سب جماع کی صورتیں ہیں، اس جاری پروسس کے نتیجے میں ہمارے جنسی بخارات خارج یا بہتر تعبیر میں ضائع ہوتے رہتے ہیں، جنسی دباؤ کم ہوتا رہتا ہے، یہ ناقص آسودگی عروج وشباب کی کیفیت کو نقصان پہنچاتی ہے اور کئی کئی روز جنسی عمل کی نوبت نہیں آتی۔ ہماری برادری کا ایک بڑا تناسب جمعراتی ہے، ان کی جمعراتی سرخ روئی کا راز ہفتہ بھر کی دوری ہے، جمعرات ہر دو نوع کے مدرسین پر آتی ہے؛ مگر غیر مقیم مدرس جمعرات کی سائیکل طوفانی رفتار سے مارتا ہے؛ جب کہ مقیم مدرس جمعرات کا چھٹا گھنٹہ پڑھا کر بھی خراماں خراماں ہی لوٹتا ہے، اسے کوئی جوش محسوس نہیں ہوتا، اس فرق کی وجہ وہی ہے کہ اول الذکر کا جنسی پروسس موقوف تھا؛ جب کہ ثانی الذکر جنسی عمل کی ناقص صورتوں کو برابر انجوائے کررہا تھا، فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ جنس کی قاتل لہر کو انجوائے کیا جائے، یا تدریجی بہاؤ کو، راقم نے طویل تفکیر کے بعد پر امن صورت کو ترجیح دی ہے اور بستر جدا نہیں کیا۔" (فہیم الدین بجنوری)
—————————-
ڈاکٹر عزیر عالم دستگیر ممبئی کا اس ضمن میں استفسار یہ تھا: "اکابر کے تعامل اور طب، دونوں جگہ یہ بات نہیں ملی جو آپ نے لکھی. ہاں یہ ضرور پڑھا کہ "بستر الگ کرنا" بطور سزا و تنبیہ کے بتایا گیا ہے. پھر یہ مستحسن عادت کیسے ہوسکتی ہے. باقی جاننے والے زیادہ صحیح بتائیں گے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ: "میں نے کبھی طبیعت کو عقل پر اور عقل کو شریعت پر غالب نہیں ہونے دیا." عزیر عالم دستگیر
———————-
بانی حلقہ مفتی شکیل منصور القاسمی نے زیربحث مسئلے کی تشریح وتو ضیح سے متعلق ایک تفصیلی جامع عربی مضمون مشترک فرمایا جو درج ذیل ہے:
(إتحاف النبلاء بما جاء في الاستدفاء بالنساء)
كتبه أسامة الفرجاني
الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على أشرف الأنبياء والمرسلين، نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين، وبعد:
فقد انتشرت الأيام الماضية رسالة فيها بعض الآثار عن السلف في (الاستدفاء بالنساء) وعزاها صاحبها إلى مصنف ابن أبي شيبة رحمه الله ، فرجعت إلى مصنف ابن أبي شيبة للوقوف على أسانيد هذه الآثار، ودرست هذه الأسانيد وخرجت بهذا البحث اليسير، وسأذكر فيه هذه الآثار كلها بأسانيدها، وأتبع كل أثر بحكمه ، ثم أختم هذا البحث بفقه هذه الآثار، أسأل الله التوفيق والسداد.
وقد بوب الإمام ابن أبي شيبة بابا سماه [في الرجل يستدفئ بامرأته بعد أن يغتسل]، وأورد تحته الآتي:
الحديث الأول:
قال ابن أبي شيبة: حدثنا وكيع، عن سفيان، عن بشير، عن إبراهيم التيمي أن عمر كان يستدفئ بامرأته بعد الغسل.
حكمه: ضعيف؛ للانقطاع بين (إبراهيم التيمي) و (عمر بن الخطاب) فإبراهيم ولد بعد وفاة عمر بنحو ثلاثين سنة.
الحديث الثاني:
قال ابن أبي شيبة: حدثنا وكيع، عن حماد بن سلمة ، عن عطاء الخراساني، عن أم الدرداء قالت: كان أبوالدرداء يغتسل ثم يجيء ،وله قرقفة يستدفئ به.
حكمه: ضعيف؛ لأجل (عطاء الخراساني) وهو: عطاء بن أبي مسلم.
قال شعبة: حدثنا عطاء الخراساني وكان نسيا.
وقال ابن حبان: كان رديء الحفظ يخطيء ولا يعلم.
ثم هو أيضا يدلس، ولم يصرح هنا بالسماع.
قال الحافظ في التقريب: صدوق يهم كثيرا، ويرسل ويدلس .اهـ
والقرقفة: ارتعاش واضطراب في الأسنان بسبب البرد.
الحديث الثالث:
قال ابن أبي شيبة: حدثنا حفص وكيع، عن مسعر، عن جبلة، عن ابن عمر قال: إني ﻷغتسل من الجنابة ثم أتكوى بالمرأة قبل أن تغتسل.
حكمه: صحيح، رجاله كلهم ثقات، (حفص بن غياث، ووكيع بن الجراح ، ومسعر بن كدام، وجبلة بن سحيم)
الحديث الرابع:
قال ابن أبي شيبة: حدثنا وكيع، عن إسرائيل، عن إبراهيم بن المهاجر، عن عبدالله بن شداد عن ابن عباس قال: ذاك عيش قريش في الشتاء.
حكمه: حسن، رجاله ثقات إلا إبراهيم بن مهاجر فمختلف فيه:
منهم من وثقه كابن سعد وابن شاهين والزهري.
ومنهم من ضعفه كابن معين وابن حبان والدارقطني.
ومنهم من توسط فقال (لا بأس به) كالثوري وأحمد والنسائي في رواية، وقال أبو داود: صالح الحديث.
ويرى الشيخ الألباني -رحمه الله - أن الأقرب هو قول من توسط ، فقد قال في [الصحيحة 317/2]: هو حسن الحديث إن شاء الله تعالى. اهـ
الحديث الخامس:
قال ابن أبي شيبة: حدثنا إسماعيل بن علية، عن حجاج بن أبي عثمان ،حدثنا يحيى بن أبي كثير، قال: حدثني أبو كثير: قال قلت ﻷبي هريرة: الرجل يغتسل من الجنابة ثم يضطجع مع أهله ؟ قال: لا بأس به.
حكمه: صحيح، رجاله كلهم ثقات، (إسماعيل بن علية، وحجاج بن أبي عثمان الصواف ويحيى بن أبي كثير، وأبو كثير السحيمي).
الحديث السادس:
قال ابن أبي شيبة: حدثنا أبوالأحوص، عن أبي إسحاق، عن عبدالرحمن بن الأسود، قال: كان الأسود يجنب فيغتسل، ثم يأتي أهله فيضاجعها يستدفئ بها قبل أن تغتسل.
حكمه: ضعيف، لعنعنة أبي إسحاق - وهو عمرو بن عبد الله السبيعي - فإنه مدلس ، ولم يصرح بالسماع.
الحديث السابع:
قال ابن أبي شيبة: حدثنا حفص، عن الأعمش، عن إبراهيم قال: كان علقمة يغتسل ثم يستدفئ بالمرأة وهي جنب.
حكمه: صحيح، رجاله ثقات، ولا تضر عنعنة الأعمش فإنها منه عن إبراهيم محمولة على الاتصال، كما قال الإمام الذهبي رحمه الله في (ميزان الاعتدال 224/2).
و (علقمة) هو ابن قيس النخعي، ثقة ثبت فقيه عابد ،من كبار التابعين.
الحديث الثامن:
قال ابن أبي شيبة: حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن إبراهيم، عن علقمة أنه كان يستدفئ بامرأته ثم يقوم فيتوضأ وضوءه للصلاة.
حكمه: صحيح على شرط الشيخين .
وعلقمة هو - كما مر - : ابن قيس النخعي .
الحديث التاسع:
قال ابن أبي شيبة: حدثنا أبو معاوية، عن حجاج، عن أبي إسحاق، عن الحارث، عن علي أنه كان يغتسل من الجنابة ،ثم يجيء فيستدفيء بامرأته قبل أن تغتسل، ثم يصلي ولا يمس ماء.
حكمه: ضعيف جدا، فالراوي عن علي: الحارث بن عبدالله الأعور مجمع على ضعفه كما قال النووي في الخلاصة.
كما أن أبا إسحاق (السبيعي) وحجاجا (ابن أرطأة) مدلسان ولم يصرحا بالسماع .
الحديث العاشر:
قال ابن أبي شيبة: حدثنا أبو خالد، عن حجاج، عن أبي إسحاق، عن الحارث، عن علي قال: إذا اغتسل الجنب ثم أراد أن يباشر امرأته فعل إن شاء.
حكمه: ضعيف جدا.
فيه ما في سابقه من العلل.
الحديث الحادي عشر:
قال ابن أبي شيبة : حدثنا أبو خالد الأحمر، عن شعبة، عن قتادة، عن سعيد بن المسيب قال: يباشرها وليس عليه وضوء.
حكمه: صحيح، وعنعنة قتادة هنا لا تضر، فإن الراوي عنه هو شعبة، وقد قال شعبة: كفيتكم تدليس ثلاثة، الأعمش وأبي إسحاق وقتادة [معرفة السنن للبيهقي 35/1]
وقال أبو عوانة في مستخرجه :حدثنا نصر بن مرزوق، حدثنا أسد بن موسى قال : سمعت شعبة يقول: كان همتي من الدنيا شفتي قتادة ، فإذا قال (سمعت) : كتبت ، وإذا قال (قال): تركت. اهـ
مع أن تدليس قتادة في الجملة قليل مغتفر كما قال العلامة الألباني- رحمه الله - في (الصحيحة 614/5): تدليس قتادة قليل مغتفر، ولذلك مشاه الشيخان، واحتجا به مطلقا كما أفاده الذهبي، وكأنه لذلك لم يترجمه الحافظ في التقريب بالتدليس، بل قال فيه (ثقة) .اهـ
الحديث الثاني عشر:
قال ابن أبي شيبة: حدثنا وكيع، عن مبارك، عن الحسن قال: لا بأس أن يستدفئ بامرأته بعد الغسل.
حكمه: ضعيف، فمبارك - وهو ابن فضالة - صدوق يدلس ويسوي كما قال الحافظ في التقريب، ولم يصرح هنا بالسماع .
الحديث الثالث عشر:
قال ابن أبي شيبة: حدثنا وكيع، عن مسعر، عن حماد: أنه كان يكرهه حتى يجف.
حكمه: صحيح، وحماد هو: ابن أبي سليمان الفقيه المعروف، وهو من صغار التابعين .
الحديث الرابع عشر:
قال ابن أبي شيبة: حدثنا شريك، عن حريث، عن الشعبي، عن مسروق، عن عائشة قالت: كان النبي - صلى الله عليه وسلم - يغتسل من الجنابة ثم يستدفئ بي قبل أن أغتسل.
حكمه: ضعيف ، فشريك وهو (ابن عبدالله النخعي) صدوق يخطيء كثيرا، قاله الحافظ في التقريب.
و (حريث) - وهو ابن أبي مطر الفزاري - ضعيف.
وقد أخرج ابن ماجه هذا الحديث في سننه من طريق المصنف.
وأخرجه الترمذي من طريق هناد عن وكيع عن حريث به.
وقد حكم عليه بالضعف العلامة الألباني رحمه الله ، كما في ضعيف الترمذي برقم 123، ابن ماجه برقم 128 .
وأما قول الإمام الترمذي رحمه الله (هذا حديث ليس بإسناده بأس) فمتعقب ،تعقبه العلامة عبدالمحسن العباد - حفظه الله - بقوله [بل فيه بأس] (شرح جامع الترمذي شريط 27)
فتلخص من هذا ثبوت:
1) قول ابن عمر: إني ﻷغتسل من الجنابة ثم أتكوى بالمرأة قبل أن تغتسل.
2) قول ابن عباس: ذاك عيش قريش في الشتاء .
3) قول أبي هريرة (لا بأس) لمن سأله عن (الرجل يغتسل من الجنابة ثم يضطجع مع أهله).
4) قول إبراهيم: كان علقمة يغتسل ثم يستدفئ بالمرأة وهي جنب.
5) قول سعيد بن المسيب [يباشرها وليس عليه وضوء].
6) وكراهية حماد لذلك حتى يجف.
فقه هذه الآثار:
1) أن بشرة الجنب طاهرة؛ ﻷن الاستدفاء إنما يحصل من مس البشرة البشرة [شرح مشكاة المصابيح للمباركفوري 307/2]
2) طهارة عرق المرأة الجنب، ولعابها وسؤرها، كالرجل الجنب، وكذا الحائض والجنب. [المصدر السابق].
3) أن الرجل إذا اغتسل فلا بأس أن يستدفئ بامرأته، قال الترمذي: [وهو قول غير واحد من أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين]
فاستدفاء الرجل بامرأته لا بأس به، لكن لا يقال (هو سنة !)،
يقول الشيخ العلامة عبد المحسن العباد حفظه الله : إذا حصل أن الرجل فعل هذا فليس هناك مانع يمنع منه، لكن لا يقال: إن ذلك سنة ثابتة عن النبي صلى الله عليه وسلم ؛ ﻷن الحديث بذلك ضعيفا. اهـ (شرح جامع الترمذي شريط 27)
وهنا أود التنبيه أن إيراد الأئمة المصنفين كابن أبي شيبة والترمذي وابن ماجه لهذه الأحاديث في كتاب الطهارة: يدلك على أن مرادهم بذلك (أن الجنب ليس نجسا)، ولو كان مرادهم بيان سنية الاستدفاء لأوردوا هذه الآثار في كتاب النكاح.
والمقصود أن الاستدفاء لا مانع منه، لعدم المانع الشرعي، وأكدت هذه الآثار هذا الجواز، والله أعلم.
وأجدها فرصة طيبة في هذا المقام ﻷذكر إخواني بمكانة مصنف ابن أبي شيبة ، وحسبك قول الحافظ ابن كثير رحمه الله في (البداية والنهاية 315/10): المصنف الذي لم يصنف أحد مثله قط، لا قبله ولا بعده! .اه
ـ
كما لا يفوتني أن أنبه أن دراستي السابقة هي لأسانيد ابن أبي شيبة خاصة ، فالأحكام السابقة هي على هذه الأسانيد، وأشكر في الختام الشيخ عليا الرملي على تفضله بمراجعة بحثي، والحمد لله رب العالمين.
(كتبه أخوكم: أسامة الفرجاني)
(عورتوں سے گرمی حاصل کرنے کے بارے میں آنے والی روایات سے متعلق شرفاء کو تحفہ علمی)
تحریر: اسامہ الفرجانی
تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں، اور درود و سلام ہو تمام انبیاء و مرسلین کے سردار، ہمارے نبی محمد ﷺ پر، اور ان کے اہل بیت اور صحابہ پر۔
گزشتہ دنوں ایک پیغام گردش کررہا تھا جس میں سلف صالحین کی چند روایات کا ذکر تھا کہ وہ عورتوں سے گرمی حاصل کرتے تھے۔ پیغام کے مصنف نے ان روایات کو مصنف ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب کیا تھا۔ میں نے ان روایات کی سندوں کو پرکھنے کے لیے مصنف ابن ابی شیبہ کی طرف رجوع کیا اور ان کی تحقیق کے بعد یہ مختصر مقالہ پیش کیا۔ اس میں تمام روایات کے حوالے، ان کے احکام اور ان کا فہم شامل ہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے اس کام میں اخلاص اور درستگی کی دعا کرتا ہوں۔
باب: مرد کا غسل کے بعد اپنی بیوی سے گرمی حاصل کرنا
ابن ابی شیبہ نے اس موضوع پر ایک باب باندھا اور اس میں درج ذیل روایات بیان کیں:
پہلی حدیث:
ابن ابی شیبہ نے کہا: ہمیں وکیع نے سفیان کے واسطے سے، انہوں نے بشیر سے، اور انہوں نے ابراہیم تیمی سے روایت کیا کہ:
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ غسل کے بعد اپنی بیوی سے گرمی حاصل کرتے تھے۔
حکم: یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ ابراہیم تیمی اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع (تسلسل کا فقدان) ہے۔ ابراہیم تیمی عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے تقریباً تیس سال بعد پیدا ہوئے۔
دوسری حدیث:
ابن ابی شیبہ نے کہا: ہمیں وکیع نے حماد بن سلمہ کے واسطے سے، انہوں نے عطا خراسانی سے، اور انہوں نے ام درداء رضی اللہ عنہا سے روایت کیا کہ:
ابو درداء رضی اللہ عنہ غسل کے بعد کپکپاہٹ محسوس کرتے اور اپنی بیوی کے پاس آکر گرمی حاصل کرتے۔
حکم: یہ روایت ضعیف ہے، کیونکہ عطا خراسانی کی حافظہ میں کمزوری تھی اور وہ تدلیس کرتے تھے۔
تیسری حدیث:
ابن ابی شیبہ نے کہا: ہمیں حفص اور وکیع نے مسعر کے واسطے سے، انہوں نے جبلہ سے، اور انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ:
میں غسل جنابت کے بعد اپنی بیوی سے گرمی حاصل کرتا ہوں۔
حکم: یہ روایت صحیح ہے۔ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
چوتھی حدیث:
ابن ابی شیبہ نے کہا: ہمیں وکیع نے اسرائیل کے واسطے سے، انہوں نے ابراہیم بن مہاجر سے، اور انہوں نے عبداللہ بن شداد کے واسطے سے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ: یہ قریش کی سردیوں کی زندگی ہے۔
حکم: یہ روایت حسن ہے۔ اس کے راوی قابل اعتماد ہیں، سوائے ابراہیم بن مہاجر کے جن کے بارے میں اختلاف ہے۔
دیگر احادیث کا خلاصہ:
مصنف ابن ابی شیبہ میں ایسی مزید روایات ہیں جن میں مردوں کے غسل کے بعد بیوی سے گرمی حاصل کرنے یا قربت کے مختلف حالات ذکر کیے گئے ہیں۔ ان میں بعض ضعیف ہیں، بعض حسن، اور چند صحیح درجے کی ہیں۔
فقہی نکات:
1. جنب کی جلد اور پسینہ پاک ہے: یہ روایات ثابت کرتی ہیں کہ جنب انسان کی جلد اور پسینہ ناپاک نہیں ہوتا۔
2. بیوی سے قربت جائز ہے: اگر کوئی شخص غسل کے بعد اپنی بیوی سے قربت اختیار کرے یا اس سے گرمی حاصل کرے تو اس میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے۔
3. یہ سنت نہیں، صرف جواز ہے: اگرچہ یہ عمل جائز ہے، لیکن اسے سنت کہنا درست نہیں کیونکہ نبی ﷺ سے اس کا ثبوت صحیح سند کے ساتھ نہیں ملتا۔
اختتامیہ:
یہ روایات ہمیں سلف صالحین کے عملی طرزِ زندگی کے کچھ پہلو دکھاتی ہیں۔ البتہ، ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ان میں سے بعض ضعیف ہیں اور ان پر کسی شرعی حکم کو قائم نہیں کیا جاسکتا۔
میں اس تحقیقی مقالے کی تصدیق اور جائزے پر شیخ علی الرملي کا شکرگزار ہوں۔
واللہ اعلم۔
————————-
جمع وترتیب: #ایس_اے_ساگر
https://saagartimes.blogspot.com/2025/01/blog-post_5.html
No comments:
Post a Comment