حضرت الاستاذ علامہ قمرالدین احمد صاحب گورکھپوری رحمہ اللہ: یادوں کے نقوش
(ولادت 2 فروری 1938ء – وفات 22 دسمبر 2024ء)
--------------------------------
شمشیر حیدر قاسمی
---------------------------------
گہوارۂ علم و فن مادر علمی دارالعلوم دیوبند کی نورانی فضا ہمیشہ سے بافیض علمی شخصیات سے منور رہی ہے، گرچہ نیرنگیِ زماں نے بارہا اس کاخِ فقیری سے ٹکرانا چاہا؛ مگر خود ہی پاش پاش ہوکر رہ گیا. کئی مرتبہ موجِ تند جولاں نے اس کی حسین زلفوں سے الجھ کر اس کی رونق اور خوب صورتی سے کھیلنا چاہا؛ مگر ناکام رہا، زمانۂ قیام سے اب تک اس کی رونقیں قائم ہیں، اور ان شآءاللہ یوں ہی قائم رہیں گیں، افراد آتے جاتے رہیں گے، یہ چمن یوں ہی آباد رہے گا، علم و معرفت کے اس فردوسِ بریں میں نوع بہ نوع کے گل و لالہ مسکراتے رہیں گے، نسرین و نسترن کی باہمی سرگوشیاں جاری رہیں گی، شبنمی قطرے حسین و جمیل پھولوں کے پنکھڑیوں پر موتی بن کر رقص کرتے رہیں گے، خلوص وللّٰہیت کے سانچے سے تیار شدہ نظام اپنے اصول و دستور کے مطابق چلتا رہے گا. (ان شآءاللہ)
تاہم وہ شخصیتیں جن کے دم سے اس گلشن علمی کی شادابی قائم رہی. جن کے فیوض و برکات نے یہاں کے ذروں کو تابانی بخشنے میں اہم کردار ادا کیا، ان کے چلے جانے پر باوجودیکہ کاروبارِ گلشن اپنے نظام کے مطابق چلتا رہا؛ مگر نگاہ اہل بصیرت کو یہاں کی کلیوں کی مسکراہٹوں اور بلبلوں کی رقصوں میں غیر معمولی اداسی محسوس ہوئی، اور بھلے ہی بلا توقف مسند تدریس کی وہ رونقیں لوٹ آتی ہوں؛ مگر ان جانے والوں کی حسین یادوں کے چراغ سے خانۂ دل ہمیشہ روشنی حاصل کرتا رہا ہے، استاذ محترم حضرت العلامہ قمرالدین احمد قدس سرہ کی وفات حسرت آیات پر اداسی کا یہ احساس یقیناً بہت گہرا ہے، ان کی پاکیزہ یادیں اور بصیرت افروز باتیں ہم تشنگانِ علوم اور عقیدتمندوں کے دلوں کو ہمیشہ عشق الٰہی کی گرمی سے سرشار کرتی رہیں گی۔ علامہ قمرالدین احمد گورکھپوری قدس سرہ پاکیزہ صفات کے حامل روشن دل عالم دین، باکمال مشفق استاذ، نہایت مخلص مربی، سنت نبوی کے شیدا شیخِ طریقت اور باہمت وبا حوصلہ دور اندیش وکامیاب منتظم تھے. حضرت کے زمانۂ نظامتِ تعلیمات (1994-1995ء) میں ہم دارالعلوم کے مدرسہ ثانویہ (دارالشفاء کی عمارت) میں پڑھتے تھے. درسگاہ ثانویہ کی پر شکوہ عمارت کا افتتاح ہمارے چہارم عربی کے سال بہ تلاوت فدائے ملت حضرت مولانا سید محمد اسعد مدنی قدس سرہ ہوا۔ کئی مواقع ایسے آئے کہ براہ راست حضرت علامہ کی خدمت میں دفترِ تعلمیات درخواست لیکر جانا ہوا. حضرت نے نہایت ہی سنجیدگی سے ہماری درخواست کو پڑھا، اور مسئلہ حل فرمادیا، طلبہ کی تربیت پر بہت گہری نظر رکھتے تھے. نہ صرف درسگاہ بل کہ بیرون درسگاہ بھی طلبہ کی نقل و حرکت پر ان کی کڑی نظر ہوتی تھی، یہ دور ان کی صحت وتوانائی کا تھا، عصا تھامے اکیلے ہی گشت فرماتے رہتے. آپ کی عصا بھی "مآربُ أُخرٰى" کی حامل تھی، بازار جاتے ہوئے اگر راستے میں کسی طالب علم کو طالب علمانہ شان کے خلاف کسی کام میں مشغول دیکھتے تو بر وقت فوری اور پوری تنبیہ فرماتے۔ اس کام کے لئے عصا کے معمولی اشارتی استعمال سے بھی دریغ نہ کرتے۔ ایک مرتبہ ریلوے اسٹیشن کے قریب چائے خانے میں چند طلبہ بیٹھے ٹیلیویژن پر کرکٹ میچ دیکھ رہے تھے۔ اُس وقت اسمارٹ موبائل کیا نارمل سادہ موبائلز کی بھی آج کی طرح عمومی ترویج وافراط نہ تھی۔ حضرت کو کسی سفر میں جانا تھا، یا شاید سفر سے واپسی ہورہی تھی۔ ٹیلیویژن کے گرد مجتمع ان طلبہ پر حضرت کی نظر پڑگئی، بس پھر کیا تھا. حضرت نے وہیں ان پر لاٹھی چارج کردی، سارے طلبہ بے تحاشا بھاگ پڑے۔ وہ بہ ظاہر ایک روایتی "عالِم دین" تھے؛ لیکن بہ باطن اپنی ذات میں ایک "عالَمِ بے مثال" تھے۔ علماء دیوبند کے اقدار وروایات کے حسین ورثہ اور ان کی شناخت کا ایک معتبر حوالہ تھے، عالمانہ متانت، عظمت ووقار، تہذیب وشائستگی اور استغناء وخود داری کے پیکر تھے۔ دنیاوی جاہ وحشمت سے کوسوں دور تھے، انتہائی گہری نظر اور آفاقی فکر وشعور کے حامل تھے. ہمیں ان کی شخصیت کو لمبے عرصے تک بہت قریب سے پڑھنے کا موقع ملا. چھ سالہ دور طالب علمی میں ہم نے کبھی ان کے لہجے یا اسلوب میں سطحیت، جذباتیت یا ابتذال کا ابال نہیں دیکھا، ان کی باتیں اور ادائیں مصنوعی تکلف وتموج سے عاری وخالی ضرور ہوتیں؛ لیکن بڑی سبک گامی سے چپ چاپ دل میں اُتر کر دل کی دھڑکنوں کی ہم آہنگ ہوجاتیں اور پورے وجود میں ایک روحانی کیف وسرمستی کی پُراسرار فضا خلق کردیتیں۔ سنہ 1999 عیسوی میں مسلم شریف جلد اول اور سنن نسائی ان سے پڑھنے کی ہمیں سعادت ملی ہے. تدریس حدیث میں آپ منفرد اسلوب رکھتے تھے۔ آپ کا اندازِ تدریس نہایت مدلل، واضح، اور گہرائی پر مبنی ہوتا تھا۔ مضامین کی پیچیدگیوں کو آسان زبان میں سمجھانے میں مہارت رکھتے تھے. ناپ تول کر حسبِ ضرورت اور قدرِ ضرورت ہی کلام فرماتے. زائد لفظوں یا بحثوں کی کوئی گنجائش نہ ہوتی، بسا اوقات گزشتہ دروس کی تقریروں پر جاری درس کی تقریر کو "معطوف" فرماتے ہوئے اپنے منفرد ودلکش انداز میں گویا ہوتے "آج کی تقریر کو کل والی تقریر" سے ملالینا (من غير لفظه)۔ درسی مباحث میں عطف ومعطوف کا عملی مشاہدہ وتجربہ ہمارے لئے حیران کن لطف کا باعث تھا۔ اس سے زائد از ضرورت، اطناب نما اور لاطائل بحثوں سے اجتناب میں آپ کی حساسیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ساعت اولی میں مسلم شریف جلد اول کا درس ہوتا۔ گرمی کے موسموں کی مختصر راتوں اور مطالعہ ومذاکرہ میں انہماک واشتغال کے باعث نیند پوری نہ ہونا، طبعیت میں انہیار اور آنکھوں میں بے خوابی کے آثار جھلکنا طبعی امر ہے، حضرت معمولی جھپکیوں کو تو نظر انداز فرما دیتے؛ لیکن سامنے بیٹھ کر باضابطہ "منامی اشغال ومراقبہ" کرنے والے طلبہ کو تربیتی نقطہ نظر سے "الف" ہوجانے (کھڑے ہوجانے) کا حکم فرماتے۔ حضرات اکابرین و اسلاف سے بڑی عقیدت رکھتے تھے، درمیان درس طلبہ کے سامنے اکثر و بیشتر حضرات اکابر و اسلاف کے طرز زندگی اور ان کی اولو العزمی، سنت نبوی سے ان کی والہانہ وابستگی کے واقعات سناتے اور ان کے نقوش زندگی سے سبق لینے کی ترغیب دیتے۔ مسلم شریف اور نسائی شریف کے دروس میں ہم نے دیکھا کہ اختلافی مسائل میں حضرت تھانوی، حضرت مدنی، مفتی عزیز الرحمن عثمانی، علامہ بلیاوی، مفتی کفایت اللہ دہلوی اور علامہ شبیر احمد عثمانی وغیرھم (رحمہم اللہ اجمعین) کے اقوال اور ان کے دلائل بھی پیش فرماتے۔
امتیازی خصوصیات:
آپ تدریس کو صرف علم کی ترسیل تک محدود نہیں رکھتے تھے؛ بلکہ طلبہ کی اخلاقی اور فکری تربیت پر بھی زور دیتے تھے۔ ان کے دروس ومواعظ طلبہ کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ منتظم اور مدرس ہر دو حیثیتوں سے آپ کی شخصیت میں شفقت اور تحمل کا عنصر غالب ونمایاں تھا، جو طلبہ کو آپ سے قریب رکھنے اور ایک مثبت تعلیمی ماحول پیدا کرنے میں ممد ومعاون ہوا کرتا تھا۔ دارالاقامہ یا شعبہ تعلیمات کے مختلف انتظامی ادوار میں طلبہ کی مشکلات کو نہایت توجہ سے سنتے اور ان کی رہنمائی کرتے تھے۔ آپ کی یہ خصوصیت جہاں طلبہ کو آپ سے بے تکلف ہونے اور علمی سوالات پوچھنے کا حوصلہ فراہم کرتی تھی، وہیں اس مشفقانہ رویے نے تدریس کو ایک خوشگوار اور مؤثر عمل بھی بنا دیا تھا۔ الغرض حضرت الاستاذ کی شخصیت گوناگوں علمی کمالات ومحاسن اور اعلی روحانی نسبتوں کی حامل تھی، اس کے علی الرغم جلالت وشوکت کی بجائے متانت ووقار، حدت کی بجائے شفقت وملاطفت کے پیکر تھے. تربیت آپ کا شعار اور اتباع سنت آپ کی روح کی پکار تھی۔ آہ! آسمان علم ومعرفت کا یہ قمر منیر ٨٦ سال کی عمر میں ۲۲ دسمبر ۲۰۲۴ع ۱۹ جمادی الأخری ۱۴۴۶ہجری کو ہمیشہ کے لئے روپوش ہوگیا! حضرت رحمہ اللہ کی رحلت کا صدمہ صرف ان کے خانوادے کا تنہا صدمہ نہیں؛ بلکہ پورے علماء دیوبند کا اجتماعی صدمہ ہے. وہ پورے حلقہ دیوبند کا قیمتی سرمایہ تھے۔ ان کی وفات حسرت آیات ہم تمام ابناے دیوبند کے لئے بہت بڑا خسارہ ہے۔ ان کی رحلت ان کے خانوادے اور دار العلوم دیوبند کے لئے عالم اسباب میں بظاہر ناقابل بھرپائی خلاء ہے؛ کیونکہ ان کی وفات سے دارالعلوم نے اپنا ایک بے مثال مدرس ومحدث کھودیا ہے، جس پہ ہم مرحوم کے خانوادہ کے ساتھ دارالعلوم دیوبند کو بھی تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہیں اور دعاء کرتے ہیں کہ اللہ تعالی انہیں ان کا نعم البدل عطا فرمائے، لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
شمشیر حیدر قاسمی
( جمعہ 2؍ رجب المرجب 1446ھ 3؍ جنوری 2025ء)
https://saagartimes.blogspot.com/2025/01/blog-post_10.html
No comments:
Post a Comment