سنا ہے سال بد لے گا!
-------------------------------
عیسوی سال 2024ء کا آخری سورج ڈھلنے کو ہے، ایشیائی ممالک میں ڈھل بھی چکا ہے؛ لیکن سال 2024ء میں عالمی افق پہ نسل پرستانہ برتری، قابو کی حکمرانی، مذہبی منافرت، نسل و قوم پرستی کے جنون وتعصب کا جو سورج طلوع ہوچکا ہے وہ شاید دہائیوں تک نہ ڈھل سکے۔ نئے عیسوی سال 2025ء کے آغاز پہ امن کی امیدوں اور خوشحالی کی تمنائوں کے ساتھ دنیا بھر میں جشن کا سماں ہے-
آسمان پہ رنگ ونور کی برسات ہے۔آتش بازی کی جارہی ہے،منچلے سڑکوں پہ نکل کے رقص کناں ہیں،مرد وخواتین کاروں ،موٹر سائیکلوں اور پیادہ پائوں سڑکوں پہ نکل آئے ہیں، جشن کا ماحول ہے۔سالِ نو کی آمد پہ شہر کا شہر پٹاخوں اور ہوائی فائرنگ کی آواز سے دہل رہا ہے۔
لیکن آہ! فلسطین کے نہتھے عوام میں جراحتوں، ہلاکتوں ،پامالیوں، غموں اور مصیبتوں کی کیسی قیامت خیزیاں ہیں؟ ان کے ساتھ روا رکھی جانے والی سفاکیت کا طوفان بلاخیز بھی کبھی تھمے گا؟
سال 2024 کا سب سے تکلیف دہ واقعہ غزہ پر اسرائیلی درندگی کا تسلسل ہے جو اب تک 45 ہزار سے زائد فلسطینی کی معصوم جانیں نگل چکا ہے، لیکن حقوق انسانی کے ٹھیکیدار امریکا اور مغربی ممالک کے کانوں پر جوئیں تک نہ رینگیں، بلکہ سفاک اسرائیل کو جنگی ساز وسامان کی فراہمی کے وعدے کئے جارہے ہیں۔
امریکا کے صدارتی انتخابات میں ڈونالڈ ٹرمپ کی بطور صدر کامیابی بھی سال 2024 کے منظر نامے کا حیران کن باب ہے۔
سولہ سال تک قوت واقتدار کا اکلوتی سرچشمہ سمجھے جانے والی خاتون آہن حسینہ واجد کا فرار اور اس کے اقتدار کا خاتمہ سال 2024 کی امید افزا خبر تھی۔
حماس سربراہان شیخ اسماعیل ہنیہ ،یحییٰ سنوار اور حزب اللہ سربراہ حسن نصر اللہ کی شہادت نسل پرستانہ برتری کے مظالم اور درندگی کے دلدوز مظاہر ہیں۔
سال 2024 کی دل خراش سوغاتوں کے بیچ ایک اچھی اور امید افزا خبر یہ آئی کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتین یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے اور انہیں جنگی جرائم کا مرتکب ٹھہرایا؛ لیکن المیہ کہئے کہ وہ پابند سلاسل نہ ہوسکا ۔اسی طرح 2024ء میں اسپین، ناروے اور آئرلینڈ کی طرف سے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کیا گیا جو 2024 کے عالمی سیاسی منظر نامے میں غیرمعمولی اقدام ہے، کاش مسلم ممالک بھی یہ جرات کرپاتے!
میرے نزدیک سال 2024 کی سب سے اچھی اور دھماکہ خیز خبر یہ تھی کہ تاریخ انسانی کا سفاک ترین درندہ بشار الاسد - جس کے خونی پنجوں نے بلا شبہ لاکھوں انسانوں کی جانیں لیں -کے 24 سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوا اور وہ دم دبا کر روس فرار ہوا ۔فتح دمشق سال رواں کا امید افزا واقعہ ہے۔
نسل پرستانہ برتری کے اسی نازی طرز حکومت کا تجربہ ہمارے مادر وطن ہندوستان میں ہورہا ہے، 2024 کے من جملہ سانحات کا سیاہ ترین باب یہ بھی ہے کہ “ مغل اعظم “ کی حکومت یہاں پھر قائم ہو گئی ہے ۔جمہوری روایات اور مذہبی امن ورواداری کا جنازہ نکل رہا ہے۔ اوقاف مسلمین کو ہتھیانے کی سازشیں ہورہی ہیں، مسجدوں کے نیچے منادر تلاش کئے جارہے ہیں، مسلم اقلیت کو سر راہ ہراساں کئے جانے کا ہر حربہ استعمال ہورہا ہے۔
امن کی امیدوں اور خوشحالی کی تمنائوں (آس ورجاء) کے ساتھ جس عیسوی سال 2024 کا آغاز لوگوں نے کیا تھا ۔آج ہم اپنے دل میں ہزاروں غم چھپائے اس سال کے آخری دن کی دہلیز پہ" یاس وناامیدی" کے ساتھ کھڑے ہیں۔اسلامی سال کا آغاز ہوئے چھ ماہ سے زائد ہوچکے ہیں۔آج شب بارہ بجے کے بعد دنیا بھر کے عیسائی لوگ اور اسلامی "اقدار وروایات " سے ناواقف ' مغرب زدہ مسلمان ' عیسوی نئے سال کا زور دار استقبال کریں گے۔
لیکن مجھے نہیں معلوم کہ جگمگاتی روشنیوں ،قمقموں اور فلک شگاف پٹاخوں کے ذریعہ "بہشت احمقاں" میں رہنے والے یہ لوگ اپنے غموں پہ ہستے ہیں یا اپنی کامیابیوں اور حصولیابیوں پہ خوشیاں مناتے ہیں ؟؟؟
کیونکہ نئے سال کی نئی صبح میں خوشیاں منانے والے اور خوشحالیوں کے خواب دیکھنے والے کا خواب دسمبر کی آخری تاریخ تک بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا!۔
آخر لوگ اس کا ادراک کیوں نہیں کرتے؟ کہ رات ودن کے بدلنے سے،ستاروں اور سیاروں کے اپنے محور کے گرد چکر لگانے سے، ماہ وسال کے بدلنے ، کسی کے گذرنے یا کسی کے آنے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔
فرق پڑتا ہے تو اس سے پڑتا ہے کہ گذرنے والا سال ہمیں کیا دے جارہا ہے ؟ اور آنے والا سال ہمارے لئے کیا لارہا ہے ؟؟؟ ۔۔اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ گذرنے والے سال میں انسانوں کی سوچ اور اپروج میں کیا تبدیلی آئی؟ اور آنے والے سال میں ان کے زاویہ نگاہ میں تبدیلی کے کیا اور کتنے امکانات ہیں؟؟
سال 2024 میں ملت اسلامیہ کے چہرے پہ بیشمار غم' سیاہ کالک کی طرح مل دیئے گئے ہیں۔
اس سال سے ملنے والی سوغاتوں میں ہمیں واضح طور پہ نظر آتا ہے کہ اس سال میں دنیا پہلے سے کہیں بڑھکر بدامنی کا شکار ہوئی۔بالخصوص عالم اسلام پہلے سے کہیں بڑھ کر قتل، غارت، انتشار وخلفشار کی آماجگاہ بن گیا۔
اس کے ساتھ ہی پورے عالم میں چاروں طرف پہیلی بداعمالیاں، بے ایمانیاں، وحشتناک بدامنی، دہشت گردی، مہنگائی، بے روزگاری، بھوک مڑی، ناپ تول میں کمی، احکام خداوندی سے کھلی بغاوت ،دین وشریعت سے دوری، والدین اور شوہروں کی نافرمانی جیسے ناسور ہمارے معاشرے میں ہنوز باقی ہی نہیں، بلکہ ان خرابیوں کا شرح نمو روز افزوں ہے۔ ان کا مداوی کرنے والا کوئی دور دور تک نظر نہیں آرہا ہے۔ اتنے سارے زخموں کے ہوتے ہوئے ہمیں خوشیاں منانے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں بنتا۔ اب دیکھنا ہے کہ 2025 کا نیا منظر نامہ کتنا مہیب اور بھیانک ہوتا ہے!
اگر آنے والا سال امن کا پیامبر ہوتا!
اگر آنے والے سال میں مسلمانان عالم اپنی اساس کو پہچان کر، باہمی گلے شکوے بھول کر، احکام شریعت کے نام پہ بھائی بھائی بن کر، انسانیت اور آدمیت کے نام پہ اتحاد کرلیں، اور آنے والے سال کو ظلم وبربریت اور کفر وطغیان کے خاتمے اور دعوت اسلامی کے فروغ کا سال ہونے کا عہد کریں تو پہر میں بھی آپ کو اس کے آغاز پہ دعائیں دے سکتا ہوں ۔لیکن یہاں حال یہ ہے کہ :
نتیجہ پھر وہی ہوگا سنا ہے سال بدلے گا
پرندے پھر وہی ہونگے شکاری جال بدلے گا
بدلنا ہے تو دن بدلو بدلتے کیوں ہو ہندسے کو
مہینے پھر وہی ہونگے سنا ہے سال بدلے گا
وہی حاکم وہی غربت وہی قاتل وہی ظالم
بتائو کتنے سالوں میں ہمارا حال بدلے گا ؟؟؟
کیلنڈر کا سورج ڈوب گیا تو کیا؟ انقلاب کا سورج طلوع ہوکر رہے گا، جبر واستبداد کی گھٹائیں چھٹ کے رہیں گی. ان شاء اللہ.
بیگوسرائے
31/12/2024
روز منگل، ساڑھے چھ بجے شام
ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com