ان دنوں سماجی روابط کی ویب سائٹس پر وائرل "مسجد میں بھیک مانگنے اور دینے کے احکام" پر وضاحت عنایت فرمائیں.
الجواب وباللہ التوفیق:
(1) واضح رہے کہ بلاضرورت سوال کرنا ناجائز اور حرام ہے، چاہے مسجد میں ہو یا مسجد کےباہر ہو، حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص بلاضرورت مانگتا ہے، قیامت کے دن اس کا یہ مانگنا، اس کے چہرے پر زخم بن کر ظاہر ہوگا، پس ایسے شخص کو بھیک دینا مکروہ ہے،چاہے مسجد میں ہو یا مسجد سے باہر ہو۔
(2) اگر کوئی شخص انتہائی مجبور ہو اور اس کے پاس ایک دن کا بقدر ضرورت راشن موجود نہ ہو، تو اس کے لیے درج ذیل شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے مسجد میں سوال کرنے کی گنجائش ہے:
(1) اس سے کسی نمازی کی نماز میں خلل نہ ہو۔ (2) بھیک مانگتے وقت کسی کو تکلیف نہ دی جائے، مثلاً: گردن پھلانگنا وغیرہ (3) مسجد میں شور وشغب نہ کیا جائے۔
البتہ بہتر یہی ہے کہ یہ شخص مسجد کے باہر سوال کرے۔
ایسے مجبور شخص کو مسجد میں پیسے دینا اگرچہ گناہ تو نہیں، پھر بھی بہتر یہی ہے کہ پیسے مسجد سے باہر جاکر دے
واللہ اعلم بالصواب
----------------------------
مسجد میں بھیک مانگنے کا حکم اور بھیک مانگنے والوں کو بھیک دینے کا حکم
سوال: مسجد میں بھکاری کا بھیک مانگنا اور نمازیوں کا مسجد میں بھیک دینا جائز ہے کیا؟
جواب: وا ضح رہے کہ جس آدمی کے پاس ایک دن کا کھانا ہو اور ستر ڈھانکنے کے لئے کپڑا ہو اس کے لئے لوگوں سے مانگنا جائز نہیں ہے، اسی طرح جو آدمی کمانے پر قادر ہو اس کے لئے بھی سوال کرنا جائز نہیں، البتہ اگر کسی آدمی پر فاقہ ہو یا واقعی کوئی سخت ضرورت پیش آگئی ہو جس کی وجہ سے وہ انتہائی مجبوری کی بنا پر سوال کرے تو اس کی گنجائش ہے، لیکن مانگنے کو عادت اور پیشہ بنالینا بالکل بھی جائز نہیں ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص بلاضرورت مانگتا ہے، قیامت کے دن اس کا یہ مانگنا اس کے چہرے پر زخم بن کر ظاہر ہوگا۔ ایک روایت میں ہے کہ جو اپنا مال بڑھانے کے لئے سوال کرتاہے تو یہ جہنم کے انگارے جمع کررہا ہے، اب چاہے تو کم جمع کرے یا زیادہ۔
اس کے علاوہ مسجد میں بھیک مانگنے کی صورت میں مسجد کے بہت سے آداب کی خلاف ورزی بھی لازم آتی ہے، مثلاً: مسجد میں شور و شغب ہونا، نمازیوں کی نماز میں خلل واقع ہونا، نمازیوں کی گردنیں پھلانگنا وغیرہ۔اس لیے مسجد میں بھیک مانگنے سے مکمل اجتناب کرنا چاہئے اور لوگوں کو بھی چاہئے کہ جن کے بارے میں علم ہو کہ یہ پیشہ ور بھکاری ہیں، ایسے افراد کو بھیک نہ دے کر ان کی حوصلہ شکنی کریں۔ تاہم اگر کسی نے چندہ دے دیا تو یہ گناہ اور ناجائز نہیں ہے۔
اور اگر کوئی شخص انتہائی مجبور ہو تو اس کے لئے کچھ شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے مسجد میں سوال کرلینے کی گنجائش ہے، وہ شرائط یہ ہیں:
(1) اس سے کسی نمازی کی نماز میں خلل نہ ہو۔ (2) کسی کو تکلیف نہ دی جائے، مثلاً گردن پھلانگنا وغیرہ (3) مسجد میں شور وشغب نہ کیا جائے (4) چندہ زبردستی نہ لیا جائے اور چندہ نہ دینے پر کسی کو عار نہ دلائی جائے۔ تاہم بہتر یہی ہے کہ بوقتِ ضرورت بھی چندہ مسجد سے باہر کیا جائے، اور ضرورت پر مسجد میں صرف اعلان کرلیا جائے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 164):
"ويكره التخطي للسؤال بكل حال.
(قوله: ويكره التخطي للسؤال إلخ) قال في النهر: والمختار أن السائل إن كان لايمر بين يدي المصلي ولايتخطى الرقاب ولايسأل إلحافاً بل لأمر لا بد منه فلا بأس بالسؤال والإعطاء اهـومثله في البزازية. وفيها: ولايجوز الإعطاء إذا لم يكونوا على تلك الصفة المذكورة. قال الإمام أبو نصر العياضي: أرجو أن يغفر الله - تعالى - لمن يخرجهم من المسجد. وعن الإمام خلف بن أيوب: لو كنت قاضياً لم أقبل شهادة من يتصدق عليهم. اهـ. وسيأتي في باب المصرف أنه لايحل أن يسأل شيئاً من له قوت يومه بالفعل أو بالقوة كالصحيح المكتسب ويأثم معطيه إن علم بحالته لإعانته على المحرم".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144008201822
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
http://saagartimes.blogspot.com/2021/05/blog-post_27.html?m=1
No comments:
Post a Comment