Sunday 23 May 2021

ہم نے دیکھا اک فرشتہ حضرت قاری عثمان رح کی شکل میں

ہم نے دیکھا اک فرشتہ حضرت قاری عثمان رح کی  شکل میں

بقلم: مفتی شکیل منصور القاسمی

مفتی شمشیر حیدر قاسمی 

اس وقت رنج و غم، حزن و ملال اور کرب و بلانے دل کی دنیا میں جو طوفان برپا کر رکھا ہے، اس کی تعبیر تک رسائی سے دست الفاظ دور، بہت دور ہے، کسے معلوم تھا؟ کہ کورونا کی یہ ”آدم خور“ مہاماری اس قدر دلدوز اور جگر سوز ثابت ہوگی کہ قافلۂ علم و معرفت کی روشن قندیلیں ایک ایک کرکے گل ہوتے چلی جائیں گی؟ دین متین کے پاسبان و جان نثار اس طرح بیگانہ ہوتے رہیں گے؟ ہم جیسوں کا مقدر رونا، بس رونا بن جائے گا؟ کیا کبھی کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات  آئی  ہوگی کہ عاشقان قرآن وسنت، شیدایان معرفت و طریقت جب جانا شروع کریں گے تو یکے بعد دیگرے جاتے ہی رہیں گے؟ اور خامۂ نارسا کا کام صرف تعزیتی پیغامات قلمبند کرنا اور دل کے نہاخانے میں بھڑکنے والے شعلوں کی حکایت و ترجمانی کرنا رہ جائے گا؟ ابھی تو کئی عظیم المرتبت شخصیات پر خامہ فرسائی کے لئے ہاتھ دل سے جدا بھی نہیں ہوئے  تھے، کئی محسنین ملت کی یادوں میں اشکہائے چشم کا سیلابی سلسلہ جاری ہی تھا کہ کل روز جمعہ ایک ایسی ”قیامت صغرٰی“ برپا ہوگئی جس نے دل رنجور کو غم و اندوہ کے ایسی گہری کھائی میں ڈال دیا جس سے نکلنے کی سبیل سر دست مفقود نظر آتی ہے۔ درحقیقت نمونۂ سلف، فدائے ختم نبوت، عاشق قرآن و سنت، قائد قوم و ملت، مربی و رہبر، محدث و مفسر استاذ محترم حضرت امیرالہند قاری سید محمد عثمان صاحب منصورپوری استاذحدیث اور کارگزار مہتمم دارالعلوم دیوبند و صدر جمعیت علمائے ہند کا سانحۂ ارتحال نے ذہن و دماغ پر ایسا لرزہ  طاری کردیا کہ یاس و قنوط کے تیر وتار سناٹے نے ہر سمت سے احاطہ کرلیا، توقعات اور تمنائیں خون خون ہوگئیں اور اب ہماری نگاہیں اداسیوں کے بھنور میں پھسی زندگی کو حسین راہوں سے آشنا کرنے والے کی راہ ڈبڈباتی آنکھوں سے  بہت ہی بے صبری کے ساتھ تک رہی ہیں:  

لے گیا چھین کے کون تیرا صبر و قرار؟

بیقراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی؟  

حضرت قاری صاحب قدس سرہ کی شخصیت جامع کمالات تھی، مبدأ فیاض نے انھیں بہت سی امتیازی خوبیوں سے نوازا تھا، ایک طرف ظاہری شکل و صورت کے اعتبار سے وہ پیکر حسن و جمال تھے، تو دوسری جانب ان کا باطن نہایت ہی پاکیزہ اور صاف شفاف تھا، ان کی طالب علمانہ زندگی مثالی تھی، ان کی زندگی  کا تربیتی اور تدریسی پہلو بہت ہی دلکش اور حکیمانہ تھا، ان کی رفتار و گفتار سے سنجیدگی، متانت، بلندیِ اخلاق اور رعب و وقار کے خوبصورت اور حسین فوارے پھوٹتے محسوَس ہوتے، اثنائے درس نرم لہجے میں حل عبارت کو ترجیح دیتے، جس سے طلبہ کے لئے نفس عبارت کو سمجھنا بہت آسان ہوجاتا، لاطائل  بحثوں، ہوائی تقریروں اور دراز نفس  فضول ابحاث کے لئے حضرت قاری صاحب کے دروس میں کوئی گنجائش  نہیں تھی، ان کا انداز تربیت بھی بہت نرالا تھا، ایک مرتبہ ہمارے کمرے کے ایک رفیق کی نماز فجر فوت ہوگئی، وہ فجر بعد تک اتفاقاً سوتا رہ گیا، حضرت قاری صاحب نماز فجر پڑھکر دارالاقامہ کا گشت کرتے ہوئے ہمارے کمرے میں آگئے اور اسے سوتا دیکھ لیا، اسے جلدی سے نماز فجر ادا کرنے کی تاکید کرتے ہوئے یہ ڈیوٹی دیدی کہ کل سے نماز فجر سے پہلے ہر روز تم مجھ سے ملاقات کروگے، ہمارے افتاء کے سال  بزم سجاد (طلبہ بہار، اڑیسہ، نیپال کی متحرک وفعال انجمن؛ جس کی صدارت ان دنوں عاجز کے دوش ناتواں پہ تھی) کا سالانہ پروگرام تھا، مشورے سے یہ طے پایا کہ پروگرام حضرت قاری صاحب کی صدارت میں ہونا ہے، ہم تینوں رفقاء (شکیل منصور،شمشیر حیدر اور مرحوم دوست مجتبی حسن) عصر بعد حضرت  کے آستانے پر حاضر ہوئے اور اپنی درخواست پیش کی، حضرت نے اپنی شرکت اور صدارت کی منظوری اس شرط پر معلق کردی کہ پہلے پروگرام کی تفصیلات تحریری شکل میں دکھائیں، کل ہوکر ہم پروگرام کے تعلقات سے ایک ایک چیز کی تفصیل  لکھ کر لے گئے حضرت نے سب کو بغورملاحظہ فرمایا، کچھ ضروی ترمیمات کی طرف اشارے دیئے اور اپنی شرکت کی منظوری دیکر ہم طلبہ کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ 

انتظامی امور میں حضرت قاری صاحب نوراللہ مرقدہ اپنی مثال آپ تھے، مفوضہ امور کو نہایت احسن طریقے پر انجام دیتے؛ اس کا حق ادا کردیتے، حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب قدس سرہ مہتمم دارالعلوم دیوبند کے زمانۂ اہتمام میں جب نیابت اہتمام حضرت کو تفویض کی گئی تو متعدد بار ہم نے یہ مشاہدہ کیا کہ کھانا تقسیم ہوتے وقت حضرت اچانک مطبخ کی طرف تشریف لے آتے اور کھانا لیکر جارہے طالب علم کو روک کر اس کی روٹی اپنے ہاتھ میں لیتے اسے الٹ پلٹ کر دیکھتے کہ جلی کٹی تو نہیں ہے، اور چمچ لیکر شوربہ اور بوٹی کی نوعیت و کیفیت معلوم کرتے پھر مطبخ جاکر باورچیوں کو مناسب مشورے دیتے، اور بوقت ضرورت مناسب تفہیم وتادیب فرماتے۔

خبر سن کر مرے مرنے کی وہ بولے رقیبوں سے

خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں

چند سال قبل جب کارگزارمہتمم بنائے گئے، میں (شکیل منصور قاسمی) نے سورینام  سے حضرت کو فون کیا، حضرت کی خدمت میں بصد عجز ونیاز ارمغان تبریک و تہنئت پیش کی، حضرت نے ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازا، ابھی دوماہ قبل کی بات ہے، جمعیت علماء ہند کا ذیلی ادارہ مباحث فقہیہ کے سولہویں فقہیی اجتماع کے موقع پر ”مسجد عبدالنبی“ کے سامنے ہم تینوں رفقاء کو حضرت سے سلام و مصافحہ کی سعادت ملی، مصافحہ کے بعد ہم نے دست بوسی کا بھی شرف حاصل کیا، ہاتھ تھامے ہوئے میں (شکیل منصورقاسمی) نے عرض کرڈالا کہ حضرت! جسم مبارک پر کچھ ضعف و نقاہت کے آثار معلوم ہوتے ہیں ؟ فرمانے لگے!  صحت ہمیشہ یکساں نہیں رہتی، عمر بھی بڑھتی چلی جارہی ہے، اس لئے اس کے آثار تو ظاہر ہوں گے ہی،

 لیکن اف! نہیں ایسا بھی نہیں، کہ اتنی  عمر ہوگئی ہو  کہ وہ ہمیں چھوڑ کر چلے جائیں، اور ہم ان کے سایۂ قیادت و تربیت سے محروم ہوجائیں، مگر ہاں یہ آنے جانے کے وقت و گھڑی کا تعین انسان کے بس میں کہاں ہے، یہاں تو آنے سے پہلے ہی طے ہوچکاہے "کل شئی عندہ باجل مسمی" اس میں چھوٹا، بڑا، بچہ، بوڑھا یا جوان  کی کوئی تخصیص تو ہے نہیں، بس سب کو اسی"اجل مسمی" میں چلے جانا ہے، جس کا علم صرف اور صرف ایک اللہ کو ہے۔ 

ویراں ہے مے کدہ خم و ساغر اداس ہیں 

تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے 

یوں تو جب تک چرخ کہن سال اپنے اسی موجودہ ںظام  کے ساتھ باقی ہے، خورشید جہاں تاب کی خوبصورت کرنوں سے دنیا مزین ہوتی رہے گی، سینۂ گیتی پر افراد و اشخاص کی آمد و رفت کا سلسلہ بھی جاری رہے گا، ہر خالی ہونے والے عہدے و منصب کو کوئی نہ کوئی ہستی رونق بخشتی رہے گی۔

یہ  نظامِ قدرت ہے، جو ابتدائے آفرینش سے چلا آرہا ہے؛ اس لئے حضرت قاری صاحب نوراللہ مرقدہ نے جن جن شعبوں اور میدانوں کو اپنے حسن کار کردگی سے چمکایا اور نکھارا، وہ سب یوں ہی چمکتے اور دمکتے رہیں گے (ان شاء اللہ تعالی)؛ خواہ درس و تدریس کا سلسلہ ہو یا نظم و نسق کا معاملہ، کوچۂ سیادت و قیادت ہو یا میدان تربیت و تزکیہ، دین مبین کی حفاظت و صیانت اور اس کی ترویج و اشاعت کا مسئلہ ہو یا فرقۂ باطلہ کی تردید وبیخ کنی کا مرحلہ، افراد سازی کا عظیم ترین دشوار گزار عمل ہو یا خامۂ دربار سے صفحہ قرطاس کو مزین کرنے کا مہتم بالشان کارنامہ ! ہر جگہ، ہر عہدہ، ہر کرسی، ہر میدان کے لئے افراد و اشخاص آتے جاتے رہیں گے، یقیناً ان آنے جانے والوں میں بہت سے متنوع خصوصیات و کمالات کے حامل افراد ہوں گے، ان میں سے ہر ایک اپنی خاص شناخت و پہچان سے جانا و پہچانا جائے گا؛ لیکن جن نگاہوں  نے حضرت امیر الہند قاری سید محمد عثمان صاحب کو دیکھا ہے، ان کی ہمہ گیر شخصیت کو قریب سے پڑھا ہے، ان کے اوصاف و کمالات کا مشاہدہ کیا ہے، ان کی نگاہ ہر جگہ اور ہر میدان میں “خصوصیاتِ عثمان“ کو تلاش کرتی پھرے گی؛ کیونکہ:

آسائش دو گیتی تفسیر ایں دو حرف است

با دوستاں تلطف با دشمناں مدارا 

کا مصداق شخص کہاں ہے؟ ہے کوئی جو محبت اور دل سوزی کے ساتھ میٹھی میٹھی باتیں اور نصحتیں سنانے والا قائد و رہبر کی ہمیں رہبری فرمادے؟ 

کہاں چلے گئے ہیں ہمارے وہ محسن و مربی حضرت  قاری عثمان؟ جن کی شخصیت علامہ اقبال کے اس شعر کی تفسیر  تھی کہ: 

نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو 

رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاکباز 

ادارہ مباحث فقہیہ کے سولہویں اجتماع کی آخری نشست میں نرم دم گفتگو و گرم دم جستجو کا حامل فصیح اللسان و بلیغ المرام ملت کا یہ قائد و محسن جب نہایت ہی پُردرد اور رقت آمیز لہجہ میں وارثان انبیاء سے ہمکلام تھا تو بعض روشن دل رفقاء کو یہ انکشاف ہو رہا تھا کہ "کأنه  خطاب مودّع" 

آہ! حضرت کا وہ خطاب بھی کیسا نرالا تھا؟ جس میں گویا کہ کنواں خود ہی پیاسوں کو دعوت دے رہاتھا کہ آؤ اپنی تشنگی بجھالو، رخصتوں پر عمل کرکے تم ”آرام پسند، سہل انگار وتن آساں“ بن چکے ہو، آرام و راحت نے نفس کے ہاتھوں تمہیں ہلاکت و تباہی کے گڑھے تک پہنچادیا، مصلحت آمیزی نے تم سے ہمت و شجاعت کا جوہر چھین لیا، خدارا غفلت و کسل مندی کی راہ کو چھوڑو! میدان عمل میں آئو، اپنے ان بزرگوں کے حالات کا مطالعہ کرو، جنھوں نےعزیمت کی راہ اختیار کرکے بڑی سے بڑی طاقتوں کو ملیا میٹ کردیا، جن کے بلند حوصلوں کے سامنے فرعونیت و قیصریت کی فلک بوس عمارتیں زمین دوز ہوگئیں۔

حضرت قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے دل دردمند سے نکلنے والے وہ کلمات ہمارے دلوں میں پیوست ہوتے چلے گئے، جس نے ہمارے  احساسات کے تاروں کوچھیڑ دیا، ہمارے خوابیدہ ضمیروں کو جھنجھوڑکر رکھ دیا اور ہم وہاں سے اس حال مین  لوٹے کہ  ہمارے اندر یقین محکم، عمل پیہم اور محبت فاتح عالم کا جذبہ موج زن تھا، مگر آہ؛ 

کس سے دہرائیں فسانہ غم دل کا عاجز 

سننے والوں سے زیادہ ہیں سنانے والے  

عاجز کہ جسے چین نہ تھا بستر گل پر

اب چھوڑ کےسب راحت وآرام پڑا ہے 

مخدوم مکرم حضرت مولانا سید قاری محمد عثمان صاحب نوراللہ مرقدہ نے اپنے خداد تربیتی ملکہ سے ایک جہان کو بنایا، سنوارا، سجایا اور چمکایا؛ لیکن سایۂ پدری میں پروان چڑھنے والے ان کے دونوں صاحبزادگان (گرامی قدر عالی مرتبت حضرت مولانا و مفتی سید محمد سلمان صاحب منصور پوری اور رفیق مکرم حضرت مولانا مفتی سید محمد عفان منصور پوری نے والد محترم کی خوبیوں کو اپنے اندر جذب کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے، اللہ تعالی ان دونوں بھائیوں کو ہر طرح سے صحت و سلامتی عطاء فرمائے اور اپنے والد محترم کے روشن کردار اور ان کی پاکیزہ روایتوں کا امین و ترجمان بنائے، آمین۔

حضرت امیرالہند رحمہ اللہ  کی رحلت کا صدمہ صرف ان کے خانوادے، دارالعلوم دیوبند یا جمعیت العلماء کا تنہا صدمہ نہیں؛ پورے علماء دیوبند اور ملی تنظیموں کا اجتماعی صدمہ ہے، وہ صرف مادرعلمی یا جمعیت کا متاع گراں مایہ نہیں؛ بلکہ پورے حلقہ دیوبند کا قیمتی سرمایہ تھے، ان کی وفات حسرت آیات ہم تمام کے لئے بڑا خسارہ ہے، ہم سب ایک دوسرے کی طرف سے تعزیت مسنونہ کے مستحق ہیں، ہاں! ان کی رحلت  بالخصوص جمعیت علمائے ہند اور دارالعلوم دیوبند کے لئے عالم اسباب میں بظاہر ناقابل بھرپائی خلاء ہے؛ کیونکہ ان کی وفات سے  ان دو اداروں نے اپنا ایک بے لوث ووفاشعار ہشت پہل ہیرا کھودیا ہے، جس پہ  ہم حضرت الاستاذ رحمہ اللہ کے خانوادے کے ساتھ جمعیت العلماء کے ذمہ داران اور مادر علمی کے حضرت مہتمم صاحب مدظلہ العالی کو سب سے زیادہ خصوصی تعزیت وتسلی کا مستحق سمجھتے ہیں اور انہیں بطور خاص تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہیں اور دعاء کرتے ہیں کہ اللہ تعالی جمعیت العلماء اور دارالعلوم دیوبند کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے، اور لواحقین، محبین، منتسبین ومعتقدین کو صبرجمیل عطا فرمائے۔ 

ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے 

زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے؟

https://saagartimes.blogspot.com/2021/05/blog-post_23.html



No comments:

Post a Comment