خواتین کا پرامن احتجاجی جلوس؟
(سلسلہ نمبر 1754 )
کسی بھی جمہوری ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی رعایا کی جان، مال، عزت وآبرو اور بنیادی حقوق کی حفاظت کو یقینی بنائے۔ اگر ارباب اقتدار اور حکمراں رعایا کے کسی خاص طبقے کے ساتھ جانبداری کا مظاہرہ کریں، اس کے حقوق کی پاسداری نہ کریں یا دستور وآئین میں دیئے گئے اس کے حقوق یا مذہبی آزادی کو دبانے کی کوئی کوشش کی جائے تو اب اس طبقہ کے ہر فرد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے بنیادی ومذہبی حقوق کی حصولیابی کے لئے ان ظالم حکمرانوں کے خلاف آٹھ کھڑے ہوں ، آئینی ودستوری حقوق کے لئے طاقت بھر کوشش کرے۔ آئینی جدوجہد کے ساتھ پرامن عملی جد وجہد بھی جاری رکھے۔ ریاست کے ظلم وناانصافی کے سامنے خاموش ہوجانا اس کی زیادتی اور تعدی کو فروغ دینے اور ظلم کا ساتھ دینےکے مرادف ہے۔
ایسے موقع سے کی جانے والی کوشش کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے "افضل الجھاد" کہہ کر تحسین فرمائی ہے۔
أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ قَالَ كَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ
سنن النساي 4209
مظلوم اور معاشرہ میں دبے کچلے اور پسے ہوئے طبقہ کے حقوق کی فراہمی اور بازیابی کی کوشش میں اسلام سے پہلے بھی ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شرکت فرمائی ہے اور اسلام کے بعد خلفاء کے ادوار میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا ۔
سنہ 590 عیسوی ماہ ذی قعدہ میں عبد اللہ بن جدعان کے مکان پر مکہ مکرمہ میں قریش کے معزز سرداروں کے ہمراہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیس سال کی عمر میں ایک معاہدے میں شرکت فرمائی تھی ۔ جو "حلف الفضول " کے نام سے مشہور ہوا۔
یمن کے ایک تاجر (قبیلہ زبید کے) شخص پہ مکہ کے قدآور شخص عاص بن وائل نے ظلم کیا تھا ۔ سامان لیکر قیمت ہضم کرگیا تھا۔اس مظلوم کی مدد اور دکھی انسانیت کے ساتھ ہمدردی کی متحدہ آواز کے طور پر ایک کمیٹی قائم ہوئی تھی۔
زمانہ جاہلیت میں بھی اس طرح کی کمیٹی قائم تھی جس کے روح رواں اور بانی مبانی "فضل " نامی تین اشخاص ("الفضل بن مشاعة" "الفضل بن مضاعة" اور"الفضل بن قضاعة") تھے۔
جب آپ کے زمانے میں اس کمیٹی کا احیاء ہوا تو اسے اسی نام (تینوں فضل) کے ساتھ موسوم "حلف الفضول" کردیا گیا
یہ معاہدہ در اصل مقتدر طبقہ کے ظلم وتعدی کے خلاف ایک اجتماعی آواز، (احتجاج) ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ایک عملی شکل تھی۔آپ علیہ السلام کا فرمان ہے:
«لقد شهدت في دار عبدالله بن جدعان حلفًا ما أُحب أن لي به حمر النعم، ولو أُدعي به في الإسلام لأجبت»
(لقد شَهِدتُ مع عمومَتي حِلفًا في دارِ عبدِ اللَّهِ بنِ جُدعانَ ما أُحبُّ أن لي بهِ حُمْرَ النَّعَمِ ، ولَو دُعيتُ بهِ في الإسلامِ لأجَبتُ . .
الراوي: عبدالرحمن بن عوف المحدث: الألباني - المصدر: فقه السيرة - الصفحة أو الرقم: 72
خلاصة حكم المحدث: سند صحيح لولا أنه مرسل. ولكن له شواهد تقويه وأخرجه الإمام أحمد مرفوعاً دون قوله, لو دعيت به في الإسلام لأحببت وسنده صحيح)
اسلام سراپا امن وانصاف کا نقیب وترجمان ہے۔ جہاں اس کی کسی بھی تعلیم میں ظلم کا ادنی شائبہ بھی نہیں ۔وہیں اس نے ظلم نہ سہنے کی بھی تعلیم دی ہے۔ جس پیغمبر نے عطاء نبوت سے قبل ہی مظلوم کی دادرسی کے لئے اتنی کوشش کی ہو تو پھر اندازہ لگائیں کہ اس کی شریعت میں مظلوم کی حمایت کے لئے کتنی ترغیب دی گئی ہوگی!
اسی لئے قرآن کریم نے بلاتفریق مرد وعورت سب کی یہ خوبی بیان کی ہے:
((وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّهُ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ)) .
التوبة :71
اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں ایک دوسرے کے (دینی) دوست ہیں نیک کاموں کا حکم کرتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نماز ادا کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے پیغمبر کی اطاعت کرتے ہیں اللہ ان پر ضرور رحم فرمائیں گے۔ بیشک اللہ غالب حکمت والے ہیں)
قرآن کریم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے عام مسلم خواتین کو یہ حکم دیا ہے کہ بلاضرورت شدیدہ وہ اپنے گھروں سے نہ نکلیں ۔
عورتوں کے لئے عزیمت یہی ہے کہ وہ گھروں میں رہیں ، گھر کے کونہ کو ان کے لئے بہترین جگہ قرار دی گئی ہے ، گھروں سے نکلنے میں ان کے لئے مخلتف خطرات ومفاسد کا امکان ہوتا ہے ۔
لیکن مصالح وضروریات (وعظ ونصیحت سننے کے لئے ، والدین سے ملاقات کے لئے ، مسجد میں نماز کے لئے ، علاج ومعالجہ کے لئے ، مقدمات میں شہادت وغیرہ وغیرہ )کے لئے آرائش وزیبائش سے اجتناب اور پردہ شرعی کی مکمل رعایت کے ساتھ عورتوں کا گھروں سے نکلنا "رخصت" وجائز ہے ۔
{وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ} [الأحزاب:33]. میں گھر میں رہنے کا حکم اور باہر نکلنے کی ممانعت مطلق نہیں ہے۔بلکہ بغیر ضرورت نکلنے کے لئے یہ حکم ہے۔پردے کے اہتمام اور عزت وآبرو کے تحفظ کی یقینی صورت حال کی موجودگی میں پردے کی حدود وقیود کے ساتھ نکلنے کی اجازت ہے ۔ اسی لئے اس کے معا بعد یہ فرمادیا گیا:
{وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ} یعنی آرائش وزیبائش کیساتھ مائلات وممیلات بن کر نہ نکلو ۔
غزوات وسرایا بھی نہی عن المنکر ہی کی ایک قسم ہے
اسلام کی یہ امتیازی خصوصیت ہے کہ اس نے جہاد کو معتدل احوال میں صرف مردوں پہ فرض کیا ہے اور عورتوں کو یہ شرف بخشا کہ وہ غزوات میں قتال وشمشیر زنی کی مکلف نہ کی گئیں۔
مجاہدین اسلام کے ہمراہ زخمیوں کی مرہم پٹی وغیرہ کی ضرورت کے لئے عموما خواتین اسلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گھر سے نکلتی تھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر جنگ کے ایسے عارضی حالات کے موقع سے اپنی ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ اندازی فرماتے تھے۔جن کا نام نکلتا تھا انہیں اپنے ہمراہ سفر غزوہ میں شریک رکھتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی متعدد صحابیات اور خود بعض ام المومنین نے اسلامی جنگوں میں شرکت بھی کی ہیں اور سخت ضرورت کے موقع سے بعض صحابیات نے قتال بھی کی ہیں ۔
سنہ 6 ہجری میں غزوہ بنی المصطلق میں آپ کے ہمراہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ جبکہ صلح حدیبیہ کے سفر میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا آپ کے ہمرکاب تھیں۔
غزوہ حنین میں حضرت ام سلیم بنت ملحان انصاریہ زوجہ حضرت ابو طلحہ حاملہ ہونے کی حالت میں بھی اپنے شوہر کے ساتھ شریک غزوہ تھیں۔
حضرت ام عمارہ نسیبہ انصاریہ بنت کعب رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ احد میں نہ صرف شریک رہیں بلکہ جب مسلمانوں کے پائوں اکھڑ گئے اور وہ ہزیمت کے شکار ہو گئے ۔افرا تفری اور حواس باختگی کے عالم میں جب صحابہ ادھر ادھر منتشر ہوگئے تب اس خاتون نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں ایسی زبردست بہادری دکھائی کہ دشمنوں پہ درجن بھر نیزے کا وار کی ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نیزہ زنی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
سمعتُ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ يقولُ يومَ أُحُدٍ ما التفتُّ يمينًا ولا شمالا إلا وأنا أراها تقاتلُ دوني يعني أمَّ عمارةَ .
الراوي: عمر بن الخطاب المحدث: الشوكاني - المصدر: در السحابة - الصفحة أو الرقم: 481
خلاصة حكم المحدث: إسناده فيه الواقدي
اور پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے میں مسیلمہ کذاب سے لڑائی میں بھی انہوں نے نیزہ زنی کے جوہر دکھائے تھے۔حتی کہ ان کا ایک ہاتھ کٹ گیا تھا۔
بصرہ میں سنہ 36 ہجری میں غزوہ جمل کے موقع سے ام المومنین سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہا خود اونٹ پہ سوار ہوکے بنفس نفیس غزوہ کی قیادت فرمارہی تھیں۔
جنگ کی یہ آگ بدقسمتی سے مسلمانوں کے ہی دو فرقوں کے مابین بھڑک اٹھی تھی۔
الغرض عمومی احوال میں عورتوں کو جہاد وغزوات میں گھسنے سے اسلام نے محفوظ رکھا ہے۔ لیکن سخت گھمسان کے وقت خواتین اسلام کا قتال کرنا بھی اوپر کی سطروں میں ثابت ہوگیا ۔
غزوہ بنی المصطلق کی حدیث کے ذیل میں موطا مالک کے عظیم شارح اور محدث علامہ ابن عبد البر مالکی لکھتے ہیں کہ اگر عورتوں کی جماعت کے ساتھ مسلمان مرد بھی شامل حال ہوں ، اور خواتین کی عزت وناموس پہ حملہ کے خطرات نہ ہوں تو غزوات سمیت ہر قسم کی ضروریات کے لئے خواتین گھروں سے نکل سکتی ہیں ۔
قال ابن عبد البر في التمهيد: خروجهن مع الرجال في الغزوات، وغير الغزوات مباح إذا كان العسكر كبيرًا يؤمن عليه الغلبة. اهـ. (التمهيد. باب التيمم .حديث خامس )
امام سرخسی بھی اسی طرح کی بات لکھتے ہیں:
ولا ينبغي لها أن تلي القتال إذا كان هناك من الرجال من يكفيها؛ لأنها عورة، ولا يأمن أن ينكشف شيء منها في حال تشاغلها بالقتال، ولأن في قتالها نوع شبهة للمسلمين، فإن المشركين يقولون: انتهى ضعف حالهم إلى أن احتاجوا إلى الاستعانة بالنساء في القتال. اهـ.
(السرخسي في شرح السير)
ان تمام نصوص، نظائر وتاریخی واقعات کو مد نظر رکھنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عورتوں کا گھر سے نکلنے کی ممانعت مطلق نہیں ہے ۔ مصالح وضروریات کے لئے ان کا نکلنا رخصت ہے۔
رخصت بقدر ضرورت مقدر مانی جاتی ہے۔ اس لئے ہر زمانے کے بالغ نظر اور ارباب بصیرت علماء نے اپنے زمانے کے تقاضوں اور چیلینجس کے مد نظر عورتوں کے مصالح وضروریات کی تحدید وتعیین فرماتے ہوئے پردہ کی مکمل رعایت کے ساتھ غیر مخلوط خروج کی اجازت دی ہے۔
آج کل بھگوائی اور فسطائی حکمرانوں اور ارباب اقتدار کی طرف سے طلاق ثلاثہ بل کی صورت میں خواتین اسلام کے شرعی اور بنیادی حقوق پہ ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
معاملہ صرف خواتین کا ہے۔ ایک زرخرید خاتون کی مدعیت میں ہی میں یہ معاملہ عدالت پہنچا اور وہیں سے اس بل کی منظوری کی راہ ہموار ہوئی ہے ۔
اس مبینہ بل کے پس پردہ یہ باور کروائے جانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس کے ذریعہ مسلم خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا جارہا ہے۔ جبکہ حقائق بالکل اس کے برعکس ہیں ۔
ایسے میں پردے کی مکمل رعایت کے ساتھ اجانب کے ساتھ غیرمخلوط ہوکر خواتین اپنے شرعی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے مطالبہ کے لئے پرامن طریقے سے اگر سڑکوں پہ اکر مظاہرے کرتی ہیں تو یہ خروج اگر چہ خلاف عزیمت ہے!
لیکن عہد رسول اور صحابہ وصحابیات کے واقعات سے ایسی ناگزیر حالات میں اس کی گنجائش نکلتی ہے۔
عورت کا گھر سے نکلنے کا ممنوع ہونا ممکنہ مفاسد کے پیش نظر سد ذریعہ کے طور پر تھا۔ ممانعت مطلق نہیں تھی۔ اور نہ ہی مطلق خروج کی حرمت پہ کوئی دلیل ہے۔
ہندوستان کے موجودہ تشویشناک صورت حال کے پیش نظر مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اکابر علماء کی طرف سے جاری کردہ ہدایات کی مکمل رعایت کے ساتھ اس پرامن خاموش وغیرمخلوط احتجاجی ریلی کی رخصت ہے۔ یہ خروج اہم ترین شرعی ضرورت ومصلحت اور دنیاوی دفع مضرت کے زمرے میں آتا ہے۔
اس کے جوازکی نظائر موجود ہیں ۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
13 رجب 1439 ہجری
http://saagartimes.blogspot.com/2020/02/blog-post_70.html?m=1
No comments:
Post a Comment