غور کئے بغیر صرف کان میں آواز پہنچنے سے سامع پر سجدہ تلاوت کا وجوب؟
٢ آیت کے بعد میں دیکھا کہ اس بچے کے سبق میں آیت سجدہ بھی تھی لیکن معلوم نہیں ہوا کب پڑھی ہے حالانکہ آواز پڑھنے کی برابر آرہی ہے تو کیا ان حالات میں زید پر سجدہ تلاوت واجب ہوگا یا نہیں؟
الجواب وباللہ التوفیق:
اگر کان میں آواز آگئی ہو (جسے سماع کہتے ہیں) تو اگر پڑھنے والا صبی ممیز یا بالغ ہو تو سننے والے بالغ مکلف پر سجدہ تلاوت واجب ہے۔ پڑھنے والا صبی غیرممیز ہو تو نہ اس پر سجدہ ہے نہ سامع مکلف پر۔
حنفیہ کے یہاں سماع کا تحقق ہوجائے تو سجدہ واجب ہوجاتا ہے اگرچہ سامع نے بغور وارادہ نہ سنا ہو۔
جبکہ حنابلہ وغیرہ کے یہاں محض کان میں آواز پہنچنے سے سجدہ تلاوت مستحب نہیں ہوتا جبکہ کہ سامع غور سے نہ سنا ہو.
صورت مسئولہ میں اگر استاذ کے کان میں آواز پہنچ گئی ہو چاہے اس نے غور نہ کیا ہو تو سجدہ ان پہ واجب ہے.
اگر آواز ہی نہ پہنچی ہو تو پھر سجدہ واجب نہیں کہ بغیر آواز پہنچے سماع کا تحقق نہیں ہوسکتا.
وتجب ... (على من كان) متعلق بيجب (أهلاً لوجوب الصلاة)؛ لأنها من أجزائها (أداء) كالأصم إذا تلا، (أو قضاءً) كالجنب والسكران والنائم، (فلا تجب على كافر وصبي ومجنون وحائض ونفساء قرءوا أو سمعوا)؛ لأنهم ليسوا أهلاً لها، (وتجب بتلاوتهم) يعني المذكورين (خلا المجنون المطبق) فلا تجب بتلاوته؛ لعدم أهليته.
(قوله: وتجب بتلاوتهم) أي وتجب على من سمعهم بسبب تلاوتهم ح. (قوله: يعني المذكورين) أي الأصم والنفساء وما بينهما (قوله: خلا المجنون) هذا ما مشى عليه في البحر عن البدائع. قال في الفتح: لكن ذكر شيخ الإسلام أنه لايجب بالسماع من مجنون أو نائم أو طير؛ لأن السبب سماع تلاوة صحيحة، وصحتها بالتمييز ولم يوجد، وهذا التعليل يفيد التفصيل في الصبي، فليكن هو المعتبر إن كان مميزاً وجب بالسماع منه وإلا فلا اهـ واستحسنه في الحلية"(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (ردالمحتار) (2/ 107)
يجب على من تلا آية من أربع عشر آية .... وعلى من سمع ولو غير قاصد إلخ ( مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر ج1 ص ٢٣١)
واللہ اعلم
شکیل منصور القاسمی
http://saagartimes.blogspot.com/2020/02/blog-post_3.html?m=1
No comments:
Post a Comment