قلوب کے دروازے کھلنے کا ضابطہ
_دعوت و تبلیغ سے منسلک ساتھیوں کے لئے ایک اہم نصیحت_
(حکایت وواقعہ)
ایک مرتبہ حضرت جی مولانا انعام الحسن صاحب رحمة الله علیہ سے کسی میواتی نے کہا کہ حضرت! ایک پرانا ساتھی کام سے دور ھوگیا! ہم نے بہت کوشش کی اور بہت سمجھایا لیکن وہ مان کر نہیں دیتا بلکہ ہم پر غصہ بھی کرتا ہے!
حضرت جی نے فرمایا:
ارے بھائی ایسے کام تھوڑے ہی چلے! قلوب تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں، اس ذات اقدس کے سامنے گڑگڑایا ہوتا! اور شکوہ گلہ کیا ھوتا کہ اے اللہ! وہ ہمارا بھائی ہم سے بہتر ہے اس سے تُو دعوت کا کام لے لے، جس طرح ہم نکموں کو قبول کیا، اسے بھی قبول فرما!
رات کو اللہ کو مناتے اور پھر دن میں اپنے بھائی کے پاس کچھ ہدیہ لے کر جاتے اور اسے دعوت دینے کی بجائے اپنی کارگذاری سناتے اور بغیر تشکیل کئے، اٹھتے ہوئے دعاؤں کی درخواست کرتے، ادھر تم مسجد پہنچتے اور ادھر وہ تمہارے پیچھے ہو لیتا!
تم نے تو اس بیچارے پر برسنا شروع کردیا، جب کہ اس کا قلب بھی اس کے ہاتھ میں نہیں!
بڑے حضرت جی کے وقت میں، جب ہمیں گشتوں میں بھیجا جاتا تو اور نصیحتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہاجاتا کہ دیکھو! تم مسلمانوں سے ملنے جارہے ہو! تو نیت کرلو کہ ہم مسلمان کے گھر نیکی اور خوبی حاصل کرنے جارہے ہیں! اس لئے کہ ہر مسلمان خوبیوں کی (کان) ہے!
اب تم نے اس نیت سے اس کے گھر کا دروازہ کھٹکایا تو دراصل تم (فقیر و بھکاری) ٹھہرے۔ اس نے کہا جاؤ مجھے کچھ نہیں سننا ہے چونکہ تم خیر کی تلاش میں اس کے گھر بھکاری بن کر گئے ہو، تو گھر والے کو اختیار ہے کہ تمہیں کچھ خیرات دے، یا دھتکار دے!
تمہاری اس نیت کی وجہ سے وہ عذاب الہی سے محفوظ رہا!
خدانخواستہ اگر تم داعی بن کرجاتے ھو اور وہ شخص داعی کے ساتھ بد سلوکی کرتا، تو ہلاک ہوجاتا! اور اس کی ہلاکت کا سبب تم ہوئے! اس لئے کہ وہ غریب اپنے بال بچوں میں عافیت کے ساتھ بیٹھا تھا! تم داعیوں کی دعوت کے انکار کی وجہ سے وہ مفت میں مارا گیا!
اس لئے داعی بن کر نہ جاؤ! بھکاری بن کر جاؤ!
_زور و طاقت سے گھروں کے دروازے کھلتے ہیں!_
_آہ و زاری سے قلوب کے دروازے اللہ کھولتے ہیں!_
داعی کے بیان کی پہچان ہی یہی ہے کہ دوران بیان اس کی نگاہ اللہ کی ذات پر ہوتی ہے! کہ اے اللہ میں بھی ہدایت کا محتاج اور یہ سامنے والے بھی!
واعظ کے بیان کی پہچان یہ ہے کہ دوران بیان اس کی نگاہ الفاظ ومعانی اور اسناد و دلائل پر لگی رہتی ہے!
واعظ کے مخاطب سامنے والے ہوتے ہیں جبکہ داعی کا مخاطب خود اس کی اپنی ذات ہوتی ہے!
جو داعی تہجد کی دعا میں، اللہ کے سامنے اپنے ذلیل ہونے اور چھوٹا ہونے کا اقرار کرتا ہے اور دن میں اپنے ساتھیوں میں، اپنی کمتری اور اپنے بڑا نہ ہو نے کا اقرار کرے، تو اس کی دعوت انسانوں کے قلوب کو چیرتی ہوئی اندر اتر جاتی ہے!
رات میں اللہ کے سامنے تو اپنی پستی کا اقرار کیا اور دن میں اپنے بڑے ہونے کا ڈنکا پیٹے، ایسے شخص کو دعوت کی ہوا بھی نہیں لگی!
یہ ہماری گذارشات ہمارے محسنوں تک پہچ جائیں تو بھلا ہو!
http://saagartimes.blogspot.com/2020/02/blog-post_7.html?m=1
No comments:
Post a Comment