Monday 10 February 2020

عورتوں کا احتجاجی دھرنے پہ بیٹھ جانا؟

عورتوں کا احتجاجی دھرنے پہ بیٹھ جانا؟

دین اسلام کی بنیاد ہی "دفع ضرر،  رفع حرج  اور جلب منفعت" یہ قائم ہے۔ 
دین ومذہب، جان (عزت و آبرو)، عقل، نسل اور مال کی حفاظت اور ان مصلحتوں سے متعلق نقصانات وفسادات کا دفعیہ وازالہ نزول شریعت اسلامی  کا  اہم  مقصد ہے ۔ 
حلال وحرام اور رخصت وگنجائش کا سارا قانون الہی انہی مقاصد ومفاسد کے دائرے میں گھومتا ہے۔ 
اسلام نے مکلفین کے ضروری اور بنیادی حقوق کی خود بھی حفاظت کی ہے اور مکلفین کو بھی اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے وسعت بھر کوششیں کرنے کا ذمہ دار بنایا ہے۔
جمہوری ریاست اپنی رعایا کی جان، مال، عزت وآبرو اور بنیادی حقوق کی حفاظت کو یقینی بنانے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ اگر ارباب اقتدار اور حکمراں رعایا کے کسی خاص طبقے کے ساتھ جانبداری کا مظاہرہ کریں، اس کے حقوق کی پاسداری نہ کریں یا دستور وآئین میں دیئے گئے اس کے حقوق یا مذہبی آزادی کو دبانے کی کوئی کوشش کریں تو اب اس طبقہ کے ہر فرد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے بنیادی ومذہبی حقوق کی حصولیابی کے لئے ان ظالم حکمرانوں کے خلاف آٹھ کھڑا ہو ، آئینی ودستوری حقوق کے لئے طاقت بھر کوشش کرے۔ آئینی جد وجہد کے ساتھ پرامن عملی جد وجہد بھی جاری رکھے۔ ریاست کے ظلم وناانصافی کے سامنے خاموش ہوجانا اس کی زیادتی اور تعدی کو فروغ دینے اور ظلم وظالم کا ساتھ دینےکے مرادف ہے۔ مذہب اسلام میں ظلم کرنا اور ظلم سہنا دونوں کی ممانعت ہے۔ جب ظلم وستم حد سے بڑھ جائے، ریاستی جبر واستبداد انتہاء کو پہنچ جائے۔ روح انسانیت بری طرح گھائل ہونے لگے، عددی طاقت کے بل بوتے  کمزور وبے بس عوام اور اقلیتی طبقوں کی مذہبی آزادی اور آئینی  عدل ومساوات پہ مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے ڈاکہ ڈالا جانے لگے، مذہبی عبادت گاہوں کو عدالتی ہتھوڑوں کی آڑ میں چھینا جانے لگے تو اب مجبور ومقہور طبقہ کے ہر فرد وہر صنف کی ذمہ داری ہے کہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے صدائے احتجاج بلند کرے ۔ انفرادی آواز سیاسی بازیگروں کو متاثر نہیں کر پاتی،  اجتماعی آواز ہی حکومتی اور ریاستی اداروں میں قابل التفات وسماع ہوتی ہے ۔ اور میڈیا میں بھی جگہ پاتی ہے۔
مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی اپنے حقوق کے مطالبے کے لئے شرعی حدود میں رہتے ہوئے آواز بلند کرنا ضروری ہے ۔
حقوق کی بازیابی اور عدل و انصاف ومساوات  کے قیام کے لئے حکمرانوں سے مطالبہ کرنے کو حدیث رسول میں "افضل الجھاد" کہا گیا  ہے۔ (أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ؟ قَالَ كَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ ۔۔سنن النساي 4209) 
دین کی سربلندی اور حفاظت کے لئے کی جانے والی ہر کوشش "جہاد" شمار ہوتی ہے۔
إِنَّ الْجِهَادَ بَذْلُ الْجُهْدِ فِی دَفْعِ مَا لَا يُرْضَی.
(آلوسی، روح المعانی ، 10: 137)
(’’کسی ناپسندیدہ (ضرر رساں) شے کو دور کرنے کے لئے کوشش کرنے کا نام جہاد ہے۔‘‘)
اَلْجِهَادُ والْمُجَاهَدَةُ : اِسْتِرَاغُ الْوُسْعِ فِيْ مُدَافَعَةِ العُدُوِّ. (راغب الصفهانی، المفردات: 101)
(دشمن کے مقابلہ ومدافعت میں فوراً اپنی پوری قوت وطاقت صرف کرنا جہاد کہلاتا ہے۔)
جب دین کی حفاظت مشکل ہوجائے ، مذہب کی شان و شوکت خطرے میں پڑجائے، مسلمانوں کی توہین وتذلیل کی فضا عام ہوجائے ، کفار مسلمانوں کے خلاف کھلی جنگ پر اتر آئیں، اور ان پر ناحق ظلم و ستم کا بازار گرم کرنے لگیں تو اعزاز اسلام ،  اعلاء كلمة الله اور  دین کی سربلندی اور حفاظت کے لئے دشمنوں کے ساتھ محاذ آرائی، قتال اور مسلح جدوجہد بھی فرض ہوجاتی ہے، لیکن یہ عام نہیں ہے، اس کے لئے چند شرطوں کا تحقق لازمی ہے ۔
 اس دوسری شکل کو زیادہ تر "قتال" کے لفظ سے بھی تعبیر کرتے ہیں، لیکن لفظ جہاد کا استعمال دونوں مفہوموں پہ ہوتا ہے۔
مسلح جدوجہد اور محاذ آرائی کی فرضیت کی من جملہ شرائط میں "ذکورت" یعنی مرد ہونا بھی ہے۔  عمومی احوال اور نارمل حالات میں دشمنوں سے مسلح جد وجہد "صنف نازک " پہ فرض نہیں ہے ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بعض غزوات میں مرہم پٹی، مجاہدوں کا کھانا پکانے، اسلحہ اور رسد رسانی، پیغام رسانی وغیرہ کی خدمات انجام دینے کے لئے سن رسیدہ عورتوں کا  ساتھ نکلنا ثابت ہے ، بعض صحابیات کا نیزہ اور تلواریں چلانا اور قتال میں شریک ہونا بھی ثابت ہے ؛ لیکن یہ ان کا اختیاری اور صوابدیدی عمل تھا، نہ کہ تشریعی اور واجبی! 
بعض صحابیات کی غزوات میں صوابدیدی شرکت بھی غزوہ بدر، احد اور احزاب میں ہوئی ہے ، احزاب کے بعد جب حجاب و ستر اور پردہ کے احکام نازل ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کی غزوات میں شرکت کی تحسین نہیں؛ بلکہ حوصلہ شکنی فرمائی ہے۔
غزوہ خیبر (جو سنہ 7 ہجری میں پیش آیا) کے موقع سے آپ نے عورتوں کی شرکت پہ سخت برہمی کا اظہار فرمایا:
عَنْ حَشْرَجَ بْنِ زِیَادٍ عَنْ جَدَّتِہٖ اُمِّ اَبِیْہِ اَنَّھَا خَرَجَتْ مَعَ النَّبِیِّ ﷺ فِیْ غَزْوَۃِ خَیْبَرَ سَادِسَ سِتِّ نِسْوَۃٍ، فَبَلَغَ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ فَبَعَثَ اِلَیْنَا فَجِئْنَا فَرَاَیْنَا فِیْہِ الْغَضَبَ، فَقَالَ: مَعَ مَنْ خَرَجْتُنَّ وَبِاِذْنِ مَنْ خَرَجْتُنَّ؟ قُلْنَا: یَا رَسُوْلَ اللہِ خَرَجْنَا نَغْزِلُ الشَّعْرَ وَنُعِیْنُ بِہٖ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَمَعَنَا دَوَاءُ الْجَرْحٰی وَنُـنَاوِلُ السِّھَامَ وَنَسْقِی السَّوِیْقَ، قَالَ: قُمْنَ فَانْصَرِفْنَ حَتّٰی اِذَا فَتَحَ اللہُ عَلَیْہِ خَیْبَرَ اَسْھَمَ لَنَا کَمَا اَسْھَمَ لِلرِّجَالِ، فَقُلْتُ لَھَا: یَا جَدَّۃُ وَمَا کَانَ ذٰلِکَ؟ قَالَتْ تَمْرًا (سنن ابی داود 2729)، بیہقی سنن الکبری 6/333. معالم السنن 266/2)..
’’حشرج بن زیاد اپنی دادی سے روایت کرتے ہیں کہ وہ غزوۂ خیبر کے موقع پر آنحضرت صلی اللہُ علیہ وسلم کے ساتھ نکلیں. پانچ عورتوں کے ساتھ چھٹی وہ تھیں. کہتی ہیں کہ جب حضور اکرم صلی اللہُ علیہ وسلم کو ہمارے نکلنے کی اطلاع ہوئی تو آپ صلی اللہُ علیہ وسلم نے ہمیں بلوایا. ہم حاضر ہوئیں تو ہم نے آپ صلی اللہُ علیہ وسلم کو غضب ناک پایا. آپ صلی اللہُ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’تم کس کے ساتھ نکلیں اور کس کی اجازت سے نکلیں؟‘‘ ہم نے عرض کیا: ہم چلی آئی ہیں‘ ہم اون کاتیں گی اور اس کے ذریعے اللہ کی راہ میں مدد کریں گی. ہماے ساتھ کچھ مرہم پٹی کا سامان بھی ہے‘ ہم تیر پکڑا دیں گی‘ ستو گھول کر پلادیں گی. آپ صلی اللہُ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چلو‘ واپس جاؤ‘‘. پھر جب اللہ نے خیبر کو فتح کرا دیا تو حضور اکرم صلی اللہُ علیہ وسلم نے ہم کو مردوں کی طرح حصہ دیا. میں نے پوچھا: دادی کیا چیز ملی تھی؟ دادی نے کہا: کھجوریں!‘‘ 
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْھَا اَنَّھَا قَالَتْ: یَارَسُوْلَ اللہِ نَرَی الْجِھَادَ اَفْضَلَ الْعَمَلِ، اَفَـلَا نُجَاھِدُ؟ قَالَ : لَا، لٰکِنَّ اَفْضَلَ الْجِھَادِ حَجٌّ مَبْرُوْرٌ (صحیح بخاری 2784)
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہُ صلی اللہُ علیہ وسلم سے دریافت کیا: یارسول اللہ! ہم جہاد کو سب سے افضل نیکی سمجھتی ہیں‘ تو کیا ہم جہاد نہ کریں؟ نبی اکرم صلی اللہُ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں‘ بلکہ تمہارے لئے سب سے افضل نیکی حج مبرور ہے.‘‘
صحیح بخاری کے الفاظ یہ ہیں: جِھَادُکُنَّ الْحَجُّ ’’تمہارا جہاد حج ہے.‘‘)
جہاد بمعنی قتال متعدد شرطوں کے ساتھ عمومی احوال میں فرض کفایہ ہے، اور اس کا مقصد وغایت  یہ ہے کہ مسلمان اپنی دینی اور دنیوی مصلحتوں کو بآسانی سرانجام دے سکیں:
امام سرخسی فرماتے ہیں: والمقصود ان یامن المسلمون و یتمکنوا من القیام بمصالح دینھم و دنیاھم۔ [المبسوط، کتاب السیر، ج10، ص4] ترجمہ:[مقصود یہ ہے کہ مومن امن سے رہیں اور ان کے لیے اپنے دین اور دنیا کے مصالح کا حصول ممکن ہوسکے۔]
عورتوں پہ نارمل حالات میں قتل وقتال میں شرکت واجب نہیں، لیکن مسلمانوں کی تعداد بالکل قلیل ہو اور دشمن یک جٹ ہوکے مسلمانوں پہ ٹوٹ پڑیں اور گھمسان کی رن پڑنے لگے تو عورت مرد غلام وآزاد سب پہ یکساں مسلح جد وجہد کرنا ضروری اور فرض ہوجاتا ہے۔
لا يعجبنا أن يقاتل النساء مع الرجال في الحرب ; لأنه ليس للمرأة بنية صالحة للقتال , كما أشار إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم في قوله: "هاه , ما كانت هذه تقاتل". وربما يكون في قتالها كشف عورة المسلمين , فيفرح به المشركون وربما يكون ذلك سببا لجرأة المشركين على المسلمين, ويستدلون به على ضعف المسلمين فيقولون : احتاجوا إلى الاستعانة بالنساء على قتالنا , فليتحرز عن هذا , ولهذا المعنى لا يستحب لهم مباشرة القتال, إلا أن يضطر المسلمون إلى ذلك , فإنّ دفع فتنة المشركين عند تحقق الضرورة بما يقدر عليه المسلمون جائز بل واجب ۔۔ ۔(السرخسي /  شرح السير الكبير (1/184) باب قتال النساء مع الرجال وشهودهن الحرب)
 ويشترط لوجوب الجهاد سبعة شروط ; الإسلام , والبلوغ , والعقل, والحرية , والذكورية , والسلامة من الضرر , ووجود النفقة . فأما الإسلام والبلوغ والعقل , فهي شروط لوجوب سائر الفروع , ولأن الكافر غير مأمون في الجهاد , والمجنون لا يتأتى منه الجهاد والصبي ضعيف البنية , وقد روى ابن عمر , قال : عرضت على رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم أحد وأنا ابن أربع عشرة , فلم يجزني في المقاتلة . متفق عليه . ...... وأما الذكورية فتشترط ; لما روت عائشة , قالت: يا رسول الله , هل على النساء جهاد؟ فقال: جهاد لا قتال فيه; الحج , والعمرة . ولأنها ليست من أهل القتال ; لضعفها .. المغني/ابن قدامہ  9/163)
فأما إذا عم النفير بأن هجم العدو على بلد , فهو فرض عين يفترض على كل واحد من آحاد المسلمين ممن هو قادر عليه ; لقوله سبحانه وتعالى (انفروا خفافا وثقالا) قيل : نزلت في النفير . وقوله سبحانه وتعالى (ما كان لأهل المدينة ومن حولهم من الأعراب أن يتخلفوا عن رسول الله ولا يرغبوا بأنفسهم عن نفسه۔۔۔۔۔ بدائع الصنائع للکاسانی  7/98.)
أن الجهاد إذا تعيّن بأن هجم العدو على بلاد المسلمين فإنه يجب على كلّ قادر عليه من الرجال والنساء .(الشرح الصغير  ..2/274) 
 جہاد بمعنی قتال کی فرضیت کے تو متعدد شرائط ہیں، جن میں مرد ہونا بھی ایک شرط ہے؛ لیکن جہاد بمعنی حقوق کی بازیابی کیلئے بساط بھر کوشش کرنا کے لئے مرد ہونے کی کوئی شرط نہیں ہے۔
ہر شہری خواہ مرد ہو یا عورت، اپنے حقوق کے مطالبہ کے لئے جد وجہد کرنے اور اس کے لئے زمانہ کے تقاضوں سے ہم آہنگ مفید، موثر اور نتیجہ خیز احتجاجی کوششیں کرنے میں شرعا وقانونا مکمل آزاد ہے ۔
مظلوم اور معاشرہ میں دبے کچلے اور پسے ہوئے طبقہ کے حقوق کی فراہمی اور بازیابی کی کوشش میں اسلام سے پہلے بھی ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شرکت فرمائی ہے اور اسلام کے بعد خلفاء کے ادوار میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا ۔
سنہ 590 عیسوی ماہ ذی قعدہ میں عبد اللہ بن جدعان کے مکان پر مکہ مکرمہ میں قریش کے معزز سرداروں کے ہمراہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیس سال کی عمر میں ایک معاہدے میں شرکت فرمائی تھی۔ جو "حلف الفضول" کے نام سے مشہور ہوا۔
یمن کے ایک تاجر (قبیلہ زبید کے) شخص پہ مکہ کے قد آور شخص عاص بن وائل نے ظلم کیا تھا ۔سامان لیکر قیمت ہضم کرگیا تھا۔اس مظلوم کی مدد اور دکھی انسانیت کے ساتھ ہمدردی کی متحدہ آواز کے طور پر ایک کمیٹی قائم ہوئی تھی۔
زمانہ جاہلیت میں بھی اس طرح کی کمیٹی قائم تھی جس کے روح رواں اور بانی مبانی "فضل " نامی تین اشخاص ("الفضل بن مشاعة" "الفضل بن مضاعة" اور "الفضل بن قضاعة") تھے۔
جب آپ کے زمانے میں اس کمیٹی کا احیاء ہوا تو اسے اسی نام (تینوں فضل) کے ساتھ موسوم "حلف الفضول" کردیا گیا۔
یہ معاہدہ در اصل مقتدر طبقہ کے ظلم وتعدی کے خلاف ایک اجتماعی آواز، (احتجاج) ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور مظلوم ومقہور کے حقوق کی بازیابی اور داد رسی  کے عملی جد وجہد کی ایک  شکل تھی۔آپ علیہ السلام کا فرمان ہے:
«لقد شهدت في دار عبدالله بن جدعان حلفًا ما أُحب أن لي به حمر النعم، ولو أُدعي به في الإسلام لأجبت» (میں دار ابن جدعان میں حلف الفضول کے موقع پر شریک ہوا تھا۔ مجھے اگر اس کے احیاء کی دعوت دی جائے تو میں اسے قبول کرلوں گا کیونکہ مجھے یہ معاہدہ سرخ اونٹوں سے کہیں زیادہ عزیز ہے۔“)
(لقد شَهِدتُ مع عمومَتي حِلفًا في دارِ عبدِ اللَّهِ بنِ جُدعانَ ما أُحبُّ أن لي بهِ حُمْرَ النَّعَمِ ، ولَو دُعيتُ بهِ في الإسلامِ لأجَبتُ . .فقه السيرة - الرقم: 72 ۔۔۔۔”
میں دار ابن جدعان میں حلف الفضول کے موقع پر اپنے چچائوں کے ساتھ شریک ہوا تھا۔ مجھے اگر اسکے ا حیاءکی دعوت دی جائے تو میں اسے قبول کرلوں گا کیونکہ مجھے یہ معاہدہ سرخ اونٹوں سے کہیں زیادہ عزیز ہے۔“)
جب ایک کافر شخص سے ظلم وتعدی اور جبر وقہر کے دفعیہ اور ازالہ کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز اٹھانے کو اتنی پسندیدگی کی نظر  سے دیکھا تو غور کیا جاسکتا ہے کہ کسی ملک میں اگر  پوری مسلم قوم ریاستی جبر واستبداد کا شکار ہوجائے،  ان کا دین، ان کی جان اور عزت و آبرو سخت خطرات کی زد میں ہو، حراستی مراکز میں ٹھونس کر سب کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کئے جانے کی ساری تیاریاں مکمل کرلی گئی ہوں ۔ تبدیلی مذہب کے بادل سروں پر منڈلا رہے ہوں تو ایسے وقت میں پوری مسلم قوم کے بنیادی حقوق کی بازیابی کے لئے  احتجاج کرنا اور منظم پر امن جد وجہد کرنا کتنا ضروری اور موکد ہوجاتا ہے؟ 
عورتوں کے لئے عزیمت یہی ہے کہ وہ گھروں میں رہیں، گھر کے کونہ کو ان کے لئے بہترین جگہ قرار دیا گیا ہے، گھروں سے نکلنے میں ان کے لئے مخلتف خطرات ومفاسد کا خدشہ ہوتا ہے ۔
لیکن مصالح وضروریات (وعظ ونصیحت سننے کے لئے، والدین سے ملاقات کے لئے، مسجد میں نماز کے لئے، علاج ومعالجہ کے لئے، مقدمات میں شہادت  وغیرہ وغیرہ) کے لئے آرائش وزیبائش سے اجتناب  اور  پردہ شرعی کی مکمل رعایت کے ساتھ  عورتوں کا گھروں سے نکلنا "رخصت" وجائز ہے ۔
 {وَقَرْ‌نَ فِي بُيُوتِكُنَّ} [الأحزاب:33]. میں گھر میں رہنے کا حکم اور باہر نکلنے کی ممانعت مطلق نہیں ہے۔ بلکہ بغیر ضرورت نکلنے کے لئے یہ حکم ہے۔ پردے کے اہتمام اور عزت وآبرو کے تحفظ کی یقینی صورت حال کی موجودگی میں  پردے کی حدود وقیود کے ساتھ نکلنے کی اجازت  ہے۔ اسی لئے اس کےمعا بعد یہ فرمادیا گیا:
{وَلَا تَبَرَّ‌جْنَ تَبَرُّ‌جَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ} یعنی آرائش وزیبائش کے ساتھ مائلات وممیلات بن کر نہ نکلو  ۔
شہریت ترمیمی قانون مسلمانوں کے دین و مذہب پہ راست حملہ ہے اور  شہریت دینے کی آڑ میں مسلمانوں سے شہریت چھین کر انہیں مرتد کردینے کے لئے سازشی جال ہے۔ یہ دستور ہند کے متصادم ظالمانہ وجابرانہ قانون ہے، اگر اس سیاہ ترین قانون پہ عمل در آمد ہوگیا تو ہندوستان میں مسلمانوں کا دین ومذہب بچے گا اور نہ مسلمانوں کی جان مال عزت وآبرو محفوظ رہ سکے گی۔
دین اور جان مال وعزت وآبرو کا تحفظ اسلام کا اصول اور دستور ہے، اس سے بڑی اور حساس  ضرورت بھلا اور کیا ہوسکتی ہے؟
ویسے بھی ملکی آئین کے لحاظ سے عورتوں کی آواز احتجاج مردوں کی بہ نسبت جلد قابل سماع ہوتی ہے۔ اس لئے "تحفظ دین وجان" کی مصلحت ضروریہ کی رعایت میں خواتین پر امن طریقے سے سڑکوں پہ آتی ہیں تو اس کی شرعا گنجائش ہے ۔
لیکن شرط یہ ہے کہ انہیں لاوارث اور بے یار ومددگار سڑکوں پر نہ چھوڑدیا جائے، مرد حضرات اپنی نگرانی میں ان کی عزت وآبرو کے تحفظ کو ہر طرح یقینی بنائیں ، کفار ومشرکین کہیں بھی کسی بھی طور ان پہ نظر بد ڈالنے یا ان کی آبرو ریزی یا توہین واستخفاف میں کامیاب نہ ہوسکے ۔
اگر کہیں ان کی عفت وعصمت خطرات کی زد میں آنے کا مظنہ ہو تو پھر "درء المفاسد اولی من جلبالمنافع "  کے اصول کے تحت ان کا دھرنا غیرشرعی قرار پائے گا۔
عورتوں کے ساتھ اگر مرد موجود نہ ہوں تو ظالموں کی زبان دراز ہوگی اور وہ یوں کہیں گے کہ مسلمان گھروں میں سوئے ہوئے ہیں اور ہم سے مقابلہ کے لئے انھوں نے اپنی عورتوں کو ڈھال بنالیا! 
علامہ سرخسی نے تقریبا یہی بات آج سے سینکڑوں سال قبل لکھی ہے:
"فيفرح به المشركون وربما يكون ذلك سببا لجرأة المشركين على المسلمين , ويستدلون به على ضعف المسلمين فيقولون: احتاجوا إلى الاستعانة بالنساء على قتالنا" (السرخسي/  شرح السير الكبير (1/184)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں  مرہم پٹی یا رسد رسانی وغیرہ کے لئے جو خواتین شریک ہوتی تھیں وہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صفوں کے بعد ہوتی تھیں ، مرد کی صفوں کو پھلاندکر مشرکین کا عورتوں کے جمگھٹے میں پہنچ جانا ممکن نہیں تھا، وہ پوری طرح مردوں کے تحفظاتی حصار میں محصور ہوتی تھیں۔
 سڑکوں پہ دھرنا پہ بیٹھی خواتین اگر اس طرح مردوں اور حفاظتی دستوں کے حصار میں محفوظ اور  شرعی پردے میں ملبوس  رہیں تو ان کے دھرنے میں کوئی شرعی مضائقہ نہیں، لیکن بے پردگی یا عفت وعصمت اور عزت و آبرو کے تحفظ کی کوئی یقینی شکل نہ ہو تو شرعا گنجائش نہیں ۔
بعض لوگ مردوں کے ساتھ معمولی اختلاط کو وجہ بنا کر خواتین کے دھرنے کو متنازع بناتے ہیں، اور اسے ناجائز کہتے ہیں۔ حالانکہ یہ  درست استدلال نہیں ہے۔ 
یقینا خواتین کے  دھرنے کا جواز  مردوں کے ساتھ عدم اختلاط کی شرط کے ساتھ ہی مشروط ہے؛ لیکن اس اہتمام واشتراط کے باوجود کثرت ازدہام کے باعث بعض حفاظتی دستوں کا غیر ارادی طور پر  تبعاً اختلاط ہوجائے تو قابل معافی ہے۔ خواتین با پردہ ہوں اور  کثرت ازدہام  کے باعث معمولی اختلاط ہوجائے تو معفو عنہ ہے، ایام حج میں باپردہ خواتین کا دوران طواف غیرارادی طور پر تبعا مردوں کے ساتھ جسمانی اختلاط ہو ہی جاتا ہے جو ہر ایک کے ہاں قابل عفو ہے۔ ایسا ہی اگر دھرنوں کے دوران تبعا کہیں اختلاط ہوجائے تو قابل اغماض ہے۔
لیکن ہاں!  لڑکیوں کے ساتھ قصدا چپک کے بیٹھنا، سیلفیاں لینا، احتجاجی دھرنوں کے مقصد سے دور دراز شہروں اور مقامات  کا بغیر محرم سفر کرنا  انتہائی بے غیرتی اور بے شرمی کی بات ہے، جس پہ روک لگانے کی  سخت ضرورت ہے ۔
واللہ اعلم

http://saagartimes.blogspot.com/2020/02/blog-post_10.html?m=1

No comments:

Post a Comment