احادیث کی روشنی میں حجاب
یہاں سب سے پہلے وہ احادیث پاک ذکر کی جاتی ہیں‘ جن سے ہمیں معلوم ہوگا کہ صحابیات کس قدر پردہ کا اہتمام کرتی تھیں اور پردہ کے معاملے میں ان کے ہاں کوئی کوتاہی نہ تھی‘ وہ ہرعام وخاص اور اجنبی شخص سے حتی کہ حضور اقدس ا سے بھی پردہ کرتی تھیں اور اس میں اس قدر اہتمام ہوتا تھا کہ تمام بدن مع چہرہ کے چھپاتی تھیں۔ صحابیات کا حضورا سے پردہ احکامِ حجاب کے نزول کے بعد صحابیات رضی اللہ عنھم پردہ کا بہت اہتمام کرتی تھیں‘ حتی کہ حضور صلى الله عليه وسلم سے بھی پردہ کرتی تھیں اور بے حجاب آپ صلى الله عليه وسلم کے سامنے بھی نہیں آتی تھیں‘ کوئی مسئلہ پوچھنا ہوتا یا کوئی چیز دینی لینی ہوتی تب بھی پردہ کے پیچھے ہی سے بات کرتی تھیں‘ چنانچہ ایک طویل حدیث کے ذیل میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ:
”عن عائشہ رضی اللہ عنھا نہی اللہ عنہا قالت او مأت امراء ة من وراء ستر بیدہا کتاب الی رسول اللہا‘ فقبض النبی ا یدہ‘ فقال ما ادری اید رجل ام ید امرأة؟ قالت بل ید امرأة۔ قال: لو کنت امرأة لغیرت اظفارک یعنی بالحناء“۔ (ابوداؤد: ص: ۵۷۴‘ ج: ۲)
ترجمہ:- ایک عورت کے ہاتھ میں پرچہ تھا اس نے پرچہ دینے کے لئے پردہ کے پیچھے سے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی طرف ہاتھ بڑھایا‘
آپ صلى الله عليه وسلم نے ہاتھ روک لیا اور فرمایا کہ: نہ معلوم مرد کا ہاتھ ہے یا عورت کا؟ اس نے کہا کہ یہ عورت کا ہاتھ ہے۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر تم عورت ہوتیں تو اپنے ناخنوں پر مہندی لگاتیں۔
فائدہ: یہ حدیث واضح طور پر اس بات کی دلیل ہے کہ صحابیات آنحضرت صلى الله عليه وسلم سے بھی پردہ کرتی تھیں‘ اس لئے اس عورت نے پردہ کے پیچھے سے پرچہ دینے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ اگر بے پردہ سامنے آنے کی اجازت ہوتی تو پردہ کی کیا ضرورت تھی‘ نیز اگر پردہ جو اس عورت نے کیا ہوا تھا شریعت کے خلاف ہوتا تو حضور صلى الله عليه وسلم اسے ضرور ٹوکتے کہ اس کی حرکت آگے چل کر بڑی گمراہی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ ازواج مطہرات رضی اللہ عنھم کا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے پردہ حضرات صحابیات رضی اللہ عنھم پردہ کا بہت اہتمام کرتی تھیں‘ حتی کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم سے بھی پردہ کرتیں تھیں‘ اس طرح ازواج مطہرات رضی اللہ عنھم بھی باوجود اس کے کہ وہ قرآنی حکم کے مطابق امت کی مائیں ہیں اور وہ امت کے ہر ہر فرد پر ہمیشہ کے لئے حرام ہیں‘ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے پردہ کرتیں تھیں‘ چنانچہ واقعہ افک کی تفصیلی حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا بیان ہے:
ترجمہ:․․․”میں آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے ساتھ نزول حجاب کے بعد غزوہ میں شریک ہوئی جب انہوں نے اونٹ کھڑا کیا اور اس کو لے کر چلے گئے تب میں لشکر گاہ واپس پہنچی‘ وہاں اس وقت نہ کوئی آواز لگانے والا باقی تھا اور نہ کوئی جواب دینے والا‘ سب لوگ لشکر کے ساتھ جاچکے تھے‘ میں نے اپنی چادر اوڑھ لی اور اسی جگہ لیٹ گئی‘ تھوڑی دیر بعد وہاں سے صفوان بن معطل گزرے‘ وہ اپنی کسی ضرورت کی بنا پر لشکر سے پیچھے رہ گئے تھے اور انہوں نے رات عام لوگوں کے ساتھ نہیں گزاری تھی‘ انہوں نے میرا ہیولہ دیکھا تو پہچان گئے‘ انہوں نے مجھے نزول سے پہلے دیکھا تھا‘ انہوں نے زور سے ”انا للہ وانا الیہ راجعون“ پڑھا‘ میں ان کی آواز سن کر جاگ گئی اور فوراً چادر سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ (صحیح مسلم‘ ج: ۲ ص: ۳۶۴)
فائدہ: اس حدیث سے ازواج مطہرات کا پردہ کرنا کئی طرح سے ثابت ہوتا ہے اول تو اس واقعہ میں جو سبب حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے جنگل میں رہ جانے کا پیش آیا تھا‘ وہ یہی تھا کہ ازواج مطہرات کا پردہ صرف برقع یا چادر ہی کا نہیں تھا‘ بلکہ سفر میں بھی اپنے ہودج (کجاوہ) میں رہتی تھیں یہ ہودج کمرے کی طرح ہوتاتھا جو پورا کا پورا اونٹ کے اوپر رکھ دیا جاتا تھا اور اس طرح اتار دیا جاتا تھا‘ ہودج مسافر کے مکان کی طرح ہوتا ہے۔ جب قافلہ چلنے لگا تو حسبِ عادت خادموں نے ہودج کو یہ سمجھ کر اونٹ پر سوار کردیا کہ ام المؤمنین اس کے اندر موجود ہیں‘ حالانکہ وہ اس کے اندر موجود نہیں تھیں‘ بلکہ طبعی ضرورت کے لئے باہر گئی ہوئی تھیں‘ اس مغالطہ میں قافلہ روانہ ہوگیا اور ام المؤمنین جنگل میں تنہا رہ گئیں‘ خدام اندر جھانک کر اس لئے نہیں دیکھ سکتے تھے کہ نزول حجاب کے بعد ایسا کرنا ممکن نہ رہا تھا۔ یہ واقعہ اس بات کا بھی قوی شاہد ہے کہ حضور صلى الله عليه وسلم کے زمانہ میں عورتیں بالعموم اپنے گھروں میں رہا کرتی تھیں اور خود سفر میں بھی ہودج کا اہتمام کرتی تھیں جو عارضی طور پر چار دیواری کا کام دیتا تھا پھر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ ضرورت سے فارغ ہوکر جنگل سے واپس آکر جب میں نے دیکھا کہ قافلہ چلا گیا تو میں بیٹھ گئی‘ یہ سوچ کر کہ جب حضور صلى الله عليه وسلم کو پتہ چلے گا تو میری تلاش میں واپس تشریف لائیں گے‘ نیند کا غلبہ ایسا ہوا کہ وہیں پڑکر سوگئی‘ صبح کو حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ وہاں سے گزرے تو دور سے کسی کو پڑا دیکھ کر ادھر آئے تو وہ مجھے دیکھتے ہی پہچان گئے‘ کیونکہ حجاب کے حکم سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکے تھے‘ مجھے پہچان کر انہوں نے” انا للہ وانا الیہ راجعون“ پڑھا تو ان کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی اور میں نے اپنی چادر سے اپنا منہ ڈھانک لیا۔ اب اس حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا یہ فرمانا کہ انہوں نے مجھے نزول حجاب سے پہلے دیکھا تھا‘ خود بتارہاہے کہ نزولِ حجاب کے بعد کسی بھی غیر شخص کے لئے ام المؤمنین کو دیکھنا ممکن نہ رہا تھا۔ پھر یہاں بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے حضرت صفوان کو دیکھ کر فوراً ہی چادر سے منہ کو چھپالیا تھا‘ جس سے معلوم ہوا کہ آپ پردہ کا بہت اہتمام کرتی تھیں اور یہ کہ پردہ میں خود چہرہ چھپانا بھی لازمی ہے‘ ورنہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا محض چادر اوڑھ لینے پر اکتفاء کرلے تیں۔
ازواج مطہرات کے مسلمانوں کی ماں ہونے کے باوجود امت سے پردہ کا اہتمام حضرت صفیہ رضی اللہ عنھا کے نکاح کے واقعہ سے بھی معلوم ہوتا ہے‘ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سید عالم صلى الله عليه وسلم نے تین روز خیبر اور مدینہ کے درمیان قیام فرمایا‘ تینوں دن حضرت صفیہ رضی اللہ عنھا نے آپ کے ساتھ شب باشی کی‘ اور وہیں جنگل میں ولیمہ ہوا‘ ولیمہ میں گوشت روٹی نہیں تھی‘ بلکہ متفرق قسم کی دوسری چیزیں تھیں‘ آنحضرت ا نے چمڑے کا دسترخوان بچھانے کا حکم دیا‘ جس پر کجھوریں‘ پنیر اور گھی لاکر رکھ دیا گیا‘ بعد میں لوگوں کو بلایا گیا اور لوگوں نے ولیمہ کی دعوت کھائی (پورے لشکر میں سے جن کو علم نہ ہوا تھا وہ) لوگ اس تردد میں رہے کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنھا سے آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے نکاح فرمالیا‘ یا باندی بنالیا ہے‘ پھر ان لوگوں نے خود ہی فیصلہ کرلیا کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے ان کو پردہ میں نہ رکھا تو ہم سمجھیں گے کہ آپ نے لونڈی بنالیا ہے.‘ چنانچہ آپ نے جب کوچ فرمایا تو اپنی سواری پر ان کے لئے پیچھے جگہ بنائی اور ان کو سوار کرکے ان کے اور لوگوں کے درمیان پردہ تان دیا‘ اس سے سب سمجھ گئے (کہ وہ ام المومنین ہیں) (صحیح بخاری: ج: ۲‘ص: ۷۷۵)
اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہو گیا کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں یہ بات عام معروف تھی کہ آزاد عورت کے لئے پردہ کرنا لازم ہے اور یہ کہ اگر آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنھا کو پردہ میں رکھا تو وہ بیوی ہوں گی ورنہ باندی‘ اور جب ان پر پردہ کرایا گیا تو سمجھ گئے کہ یہ بیوی ہیں‘ اگر اس وقت تک پردہ کا عام رواج نہ ہوچکا ہوتا تو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے دلوں میں یہ سوال پیدا نہ ہوتا۔ بیعت کے وقت پردہ کا اہتمام خود حضور پاک صلى الله عليه وسلم بھی نامحرم عورتوں سے پردہ کے احکام کا لحاظ کرتے تھے‘ آپ صلى الله عليه وسلم جس طرح مردوں سے بیعت لیا کرتے تھے‘ اسی طرح عورتیں بھی آپ صلى الله عليه وسلم سے بیعت کیا کرتی تھیں‘ مردوں کو آپ صلى الله عليه وسلم ہاتھ میں ہاتھ لے کر بیعت فرمایا کرتے تھے‘ مگر عورتوں کو پردے کے پیچھے سے بغیر ہاتھ میں ہاتھ لئے بیعت فرماتے تھے‘ کیونکہ غیر محرم کو جس طرح دیکھنا ناجائز ہے اسی طرح مصافحہ کرنا بھی ناجائز ہے۔ حدیث میں ہے:
”عن امیمہ بنت رقیقة رضی اللہ عنھا انہا قالت اتیت رسول اللہ ﷺ فی نسوة بایعنہ علی الاسلام‘ فقلن لہ یا رسول اللہ ا! نبایعک علی ان لانشرک باللہ شیئا‘ ولانسرق‘ ولانزنی ولانقتل اولادنا‘ ولاناتی ببہتان نفتریہ بین ایدینا وارجلنا‘ ولانعصیک فی معروف۔ قال رسول اللہ ﷺ : فیما استطعتن واطقتن قال: فقلن: اللہ ورسولہ ارحم بنا من انفسنا‘ ہلم نبایعک یا رسول اللہ! فقال رسول اللہ ا: انی لااصافح النساء‘ انما قولی لمائة امرأة کقولی لامرأة واحدة او مثل قولی لامرأة واحدة“۔ (موطأ امام مالک‘ ص:۷۳۱‘ باب ما جاء فی البیعة)
ترجمہ:- حضرت امیمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں اور چند دیگر عورتیں حضور صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں بیعت کے لئے حاضر ہوئیں‘ عورتوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم)! ہم آپ صلى الله عليه وسلم سے ان شرطوں پر بیعت ہوتی ہیں کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کریں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ زنا کریں گی اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ کوئی بہتان کی اولاد لائیں گی‘ جسے اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان ڈالیں (اور اپنے شوہر کی اولاد بتائیں) اور نیک کام میں آپ کی نافرمانی نہ کریں گی‘ یہ سن کر آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا اور کہہ دو کہ ہم اپنی طاقت کے مطابق پورا عمل کریں گی‘ یہ سن کر عورتوں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم ہم پر اس سے زیادہ مہربان ہیں‘ جتنا ہم اپنے نفسوں پر رحم کرتے ہیں‘ اس کے بعد ان عورتوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم! زبانی اقرار تو ہم نے کرلیا ہے لایئے (ہاتھ میں ہاتھ دے کر بھی) آپ سے بیعت کرلیں‘ یہ سن کر حضور صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: میں نے عورتوں سے مصافحہ نہیں کرنا‘ جو میں نے زبان سے کہہ دیاسب کے لئے لازم ہوگیا‘ اور الگ الگ بیعت کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے‘ کیونکہ سب عورتوں سے بھی میرا وہی کہنا ہے جو ایک عورت سے کہنا ہے“۔
مصیبت کے وقت بھی پردہ لازم ہے حدیث میں ہے:
”عن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ قال: جاء ت امرأة الی النبی ﷺ یقال لہا ام خلاد وہی متنقبة تسأل عن ابنہا وہو مقتول ‘ فقال لہا بعض اصحاب النبی ا جئت تسألین عن ابنک وانت متنقبة‘ فقال ان ارزأ ابنی فلن ارزأ حیائی‘ فقال رسول اللہ ا ابنک لہ اجر شہیدین قالت ولم ذاک یا رسول اللہ ! قال: لانہ قتلہ اہل الکتاب“۔ (ابوداؤد ج:۱‘ ص: ۳۳۷)
ترجمہ:․․․” حضرت قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک صحابیہ جس کا نام ام خلاد تھا‘ حضور اقدس صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں اپنے بیٹے کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے حاضر ہوئیں‘ ان کا بیٹا کسی غزوہ میں شہید ہوگیا تھا‘ وہ جب آئیں تو اپنے چہرے پر نقاب ڈالے ہوئے تھیں‘ ان کا یہ حال دیکھ کر کسی صحابی نے کہا تم اپنے بیٹے کا حال معلوم کرنے آئی ہو اور نقاب ڈالے ہوئے ہو‘ حضرت ام خلاد نے جواب دیا اگر میں بیٹے کی وجہ سے مصیبت زدہ ہوں تو اپنی شرم وحیا کھوکر ہرگز مصیبت زدہ نہ بنوں گی‘ حضرت ام خلاد رضی اللہ عنھا کے پوچھنے پر حضور صلى الله عليه وسلم نے جواب دیا کہ تمہارے بیٹے کے لئے دو شہیدوں کا ثواب ہے‘ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کیوں؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”اس لئے کہ اسے اہل کتاب نے قتل کیا ہے“ ۔
اس حدیث سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ حضرت ام خلاد رضی اللہ عنھا نے موقع پر موجود تمام لوگوں سے جن میں حضور صلى الله عليه وسلم بھی شامل تھے‘ نقاب ڈال کر پردہ کیا‘ وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرات صحابیات رضی اللہ عنھم میں حیا کا کس قدر بلند معیار پیدا ہوچکا تھا کہ اس خاتون نے کسی بھی عورت کے لئے دنیاوی اعتبار سے سب سے بڑے صدمہ کے موقع پر بھی احکام شرع کی پوری پوری پاسداری فرمائی اور جب ایک شخص نے دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا تو انہوں نے فرمایا کہ مجھ پر بیٹے کے جاتے رہنے کا صدمہ پڑا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میری حیا بھی جاتی رہی‘ گویا حیا جانے کی مصیبت بیٹے کے مرنے کی مصیبت سے کم نہیں۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پردہ کا حکم ہرحال میں لازم ہے‘ رنج ہو یا خوشی کسی صورت میں بھی نامحرم مرد کے سامنے آنا جائز نہیں۔ بعض لوگ جو یہ گمان کرتے ہیں کہ رنج وغم اور مصیبت یا شادی ‘ بیاہ اور خوشی کے وقت انسان احکام شریعت سے مستثنیٰ رہتا ہے‘ بڑی جہالت ہے۔ اب بعض عورتوں کا جنازہ کے وقت گھر سے دروازوں پر نکل آنا‘ بلکہ بسا اوقات قبرستان تک جانا‘ یا شادی بیاہ کے وقت پردہ کا اہتمام نہ کرنا یا سفر میں پورے طور پر پردہ نہ کرنا‘ سب ناجائز کام ہیں۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی واضح طور پر معلوم ہوگیا کہ شریعت میں چہرے کا پردہ بھی لازم ہے‘ کیونکہ اس عورت نے چہرے پر نقاب ڈال رکھی تھی۔
https://saagartimes.blogspot.com/2019/04/blog-post_80.html
https://saagartimes.blogspot.com/2019/04/blog-post_80.html
No comments:
Post a Comment