Wednesday 24 April 2019

خواتین کی باجماعت نماز تراویح کا اہتمام

خواتین کی باجماعت نماز تراویح کا اہتمام

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
مسجد کے علاوہ گھر پر نماز تراویح کا دس روزہ اہتمام ہونا ہے. مرد و خواتین ترتیب دو طرح سے سوچی گئی ہے.
1. نیچے ہال میں مرد حضرات رہینگے
اوپری منزل پر مستورات.
2. دوسری ترتیب یہ ہے
ایک ہی منزل میں باہر کے ہال میں مرد حضرات ہوں اندر کے کمروں میں مستورات ہوں.
کیا یہ مناسب ہے؟ اس طرح نماز تراویح اداء کی جاسکتی ہے؟ مرد حضرات فرض نماز مسجد میں ہی اداء کریں گے.
مزید کیا شرائط و کوائف ہیں براہ کرم مفصل جواب عنایت فرمائیں

الجواب وباللہ التوفیق:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کے لئے اسی کو پسند فرمایا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں رہتے ہوئے عبادت کریں، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’عورت کا اپنے چھوٹے کمرہ میں نماز پڑھنا دالان میں نماز پڑھنے سے اور دالان میں نماز پڑھنا گھر کے احاطہ میں نماز ادا کرنے سے اور گھر کے احاطہ میں نماز ادا کرنا محلہ کی مسجد میں نماز ادا کرنے سے بہتر ہے،
حضرت ام حمید ساعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے کی خواہش ظاہر کی، ظاہر ہے کہ یہ نماز مسجد اور مسجد نبوی جیسی عالی مرتبت مسجد میں ادا ہوتی اور وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں، لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تلقین فرمائی کہ وہ اپنے گھر میں نماز پڑھیں، یہ زیادہ بہتر ہے.‘‘
اسی لئے عام طور پر فقہاء رحمہم اللہ نے لکھا کہ عورتوں کا مسجدوں میں آنا بہتر نہیں، یہ رائے صرف حنفیہ کی نہیں ، بلکہ دوسرے فقہاء کی بھی ہے، فقہاء شوافع میں مشہور محدث اور فقیہ امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مہذب  میں اور فقہاء حنابلہ میں ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ نے اپنی مشہور کتاب ’’المغنی‘‘ میں بھی یہی لکھا ہے، اس لئے محلہ کی مساجد ہوں یا محلہ کا کوئی مکان، تراویح پڑھانے والا مرد ہو یا عورت، یہ اجتماع نماز پڑھنے کے لئے ہو یا محض قرآن سننے کے لئے، موجودہ حالات میں کراہت سے خالی نہیں کہ اس میں فتنہ کا اندیشہ ہے۔
مسجدوں کو بازار اور دوسرے مواقع پر قیاس نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ اگر ان مقامات پر کوئی ناشائستہ بات پیش آتی ہے تو یہ برائی دنیا کی طرف منسوب ہوتی ہے، اس سے بازار بدنام ہوں گے، لیکن وہی بات بلکہ اس سے کمتر درجہ کی بات بھی کسی دینی مرکز پر یا مسجد میں پیش آئے تو اب یہ برائی دین کی طرف منسوب ہوگی، دینی مراکز بدنام ہوں گے اور دین کے وقار و اعتبار کو نقصان پہنچے گا، اس لئے صحیح طریقہ یہی ہے کہ خواتین اپنے گھروں میں نماز پڑھیں اور جب نماز کے لئے باہر نکلنا مناسب نہیں جب کہ نماز میں جماعت مطلوب ہے تو محض قرآن مجید سننے کے لئے باہر نکلنے کے کیا معنی؟
اصل خوشنودی اور رضا حاصل کرنا ہے نہ کہ اپنے جذبات کی تکمیل اور خواہشات کی تسکین، پس جب شریعت نے خواتین کے لئے یہ رعایت رکھی ہے کہ گھر میں نماز ادا کرنے میں زیادہ اجر وثواب ہے تو مسجدوں میں اور دوسرے مقامات پر جاکر نماز ادا کرنے میں کیا فائدہ ہے؟ گھر میں نماز ادا کرنے میں زیادہ اجر و ثواب کا حاصل ہونا یقینی ہے
جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے اور باہر جاکر نماز پڑھنے میں گناہ کا اندیشہ ہے، تو یقینی اجر و ثواب کو چھوڑ کر اندیشۂ گناہ مول لینا کیا عقلمندی کی بات ہوسکتی ہے؟

از کتاب الفتاوی
العبد محمد اسلامپوری

https://saagartimes.blogspot.com/2019/04/blog-post_7.html?m=1

No comments:

Post a Comment