Wednesday, 24 April 2019

کرب و مشکلات کے وقت کيا کريں؟

کرب و مشکلات کے وقت کيا کريں؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
”حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ“
یہ وہ کلمہ ہے جو ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام نے اس وقت کہا تھا جب انہيں آگ میں ڈالا جارہا تھا۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت کہا جب ان سے کہا گیا کہ:
اَلَّذِیۡنَ  قَالَ لَہُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدۡ جَمَعُوۡا لَکُمۡ فَاخۡشَوۡہُمۡ فَزَادَہُمۡ اِیۡمَانًا ٭ۖ وَّ قَالُوۡا حَسۡبُنَا اللّٰہُ وَ نِعۡمَ الۡوَکِیۡلُ ﴿۱۷۳﴾
ترجمہ: 
وہ لوگ جن سے کہنے والوں نے کہا تھا: یہ (مکہ کے کافر) لوگ تمہارے (مقابلے) کے لیے (پھر سے) جمع ہوگئے ہیں، لہذا ان سے ڈرتے رہنا، تو اس (خبر) نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کردیا اور وہ بول اٹھے کہ: ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔ (٥٩) سورہ آل عمران آیت نمبر 173

اللہ تعالی تعالی نے ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کی اس کلمے کی برکت سے مدد فرمائی اور آگ کو حکم دیا کہ: 

قُلۡنَا یٰنَارُ کُوۡنِیۡ بَرۡدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ ﴿ۙ۶۹﴾
ترجمہ: (چنانچہ انہوں نے ابراہیم کو آگ میں ڈال دیا اور) ہم نے کہا: اے آگ! ٹھندی ہوجا، اور ابراہیم کے لیے سلامتی بن جا۔ (٢٨) سورہ الانبیآء آیت نمبر 69
محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصرت فرمائی اور اس عظیم کلمے کی برکت سے فرمایا: تو وہ اللہ کی طرف سے بڑی نعمت اور فضل کے ساتھ لوٹے، انہیں کسی برائی نے چھوا تک نہيں (آل عمران: 174)۔
اس اثر سے ہمیں یہ استفادہ حاصل ہوا:
1- اس کلمے کی فضیلت، اور چاہئے کہ اسے کرب و مشکلات کے وقت پڑھا جائے۔
2- بے شک اللہ پر توکل دنیا و آخرت میں خیر کو پانے اور شر کو دور کرنے کے عظیم ترین اسباب میں سے ہے۔
3- بلاشبہ ایمان میں کمی زیادتی ہوتی ہے۔
4-  بہت سی چیزیں جنہيں انسان بظاہر ناپسند کررہا ہوتا ہے ہوسکتا ہے کہ اس کے لئے بہتر ہوں۔
-----------
صحیح بخاری 4563۔
--------------
تفسیر: 59: جب کفار مکہ احد کی جنگ سے واپس چلے گئے تو راستے میں انہیں پچھتاوا ہوا کہ ہم جنگ میں غالب آجانے کے باوجود خواہ مخواہ واپس آگئے، اگر ہم کچھ اور زور لگاتے تو تمام مسلمانوں کا خاتمہ ہوسکتا تھا۔ اس خیال کی وجہ سے انہوں نے مدینہ منورہ کی طرف لوٹنے کا ارادہ کیا۔ دوسری طرف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شاید ان کے ارادے سے باخبر ہو کر یا احد کے نقصان کی تلافی کے لیے جنگ احد کے اگلے دن سویرے صحابہ میں یہ اعلان فرمایا کہ ہم دشمن کے تعاقب میں جائیں گے، اور جو لوگ جنگ احد میں شریک تھے صرف وہ ہمارے ساتھ چلیں۔ صحابہ کرام اگرچہ احد کے واقعات سے زخم خوردہ تھے، اور تھکے ہوئے بھی تھے، مگر انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس دعوت پر لبیک کہا جس کی تعریف اس آیت میں کی گئی ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابہ کے ساتھ مدینہ منورہ سے نکل کر حمراء الاسد کے مقام پر پہنچے تو وہاں قبیلہ خزاعہ کا ایک شخص معبد آپ سے ملا جو کافر ہونے کے باوجود آپ سے ہمدردی رکھتا تھا، اس نے مسلمانوں کے حوصلے کا خود مشاہدہ کیا اور جب وہاں سے نکلا تو اس کی ملاقات کفار مکہ کے سردار ابو سفیان سے ہوگئی، اس نے ابو سفیان کو مسلمانوں کے لشکر اور اس کے حوصلوں کے بارے میں بتایا اور مشورہ دیا کہ وہ لوٹ کر حملہ کرنے کا ارادہ ترک کر کے واپس چلا جائے۔ اس سے کفار پر رعب طاری ہوا اور وہ واپس تو چلے گئے لیکن عبدالقیس کے ایک قافلے سے جو مدینہ منورہ جا رہا تھا یہ کہہ گئے کہ جب راستے میں ان کی ملاقات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہو تو ان سے یہ کہیں کہ ابو سفیان بہت بڑا لشکر جمع کرچکا ہے اور مسلمانوں کا خاتمہ کرنے کے لیے ان پر حملہ آور ہونے والا ہے مقصد یہ تھا کہ اس خبر سے مسلمانوں پر رعب پڑے۔ چنانچہ یہ لوگ جب حمراء الاسد پہنچ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملے تو یہی بات کہی، لیکن صحابہ کرام نے اس سے مرعوب ہونے کے بجائے وہ جملہ کہا جو اس آیت میں تعریف کے ساتھ نقل کیا گیا ہے۔
----------------
تفسیر: 28: اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا یہ معجزہ دکھایا کہ آگ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے ٹھنڈک اور سلامتی کا سبب بن گئی۔ جو لوگ معجزات کو ماننے سے انکار کرتے ہیں، ان کا موقف در حقیقت اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر شک کرنے کے مرادف ہے۔ حالانکہ اگر اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے تو یہ ماننا پڑے گا کہ آگ میں جلانے کی خاصیت اسی نے پیدا فرمائی ہے، اگر وہ اپنے ایک جلیل القدر پیغمبر کو دشمنوں کے ظلم سے بچانے کے لیے اس کی یہ خاصیت ختم کردے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے ؟
 آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی

https://saagartimes.blogspot.com/2019/04/blog-post_24.html



No comments:

Post a Comment