آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ھے پس تمھارا ہر آدمی یہ ضرور دیکھے کہ وہ کس کے ساتھ دوستی کررہا ھے؟ (ابو داؤد ترمزی بسند صحیح اور امام ترمذی نے اس کی سند کو حسن کہا ہے) ...... اچھے ساتھی اپنے ساتھیوں، دوستوں، اور ہم محفل و ہم مجلس لوگوں کو نیکی اور اچھائی کی طرف ہی بلاتے ہیں اور ہر ایسے کام سے اچھے طریقے سے روکتے ہیں جو کام دینی، دُنیاوی اور بالخصوص اُخروی طور پر کسی نُقصان والا ہو، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھے ساتھی، اور بُرے ساتھی کی مثال اِس طرح ہے جیسے کہ خُوشبو بیچنے والا، اور بھٹی جھونکنے والا، کہ خُوشبُو بیچنے والا یا تو تُمہیں خُوشبُو دے گا، یا تُم اُس سے خُوشبُو خریدوگے (اور خود کو معطر کروگے) اور یا اُس سے خُوشبُو (میں سے کچھ نہ کچھ) پالوگے، اور بھٹی جھونکنے والا یا تو تُمہارے کپڑے جلائے گا، یا تُم اُس سے بُری بُو پالوگے.
صحیح البخاری/ حدیث 5534/ کتاب الذبائح/ باب30، صحیح مُسلم/ حدیث6860/ کتاب البر و الصلۃ و الادب/ باب45،
اس حدیث شریف میں یہ تعلیم فرمائی گئی کہ اگر اپنے ظاہر و باطن کی اصلاح چاہئے، اپنے نفس کی خیر میں مددگاری چاہئے تو نیکو کار لوگوں کو اپنے ساتھی بناؤ، برے لوگوں کا ساتھ برائی کا ہی سبب بنے گا، حتیٰ کہ اپنے دِین تک سے بھی ہاتھ دھو بیھٹتا ہے اور اپنے ساتھیوں، دوستوں، ہم مجلس لوگوں کے دِین پر ہوجاتا ہے، اور اس عظیم حقیقت کا اظہار بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مُبارک سے کروایا کہ
الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ:::
اِنسان اپنے دوست کے دِین پر ہی ہوجاتا ہے لہذا تُم میں سے ہر کوئی دیکھ لے کہ وہ کس کے ساتھ دوستی رکھتا ہے
سُنن ابو داؤد / حدیث4835/ کتاب الأدب/ باب19، سُنن الترمذی /حدیث 2552/ کتاب الزُھد/ باب45، اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے "حَسن" قرار دِیا،
یقین جانئے کہ ایسے نیک اور درست عقل رکھنے والے ساتھی ہم سب کے دِین، دُنیا اور آخرت کی کامیابی کا ایک بڑا سبب ہیں، خاص طور پر ایسے لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے مُسلمانوں، اور انسانوں کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے.
جب اللہ کسی حاکم کے ساتھ خیر کا اِرادہ فرماتا ہے تو اُس کے لئے نیکو کار سچا نیکی پر مدد کرنے والا وزیر مہیا کردیتا ہے، کہ اگر حاکم (خیر کا) کوئی کام یا بات بُھول جائے تو وزیر اُسے یاد کروادے، اور اگر حاکم کو یاد ہو تو وزیروہ کام کرنے میں اُس کی مدد کرے، اور اگر اللہ حاکم کے ساتھ اِس کے عِلاوہ معاملے کا اِرادہ فرماتا ہے تو اُس کے لئے بُرا وزیر مہیا کردیتا ہے جو حاکم کو (خیر کا) کوئی کام یا بات بُھولنے کی صُورت میں یاد نہیں کرواتا، اور اگر حاکم کو یاد ہو تو وہ کام کرنے میں اُس کی مدد نہیں کرتا.
سُنن ابو داؤد/ حدیث2934 / کتاب الخراج/ باب4، اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے "صحیح" قرار دِیا، صحیح ابن حبان / حدیث4494،
(صحيح البخاري ومسلم)
------------------
اچھی اور بری صحبت کے أثرات
اچھا دوست:
وہ ہے جو اللہ کا مطیع وفرمانبردار ہو، اس کے اوامر کی پابندی کرنیوالا، منہیات سے دور رہنے والا، فرائض کو ادا کرنے والا، سنن کی پابندی کرنے والا، حدود اللہ کا لحاظ رکھنے والا، اچھے اور اعلی اخلاق سے پیش آنے والا، برے اخلاق سے بچنے والا، صلہ رحمی کرنے والا، والدین سے حسن سلوک کرنیوالا، ہمسائے سے احسان کرنے والا، بردبار عاجز، لوگوں کے کام آنے والا اور لوگوں کو اذیت دینے سے دور رہنے والا ہو۔
برا دوست:
وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول کا باغی ہو، فرائض میں کوتاہی کرنے والا، منہیات میں جرأت کرنے والا، حدود اللہ کو پامال کرنے والا، برے اخلاق سے پیش آنے والا، قطع رحمی کرنے والا، والدین کا نافرمان، ہمسائے سے برائی کرنے والا، جلد اور بہت زیادہ غصہ کرنے والا، متکبراور لوگوں کو اذیت دینے والا ہو۔ گویا کہ عقیدہ عمل اور سلوک کرنے میں دین سے منحرف ہو۔
اچھی صحبت کے اثرات:
بے شک انسانی زندگی پر اچھی صحبت کے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ اچھا دوست آپ کو خیر اور بھلائی کی جانب راہنمائی کرے گا۔ اور آپ کو دین ودنیا کی بہتری کا مشورہ دے گا۔ اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری پر راغب کرے گا جبکہ آپ کے عیوب کی بھی نشاندہی کرتا رہے گا۔ برے اخلاق چھوڑکر اچھے اخلاق اپنانے کی دعوت دے گا۔ یا کم از کم آپ اس کی نیکی کو دیکھ کر خود نیکی کرنے کی کوشش کریں گے۔ آپ کی موجوگی یا عدم موجودگی میں آپ کی خیر خواہی کرے گا اور آپ کی زندگی یا موت کے بعد آپ کے لئے دعا مغفرت کرے گا۔
بری صحبت کے اثرات:
جس طرح اچھی صحبت سے انسانی زندگی پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اسی طرح بری صحبت اختیار کرنے سے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کیونکہ برے دوست کے تمام احوال ونقائص میں آپ اس کے برابر کے شریک ہیں۔ اور سب سے برا اثر جو انسان پر مرتب ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ یا تو برا دوست آپ کو بھی برائی میں شرکت کی دعوت دے گا جو آپ کے دین و دنیا دونوں کے لئے مضر ہے یا پھر برائی پر آپ کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ اور آپ کو والدین کی نافرمانی اور قطع رحمی پر ابھارے گا۔ آپ کے رازوں کو مخفی رکھے گا تاکہ آپ اپنے گناہوں کو جاری رکھیں۔ نیز آپ کی عدم موجودگی میں آپ کے رازوں کو افشاء کردینا آپ کے لئے ذلت ورسوائی کا سبب ہوگا۔ انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے اور اپنے دوستوں کے دین پر ہوتا ہے جیسا کہ کسی شاعر کا کلام ہے:
عن المرء لا تسئل وسل عن قرینہ فکل قرین بالمقارن یقتدی
کسی بھی آدمی کے بارے میں مت پوچھ! بلکہ اس کے دوست کے متعلق پوچھ۔ کیونکہ دوست اپنے دوستوں کے پیروکار ہوتے ہیں۔
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھے دوست اور برے دوست کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا:
((مثل الجلیس الصالح والجلیس السوء کحامل المسک ونافخ الکیر ،فحامل المسک اما أن یحذیک ،واما أن تبتاع منہ،واما أن تجد منہ ریحا طیبۃ،ونافخ الکیر اما أن یحرق ثیابک،واما أن تجد منہ ریحاخبیثۃ)) [متفق علیہ]
’’اچھے دوست اور برے دوست کی مثال مشک اٹھانے والے اور بھٹی جھونکنے والے کی مانند ہے، مشک اٹھانے والا یا تو آپ کو ہدیہ میں دے دیگا یا آپ اس سے خرید لیں گے یا کم از کم اچھی خوشبو تو پائیں گے، جبکہ بھٹی جھونکنے والا آپ کے کپڑوں کو جلادے گا یا کم از کم آپ اس سے بدبو پائیں گے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مثال کے ذریعہ معقول کو محسوس کے قریب کردیا ہے۔ جس سے صحبت کے اثرات کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ کہ جس طرح مشک والے کے پاس بیٹھنے سے فائدہ ہی فائدہ ہے اسی طرح اچھی صحبت اختیار کرنے سے انسان خیر اور بھلائی میں رہتا ہے جبکہ بھٹی جھونکنے والے پاس بیٹھنے سے نقصان ہی نقصان ہے اسی بری صحبت اختیار کرنے سے انسان خسارہ میں ہی رہتا ہے۔
نیک لوگوں کے ساتھ محبت اور ان کی صحبت اختیار کرنے کے فوائد:
نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے ان کے ساتھ بیٹھنے اور ان سے محبت کرنے کی فضیلت میں کتاب وسنت میں بہت ساری نصوص وارد ہیں۔جیسا کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لاتصاحب الا مؤمناولا یأکل طعامک الا تقی)) [ابوداؤد، ترمذی]
’’صرف مومن شخص کی صحبت اختیار کر، اور تیرا کھانا صرف متقی شخص کھائے۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((الرجل علی دین خلیلہ فلینظر أحدکم من یخالل)) [ابوداؤد، ترمذی]
’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، پس چاہئے کہ تم میں سے ہر شخص اپنے دوست کو دیکھے۔‘‘
حضرت ابوموسی أشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((المرء مع من أحب))
’’آدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس سے محبت کرتا ہے۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ جو شخص کسی قوم کے ساتھ محبت کرتا ہے اسے اس قوم کے ساتھ ملحق کیوں کر دیا جاتا ہے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((المرء مع من أحب)) ’’آدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس سے محبت کرتا ہے۔‘‘
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ دین دار عورت سے شادی کی جائے تاکہ وہ تمہارے دین میں تمہاری مدد گار ثابت ہوسکے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((تنکح المرأۃ لأربع لمالھا ولحسبھا ولجمالھا ولدینھا فاظفر بذات الدین تربت یداک)) [متفق علیہ]
’’چار وجوہ سے عورت کے ساتھ نکاح کیا جاتا ہے۔ اس کے مال کی وجہ سے، اس کے حسب ونسب کی وجہ سے، اس کے جمال کی وجہ سے، اور اس کے دین کی وجہ سے۔ دین والی کو ترجیح دو تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ان سات افراد کا تذکرہ ہے جن کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے عرش کا سایہ عطا فرمائیں گے جن میں سے دو افراد وہ بھی ہیں:
((رجلان تحابا فی اللہ اجتمعا علیہ وتفرقا علیہ))
’’جو فقط اللہ کے لئے محبت کرتے ہیں اسی محبت پر جمع ہوتے ہیں اور اسی پر ہی علیحدہ ہوتے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نیک اور اللہ کو یاد کرنے والے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے اور ان کی صحبت پر صبر کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ ان کو دھتکارنے سے منع کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ)) [الکھف:۲۸]
’’اور اپنے آپ کو انہی کے ساتھ رکھاکر جو اپنے پروردگار کو صبح شام پکارتے ہیں اور اسی کے چہرے کے ارادے رکھتے (رضامندی چاہتے) ہیں، خبردار! تیری نگاہیں ان سے نہ ہٹنے پائیں۔‘‘ یعنی ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ جو صبح وشام اللہ کو یاد کرتے ہیں، تسبیح وتحمید بیان کرتے ہیں، تہلیل وتکبیرکرتے ہیں، اورصرف ایک اللہ سے مانگتے ہیں خواہ غریب ہیں یا امیر، کمزور ہیں یا قوی۔
نیکو کاروں کی صحبت اختیار کرنے میں بے شمار فوائد ہیں۔ ان کے پاس بیٹھنے سے علمی اور اخلاقی فوائد ملتے ہیں۔ اور یہ نیک لوگوں کی دوستی کل قیامت کو بھی قائم رہے گی جبکہ باقی سب دوستیاں ختم ہوجائیں گی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
((اَلْأَخِلَّآئُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلاَّ الْمُتَّقِیْنَ))[الزخرف:۶۷]
’’اس دن گہرے دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے سوائے پرہیز گاروں کے۔‘‘
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
((وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلاً٭یٰوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ أَتَّخِذْ فُلَاناً خَلِیْلاً٭لَقَدْ أَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ اِذْ جَآئَ نِیْ وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلاً)) [الفرقان:۲۷-۲۹]
’’اور اس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چباکر کہے گا ہائے کاش کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ اختیار کی ہوتی۔ ہائے افسوس کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراہ کردیا کہ نصیحت میرے پاس آپہنچی تھی اور شیطان تو انسان کو (وقت پر) دغا دینے والا ہے۔‘‘ ظالم شخص غم اور افسوس سے اپنی انگلیوں کو کاٹے گا کہ اس نے غلط اور شریر شخص کو اپنا دوست بنالیا جس نے اسے ہدایت اور صراط مستقیم سے ہٹاکر ضلالت و گمراہی اور بد بختی کے رستے پر لگادیا لیکن اس وقت یہ افسوس کسی کام نہیں آئیگا کیونکہ ہاتھ سے نکلا ہوا وقت واپس نہیں آتا۔
اسی طرح جہنمی جہنم میں ندامت کا اظہار کریں گے کہ کاش ہم اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت نہ کرتے جنہوں نے ہمیں گمراہ کردیا اور صراط مستقیم سے ہٹادیا، کاش کہ ہم اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن تھام لیتے اور آج اس ذلت آمیز عذاب سے بچ جاتے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْھُھُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَا أَطَعْنَا اللّٰہَ وَأَطَعْنَا الرَّسُوْلَا٭وَقَالُوْا رَبَّنَا اِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَآئَ نَافَأَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا))[الأحزاب:۶۶،۶۷]
’’اس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کئے جائیں گے۔ (حسرت وافسوس سے) کہیں گے کہ کاش ہم اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے۔ اور کہیں گے اے ہمارے رب! ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی مانی جنہوں نے ہمیں راہ راست سے بھٹکادیا۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ برے لوگوں کی صحبت نہ صرف علمی واخلاقی فوائد سے محروم کردیتی ہے بلکہ انسان کو اسفل سافلین تک جاپہنچاتی ہے۔
https://saagartimes.blogspot.com/2019/04/blog-post_61.html
------------------
اچھی اور بری صحبت کے أثرات
اچھا دوست:
وہ ہے جو اللہ کا مطیع وفرمانبردار ہو، اس کے اوامر کی پابندی کرنیوالا، منہیات سے دور رہنے والا، فرائض کو ادا کرنے والا، سنن کی پابندی کرنے والا، حدود اللہ کا لحاظ رکھنے والا، اچھے اور اعلی اخلاق سے پیش آنے والا، برے اخلاق سے بچنے والا، صلہ رحمی کرنے والا، والدین سے حسن سلوک کرنیوالا، ہمسائے سے احسان کرنے والا، بردبار عاجز، لوگوں کے کام آنے والا اور لوگوں کو اذیت دینے سے دور رہنے والا ہو۔
برا دوست:
وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول کا باغی ہو، فرائض میں کوتاہی کرنے والا، منہیات میں جرأت کرنے والا، حدود اللہ کو پامال کرنے والا، برے اخلاق سے پیش آنے والا، قطع رحمی کرنے والا، والدین کا نافرمان، ہمسائے سے برائی کرنے والا، جلد اور بہت زیادہ غصہ کرنے والا، متکبراور لوگوں کو اذیت دینے والا ہو۔ گویا کہ عقیدہ عمل اور سلوک کرنے میں دین سے منحرف ہو۔
اچھی صحبت کے اثرات:
بے شک انسانی زندگی پر اچھی صحبت کے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ اچھا دوست آپ کو خیر اور بھلائی کی جانب راہنمائی کرے گا۔ اور آپ کو دین ودنیا کی بہتری کا مشورہ دے گا۔ اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری پر راغب کرے گا جبکہ آپ کے عیوب کی بھی نشاندہی کرتا رہے گا۔ برے اخلاق چھوڑکر اچھے اخلاق اپنانے کی دعوت دے گا۔ یا کم از کم آپ اس کی نیکی کو دیکھ کر خود نیکی کرنے کی کوشش کریں گے۔ آپ کی موجوگی یا عدم موجودگی میں آپ کی خیر خواہی کرے گا اور آپ کی زندگی یا موت کے بعد آپ کے لئے دعا مغفرت کرے گا۔
بری صحبت کے اثرات:
جس طرح اچھی صحبت سے انسانی زندگی پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اسی طرح بری صحبت اختیار کرنے سے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کیونکہ برے دوست کے تمام احوال ونقائص میں آپ اس کے برابر کے شریک ہیں۔ اور سب سے برا اثر جو انسان پر مرتب ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ یا تو برا دوست آپ کو بھی برائی میں شرکت کی دعوت دے گا جو آپ کے دین و دنیا دونوں کے لئے مضر ہے یا پھر برائی پر آپ کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ اور آپ کو والدین کی نافرمانی اور قطع رحمی پر ابھارے گا۔ آپ کے رازوں کو مخفی رکھے گا تاکہ آپ اپنے گناہوں کو جاری رکھیں۔ نیز آپ کی عدم موجودگی میں آپ کے رازوں کو افشاء کردینا آپ کے لئے ذلت ورسوائی کا سبب ہوگا۔ انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے اور اپنے دوستوں کے دین پر ہوتا ہے جیسا کہ کسی شاعر کا کلام ہے:
عن المرء لا تسئل وسل عن قرینہ فکل قرین بالمقارن یقتدی
کسی بھی آدمی کے بارے میں مت پوچھ! بلکہ اس کے دوست کے متعلق پوچھ۔ کیونکہ دوست اپنے دوستوں کے پیروکار ہوتے ہیں۔
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھے دوست اور برے دوست کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا:
((مثل الجلیس الصالح والجلیس السوء کحامل المسک ونافخ الکیر ،فحامل المسک اما أن یحذیک ،واما أن تبتاع منہ،واما أن تجد منہ ریحا طیبۃ،ونافخ الکیر اما أن یحرق ثیابک،واما أن تجد منہ ریحاخبیثۃ)) [متفق علیہ]
’’اچھے دوست اور برے دوست کی مثال مشک اٹھانے والے اور بھٹی جھونکنے والے کی مانند ہے، مشک اٹھانے والا یا تو آپ کو ہدیہ میں دے دیگا یا آپ اس سے خرید لیں گے یا کم از کم اچھی خوشبو تو پائیں گے، جبکہ بھٹی جھونکنے والا آپ کے کپڑوں کو جلادے گا یا کم از کم آپ اس سے بدبو پائیں گے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مثال کے ذریعہ معقول کو محسوس کے قریب کردیا ہے۔ جس سے صحبت کے اثرات کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ کہ جس طرح مشک والے کے پاس بیٹھنے سے فائدہ ہی فائدہ ہے اسی طرح اچھی صحبت اختیار کرنے سے انسان خیر اور بھلائی میں رہتا ہے جبکہ بھٹی جھونکنے والے پاس بیٹھنے سے نقصان ہی نقصان ہے اسی بری صحبت اختیار کرنے سے انسان خسارہ میں ہی رہتا ہے۔
نیک لوگوں کے ساتھ محبت اور ان کی صحبت اختیار کرنے کے فوائد:
نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے ان کے ساتھ بیٹھنے اور ان سے محبت کرنے کی فضیلت میں کتاب وسنت میں بہت ساری نصوص وارد ہیں۔جیسا کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لاتصاحب الا مؤمناولا یأکل طعامک الا تقی)) [ابوداؤد، ترمذی]
’’صرف مومن شخص کی صحبت اختیار کر، اور تیرا کھانا صرف متقی شخص کھائے۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((الرجل علی دین خلیلہ فلینظر أحدکم من یخالل)) [ابوداؤد، ترمذی]
’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، پس چاہئے کہ تم میں سے ہر شخص اپنے دوست کو دیکھے۔‘‘
حضرت ابوموسی أشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((المرء مع من أحب))
’’آدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس سے محبت کرتا ہے۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ جو شخص کسی قوم کے ساتھ محبت کرتا ہے اسے اس قوم کے ساتھ ملحق کیوں کر دیا جاتا ہے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((المرء مع من أحب)) ’’آدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس سے محبت کرتا ہے۔‘‘
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ دین دار عورت سے شادی کی جائے تاکہ وہ تمہارے دین میں تمہاری مدد گار ثابت ہوسکے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((تنکح المرأۃ لأربع لمالھا ولحسبھا ولجمالھا ولدینھا فاظفر بذات الدین تربت یداک)) [متفق علیہ]
’’چار وجوہ سے عورت کے ساتھ نکاح کیا جاتا ہے۔ اس کے مال کی وجہ سے، اس کے حسب ونسب کی وجہ سے، اس کے جمال کی وجہ سے، اور اس کے دین کی وجہ سے۔ دین والی کو ترجیح دو تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ان سات افراد کا تذکرہ ہے جن کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے عرش کا سایہ عطا فرمائیں گے جن میں سے دو افراد وہ بھی ہیں:
((رجلان تحابا فی اللہ اجتمعا علیہ وتفرقا علیہ))
’’جو فقط اللہ کے لئے محبت کرتے ہیں اسی محبت پر جمع ہوتے ہیں اور اسی پر ہی علیحدہ ہوتے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نیک اور اللہ کو یاد کرنے والے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے اور ان کی صحبت پر صبر کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ ان کو دھتکارنے سے منع کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ)) [الکھف:۲۸]
’’اور اپنے آپ کو انہی کے ساتھ رکھاکر جو اپنے پروردگار کو صبح شام پکارتے ہیں اور اسی کے چہرے کے ارادے رکھتے (رضامندی چاہتے) ہیں، خبردار! تیری نگاہیں ان سے نہ ہٹنے پائیں۔‘‘ یعنی ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ جو صبح وشام اللہ کو یاد کرتے ہیں، تسبیح وتحمید بیان کرتے ہیں، تہلیل وتکبیرکرتے ہیں، اورصرف ایک اللہ سے مانگتے ہیں خواہ غریب ہیں یا امیر، کمزور ہیں یا قوی۔
نیکو کاروں کی صحبت اختیار کرنے میں بے شمار فوائد ہیں۔ ان کے پاس بیٹھنے سے علمی اور اخلاقی فوائد ملتے ہیں۔ اور یہ نیک لوگوں کی دوستی کل قیامت کو بھی قائم رہے گی جبکہ باقی سب دوستیاں ختم ہوجائیں گی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
((اَلْأَخِلَّآئُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلاَّ الْمُتَّقِیْنَ))[الزخرف:۶۷]
’’اس دن گہرے دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے سوائے پرہیز گاروں کے۔‘‘
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
((وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلاً٭یٰوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ أَتَّخِذْ فُلَاناً خَلِیْلاً٭لَقَدْ أَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ اِذْ جَآئَ نِیْ وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلاً)) [الفرقان:۲۷-۲۹]
’’اور اس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چباکر کہے گا ہائے کاش کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ اختیار کی ہوتی۔ ہائے افسوس کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراہ کردیا کہ نصیحت میرے پاس آپہنچی تھی اور شیطان تو انسان کو (وقت پر) دغا دینے والا ہے۔‘‘ ظالم شخص غم اور افسوس سے اپنی انگلیوں کو کاٹے گا کہ اس نے غلط اور شریر شخص کو اپنا دوست بنالیا جس نے اسے ہدایت اور صراط مستقیم سے ہٹاکر ضلالت و گمراہی اور بد بختی کے رستے پر لگادیا لیکن اس وقت یہ افسوس کسی کام نہیں آئیگا کیونکہ ہاتھ سے نکلا ہوا وقت واپس نہیں آتا۔
اسی طرح جہنمی جہنم میں ندامت کا اظہار کریں گے کہ کاش ہم اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت نہ کرتے جنہوں نے ہمیں گمراہ کردیا اور صراط مستقیم سے ہٹادیا، کاش کہ ہم اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن تھام لیتے اور آج اس ذلت آمیز عذاب سے بچ جاتے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْھُھُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَا أَطَعْنَا اللّٰہَ وَأَطَعْنَا الرَّسُوْلَا٭وَقَالُوْا رَبَّنَا اِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَآئَ نَافَأَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا))[الأحزاب:۶۶،۶۷]
’’اس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کئے جائیں گے۔ (حسرت وافسوس سے) کہیں گے کہ کاش ہم اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے۔ اور کہیں گے اے ہمارے رب! ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی مانی جنہوں نے ہمیں راہ راست سے بھٹکادیا۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ برے لوگوں کی صحبت نہ صرف علمی واخلاقی فوائد سے محروم کردیتی ہے بلکہ انسان کو اسفل سافلین تک جاپہنچاتی ہے۔
https://saagartimes.blogspot.com/2019/04/blog-post_61.html
No comments:
Post a Comment