Wednesday, 24 April 2019

خواتین کی باجماعت نماز تراویح کا اہتمام

خواتین کی باجماعت نماز تراویح کا اہتمام

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
مسجد کے علاوہ گھر پر نماز تراویح کا دس روزہ اہتمام ہونا ہے. مرد و خواتین ترتیب دو طرح سے سوچی گئی ہے.
1. نیچے ہال میں مرد حضرات رہینگے
اوپری منزل پر مستورات.
2. دوسری ترتیب یہ ہے
ایک ہی منزل میں باہر کے ہال میں مرد حضرات ہوں اندر کے کمروں میں مستورات ہوں.
کیا یہ مناسب ہے؟ اس طرح نماز تراویح اداء کی جاسکتی ہے؟ مرد حضرات فرض نماز مسجد میں ہی اداء کریں گے.
مزید کیا شرائط و کوائف ہیں براہ کرم مفصل جواب عنایت فرمائیں

الجواب وباللہ التوفیق:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کے لئے اسی کو پسند فرمایا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں رہتے ہوئے عبادت کریں، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’عورت کا اپنے چھوٹے کمرہ میں نماز پڑھنا دالان میں نماز پڑھنے سے اور دالان میں نماز پڑھنا گھر کے احاطہ میں نماز ادا کرنے سے اور گھر کے احاطہ میں نماز ادا کرنا محلہ کی مسجد میں نماز ادا کرنے سے بہتر ہے،
حضرت ام حمید ساعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے کی خواہش ظاہر کی، ظاہر ہے کہ یہ نماز مسجد اور مسجد نبوی جیسی عالی مرتبت مسجد میں ادا ہوتی اور وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں، لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تلقین فرمائی کہ وہ اپنے گھر میں نماز پڑھیں، یہ زیادہ بہتر ہے.‘‘
اسی لئے عام طور پر فقہاء رحمہم اللہ نے لکھا کہ عورتوں کا مسجدوں میں آنا بہتر نہیں، یہ رائے صرف حنفیہ کی نہیں ، بلکہ دوسرے فقہاء کی بھی ہے، فقہاء شوافع میں مشہور محدث اور فقیہ امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مہذب  میں اور فقہاء حنابلہ میں ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ نے اپنی مشہور کتاب ’’المغنی‘‘ میں بھی یہی لکھا ہے، اس لئے محلہ کی مساجد ہوں یا محلہ کا کوئی مکان، تراویح پڑھانے والا مرد ہو یا عورت، یہ اجتماع نماز پڑھنے کے لئے ہو یا محض قرآن سننے کے لئے، موجودہ حالات میں کراہت سے خالی نہیں کہ اس میں فتنہ کا اندیشہ ہے۔
مسجدوں کو بازار اور دوسرے مواقع پر قیاس نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ اگر ان مقامات پر کوئی ناشائستہ بات پیش آتی ہے تو یہ برائی دنیا کی طرف منسوب ہوتی ہے، اس سے بازار بدنام ہوں گے، لیکن وہی بات بلکہ اس سے کمتر درجہ کی بات بھی کسی دینی مرکز پر یا مسجد میں پیش آئے تو اب یہ برائی دین کی طرف منسوب ہوگی، دینی مراکز بدنام ہوں گے اور دین کے وقار و اعتبار کو نقصان پہنچے گا، اس لئے صحیح طریقہ یہی ہے کہ خواتین اپنے گھروں میں نماز پڑھیں اور جب نماز کے لئے باہر نکلنا مناسب نہیں جب کہ نماز میں جماعت مطلوب ہے تو محض قرآن مجید سننے کے لئے باہر نکلنے کے کیا معنی؟
اصل خوشنودی اور رضا حاصل کرنا ہے نہ کہ اپنے جذبات کی تکمیل اور خواہشات کی تسکین، پس جب شریعت نے خواتین کے لئے یہ رعایت رکھی ہے کہ گھر میں نماز ادا کرنے میں زیادہ اجر وثواب ہے تو مسجدوں میں اور دوسرے مقامات پر جاکر نماز ادا کرنے میں کیا فائدہ ہے؟ گھر میں نماز ادا کرنے میں زیادہ اجر و ثواب کا حاصل ہونا یقینی ہے
جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے اور باہر جاکر نماز پڑھنے میں گناہ کا اندیشہ ہے، تو یقینی اجر و ثواب کو چھوڑ کر اندیشۂ گناہ مول لینا کیا عقلمندی کی بات ہوسکتی ہے؟

از کتاب الفتاوی
العبد محمد اسلامپوری

https://saagartimes.blogspot.com/2019/04/blog-post_7.html?m=1

کرب و مشکلات کے وقت کيا کريں؟

کرب و مشکلات کے وقت کيا کريں؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
”حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ“
یہ وہ کلمہ ہے جو ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام نے اس وقت کہا تھا جب انہيں آگ میں ڈالا جارہا تھا۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت کہا جب ان سے کہا گیا کہ:
اَلَّذِیۡنَ  قَالَ لَہُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدۡ جَمَعُوۡا لَکُمۡ فَاخۡشَوۡہُمۡ فَزَادَہُمۡ اِیۡمَانًا ٭ۖ وَّ قَالُوۡا حَسۡبُنَا اللّٰہُ وَ نِعۡمَ الۡوَکِیۡلُ ﴿۱۷۳﴾
ترجمہ: 
وہ لوگ جن سے کہنے والوں نے کہا تھا: یہ (مکہ کے کافر) لوگ تمہارے (مقابلے) کے لیے (پھر سے) جمع ہوگئے ہیں، لہذا ان سے ڈرتے رہنا، تو اس (خبر) نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کردیا اور وہ بول اٹھے کہ: ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔ (٥٩) سورہ آل عمران آیت نمبر 173

اللہ تعالی تعالی نے ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کی اس کلمے کی برکت سے مدد فرمائی اور آگ کو حکم دیا کہ: 

قُلۡنَا یٰنَارُ کُوۡنِیۡ بَرۡدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ ﴿ۙ۶۹﴾
ترجمہ: (چنانچہ انہوں نے ابراہیم کو آگ میں ڈال دیا اور) ہم نے کہا: اے آگ! ٹھندی ہوجا، اور ابراہیم کے لیے سلامتی بن جا۔ (٢٨) سورہ الانبیآء آیت نمبر 69
محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصرت فرمائی اور اس عظیم کلمے کی برکت سے فرمایا: تو وہ اللہ کی طرف سے بڑی نعمت اور فضل کے ساتھ لوٹے، انہیں کسی برائی نے چھوا تک نہيں (آل عمران: 174)۔
اس اثر سے ہمیں یہ استفادہ حاصل ہوا:
1- اس کلمے کی فضیلت، اور چاہئے کہ اسے کرب و مشکلات کے وقت پڑھا جائے۔
2- بے شک اللہ پر توکل دنیا و آخرت میں خیر کو پانے اور شر کو دور کرنے کے عظیم ترین اسباب میں سے ہے۔
3- بلاشبہ ایمان میں کمی زیادتی ہوتی ہے۔
4-  بہت سی چیزیں جنہيں انسان بظاہر ناپسند کررہا ہوتا ہے ہوسکتا ہے کہ اس کے لئے بہتر ہوں۔
-----------
صحیح بخاری 4563۔
--------------
تفسیر: 59: جب کفار مکہ احد کی جنگ سے واپس چلے گئے تو راستے میں انہیں پچھتاوا ہوا کہ ہم جنگ میں غالب آجانے کے باوجود خواہ مخواہ واپس آگئے، اگر ہم کچھ اور زور لگاتے تو تمام مسلمانوں کا خاتمہ ہوسکتا تھا۔ اس خیال کی وجہ سے انہوں نے مدینہ منورہ کی طرف لوٹنے کا ارادہ کیا۔ دوسری طرف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شاید ان کے ارادے سے باخبر ہو کر یا احد کے نقصان کی تلافی کے لیے جنگ احد کے اگلے دن سویرے صحابہ میں یہ اعلان فرمایا کہ ہم دشمن کے تعاقب میں جائیں گے، اور جو لوگ جنگ احد میں شریک تھے صرف وہ ہمارے ساتھ چلیں۔ صحابہ کرام اگرچہ احد کے واقعات سے زخم خوردہ تھے، اور تھکے ہوئے بھی تھے، مگر انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس دعوت پر لبیک کہا جس کی تعریف اس آیت میں کی گئی ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابہ کے ساتھ مدینہ منورہ سے نکل کر حمراء الاسد کے مقام پر پہنچے تو وہاں قبیلہ خزاعہ کا ایک شخص معبد آپ سے ملا جو کافر ہونے کے باوجود آپ سے ہمدردی رکھتا تھا، اس نے مسلمانوں کے حوصلے کا خود مشاہدہ کیا اور جب وہاں سے نکلا تو اس کی ملاقات کفار مکہ کے سردار ابو سفیان سے ہوگئی، اس نے ابو سفیان کو مسلمانوں کے لشکر اور اس کے حوصلوں کے بارے میں بتایا اور مشورہ دیا کہ وہ لوٹ کر حملہ کرنے کا ارادہ ترک کر کے واپس چلا جائے۔ اس سے کفار پر رعب طاری ہوا اور وہ واپس تو چلے گئے لیکن عبدالقیس کے ایک قافلے سے جو مدینہ منورہ جا رہا تھا یہ کہہ گئے کہ جب راستے میں ان کی ملاقات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہو تو ان سے یہ کہیں کہ ابو سفیان بہت بڑا لشکر جمع کرچکا ہے اور مسلمانوں کا خاتمہ کرنے کے لیے ان پر حملہ آور ہونے والا ہے مقصد یہ تھا کہ اس خبر سے مسلمانوں پر رعب پڑے۔ چنانچہ یہ لوگ جب حمراء الاسد پہنچ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملے تو یہی بات کہی، لیکن صحابہ کرام نے اس سے مرعوب ہونے کے بجائے وہ جملہ کہا جو اس آیت میں تعریف کے ساتھ نقل کیا گیا ہے۔
----------------
تفسیر: 28: اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا یہ معجزہ دکھایا کہ آگ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے ٹھنڈک اور سلامتی کا سبب بن گئی۔ جو لوگ معجزات کو ماننے سے انکار کرتے ہیں، ان کا موقف در حقیقت اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر شک کرنے کے مرادف ہے۔ حالانکہ اگر اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے تو یہ ماننا پڑے گا کہ آگ میں جلانے کی خاصیت اسی نے پیدا فرمائی ہے، اگر وہ اپنے ایک جلیل القدر پیغمبر کو دشمنوں کے ظلم سے بچانے کے لیے اس کی یہ خاصیت ختم کردے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے ؟
 آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی

https://saagartimes.blogspot.com/2019/04/blog-post_24.html



Tuesday, 23 April 2019

آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے

آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ھے پس تمھارا ہر آدمی یہ ضرور دیکھے کہ وہ کس کے ساتھ دوستی کررہا ھے؟ (ابو داؤد ترمزی بسند صحیح اور امام ترمذی نے اس کی سند کو حسن کہا ہے) ...... اچھے ساتھی اپنے ساتھیوں، دوستوں، اور ہم محفل و ہم مجلس لوگوں کو نیکی اور اچھائی کی طرف ہی بلاتے ہیں اور ہر ایسے کام سے اچھے طریقے سے روکتے ہیں جو کام دینی، دُنیاوی اور بالخصوص اُخروی طور پر کسی نُقصان والا ہو، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھے ساتھی، اور بُرے ساتھی کی مثال اِس طرح ہے جیسے کہ خُوشبو بیچنے والا، اور بھٹی جھونکنے والا، کہ خُوشبُو بیچنے والا یا تو تُمہیں خُوشبُو دے گا، یا تُم اُس سے خُوشبُو خریدوگے (اور خود کو معطر کروگے) اور یا اُس سے خُوشبُو (میں سے کچھ نہ کچھ) پالوگے، اور بھٹی جھونکنے والا یا تو تُمہارے کپڑے جلائے گا، یا تُم اُس سے بُری بُو پالوگے.
صحیح البخاری/ حدیث 5534/ کتاب الذبائح/ باب30، صحیح مُسلم/ حدیث6860/ کتاب البر و الصلۃ و الادب/ باب45،
اس حدیث شریف میں یہ تعلیم فرمائی گئی کہ اگر اپنے ظاہر و باطن کی اصلاح چاہئے، اپنے نفس کی خیر میں مددگاری چاہئے تو نیکو کار لوگوں کو اپنے ساتھی بناؤ، برے لوگوں کا ساتھ برائی کا ہی سبب بنے گا، حتیٰ کہ اپنے دِین تک سے بھی ہاتھ دھو بیھٹتا ہے اور اپنے ساتھیوں، دوستوں، ہم مجلس لوگوں کے دِین پر ہوجاتا ہے، اور اس عظیم حقیقت کا اظہار بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مُبارک سے کروایا کہ

الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ:::
اِنسان اپنے دوست کے دِین پر ہی ہوجاتا ہے لہذا تُم میں سے ہر کوئی دیکھ لے کہ وہ کس کے ساتھ دوستی رکھتا ہے

سُنن ابو داؤد / حدیث4835/ کتاب الأدب/ باب19، سُنن الترمذی /حدیث 2552/ کتاب الزُھد/ باب45، اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے "حَسن" قرار دِیا،
یقین جانئے کہ ایسے نیک اور درست عقل رکھنے والے ساتھی ہم سب کے دِین، دُنیا اور آخرت کی کامیابی کا ایک بڑا سبب ہیں، خاص طور پر ایسے لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے مُسلمانوں، اور انسانوں کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے.
جب اللہ کسی حاکم کے ساتھ خیر کا اِرادہ فرماتا ہے تو اُس کے لئے نیکو کار سچا نیکی پر مدد کرنے والا وزیر مہیا کردیتا ہے، کہ اگر حاکم (خیر کا) کوئی کام یا بات بُھول جائے تو وزیر اُسے یاد کروادے، اور اگر حاکم کو یاد ہو تو وزیروہ کام کرنے میں اُس کی مدد کرے، اور اگر اللہ حاکم کے ساتھ اِس کے عِلاوہ معاملے کا اِرادہ فرماتا ہے تو اُس کے لئے بُرا وزیر مہیا کردیتا ہے جو حاکم کو (خیر کا) کوئی کام یا بات بُھولنے کی صُورت میں یاد نہیں کرواتا، اور اگر حاکم کو یاد ہو تو وہ کام کرنے میں اُس کی مدد نہیں کرتا.
سُنن ابو داؤد/ حدیث2934 / کتاب الخراج/ باب4، اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے "صحیح" قرار دِیا، صحیح ابن حبان / حدیث4494،
‎(صحيح البخاري ومسلم)
------------------
اچھی اور بری صحبت کے أثرات
اچھا دوست:
وہ ہے جو اللہ کا مطیع وفرمانبردار ہو، اس کے اوامر کی پابندی کرنیوالا، منہیات سے دور رہنے والا، فرائض کو ادا کرنے والا، سنن کی پابندی کرنے والا، حدود اللہ کا لحاظ رکھنے والا، اچھے اور اعلی اخلاق سے پیش آنے والا، برے اخلاق سے بچنے والا، صلہ رحمی کرنے والا، والدین سے حسن سلوک کرنیوالا، ہمسائے سے احسان کرنے والا، بردبار عاجز، لوگوں کے کام آنے والا اور لوگوں کو اذیت دینے سے دور رہنے والا ہو۔
برا دوست: 
وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول کا باغی ہو، فرائض میں کوتاہی کرنے والا، منہیات میں جرأت کرنے والا، حدود اللہ کو پامال کرنے والا، برے اخلاق سے پیش آنے والا، قطع رحمی کرنے والا، والدین کا نافرمان، ہمسائے سے برائی کرنے والا، جلد اور بہت زیادہ غصہ کرنے والا، متکبراور لوگوں کو اذیت دینے والا ہو۔ گویا کہ عقیدہ عمل اور سلوک کرنے میں دین سے منحرف ہو۔
اچھی صحبت کے اثرات:
بے شک انسانی زندگی پر اچھی صحبت کے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ اچھا دوست آپ کو خیر اور بھلائی کی جانب راہنمائی کرے گا۔ اور آپ کو دین ودنیا کی بہتری کا مشورہ دے گا۔ اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری پر راغب کرے گا جبکہ آپ کے عیوب کی بھی نشاندہی کرتا رہے گا۔ برے اخلاق چھوڑکر اچھے اخلاق اپنانے کی دعوت دے گا۔ یا کم از کم آپ اس کی نیکی کو دیکھ کر خود نیکی کرنے کی کوشش کریں گے۔ آپ کی موجوگی یا عدم موجودگی میں آپ کی خیر خواہی کرے گا اور آپ کی زندگی یا موت کے بعد آپ کے لئے دعا مغفرت کرے گا۔
بری صحبت کے اثرات: 
جس طرح اچھی صحبت سے انسانی زندگی پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اسی طرح بری صحبت اختیار کرنے سے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کیونکہ برے دوست کے تمام احوال ونقائص میں آپ اس کے برابر کے شریک ہیں۔ اور سب سے برا اثر جو انسان پر مرتب ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ یا تو برا دوست آپ کو بھی برائی میں شرکت کی دعوت دے گا جو آپ کے دین و دنیا دونوں کے لئے مضر ہے یا پھر برائی پر آپ کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ اور آپ کو والدین کی نافرمانی اور قطع رحمی پر ابھارے گا۔ آپ کے رازوں کو مخفی رکھے گا تاکہ آپ اپنے گناہوں کو جاری رکھیں۔ نیز آپ کی عدم موجودگی میں آپ کے رازوں کو افشاء کردینا آپ کے لئے ذلت ورسوائی کا سبب ہوگا۔ انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے اور اپنے دوستوں کے دین پر ہوتا ہے جیسا کہ کسی شاعر کا کلام ہے:
عن المرء لا تسئل وسل عن قرینہ فکل قرین بالمقارن یقتدی
کسی بھی آدمی کے بارے میں مت پوچھ! بلکہ اس کے دوست کے متعلق پوچھ۔ کیونکہ دوست اپنے دوستوں کے پیروکار ہوتے ہیں۔
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھے دوست اور برے دوست کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا:
((مثل الجلیس الصالح والجلیس السوء کحامل المسک ونافخ الکیر ،فحامل المسک اما أن یحذیک ،واما أن تبتاع منہ،واما أن تجد منہ ریحا طیبۃ،ونافخ الکیر اما أن یحرق ثیابک،واما أن تجد منہ ریحاخبیثۃ)) [متفق علیہ]
’’اچھے دوست اور برے دوست کی مثال مشک اٹھانے والے اور بھٹی جھونکنے والے کی مانند ہے، مشک اٹھانے والا یا تو آپ کو ہدیہ میں دے دیگا یا آپ اس سے خرید لیں گے یا کم از کم اچھی خوشبو تو پائیں گے، جبکہ بھٹی جھونکنے والا آپ کے کپڑوں کو جلادے گا یا کم از کم آپ اس سے بدبو پائیں گے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مثال کے ذریعہ معقول کو محسوس کے قریب کردیا ہے۔ جس سے صحبت کے اثرات کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ کہ جس طرح مشک والے کے پاس بیٹھنے سے فائدہ ہی فائدہ ہے اسی طرح اچھی صحبت اختیار کرنے سے انسان خیر اور بھلائی میں رہتا ہے جبکہ بھٹی جھونکنے والے پاس بیٹھنے سے نقصان ہی نقصان ہے اسی بری صحبت اختیار کرنے سے انسان خسارہ میں ہی رہتا ہے۔
نیک لوگوں کے ساتھ محبت اور ان کی صحبت اختیار کرنے کے فوائد:
نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے ان کے ساتھ بیٹھنے اور ان سے محبت کرنے کی فضیلت میں کتاب وسنت میں بہت ساری نصوص وارد ہیں۔جیسا کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لاتصاحب الا مؤمناولا یأکل طعامک الا تقی)) [ابوداؤد، ترمذی]
’’صرف مومن شخص کی صحبت اختیار کر، اور تیرا کھانا صرف متقی شخص کھائے۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((الرجل علی دین خلیلہ فلینظر أحدکم من یخالل)) [ابوداؤد، ترمذی]
’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، پس چاہئے کہ تم میں سے ہر شخص اپنے دوست کو دیکھے۔‘‘ 
حضرت ابوموسی أشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((المرء مع من أحب))
’’آدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس سے محبت کرتا ہے۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ جو شخص کسی قوم کے ساتھ محبت کرتا ہے اسے اس قوم کے ساتھ ملحق کیوں کر دیا جاتا ہے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((المرء مع من أحب)) ’’آدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس سے محبت کرتا ہے۔‘‘
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ دین دار عورت سے شادی کی جائے تاکہ وہ تمہارے دین میں تمہاری مدد گار ثابت ہوسکے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((تنکح المرأۃ لأربع لمالھا ولحسبھا ولجمالھا ولدینھا فاظفر بذات الدین تربت یداک)) [متفق علیہ]
’’چار وجوہ سے عورت کے ساتھ نکاح کیا جاتا ہے۔ اس کے مال کی وجہ سے، اس کے حسب ونسب کی وجہ سے، اس کے جمال کی وجہ سے، اور اس کے دین کی وجہ سے۔ دین والی کو ترجیح دو تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ان سات افراد کا تذکرہ ہے جن کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے عرش کا سایہ عطا فرمائیں گے جن میں سے دو افراد وہ بھی ہیں:
((رجلان تحابا فی اللہ اجتمعا علیہ وتفرقا علیہ))
’’جو فقط اللہ کے لئے محبت کرتے ہیں اسی محبت پر جمع ہوتے ہیں اور اسی پر ہی علیحدہ ہوتے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نیک اور اللہ کو یاد کرنے والے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے اور ان کی صحبت پر صبر کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ ان کو دھتکارنے سے منع کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ)) [الکھف:۲۸]
’’اور اپنے آپ کو انہی کے ساتھ رکھاکر جو اپنے پروردگار کو صبح شام پکارتے ہیں اور اسی کے چہرے کے ارادے رکھتے (رضامندی چاہتے) ہیں، خبردار! تیری نگاہیں ان سے نہ ہٹنے پائیں۔‘‘ یعنی ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ جو صبح وشام اللہ کو یاد کرتے ہیں، تسبیح وتحمید بیان کرتے ہیں، تہلیل وتکبیرکرتے ہیں، اورصرف ایک اللہ سے مانگتے ہیں خواہ غریب ہیں یا امیر، کمزور ہیں یا قوی۔
نیکو کاروں کی صحبت اختیار کرنے میں بے شمار فوائد ہیں۔ ان کے پاس بیٹھنے سے علمی اور اخلاقی فوائد ملتے ہیں۔ اور یہ نیک لوگوں کی دوستی کل قیامت کو بھی قائم رہے گی جبکہ باقی سب دوستیاں ختم ہوجائیں گی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
((اَلْأَخِلَّآئُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلاَّ الْمُتَّقِیْنَ))[الزخرف:۶۷]
’’اس دن گہرے دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے سوائے پرہیز گاروں کے۔‘‘
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
((وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلاً٭یٰوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ أَتَّخِذْ فُلَاناً خَلِیْلاً٭لَقَدْ أَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ اِذْ جَآئَ نِیْ وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلاً)) [الفرقان:۲۷-۲۹]
’’اور اس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چباکر کہے گا ہائے کاش کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ اختیار کی ہوتی۔ ہائے افسوس کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراہ کردیا کہ نصیحت میرے پاس آپہنچی تھی اور شیطان تو انسان کو (وقت پر) دغا دینے والا ہے۔‘‘ ظالم شخص غم اور افسوس سے اپنی انگلیوں کو کاٹے گا کہ اس نے غلط اور شریر شخص کو اپنا دوست بنالیا جس نے اسے ہدایت اور صراط مستقیم سے ہٹاکر ضلالت و گمراہی اور بد بختی کے رستے پر لگادیا لیکن اس وقت یہ افسوس کسی کام نہیں آئیگا کیونکہ ہاتھ سے نکلا ہوا وقت واپس نہیں آتا۔
اسی طرح جہنمی جہنم میں ندامت کا اظہار کریں گے کہ کاش ہم اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت نہ کرتے جنہوں نے ہمیں گمراہ کردیا اور صراط مستقیم سے ہٹادیا، کاش کہ ہم اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن تھام لیتے اور آج اس ذلت آمیز عذاب سے بچ جاتے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْھُھُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَا أَطَعْنَا اللّٰہَ وَأَطَعْنَا الرَّسُوْلَا٭وَقَالُوْا رَبَّنَا اِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَآئَ نَافَأَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا))[الأحزاب:۶۶،۶۷]
’’اس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کئے جائیں گے۔ (حسرت وافسوس سے) کہیں گے کہ کاش ہم اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے۔ اور کہیں گے اے ہمارے رب! ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی مانی جنہوں نے ہمیں راہ راست سے بھٹکادیا۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ برے لوگوں کی صحبت نہ صرف علمی واخلاقی فوائد سے محروم کردیتی ہے بلکہ انسان کو اسفل سافلین تک جاپہنچاتی ہے۔
https://saagartimes.blogspot.com/2019/04/blog-post_61.html

یزید بن معاویہ کے بارے میں ہمیں کیا عقیدہ رکھنا ہے

یزید بن معاویہ کے بارے میں ہمیں کیا عقیدہ رکھنا ہے

سوال: یزید بن معاویہ کے بارے میں ہمیں کیا عقیدہ رکھنا ہے؟؟
جواب: بسم الله الرحمن الرحيم
یزید کے متعلق حضرت امام حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سکوت اور توقف کرنا چاہیے نہ اس کو کافر کہا جائے نہ اس پر لعن طعن کیا جائے؛ بلکہ اس کے امر کو خدا تعالیٰ کے حوالہ کردینا چاہیے ۔۔۔
----------------
سوال: واقعہ کربلا کے موضوع پر کسی مستند کتاب کا نام بتائیں جس میں حوالے کے ساتھ واقعہ کربلا کا ذکر ہو۔ میں لکھنوٴ کا رہنے والا ہوں، لہذا یسی کتاب کا نام بتائیں جو یہاں دستیاب ہوسکے۔ مزید یہ بھی فرمائیں کہ یزید کے بارے میں کیا عقیدہ ہونا چاہئے؟ کیا جنگ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی تھی جس میں یزید بھی شریک تھا؟
جواب: بسم الله الرحمن الرحيم
اس موضوع پر ہمیں کسی مستند کتاب کا علم نہیں، اس لیے اس بارے میں کسی راہنمائی سے معذرت ہے، اور یزید کے سلسلے میں اصح مذہب توقف کا ہے۔ ویسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہٴ روم کے سلسلے میں یہ بشارت دی تھی کہ سب سے پہلے ملک روم کو فتح کرنے والے (میری امت میں سے) مغفور لہم (جن کی مغفرت کردی گئی) اور اس غزوے میں شریک ہونے والے بہت سے بڑے بڑے صحابی ہیں ان میں امیر لشکر یزید بن معاویہ تھے، أن عمیر بن الأسود العنسي حدثہأتی․․․ ثم قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: أول جیش من أمتي یغزون مدینة قیصر مغفور لہم فقلت: أنا فیہم یا رسول اللہ! قال: لا․ (بخاری: ۱/۴۰۹، باب ما قیل في قتال الروم/ کتاب الجہاد) وقال المحشي: مدینة قیصر أي ملک الروم: قال القسطلاني: کان أول من غزا مدینة قیصر: یزید ابن معاویة ومعہ جماعة من سادات الصحابة․․․ قال المہلب في ہذا الحدیث منقبة لمعاویة لأنہ أول من غزا البحر ومنقبة لولدہ لأنہ أول من غزا مدینة قیصر إلخ (بخاري: ۱/۴۱۰، حاشیة نمبر ۲ حوالہ سابق)
قال في المنتظم: فمن الحوادث فیہا: وفیہا: غزا یزید بن معاویة أرض الروم حتی بلغ القسطنطینیة ومعہ ابن عباس وابن عمر وابن الزبیر وأبو أیوب الأنصاري․ (المنتظم: ۵/۲۲۴، سنة تسع وأربعین، ط: دارالکتاب العلمیة بیروت، لبنان)
--------------------------
قطب العالم مولانا رشید احمد گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ (م۱۳۲۳ھ/۱۹۰۵ء):

حدیث صحیح ہے کہ جب کوئی شخص کسی پر لعنت کرتا ہے، اگر وہ شخص قابل لعن ہے تو لعن اس پر پڑتی ہے ورنہ لعنت کرنے وا لے پر رجوع کرتی ہے۔ پس جب تک کسی کا کفر پر مرنا متحقق نہ ہوجائے، اس پر لعنت نہیں کرنا چاہیے کہ اپنے اوپر عود لعنت کا اندیشہ ہے۔ لہٰذا یزید کے وہ افعال ناشائستہ ہرچند موجب لعن کے ہیں ،مگر جس کو محقق اخبار اور قرائن سے معلوم ہوگیا کہ وہ ان مفاسد سے راضی وخوش تھا اور ان کو مستحسن اور جائز جانتا تھا اور بدون توبہ کے مرگیا تو وہ لعن کے جواز کے قائل ہیں اور مسئلہ یوں ہی ہے ۔
اور جو علماء اس میں تردد رکھتے ہیں کہ اوّل میں وہ مومن تھا۔ اس کے بعد ان افعال کا وہ مرتکب تھا یا نہ تھا اور ثابت ہوا یا نہ ہوا، تحقیق نہیں ہوا۔ پس بدون تحقیق اس امر کے لعن جائز نہیں۔ لہٰذا وہ فریق علماء کا بوجہ حدیث منع لعن مسلم کے لعن سے منع کرتے ہیں اور یہ مسئلہ بھی حق ہے۔
پس جواز لعن اور عدم جواز کا مدار تاریخ پر ہے اور ہم مقلدین کو احتیاط سکوت میں ہے۔ کیونکہ اگر لعن جائز ہے تو لعن نہ کرنے میں کوئی حر ج نہیں لعن، نہ فرض ہے، نہ واجب، نہ سنت محض مباح ہے اور جو وہ محل نہیں تو خود مبتلا ہونا معصیت کا اچھا نہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم ۔ (رشید احمد)
مولانا رشیداحمد گنگوہی، فتاویٰ رشیدیہ، کتاب ایمان اور کفر کے مسائل ، ص ۳۵۰
------------------
شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی (م ۱۳۷۷ھ/۱۹۵۸ء ):
شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی یزید کے بارے میں فرماتے ہیں یزید کو متعددمعارک جہاد میں بھیجنے اور جزائر بحر ابیض اور بلادہائے ایشیائے کوچک کے فتح کرنے حتیٰ کہ خود استنبول (قسطنطنیہ) پر بری افواج سے حملہ کرنے وغیرہ میں آزمایا جاچکا تھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ معارک عظیمہ میں یزید نے کا رہائے نمایاں انجام دیئے تھے۔ خود یزید کے متعلق بھی تاریخی روایات مبالغہ اور آپس کے تخالف سے خالی نہیں۔
(مکتوبات شیخ الاسلام حسین احمدمدنی، جلد اوّل ، ص ۲۴۲۔۲۵۲، ببعد)

مولانامفتی محمد عاشق الہٰی بلند شہری (مہاجر مدنی )رحمتہ اللہ علیہ

(خلیفۂ مجاز حضرت شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا رحمتہ اللہ علیہ)

بہت سے لوگ روافض سے متاثرہوکر یزید پر لعنت کرتے ہیں۔بھلا اہل سنت کو روافض سے متاثرہونے کی کیا ضرورت؟ان کو اسلامی اصول پرچلنا چاہیے۔روافض کے مذہب کی توبنیاد ہی اس پر ہے کہ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کو کافر کہیں اور یزیداور اس کے لشکر پر لعنت کریں ‘قرآن کی تحریف کے قائل ہوں اور متعہ کیاکریں ۔اور جب اہل سنت میں پھنس جائیں تو تقیہ کے داؤ پیچ کواستعمال کرکے اپنے عقیدہ کے خلاف سب کچھ کہہ دیں ۔بھلا اہل سنت ان کی کیا ریس کرسکتے ہیں۔ اہل سنت اپنے اصول پر قائم رہیں جو کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ اسے ثابت ہیں۔ان ہی اصول میں سے یہ ہے کہ لعنت صرف اس پر کی جاسکتی ہے جس کاکفر پر مرنا یقینی ہو۔یزید اور اس کے اعوان وانصار کاکفر پر مرنا کیسے یقینی ہوگیا جس کی وجہ سے لعنت جائز ہوجائے ؟

حضرت امام غزالی نے احیا ء العلوم میں اوّل یہ سوال اٹھایا ہے کہ یزید پر لعنت جائز ہے یا نہیں؟ اس کی وجہ سے کہ وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا قاتل ہے یا قتل کا حکم دینے والا ہے۔ پھر اس کا جواب دیا ہے کہ یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کیا یا اس کاحکم دیا یہ بالکل ثابت نہیں ہے ۔لہٰذا یزید پر لعنت کرنا تودرکنار یہ کہنا بھی جائز نہیں کہ اس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کوقتل کیا یا قتل کرنے کا حکم دیا ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ کسی مسلمان کوگناہِ کبیرہ کی طرف بغیر تحقیق کے منسوب کرنا جائز نہیں۔نیزامام غزالی نے یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ مخصوص کرکے یعنی نام لے کر افراد واشخاص پر لعنت کرنا بڑا خطرہ ہے۔ اس سے پرہیز لازم ہے اور جس پر لعنت کرنا جائز ہو‘ اس پر لعنت کرنے سے سکوت اختیار کرنا کوئی گناہ اور مؤاخذہ کی چیز نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص ابلیس پر لعنت نہ کرے ‘اس میں کوئی خطرہ نہیں ۔چہ جائیکہ دوسروں پر لعنت کرنے سے خاموشی اختیار کرنے میں کچھ حرج ہو۔پھر فرمایا فالاشتغال بذکراللّٰہ اولیٰ فان لم یکن فقی السکوت سلامہ یعنی خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اللہ کے ذکر میں مشغول رہنا اولیٰ اور افضل ہے ۔اگر ذکر اللہ میں مشغول نہ ہوتو پھر خاموشی میں سلامتی ہے (کیونکہ لعنت نہ کرنے میں کوئی خطرہ نہیں اور نام لے کر کسی پر لعنت کردی تو یہ پُرخطر ہے کیونکہ وہ لعنت کامستحق نہ ہوا تو لعنت کرنے والے پر لعنت لوٹ آئے گی ۔پھر کسی حدیث میں مستحقِ لعنت پر لعنت کرنے کاکوئی ثواب واردنہیں ہوا۔اس لیے لعنت کے الفاظ زبان پرلانے سے کوئی فائدہ نہیں)۔
(’’زبان کی حفاظت ‘‘مولانا مفتی محمدعاشق الہٰی بلند شہری رحمتہ اللہ علیہ)

حسب الحکم :حضرتِ اقدس، حجتہ الخلف، بقیۃ السلف، برکتہ العصر، مولانا محمدزکریا کاندھلوی مہاجر مدنی رحمتہ اللہ علیہ

ناشر:’’مکتبہ خلیل‘‘یوسف مارکیٹ ،غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور۔ص۷۵،۷۶/ناشر:’’دارالاشاعت ‘‘اردو بازار کراچی ۔ ص۷۲،۷۳
--------------------------
حضرت مفتی محمدتقی عثمانی مدظلہ
یزید کا شراب پینا یا زنا کرنا کسی بھی قابل اعتماد روایت سے ثابت نہیں ہے۔ زنا کی روایت تو میں نے کسی بھی تاریخ میں نہیں دیکھی۔ کمی نے جو شیعہ راوی ہے یزید کا شراب پینا وغیرہ بیان کیا ہے ، لیکن کسی مستند روایت میں اس کا ذکر نہیں۔ اگر یزید کھلم کھلا شرابی ہوتا تو حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی اتنی بڑی جماعت اس کے ساتھ قسطنطنیہ کے جہاد میں نہ جاتی۔ اس دور کے حالات کو دیکھ کر ظنِ غالب یہی ہے کہ یزید کم ازکم حضرت معاویہ کے عہد میں شراب نہیں پیتا تھا اور حدِ شرعی اس وقت قائم ہوسکتی ہے جب کہ دوگواہوں نے پیتے وقت دیکھا ہو۔ ایسا کوئی واقعہ کسی شیعہ روایت میں بھی موجود نہیں ہے۔

یزید کے بارے میں صحیح بات وہی ہے جو میں لکھ چکا ہوں۔ قانونِ الٰہی کو بدلنے کاکوئی ثبوت کم ازکم مجھے نہیں ملا۔

یزید ایک سلطان متغلب تھا۔ شرعاً اس کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ پورا کنٹرول حاصل کرچکا ہوتو اس کے خلاف خروج نہ کیا جائے گا، اور اس کا غلبہ روکنا ممکن ہوتو روکنے کی کوشش کی جائے۔ حضرت حسین سمجھتے تھے کہ اس کا غلبہ روکنا ممکن ہے، اس لیے وہ روانہ ہوگئے اور دوسرے حضرات صحابہ کا خیال تھا کہ اب اس کے غلبہ کوروکنا استطاعت میں نہیں اور اس کو روکنے کی کوشش میں زیادہ خون ریزی کا اندیشہ ہے، اس لیے وہ خود بھی خاموش رہے اور حضرت حسین کو بھی اپنے ارادے سے باز آنے کا مشورہ دیا۔

’’سرداد ندادست دردستِ یزید‘‘ کوئی نقطۂ نظر نہیں ہے۔ حضرت حسین شروع میں یہ سمجھتے تھے کہ سلطان متغلب کا غلبہ روکنا ممکن ہے، اس لیے روانہ ہوئے اور اہل کوفہ پر اعتماد کیا، لیکن جب عبیداللہ بن زیاد کے لشکر سے مقابلہ ہوا تو کوفیوں کی بدعہدی کا اندازہ ہوا۔ اس وقت آپ کو یقین ہوگیا کہ اہل کوفہ نے بالکل غلط تصویر پیش کی تھی۔ حقیقت میں یزید کا غلبہ روکنا اب استطاعت میں نہیں ہے۔ اس لیے انھوں نے یزید کے پاس جاکر بیعت تک کرنے کا ارادہ ظاہر کیا مگر عبیداللہ بن زیادہ نے انھیں غیر مشروط طور پر گرفتار کرنا چاہا۔ اس میں انھیں مسلم بن عقیل ؒ کی طرح اپنے بے بس ہوکر شہید ہونے کا اندیشہ تھا۔ اس لیے ان کے پاس مقابلہ کے سوا چارہ نہ رہا۔

فتاویٰ عثمانی، جلد اوّل، فتویٰ نمبر ۴۰۴/۲۲ الف، ص ۱۷۹، ۱
https://saagartimes.blogspot.com/2019/04/blog-post_58.html

Drachm_of_Yazid


اکابرین امت کی نظر میں: جمہوریت کی اسلام میں کیا حیثیت ہے؟

اکابرین امت کی نظر میں: جمہوریت کی اسلام میں کیا حیثیت ہے؟ 
جمہوریت کی اسلام میں کیا حیثیت ہے؟ 
کیا ووٹ ڈالنے کی وجہ سے مسلمان شرک کے فروغ کا معاون بن رہا ہے
وضاحت فرمائیں

جمہوریت کے حوالے سے جید علمائے کرام کی آراء/فتاویٰ
جو مسلمان یہ گمان کرتے ہیں کہ جید علماء نے جمہوریت کے مسئلے پر خاموشی اختیار کر رکھی تھی یا اس مسئلے پر ان کی کوئی رائے نہیں تھی تو یہ ہماری کم علمی ہے۔ عالمِ اسلام کی تاریخ بلاخوف لومۃ لائم احقاق و اظہارِ حق کرنے والے حق گو علماء سے بھری پڑی ہے۔ انتخابی سیاست کی دھماچوکڑی اور جمہوری سیاست کی آلودگی کے اس عہد میں عوام الناس کی راہنمائی کے لیے جمھوریت کے حوالے سے چند علماء کے موقفات کو ذیل میں نقل کیا جارہا ہے۔
فتویٰ 1/12:
مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند مفتی محمود حسن گنگوہی کا فتویٰ

سوال: کیا ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمھوریت کو قائم کیا اور کیا خلفائے اربعہ بھی اسی جمھوریت پر چلے یا انھوں نے کچھ تغیرو تبدیل کیا ہے؟

الجواب حامداً و مصلیاً:
حضرت شاہ محدث دہلوی رح نے جمھوریت کی تردید فرمائی ہے۔ وہاں قوانین و احکام دلائل پر نہی بلکہ اکثریت پر ہے، یعنی اکثریت رائے قرآن و حدیث کے خلاف ہو تو اسی پر فیصلہ ہوگا۔ قرآن کریم نے اکثریت کی اطاعت کو موجبِ ضلالت فرمایا ہے۔
وَ اِنۡ تُطِعۡ اَکۡثَرَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ یُضِلُّوۡکَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اِنۡ یَّتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنۡ ہُمۡ اِلَّا یَخۡرُصُوۡنَ ﴿۱۱۶﴾
اور اگر تو زمین میں (موجود) لوگوں کی اکثریت کا کہنا مان لے تو وہ تجھے اﷲ کی راہ سے بھٹکا دیں گے ۔ وہ (حق و یقین کی بجائے) صرف وہم و گمان کی پیروی کرتے ہیں اور محض غلط قیاس آرائی (اور دروغ گوئی) کرتے رہتے ہیں.

اہلِ علم، اہلِ دیانت، اہلِ فہم کم ہی ہوا کرتے ہیں۔ خلفائے اربعہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ حضورِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے نقشِ قدم پر چلنے والے تھے، انھون نے اس کے خلاف کوئی راہ اختیار نہی کی ہے۔

فتاویٰ محمودیہ؛ جلد چہارم؛ کتاب السیاستہ والھجرتہ؛ باب جمھوری و سیاسی تنظیموں کا بیان

فتویٰ 2/12:

معروف عالمِ دین، مفتی حمید اللہ جان اپنے ایک نہایت اہم فتوے میں فرماتے ہیں:

"مشاہدے اور تجزیے سے ثابت ہے کہ موجودہ مغربی جمھوری نظام ہی بے دینی، بے حیائی اور تمام فسادات کی جڑ ہے اور خصوصاً اس میں اسمبلیوں کو حقِ تشریح (آئین سازی، قانون سازی کا حق) دینا سراسر کتاب و سنت کے خلاف ہے۔ اور ووٹ کا استعمال مغربی جمھوری نظام کو عملاً تسلیم کرنا اور اسکی تمام خرابیوں میں حصہ دار بننا ہے، اس لئے موجودہ نظام کے تحت ووٹ کا استعمال شرعاً ناجائز ہے۔"

(ماہنامہ سنابل، کراچی، مئی 2013، جلد نمبر 8, شمارہ نمبر 11, ص32)

حکیم شاہ محمد اختر 3/12:

مولانا شاہ محمد حکیم اختر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"اسلام میں جمھوریت کوئی چیز نہی کہ جدھر زیادہ ووٹ ہوجائیں ادھر ہی ہوجاؤ، بلکہ اسلام کا کمال یہ ہے کہ ساری دنیا ایک طرف ہوجائے لیکن مسلمان اللہ کا ہی رہتا ہے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صفا کی پہاڑی پر نبوت کا اعلان کیا تھا تو الیکشن اور ووٹوں کے اعتبار سے کوئی بھی نبی کے ساتھ نہ تھا۔ نبی کے پاس صرف اپنا ووٹ تھا، لیکن کیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے پیغام سے باز آگئے کہ جمھوریت چونکہ میرے خلاف ہے، اکثریت کی ووٹنگ میرے خلاف ہے، اس لیے میں اعلان نبوت سے باز رہتا ہوں"؟

خزائنِ معرفت و محبت، ص 209

مولانا شاہ محمد حکیم اختر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"اسلام میں جمھوریت کوئی چیز نہی کہ جدھر زیادہ ووٹ ہوجائیں ادھر ہی ہوجاؤ، بلکہ اسلام کا کمال یہ ہے کہ ساری دنیا ایک طرف ہوجائے لیکن مسلمان اللہ کا ہی رہتا ہے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صفا کی پہاڑی پر نبوت کا اعلان کیا تھا تو الیکشن اور ووٹوں کے اعتبار سے کوئی بھی نبی کے ساتھ نہ تھا۔ نبی کے پاس صرف اپنا ووٹ تھا، لیکن کیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے پیغام سے باز آگئے کہ جمھوریت چونکہ میرے خلاف ہے، اکثریت کی ووٹنگ میرے خلاف ہے، اس لیے میں اعلان نبوت سے باز رہتا ہوں"؟

خزائنِ معرفت و محبت، ص 209

ابنِ امیرِ شریعت سید عطاء المحسن بخاری رحمت اللہ علیہ کے بقول 4/12:

ابنِ امیرِ شریعت سید عطاء المحسن شاہ بخاری رحمت اللہ علیہ نے فرمایا:

"اگر کسی ایک قبر کو مشکل کشا ماننا شرک ہے تو کسی اور نظام ریاست، امپیریل ازم، ڈیموکریسی، کمیونزم، کیپٹلزم اور تمام باطل نظام ہاۓ ریاست کو ماننا کیسے اسلام ہوسکتا ہے؟ ....
 قبر کو سجدہ کرنے والا مشرک ، پتھر لکڑی اور درخت کو مشکل کشا ماننے والا، حاجت روا ماننے والا مشرک، اور غیراللہ کے نظاموں کو مرتب کرنا اور اسکے لیے تگ و دو کرنا اور اس نظام کو قبول کرنا، یہ توحید ھے ؟.....

کہاں ہے جمہوریت اسلام میں؟

 نہ ووٹ ہے، نہ مفاہمت ہے نہ ان کا وجود برداشت ہے نہ انکی تہذیب برداشت ہے .... اسلام آپ سے اطاعت مانگتا ہے. آپ سے ووٹ نہیں مانگتا، آپکی راۓ نہیں مانگتا.

من یطع الرسول فقد اطاع اللہ!"

خطاب بموقع توحید وسنت کانفرنس 26 ستمبر)
1987 جامع مسجد برمنگھم برطانیہ بحوالہ ماہنامہ سنابل (کراچی

فتویٰ 5/12:

حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رح نے فرمایا:

"غرض اسلام میں جمھوری سلطنت کوئی چیز نہیں۔۔۔۔یہ مخترعہ متعارفہ جمھوریت محض گھڑا ہوا ڈھکوسلہ ہے، بالخصوص ایسی جمھوری سلطنت جو مسلم و کافر ارکان سے مرکب ہو تو وہ غیر مسلم سلطنت ہی ہوگی۔"

(ملفوظات ِ تھانوی رحمۃ اللہ علیہ؛ ص: 252؛ نیز دیکھئے احسن الفتاویٰ، کتاب الجہاد، باب سیاستِ اسلامیہ)

فتویٰ 6/12:
مولانا ادریس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ مزدور اور عوام کی حکومت ہے، ایسی حکومت بلاشبہ حکومتِ کافرہ ہے۔"
(عقائد ِ اسلام؛ ص: 230)

فتویٰ 7/12:

سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اسلامی جمھوریت کے تصور کو رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"جمھوریت اور جمھوری عمل کا اسلام سے کیا تعلق؟ اور خلافتِ اسلامی سے کیا تعلق؟ موجودہ جمھوریت تو سترہویں صدی کے بعد پیدا ہوئی ہے۔ یونان کی جمھوریت بھی موجودہ جمھوریت سے الگ تھی، لہذا اسلامی جمھوریت ایک بے معنی اصطلاح ہے۔۔۔ ہمیں تو اسلام میں کہیں بھی مغربی جمھوریت نظر نہیں آئی اور اسلامی جمھوریت تو کوئی چیز ہے ہی نہی، معلوم نہیں اقبال مرحوم کو اسلام کی روح میں یہ جمھوریت کہاں سے نظر آگئی؟...
جمھوریت ایک خاص تہذیب و تاریخ کا ثمرہ ہے، اسے اسلامی تاریخ میں ڈھونڈنا معذرت خواہی ہے۔"

(ماہنامہ سنابل، کراچی، مئی 2013, جلد نمبر 8, شمارہ نمبر 11، ص 27, 28, مدیر مولانا حافظ محمد احمد صاحب۔ نیز دیکھئے ماہنامہ ساحل، کراچی، شمارہ جون، 2006, ماخوذ از امالی علامہ سیّد سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ، مرتبہ مولانا غلام محمد رحمۃ اللہ علیہ)

فتویٰ 8/12:

قاری طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"یہ جمھوریت ربِ تعالیٰ کی صفتِ ملکیت میں بھی شرک ہے اور صفتِ علم میں بھی شرک ہے۔"

(فطری حکومت از قاری محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ)

فتویٰ 9/12:

مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

"یہ تمام برگ و بار مغربی جمھوریت کے شجرہ خبیثہ کی پیداوار ہے۔ اسلام میں اس کافرانہ نظام کی کوئی گنجائش نہیں۔"

(احسن الفتاویٰ، جلد 6, ص: 26)

فتویٰ 10/12:

مولانا یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ شہید نے فرمایا:

"جمھوریت کا نہ صرف یہ کہ اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ اسلام کے سیاسی نظریے کی ضد ہے۔"

(آپ کے مسائل اور انکا حل، جلد 8, ص: 176)

فتویٰ 11/12: 

صدر وفاق المدارس پاکستان مولانا سلیم اللہ خان کا موقف:

شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان سے پوچھا گیا کہ:

"کیا انتخابی سیاسی نظام کے تحت اسلامی نظام کا نفاذ ممکن ہے"؟
تو آپ نے فرمایا:

"نہیں، ایسا ممکن نہیں ہے۔ نہ انتخابات کے ذریعے اسلام لایا جاسکتا ہے، نہ جمھوریت کے ذریعے اسلام لایا جاسکتا ہے۔ جمھوریت میں کثرتِ رائے کا اعتبار ہوتا ہے اور اکثریت جہلاء کی ہے جو دین کی اہمیت سے واقف نہیں۔ ان سے کوئی توقع نہیں ہے۔"

(ماہنامہ سنابل، کراچی، مئی 2013, جلد نمبر8, شمارہ 11, سرِورق)

فتویٰ 12/12:

مولانا یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "آپ کے مسائل اور ان کا حل" میں یہ مسئلہ بھی موجود ہے:

سوال: حرام کو قصداً حلال کہنا بلکہ اسلامی کہناکہاں تک لے جاتا ہے؟ میں آپ کی توجہ مئی 1991 میں ہماری قومی اسمبلی کے منظور شدہ شریعت بل کی شق 3 کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ شریعت، یعنی اسلام کے احکامات، جو قرآن و سنت میں بیان کئے گئے ہیں، پاکستان کا بالادست قانون ہونگے، بشرطیکہ سیاسی نظام اور حکومت کی موجودہ شکل متاثر نہ ہو۔ یعنی ملک کے سیاسی نظام اور موجودہ شکل کے متاثر ہونے کی صورت میں قرآن و حدیث کو رد کردیا جائیگا، نہیں مانا جائیگا۔ سیاسی نظام اور حکومتی شکل کے سلسلے میں سپریم لاء آئین 1973 ہی ہوگا۔
مولانا صاحب ! اس بل کے بنانے والا، اس کے منظار کرنے والے، اس کو ملک میں رائج کرنے والے اور ان تمام حضرات کی معاونت کرنے والے علماء کرام کس زمرے میں آئیں گے؟

جواب: ......ایک مسلمان کا کام یہ ہے کہ وہ بغیر شرط اور استثناء کے اللہ تعالیٰ کے اور اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام احکام کو دل وجان سے تسلیم کرے۔ یہ کہنا کہ :" میں قرآن وسنت کو بالا دست مانتا ہوں بشرطیکہ میری فلاح دنیوی غرض متاثر نہ ہو" ، ایمان نہی بلکہ کٹر نفاق ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کا بندہ ہونے اور محمد رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتی ہونے سے صریح انکار و انحراف ہے۔

(آپ کے مسائل اور اُن کا حل1, ص: 49)

آخری پیغام: جید علمائے کرام کی رائے پڑھنے کے بعد بہت واضح ہوجاتا ہے کہ جمھوریت کا دور دور تک اسلام سے کوئی تعلق نہی۔ اسلام کا واحد نظامِ حکمرانی صرف اور صرف حکومتِ الہیہ/خلافت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت اور کامیابی صرف اسلام کے نظام کے قیام جو کہ خلافت ہے، کے ذریعے سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ جمھوریت سے محض چند کاسمیٹکس لیول پر تبدیلی تو لائی جاسکتی ہے پر حقیقی تبدیلی نہیں۔ لوگوں کی اصلاح اور رہنمائی کے لئے زیادہ سے زیادہ پھیلائیں۔ جزاک اللہ خیرا

-----------------
نظام اسلامی سے جمہوریت کا ٹکراؤ
روئے زمین پر جتنے نظام پائے جاتے ہیں وہ اپنے نصب العین اور دعاوی کے لحاظ سے مکمل ہوا کرتے ہیں، جس سے مراد یہ ہے کہ اس نظام سلطنت کی بنیاد، کسی اصول طراز کی فکر پر قائم ہوتی ہے اور اسی فکر کے مطابق نظامِ سلطنت کی توسیع و تکمیل ہوتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ اکثر اصول طراز اور سیاست دانوں نے کسی ایک پہلو کو دوسرے پہلو پر فوقیت دے کر اُسے ہی کل مان لینے پر اصرار کیا ہے؛ چوں کہ ایسے بے شمار سیاسی نظریے وجود میں آئے ہیں جن میں کبھی تو سیاسی عمل پر عقل انسانی کے اثرات کا پورے شدومد کے ساتھ ذکر کیاگیا ہے اور کبھی اس کے بالکل برعکس، کہ سیاست و سیادت میں انسانی عقل کا کوئی حصہ نہیں؛ بلکہ یہ چیز بعض قوموں کا ذاتی ورثہ ہے جو ازل سے انھی کے لیے ہے اوراس باب میں انہی کی رہنمائی قابل قبول ہوتی ہے ، سیاست اور نظام کے باب میں یہی بنیادی نقطئہ نظر ہے جو کمیونزم،سوشلزم، ریشنلزم، کمرشیلائزیشن، سیکولرائزیشن، ڈیماکریسی اور نظام اسلامی کے مابین حد فاصل ہے۔

جمہوریت کاآغاز و نظام

مشہور انقلاب فرانس کے بعد، جو یورپ میں حریت و جمہوریت کے مذبح کی سب سے بڑی اور آخری قربانی تھی، موجودہ جمہوریت کا وجود عمل میں آیا۔ ”تاریخ انقلاب تمدن“ کے مصنف اور مشہور موٴرخ ”حال“ کا یہی خیال ہے۔

ابتداءً اُس کے اساس اولین پانچ قرار پائے؛ لیکن ان کے تجزیے کے بعد ایک اصول باقی رہتا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ قوت حکم و ارادہ افراد و اشخاص کے ہاتھ میں نہ ہو اور دوسرے لفظوں میں اس اصول کو نفی حکم ذاتی و مطلق کا بھی نام دیا جاسکتا ہے۔

مبادیٴ حریت

اس سے قبل نظامِ حکومت کا کوئی قانون مرتب نہ ہوا تھا، انقلاب فرانس کے بعد فرانس کا دستور مملکت مرتب کرنے کے لئے ایک قانون ساز کونسل قائم کی گئی، جس میں قوانین وضع کرنے سے قبل بطور مبادیٴ دستور حریت کے چند دفعات مرتب کئے گئے، جنھیں جملہ قوانین کا اصل الاصول قرار دیا جاتا ہے۔ ان اصولوں کا خلاصہ یہ تھا: انسان آزاد پیدا ہوتا ہے اورآزادی ہی کے لئے زندہ رہتا ہے، تمام انسان بلحاظ حقوق مساوی ہیں اورحقوق طبعی پانچ ہیں: حریت، تملک، امن، مقاومت اور قانون ارادئہ عامہ کا مظہر ہے؛ اس لئے ملک کے ہر باشندے کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ وکلاء کے توسط سے مجلس اعلیٰ میں شرکت کرے، ہر وطنی بلحاظ وطنی ہونے کے یکساں حکم سے موٴثر ہو اس بنا پر ہر شخص کو حسب قدرت وصلاحیت بڑے بڑے عہدے حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔ کسی انسان کے لئے کسی حالت میں دوسرے انسان کو قیدی بنانے کی اجازت نہیں؛ بلکہ اس طرح کے تمام رویے سے گریزاں رہے البتہ قانون کی مقرر کردہ صورتوں میں اس کی اجازت دی جاسکتی ہے اور کسی شخص کے لئے روا نہیں کہ وہ دوسرے کو رائے کے اظہار سے روکے، گو وہ رائے دینی اور عام اعتقادیات کے خلاف ہو۔ ملک کے ہر باشندے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی رائے و فکر کے مطابق گفتگو کرے، لکھے، پڑھے اور چھاپے۔

حق تملک ایک مقدس حق ہے کوئی شخص اسے سلب نہیں کرسکتا تاہم مفادات عامہ سب پرمقدم ہیں؛ لیکن اس کے لئے بھی جب تک قانونی صورت نہ ہو کسی کو اپنی ملکیت سے دست بردار ہونے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، تحریک انقلاب کے مقاصد میں یہ بھی تھا کہ حق حکم و تسلط اشخاص کو نہیں؛ بلکہ ہر فرد بشر کو حاصل ہے کہ وہ حریت سے لطف اندوز ہو اور مامون و محفوظ رہے۔ اسی وطنی حریت کو امت فرنساویہ کے مرض کا شفا قرار دیاگیا تھا اور یہ حقیقت ہے کہ موجودہ جمہوریت کا مبدأ سعادت قانون ساز کونسل کا یہی اعلان تھا جسے تاریخ میں اعلان حقوق انسانی کے محترم لقب سے نوازا گیا ہے۔

موجودہ جمہوریت کے محل کے اہم نکات

جمہوری طرز حکومت طریقہٴ انتخاب پر مبنی ہے اور موجودہ جمہوریت سے مراد ایسا نظام حکومت ہے جس میں آمریت مطلقہ اور اقتدار ذاتی کی جگہ قوت واقتدار کے تمام عہدے ملک کی عوامی جماعتوں کو حاصل ہوں، حکومت کے کسی ادارے میں وراثت و جانشینی اور ولی عہدی کے قدیم دقیانوسی طرز حکومت کا عمل دَخل نہ ہو؛ بلکہ ملک کی عوامی جماعتوں کو یہ حق حاصل ہو کہ ملک کی جو جماعت قومی و ملکی پروگرام کے موافق ہو اس کو اپنے ووٹوں کے ذریعے منتخب فرماکر حکومت کی گدی پر بٹھادیں اور اپنی مرضی کے مطابق وہ اسے استعمال کریں اور اپنی منشا کے موافق مجلس تشریعی و تنفیذی میں اپنے نمائندہ کو روانہ کرسکیں، نیز اس حکومت کے تمام باشندے جملہ حقوق کے حوالے سے خواہ وہ اقتصادیات سے متعلق ہوں یا معاشرت سے؛ مساوی تصور کیے جاتے ہیں، ملکی اور شہری تمام امور میں اپنی صلاحیت کے مطابق ہر باشندے کو ترقی کے حصول اور سیاسی اعتبار سے اعلیٰ عہدوں تک رسائی میں کوئی رکاوٹ نہ ہو یہ امور ”حریت اجتماع“ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔

حریتِ فکر اور آزادیٴ صحافت بھی اس جمہوری طرز حکومت میں ہرعام شہری کو حاصل ہوتے ہیں، ملکی خزانہ کسی مخصوص شخص کی ملکیت نہیں ہوتا ہے؛ بلکہ پورے طور پر عوام ہی اس کی مالک ہوتی ہے، اس خزانے کے اموال امن و سلامتی کے قیام، قوم و ملت کے دفاع، ملک کے نظم و نسق اور عوام کی صلاح و فلاح کے لئے صرف ہونے چاہیے۔ یہ ہیں وہ بنیادی نکات جن پر جمہوریت کے محل کی تعمیر ہوئی ہے۔

موجودہ جمہوریت کے اہم فرائض

حقیقت یہ ہے کہ انسانیت کو جس زندگی کی جستجو ہے اس سے وہ تا ہنوز محروم ہے، وہ آخری منزل مقصود جہاں اسے پہنچنا ہے ، کوسوں دور ہے اور حیات انسانی کا اصل مرض اس کے رگ و ریشے میں ابھی بھی سرایت کیے ہوئے ہے، خوش فہم لوگ لاکھ کہیں کہ ہم نے انسانیت کے دکھ کا علاج پالیا ہے؛ تاہم درحقیقت جس کو وہ علاج تصور کررہے ہیں، خود ایک مستقل مرض ہے اورجس کو وہ مسیحا گردان رہے ہیں وہ فرشتہٴ موت ہے ، موجودہ جمہوریت میں اس قدر نقائص ہیں کہ اگر انہیں یکجا کردیا جائے تو آمریت و ملوکیت کا نمایاں فرق باقی نہیں رہتا، زیادہ سے زیادہ عنوان اور لیبل کا فرق ہوسکتا ہے گویا جمہوریت و ملوکیت ایک حقیقت کے دو عنوان ہیں، ہم ذیل میں ان خرابیوں کی قدرے تفصیل بیان کریں گے۔

(۱) موجودہ نظام سیاست کی بنیاد ہی اس غیرفطری تصور پر قائم ہے کہ ایک انسان کو دوسرے پر یا سب سے بڑی جماعت کو چھوٹی جماعت پرحکمرانی کا حق حاصل ہو، یہی وہ بنیادی فرق ہے جوانسانی معاشرہ کے تمام مفاسد کی جڑ ہے۔ انسانی فطرت اس سے اُبا کرتی ہے کہ وہ اپنی جنس کے افراد کی غلامی اختیار کرے، خواہ یہ حکمرانی تسلط شخصی و استبداد ذاتی کی شکل میں ہو یا جمہوریت کے روپ میں۔

(۲) ایک صالح اور مہذب حکومت وہی ہوسکتی ہے، جس کی بنیاد اخلاقی اور مابعد الطبیعی تصورات پر قائم ہو؛ کیوں کہ یہی چیز حیات انسانی کے لئے اصل روح کی حیثیت رکھتی ہے اور اسی سے زندگی کے منتشر اجزاء میں ربط پیدا ہوسکتا ہے اور عالم گیر اضطراب و بے چینی کو دور کیا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ دیگر کسی نظام کے ذریعہ یہ خواب شرمندئہ تعبیر نہ ہوگا؛ چونکہ دنیا کے سیاسی نظاموں میں اخلاقی اقدار کو کوئی جگہ نہیں ملی ہے؛ اس لیے موجودہ جمہوریت میں منتخب ہونے والے نمائندوں کے لئے کوئی اخلاقی معیار مقرر نہیں اور آج نمائندگی کا اہل اس شخص کو تصور کیا جاتا ہے جو سب سے زیادہ زمانہ ساز ڈپلومیٹک، لسّان اور چرب زبان ہو، گو اس کے اخلاق و کیریکٹر کتنے ہی گرے ہوئے ہوں۔ ظاہر ہے کہ ایسے نمائندوں سے انسانیت کے اہم مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ کہ از مغز دو صد خر، فکر انسانی نمی آید ع

(۳) جمہوری آئین کو وطنیت و قومیت کے دائرے میں محدود کردیاگیا ہے، اسے ہمہ گیر و یونیورسل حیثیت حاصل نہیں ہے؛ اس لئے وہ صرف اپنے ملک کے اصل باشندوں کے حق میں تو مفید ہوسکتا ہے؛ تاہم آبادی کا وہ حصہ جو غیرملکی کہلاتا ہے اس کے فیوض و ثمرات سے بالکلیہ محروم ہیں۔

(۴) موجودہ جمہوریت کا دارومدار جماعتی طرز فکر، جماعتی کردار اور جماعتی نظریہٴ سیاست پر ہے، ملک میں اگر دو یا دو سے زائد سیاسی جماعتیں ہیں توہر جماعت کا نمائندہ اپنے مخصوص جماعتی طرز پر سوچتا ہے اور جماعت سے وفاداری یا عصبیت کی بنیاد پر ہر بات میں اسی کی حمایت کرتا ہے، خواہ وہ بات کتنی ہی غلط اور غیر منصفانہ کیوں نہ ہو؛ اس لیے کہ ہر جماعت کا اپنا ایک نصب العین ہوتا ہے۔ پارٹی کے ہر رکن کو جائز یا ناجائز ہر اعتبار سے ہر محاذ پر اور ہر راہ پر اسی کی منہ بھرائی کرنی پڑتی ہے۔

(۵) اس طرز حکومت میں اتھارٹی ایک مخصوص طبقے کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور مختلف جماعتوں میں جس کی اکثریت ہوتی ہے وہی با اقتدار ہوکر زمام کار سنبھالتی ہے۔ آئین کی رو سے اکثریت کا ہر فیصلہ جائز تصور کیا جاتا ہے خواہ وہ کتنا ہی بے رحمانہ اور ظالمانہ ہو اور وہ جائز یا ناجائز ہر طریقے سے اقلیتوں پر اپنا تسلط جمائے رکھتی ہے۔

(۶) موجودہ نظام جمہوریت میں نمائندگی کے لیے افراد اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں، جس کا حریت عامہ پر نہایت خطرناک اور غلط اثر پڑتا ہے، ان میں سے ہر شخص ترغیب و ترہیب کے ذرائع اختیار کرتا ہے اور بسا اوقات عوام خوف یا طمع کی وجہ سے رائے دہی پرمجبور ہوتے ہیں، اس طرح عوام کی آزادیٴ فکر کو نقصان پہنچتا ہے اور وہ صحیح نمائندہ منتخب نہیں کرپاتے ہیں۔

(۷) نمائندگی کی طرح، رائے دہندگی کے لئے بھی کوئی اخلاقی معیار مقرر نہیں؛ بلکہ اس کا معیار ٹیکس اور لگان کی حد تک محدود رہتا ہے اور ہر جماعت اپنی نمائندگی کے لیے ایسے شخص کو منتخب کرتی ہے جو اس کے مفاد اور زاویہٴ نظر کی رہبری کا فریضہ انجام دے خواہ وہ کتنا ہی غلط ہو اور زیادہ سے زیادہ اپنی جماعت کی ہمنوائی کرنے والاشخص ہی منتخب ہوتا ہے۔ کتنا بڑا ظلم ہے کہ تعلیمی، تجارتی اور معالجاتی امور میں صداقت و دیانت داری کا امتحان لیا جاتا ہے؛ مگر جہاں پوری قوم کے نفع و ضرر کا سوال ہے وہاں نمائندگی کے لئے نہ کوئی اخلاقی معیار مقرر ہے اور نہ رائے دہندگی کے لیے وقار پرکھنے کا کوئی ذریعہ۔

(۸) موجودہ طریق انتخاب سے منتخب ہونے والے شخص کو ایک مدت تک کے لیے بالکلیہ آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے اور رائے دہندگان کو اس کے عزل و برطرفی کا کوئی اختیار نہیں، گویا وہ طوعاً و کرہاً اتنی مدت تک اس کی قیادت تسلیم کرنے پر مجبور ہیں خواہ وہ اس کا اہل نہ رہ گیا ہو۔ اس کا نتیجہ یہ ظاہرہوتا ہے کہ عوام سے نمائندہ اسی وقت تک ربط و تعلق اور میل جول برقرار رکھتا ہے جب تک وہ ان سے ووٹ حاصل کرتا رہتا ہے، منتخب ہونے کے بعد وہ ہر طرح مطمئن ہوگیا اور رائے دہندگان کی خواہشات کا مطلقاً پاس لحاظ نہں ہوتا ہے۔

جمہوریت و ملوکیت ایک عنوان کی دو فرع

نظام جمہوریت کے پیچھے کوئی اخلاقی تعلیم یا کوئی ایسی شریعت نہیں ہے جو اس کو حدود اور مقرر کردہ ضابطے میں رکھے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت اپنے حدود سے متجاوز ہوکر ملوکیت و آمریت کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔چنانچہ جناب اسرار عالم صاحب جمہوریت کے عملی نقشے کا تجزیہ ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ:

”ڈیماکرائزیشن (جمہوریت) سیکولر کرنے کی وہ کوشش ہے، جو بظاہر لوگوں کو اظہار رائے کا حق دے کر جاتی ہے؛ لیکن جس کے پس پردہ دراصل امت کے ذہن اور صالح دماغوں کو بے دخل کرنا ہوتا ہے، چند سیکولر دماغ پوری آبادی کو اس کے ذریعے اغوا کرکے اپنے مقاصد پورے کرتے ہیں۔ جہاں یہ طریقہ ان کے خلاف جاتا ہے تواسے آمرانہ طریقے سے کچل دیتے ہیں، اس وقت انہیں جمہوریت کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ (عالم اسلام کی اخلاقی صورت حال، ص: ۲۴۱)

مذکورہ بالا تجزیہ درحقیقت جمہوریت کی عملی تشریح ہے، جو اس بات کا پتا دے رہی ہے کہ جمہوریت اور ملوکیت کے درمیان کوئی نمایاں فرق نہیں پایا جاتا، زیادہ سے زیادہ لیبل کا فرق ہوسکتا ہے؛ یعنی ایک عنوان کی دو فرعیں جمہوریت کی اس تشریح کے بعد یہ بات بالکلیہ واضح ہوجاتی ہے کہ نظام اسلامی کے ساتھ جمہوریت کی ہم آہنگی کسی شکل میں نہیں ہوسکتی۔

جمہوریت اور ریشنلزم اسلامی نظریے کے مخالف

نظام اسلامی اورجمہوریت کے درمیان قدرے اشتراک اس امر میں ضرور ہے کہ ان دونوں نظام ہائے سلطنت نے شخصی اور وراثتی سلطنت کو صفحہٴ ہستی سے مٹانے میں اہم کردار ادا کیے ہیں؛ لیکن اس ادنیٰ سی مناسبت کی وجہ سے ان دونوں نظام ہائے سلطنت کے اصولی و فروعی آپسی تناقض سے چشم پوشی کرنا کسی اعتبار سے بھی معقول نہیں۔ چوں کہ نظریے کے کسی بھی باب میں اتفاق کا لفظ اسی وقت استعمال کیا جاسکتا ہے جبکہ کم از کم ان دونوں نظریات کے بنیادی اصول و اغراض میں اتفاق ممکن ہو، حالاں کہ جمہوریت اوراسلامی نظام کے بنیادی نظریے میں زمین و آسمان کا فرق ہے؛ کیوں کہ حکومت اسلامی مسلمانوں کے ایمان باللہ، ایمان بالآخرة اوراسلامی مقاصد کو بروئے کار لانے کی ضامن ہے، جبکہ جمہوریت کے پس پردہ کوئی ایسی طاقت نہیں پائی جاتی جو ایسے مقاصد کو درجہٴ فعلیت میں لانے کی ضمانت دے سکے اوراگر کوئی طاقت ہے تو وہ ریشنلزم یا تعلقیت کی ہے جس کی ایک فرع جمہوریت ہے۔ ریشنلزم کی حقیقت سے متعلق جناب اسرار عالم صاحب ”انسائیکلو پیڈیا آف فلاسفی“ کے حوالے سے رقم طراز ہیں:

”ریشنلزم ، خیالات کے مختلف زاویہ ہائے نظر اور تحریکات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ دنیا کی حقیقی صداقتوں کو گرفت میں لینے کے لیے ایک استخراجی عقل کی قوت ضروری یا کافی ہے۔

یہ دراصل ایک نقطئہ نظر ہے جو مذہب میں عقل کواتھارٹی مانتا ہے اور ان تمام عقائد و نظریات کو رد کرتا ہے جو عقل کے مطابق نہ پائے جائیں؛ لیکن اس لفظ کی موجودہ صورت دو معنوں کو محیط ہے: پہلا مفہوم اوپر ذکر ہوچکا ہے، جبکہ دوسرا اس کی وہ صورت گری ہے جوانیسویں صدی کے یورپ میں سامنے آئی جو سرتا سر مذہب کو ڈھانے والی تھی۔“ (عالم اسلام کی اخلاقی صورت حال، ص: ۵۴)

ظاہر ہے کہ اصل اور سرچشمے کی صورت یہ ہے تواس پر قائم ہونے والی جمہوریت ان بنیادی کمزوریوں سے کیوں کر پاک ہوسکتی ہے؟ یقینا جمہوریت بھی الٰہیاتی تصور کھوکر بین الاقوامی بدامنی میں تبدیل ہوجائے گی، پھر جمہوریت کا نظام اسلامی کے موافق ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔

اسلام کا تصور حاکمیت

حاکمیت کے باب میں اسلام کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ ایک انسان کو دوسرے انسان پر کسی طرح حکمرانی کا کوئی حق حاصل نہیں، اقتدار و حکومت، جاہ و منصب اور قانون سازی کا اختیار صرف اور صرف احکم الحاکمین کو ہے اور خدائی کاموں میں دخل اندازی انسانی منصب کے قطعی منافی ہے۔ قرآن کریم میں ”اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ“ کا واضح حکم موجود ہے۔ البتہ حکومت کا نظم و نسق سنبھالنے کے لیے زمین میں ایک نائب جماعت سرگرم عمل ہے،اس کی حیثیت فقط ایک مزدور کی ہے جو آقا کے متعین کردہ حدود میں رہتے ہوئے اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف کار ہے، زندگی کے ہر شعبے میں اس کے طور طریقے معیاری حیثیت کے حامل ہیں جس سے اس کو تمکن فی الارض کا منصب حاصل ہوتا ہے، اس کو کسی طرح قانون میں ترمیم و تنسیخ اور ردوبدل کرنے کا حق حاصل نہیں ہوتا، وہ جماعت اس قانون کو اصلی شکل میں نافذ کرتی ہے اور خود بھی سختی سے اس پر کاربند رہتی ہے،اس کا ہر آئین، ہر قانون و ہر دستور غیر متبدل ہے؛ بلکہ دائمی و پائدار حیثیت کا حامل ہے، محض حسن ظن کی بنا پر نہیں؛ بلکہ واقعات و شواہد کی بنیاد پر اس پر عمل پیرا ہونا ناگزیر ہے، اسلامی نظریہٴ حیات ہی زندگی کے تمام مشکلات کو حل کرسکتا ہے اور مسلمان اسی فلسفہٴ زندگی کا علمبردار ہے اوراسی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ اپنے نوع انسانی کی قیادت کرسکے۔

قرآن کریم کی آیت ”وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَسَطاً“ میں وسط کے لفظ سے اس طرف اشارہ ملتا ہے کہ امت مسلمہ اقوام عالم کے لیے مرکز اور وسط حقیقی کی حیثیت رکھتی ہے اور ساری کائنات اس کے گرد چکر کاٹتی ہے۔ اسی طرح ”شہید“ کا لفظ بھی بتا رہا ہے کہ موٴمنین کی جماعت، عالم انسانی کے لیے گواہ اور نگراں ہے اور سوسائٹی میں نظم و ضبط کا قیام، شاہ و گدا اور گورے وکالے میں مجلس مشاورت کا قیام اور تمام اخلاقی و جنسی خرابیوں کی اصلاح اس کا فریضہ قرار دیاگیا ہے ، دوسری اقوام و ملل کی قیادت و سیادت کے خاتمے کے بعد امامت و رہبری کی ذمہ داری اسی امت کے کندھے پر ڈالی گئی ہے قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس مضمون کی نہایت تفصیل سے وضاحت کی گئی ہے۔

امارت و خلافت کا معیار

قرآن کریم میں حق جل مجدہ کا یہ ارشاد موجود ہے : ”الَّذِیْنَ انْ مَکَّنّٰہُمْ فِي الأرض“o ”انَّ أکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ أتْقٰکُمْ، الآیة، ان آیات کریمہ میں تمام شرائط امارت و خلافت کی طرف بالاجمال اشارہ کردیا ہے۔ اقامت صلاة، ایتاے زکاة اورامر بالمعروف و نہی عن المنکر میں تمام انفرادی و اجتماعی فرائض شامل ہیں۔ امربالمعروف کے لئے قرآن کریم کا مکمل فہم اور احکام و مسائل کا علم بہ ہر صورت لازم ہے، اسی طرح یہ فریضہ اس وقت تک پایہٴ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ قوت مقتدرہ اوراعدائے دین سے مقابلے کے لئے پوری صلاحیت ولیاقت موجود نہ ہو۔ امربالمعروف قرآن کریم کی ایسی جامع اور مکمل اصطلاح ہے جس کا اطلاق زندگی کے ہر گوشے پر ہوتا ہے؛ مگر اخلاقی قیود و اقدار پر ان کا اطلاق زیادہ بیّن و واضح ہے؛ اس لئے آمر کا بذات خود اعلیٰ اخلاق اور شاندار کردار کا حامل ہونا لازم ہے۔ ظاہر ہے کہ موجودہ نظام ہائے سیاست میں اخلاق و کردار کی بلندی، سیرت کی پاکیزگی اور شیریں اخلاقی کو بعید گوشے میں جگہ حاصل نہیں ہے اور نہ ان کو ایمان باللہ اور مرنے کے بعد کی زندگی کے محاسبہٴ اعمال کے تصور سے کوئی نسبت۔

حاکمیت و خلافت کا فرق

یہ دو مختلف چیزیں ہیں، حاکمیت کے باب میں ضروری ہے کہ اپنے احکام دوسروں پر لاگو کیے جائیں؛مگر خلافت سے مراد نیابت و جانشینی ہے، جن احکام کو خلیفہ دوسروں پر نافذ کرتا ہے وہ خود بھی ان کا مکلف ہوتا ہے اوراس کے لئے اپنے اوپر ان کا نفاذ ضروری ہوتاہے، اس لحاظ سے خلیفہ خداکی نیابت کے فرائض انجام دیتا ہے اس کی حیثیت صرف ایک امین کی ہوتی ہے، اس کا اولین فریضہ یہ ہے کہ وہ عدل وانصاف اور مساوات عامہ کی شکلوں کو عالم کے روبرو پیش کرے اور یہ واضح کرے کہ نفس انسانیت کے لحاظ سے تمام افراد بشر مساوی ہیں، چنانچہ حدیث میں آیا ہے کلکم بنوآدم، وآدم من تراب اسی طرح حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اس حقیقت کو نہایت واضح لفظوں میں واشگاف کیاہے۔ ألا وانّي لم أبعثکم أمراء ولا جَبَّارین؛ ولکن بعثتکم أئمة الہدی یہتدی بکم، ولا تغلقوا الأبوابَ دونہم فیأکل قویُّہُمْ ضعیفہم․

نظام اسلامی کا تصوراحتساب

نمائندہ کے منتخب کیے جانے کے سلسلے میں نظام اسلامی کا مزاج، جمہوری طرز سے کہیں اعلیٰ ہے، جس کی قدرے تفصیل مولانا سید اکبر شاہ نجیب آبادی یوں بیان کرتے ہیں:

”تمام سمجھدار اپنے اندر سے کسی ایک شخص کو منتخب کرکے اپنا امیر اور قانون نافذ کرنے کا اہتمام کرلیں، اس امیر کے منتخب ہونے کے بعد انہیں شاہانہ اختیارات حاصل ہوتے ہیں؛ لیکن ایسے اختیارات حاصل نہیں ہوسکتے کہ وہ مسئول نہ ہوسکے؛ بلکہ وہ قانون یعنی شریعت کے قائم کردہ اصولوں اور حکموں کے ماتحت ملک و قوم میں امن و انتظام قائم رکھنے کا ذمہ دار ہوتا ہے اور ہر ایک شخص اس کو کوئی خلاف قانون کام کرتے ہوئے دیکھ کر روک ٹوک سکتا ہے اور ہر معاملے میں اس سے جواب طلب کرنے کا آزادانہ حق رکھتا ہے۔ (آئینہٴ حقیقت نما، ص: ۴۵-۴۶)

امیر کے منتخب کیے جانے کے اثر و رسوخ اورجواب دہی کے سلسلے میں جو اسلامی نظریہٴ سیاست پیش کیاگیا ہے وہ یقینا جمہوریت کی حد کمال سے بھی اعلیٰ و ارفع ہے۔ علاوہ ازیں نظام اسلامی کے نزدیک پیش کیے گئے نظریے سے بھی اہم چیز الٰہیاتی تصور ہے، اگر نظام اسلامی سے الٰہیاتی تصور مفقود ہے تو گویا اس کی روح مفقود ہے۔ چوں کہ نظام اسلامی کے نزدیک اقتدار و حکومت ایمان باللہ اور تصور احتساب پرمبنی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کے اصول و نظریات اور اعمال میں لامحالہ یگانگت پائی جاتی ہے؛ یعنی ایک مسلم حکومت کو صرف اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ وہ عوام کے روبرو جواب دہ ہے؛ بلکہ اس سے زیادہ اس کو ایک غیر محسوس اور قادر مطلق ہستی کا خوف دامن گیر ہوتا ہے؛ اس لیے حکومت اسلامیہ کو ہر حال میں اسلام کے قوانین عدل اور اصول مساوات کی پابندی کرنی ہوتی ہے؛ چوں کہ ایک صالح اورمہذب نظام حکومت وہی ہوسکتا ہے، جس کی بنیاد اخلاقی اور مابعد الطبعی تصورات پر قائم ہو، جبکہ نظام جمہوری میں ایسا کوئی بھی تصور قائم نہیں ہے جو اس کے ماننے والے سیاست دانوں کو تصوراحتساب سے آشنا کرے؛ یہی وجہ ہے کہ جمہوری حکومتوں کے سیاست داں بلا کسی خوف و خطر کے بدعنوانیوں کو جنم دیتے ہیں جو اسلامی نظام میں انتہائی قبیح عمل ہے۔

نظام اسلامی کے بنیادی اصول

نظام اسلامی کے بنیادی اصول کو جو دراصل قرآن و حدیث اور خلافت راشدہ کے طریقے سے ماخوذ ہیں حضرت علامہ سید سلیمان ندوی رحمة اللہ علیہ نے تتبع و جستجو کے بعد مندرجہ ذیل لفظوں کے ساتھ بیان کیا ہے:

(۱) خلیفہ کے انتخاب میں پوری بصیرت سے کام لیا جائے؛ یعنی جتنی کوشش ممکن ہو کی جائے، پھر انتخاب کے بعد اس کے احکام جو کتاب و سنت اورمصالح مسلمین کے خلاف نہ ہو مان لیے جائیں۔

(۲) امور مہمہ میں جو منصوص نہ ہوں اہل حل و عقد سے مشورہ کیا جائے۔

(۳) بیت المال خلیفہ کی ذاتی ملک نہیں وہ صرف مصالح مسلمین کے لئے ہے۔

(۴) سلطنت کے نظم و نسق میں حددرجہ سادگی اور کفایت شعاری اختیار کی جائے۔

(۵) عہدہ دار اور اہل منصب میں ادائے فرض کے اندر پوری دیانت برتی جائے۔

(۶) عہدہ داران سلطنت کیلئے مقررہ وظیفہ کے علاوہ رعایا سے کسی قسم کا تحفہ، قطعاً ناجائزہے۔

(۷) رعایا سے شرعی ٹیکس کے علاوہ دوسرے قسم کے غیر شرعی ٹیکس نہیں لیے جاسکتے۔

(۸) حکام پر پورا پورا عدل فرض ہے، عدل و انصاف کی راہ میں رشوت، طرف داری اور بے انصافی ظلم اور گناہ کبیرہ ہے۔

(۹) کاشت کار اور زمین دار کے درمیان اتنا ہی تعلق ہے جتنا ایک مزدور یا اجارہ دار اورمالک کے درمیان۔

(۱۰) اسلامی سلطنت کے اندر ہرمسلمان جو معذور نہ ہو اس کا سپاہی ہے۔

(اسلامی نظریہٴ سیاست، ص:۴)

اسلامی حکومت کے اغراض ومقاصد

اسلامی مفکرین اور قد آور دانشوروں نے اسلامی حکومت کے اغراض و مقاصد درج ذیل بیان کیے ہیں:

(۱) قیام عدل (۲) رفع فساد اور قیام امن (۳) افراد مملکت کو حریت فکر (۴) مجلس قانونی کو معاشی اور سیاسی مساوات عطا کرنا؛ یعنی اسلامی حکومت کااصل مطمح نظر یہ ہے کہ انسانوں کو غیرفطری رجحانات سے ہٹاکر فطرة اللہ یا نقطئہ عدل پر قائم کیا جائے۔

حریت عامہ اور اسلام

اسلام کا نظریہ سیاست ہر اعتبار سے ہمہ گیر اور لامحدود حیثیت رکھتا ہے،اس کی افادیت نسلی و وطنی حدود سے آزاد اور پورے عالم انسانیت کو محیط ہے، اس کی نگاہ کسی ایک شعبہٴ حیات پر نہیں؛ بلکہ جملہ شعبہ ہائے زندگی کو محیط ہے اور وہ انسانوں کی بلندی خواہ فکری ہویا دینی، علمی ہو یا مادی، اخروی ہو یا دنیوی، ان تمام ضروریات میں کسی ضرورت سے بھی غافل نہیں یہی وجہ ہے کہ اسلام کا موضوع نفس انسانیت ہے جو دنیا کے تمام انسانوں کو زندہ رہنے کا حق دیتا ہے اور حریت اجتماع یا حریت فکر میں کسی بھی اعتبار سے ترجیحی سلوک نہیں برتتا۔ اسلامی نظریہٴ حاکمیت کسی کے لیے روادار نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت میں دخل اندازی کرے؛ لہٰذا قدرتی طور پر اس کا نتیجہ آزادیٴ فکر اور مساوات عامہ کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔

آزادیٴ فکر اور مساوات عامہ

یہی وجہ ہے کہ خلیفہٴ اسلام کو دوسرے لوگوں پر کوئی ترجیحی حیثیت حاصل نہیں اور نہ یہ اختیار ہے کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں سے اعلیٰ و برتر تصور کرے؛ بلکہ آزادیٴ فکراور شہری حقوق کے لحاظ سے وہ ایک عام شہری کا درجہ رکھتا ہے۔ اس آزادی کو ہر شعبہ میں ملحوظ خاطر رکھاگیا ہے؛ چنانچہ معاشی و اقتصادی طور پر خلیفہٴ اسلام کو مساوی حیثیت حاصل ہے، تقسیم اموال میں انہیں یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے لیے یا کسی رشتہ دار کے لیے دوسروں سے زائد حصہ لے لے، نیز یہ بھی روا نہیں کہ قومی اجازت یا عام مشورہ کے بغیر مالی فنڈ سے خرچ کرسکے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اپنے مرض سے شفایابی کی خاطر تھوڑی شہد کے لیے عام مشورہ، قادسیہ کی لڑائی کے بعد تنخواہوں کے تعین کے وقت اول درجہ میں ہونے سے صاف نکیر کرنا اور اپنے فرزند ارجمند حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی تنخواہ کا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کی تنخواہ سے کم مقرر کرنا؛ یہ سب ایسے لازوال و لافانی نقوش ہیں کہ جن کی مثال نہیں۔

عزل امیر کا غیر مشروط اختیار

بہت سے جمہوری ممالک میں متعینہ مدت تک حکمراں تخت و تاج شاہی کے مالک بنے بیٹھے رہتے ہیں، اس سے قبل عوام کو عزل امیر کا اختیار نہیں گو انتہائی سفاکیت و درندگی کا مظاہرہ کرے اور حقوق کی پامالی روز مرہ کا معمول بنارہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ تعین سے قبل حکومت کا اصل منبع عوام کو سمجھا جاتا رہا اور تعین کے بعد انہیں ازکار رفتہ اور عضو معطل گردان کر پس پشت ڈال دیاگیا، کیا یہ جمہوریت کے منافی نہیں؟ اسی لیے اسلام نے روزاول سے امارت و خلافت کا معیار اتباع شریعت کو قرار دیا، خلیفہ کے لیے واجب ہے کہ قدم بقدم متبع شریعت ہو؛ اگر وہ ایک قدم بھی آگے تجاوز کرتا ہے یا پیچھے مڑتا ہے تو عوام کو اس کو معزول کرنے کا کلی اختیار حاصل ہے۔

رائے دہندگان کا معیار

موجودہ طرز حکومت میں اخلاقی معیار مقرر نہ ہونے کی وجہ سے جمہوری ملکوں میں ہر آزاد شخص کو اور نیم جمہوری ممالک میں امارت کا معیار تعلیم اورجاہ و دولت کو قرار دیا جاتا ہے، ظاہر ہے ایسی صورت میں کسی صالح، مہذب و سلیقہ مند خلیفہ کا انتخاب مشکل ہی نہیں محال ہے، زیادہ سے زیادہ پارٹی سے متعلق جماعت ایسے شخص پر آمادئہ انتخاب ہوگی جو ان کی ذاتی و جماعتی خواہشات کی تکمیل کرسکتا ہو، جہاں رسہ کشی کا ہونا قطعاً ناگزیر ہے، اس کے برعکس اسلام کا طرز انتخاب بالکل جداگانہ ہے، اس سلسلے میں ہر بالغ کے فیصلے و رائے کی عدم درستگی پر مبنی ہونے کی وجہ سے چند سرکردہ شخصیات، ارباب دانش، اصحاب فکر اور ذی رائے ہی سے مشورہ لیا جائے اور انہی کو اختیار دیاگیا کہ کسی نیک سیرت، تقوی شعار اورحامل علوم کتاب و سنت کو اقتدار کی گدی پر بٹھائیں؛ تاکہ کسی کے لئے انگشت نمائی کا موقع باقی نہ رہے؛ کیوں کہ اسلام میں اعتماد عام اور وجہ ترجیح علم و عمل ہے اوراسی شخص کی رائے باوزن ہوسکتی ہے جو ان اوصاف سے متصف ہو، اسلام میں ایسے افراد کو ”ارباب حل و عقد“ سے موسوم کیا جاتا ہے؛ چنانچہ خلفائے اربعہ کا انتخاب اسی طرز پر ہوا، انصار و مہاجرین کو ارباب حل و عقد تسلیم کیا جاتا رہا اور ان کے فیصلے کو پوری امت کے لیے حکم ناطق کی حیثیت حاصل رہی۔

خواہش امارت اوراسلام

موجودہ جمہوریت میں سب سے عظیم نقص یہ ہے کہ اقتدار کے لیے چند افراد اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں، اس خواہش کی تکمیل کی راہ میں جنگ و جدال، قتل و قتال اور دوسری پارٹی کا نہایت بے دردی کے ساتھ سیم و زر کی ٹھیلیاں لٹانا یہ سبھی کچھ ڈرامے رونما ہوتے ہیں؛ اس لیے اسلام نے امارت کی خواہش پر پابندی عائد کردی؛ اگر اسلام کے اس نہج کو اپنایا جائے تواس سے لازماً دو فائدے ہوسکتے ہیں: اوّل یہ کہ انتخابی کش مکش اور باہمی تصادم سے نجات ملے گی۔ دوم یہ کہ جب کوئی امارت کا مدعی نہ ہوگا توامت پر خوف یا لالچ کی فکر غالب نہ آئے گی اور صحیح خلیفہ متعین کرنے میں کوئی دقت نہ ہوگی۔

حرف آخر

درحقیقت جمہوریت سے مراد نظم معاشرت اور عوامی حکومت کی آڑ میں انسان کے فکر و نظر، تہذیب و تمدن کو عقیدے اور دین سے منقطع کرکے اسے ریگولر کی بجائے ملحد بنادینا ہے؛ تاکہ ایک ایسی عام تنظیم قائم ہوجائے جس کے پردے میں شاطرانِ زمانہ ساری دنیا پر اپنی آمریت قائم کرسکیں، جس نظام کا نصب العین اور نظریہ ایسا ہوگا، یقینا نظام الٰہی کا اس سے تصادم اور ٹکراؤ معرکہ کی شکل میں ہوگا۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
---------------------------
https://saagartimes.blogspot.com/2019/04/blog-post_59.html