سنت غیرمؤکدہ کی نیت باندھی اور جماعت کھڑی ہوگئی
۱۔ عصر سے قبل چار رکعت سنت غیر مؤکدہ کی نیت باندھی، اسی دوران جماعت کھڑی ہوگئی تو دو رکعت پر سلام پھیر کر جماعت میں شامل ہوگیا یہ ہونا گناہ تو نہیں؟
۲۔کیا یہ چار رکعت سنت غیر مؤکدہ دوبارہ پڑھنا لازم ہوجاتا ہے؟
الجواب بعون الوھاب۔۔۔
نہیں کوئی گناہ نہیں ہے کیونکہ عصر سے قبل چار رکعت سنت غیر مؤکدہ ہیں۔۔
نیز بعد میں کوئی قضاء نہیں ہے
ایک تو عصر کے بعد نوافل پڑھنا جائز نہیں ہے دوسری بات یہ خود سنت غیر مؤکدہ ہیں۔۔
اور عصر سے پہلے چار رکعت اور دورکعت دونوں طرح پڑھنا ثابت ہے۔۔
لہذا عصر کی نماز سے پہلے چار رکعت یا دو رکعت نماز مستحب ہے۔
اگر موقع ہو تو چار کعت پڑھے، اور اگر موقع نہ ہو یا کوئی عذر ہو تو دو رکعت پڑھ لینا بھی کافی ہے عصر اور عشاء سے قبل چار رکعت یا دو رکعت دونوں پڑھ سکتا ہے۔۔
روایات سے ثابت ہے۔ ’’مالابدمنہ‘‘ میں ہے۔ و پیش از نماز عصر دو رکعت یا چہار رکعت مستحب است (ص ۶۰)
(اور ’’شرح نقایہ‘‘ میں ہے وحبب ای ندب الا ربع قبل العصر لما روی ابوداؤدوالترمذی وقال حدیث حسن عن ابن عمر قال قال رسول اﷲ ﷺ رحم اﷲ امرء ًا صلی قبل العصر اربعاً وبقول علی کان علیہ السلام یصلی قبل العصر رکعتین رواہ ابوداؤدورواہ الترمذی واحمد وقال اربعاً۔ولما رواہ الطبرانی بسند حسن عن ابن عمر رضی اﷲ عنہ ومن صلی قبل العصر اربعاً حرمہ اﷲ علی النار وحبب قبل العشاء وبعدہ‘ الخ (شرح نقایہ ص ۱۰۰ باب الوتر والنوافل)
واما العصر فلیس فیہ سنۃ مؤکدۃ الا ان لمندوب ان یصلی قبلھا اربع رکعات او رکعتین لما روی ابن عمر رضی اﷲ عنہ قال ان رسول اﷲ ﷺ قال رحم اﷲ امرء صلی قبل العصر اربعاً وعن امیر المؤمنین علی کرم اﷲ وجہہ قال کان یصلی رسول اﷲ ﷺ قبل العصر رکعتین رواھما ابو دائود وان شاء صلا ھما بتسلیمتین لما عن امیر المؤمنین علی کرم اﷲ وجھہ‘ قال کان النبی ﷺ یصلی قبل العصر اربع رکعات یفصل بینھن بالتسلیم علی الملائکۃ المقربین ومن تابعھم من المسلمین والمؤمنین رواہ الترمذی وقال الفقہاء المندوب ان یصلی قبل العشاء اربع رکعات وسمعت مطلع الا سرار الا لھیۃ مجمع العلوم۔ العقلیۃ والنقلیۃابی قدس سرہ یقول لم یوجد ذکر ھذہ الا ربع فی کتب الحدیث ولکن کان ھو رحمہ اﷲ مواظباً علیھا حتی مات رحمہ اﷲ تعالیٰ(رسائل الا رکان ص ۱۳۳ ،ص۱۳۴ایضاً)
۲۔کیا یہ چار رکعت سنت غیر مؤکدہ دوبارہ پڑھنا لازم ہوجاتا ہے؟
الجواب بعون الوھاب۔۔۔
نہیں کوئی گناہ نہیں ہے کیونکہ عصر سے قبل چار رکعت سنت غیر مؤکدہ ہیں۔۔
نیز بعد میں کوئی قضاء نہیں ہے
ایک تو عصر کے بعد نوافل پڑھنا جائز نہیں ہے دوسری بات یہ خود سنت غیر مؤکدہ ہیں۔۔
اور عصر سے پہلے چار رکعت اور دورکعت دونوں طرح پڑھنا ثابت ہے۔۔
لہذا عصر کی نماز سے پہلے چار رکعت یا دو رکعت نماز مستحب ہے۔
اگر موقع ہو تو چار کعت پڑھے، اور اگر موقع نہ ہو یا کوئی عذر ہو تو دو رکعت پڑھ لینا بھی کافی ہے عصر اور عشاء سے قبل چار رکعت یا دو رکعت دونوں پڑھ سکتا ہے۔۔
روایات سے ثابت ہے۔ ’’مالابدمنہ‘‘ میں ہے۔ و پیش از نماز عصر دو رکعت یا چہار رکعت مستحب است (ص ۶۰)
(اور ’’شرح نقایہ‘‘ میں ہے وحبب ای ندب الا ربع قبل العصر لما روی ابوداؤدوالترمذی وقال حدیث حسن عن ابن عمر قال قال رسول اﷲ ﷺ رحم اﷲ امرء ًا صلی قبل العصر اربعاً وبقول علی کان علیہ السلام یصلی قبل العصر رکعتین رواہ ابوداؤدورواہ الترمذی واحمد وقال اربعاً۔ولما رواہ الطبرانی بسند حسن عن ابن عمر رضی اﷲ عنہ ومن صلی قبل العصر اربعاً حرمہ اﷲ علی النار وحبب قبل العشاء وبعدہ‘ الخ (شرح نقایہ ص ۱۰۰ باب الوتر والنوافل)
واما العصر فلیس فیہ سنۃ مؤکدۃ الا ان لمندوب ان یصلی قبلھا اربع رکعات او رکعتین لما روی ابن عمر رضی اﷲ عنہ قال ان رسول اﷲ ﷺ قال رحم اﷲ امرء صلی قبل العصر اربعاً وعن امیر المؤمنین علی کرم اﷲ وجہہ قال کان یصلی رسول اﷲ ﷺ قبل العصر رکعتین رواھما ابو دائود وان شاء صلا ھما بتسلیمتین لما عن امیر المؤمنین علی کرم اﷲ وجھہ‘ قال کان النبی ﷺ یصلی قبل العصر اربع رکعات یفصل بینھن بالتسلیم علی الملائکۃ المقربین ومن تابعھم من المسلمین والمؤمنین رواہ الترمذی وقال الفقہاء المندوب ان یصلی قبل العشاء اربع رکعات وسمعت مطلع الا سرار الا لھیۃ مجمع العلوم۔ العقلیۃ والنقلیۃابی قدس سرہ یقول لم یوجد ذکر ھذہ الا ربع فی کتب الحدیث ولکن کان ھو رحمہ اﷲ مواظباً علیھا حتی مات رحمہ اﷲ تعالیٰ(رسائل الا رکان ص ۱۳۳ ،ص۱۳۴ایضاً)
_________
واللہ اعلم بالصواب
<https://saagartimes.blogspot.com/2019/02/blog-post_13.html>
واللہ اعلم بالصواب
<https://saagartimes.blogspot.com/2019/02/blog-post_13.html>
No comments:
Post a Comment