Monday 4 February 2019

کمیٹی ڈالنے کا حکم

کمیٹی ڈالنے کا حکم
....
سوال: معاشرے میں‌ اس وقت مختلف کیمیٹیاں ڈالنے کا رواج ہے اس کے بارے میں‌ ہماری شریعت کیا کہتی ہے
جواب: یاد رکھیں‌ کمیٹی ڈالنے کا رواج آج سے نہیں‌ بلکہ کافی پرانا ہے جس میں‌ لوگ مختلف رقوم جمع کرکے کسی ایک کو دیتے ہیں‌ اس کے بعد بھی کمیٹی چلتی رہتی ہے . ان مروجہ کمیٹٰوں‌ میں‌ صرف ایک قسم کی کمیٹی جائز ہے اس کے علاوہ باقی تمام کیمیٹاں شرعا جائز نہیں‌اور نہ ہی ان میں‌ حصہ لینا جائز ہے
عام طور پر لوگ اپنی کسی بڑی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کمیٹیاں ڈالتے ہیں جس میں ممبران کی مخصوص تعداد مقررہ رقم ہر ماہ جمع کرواتی ہے یوں ایک خطیر رقم اکٹھی ہوجاتی ہے جو قرعہ اندازی کرکے کسی ایک رکن کو دے دی جاتی ہے تاہم قرعہ اندازی میں نام آنے والا ممبر بھی کمیٹی ختم ہونے تک اپنی ماہانہ کمیٹی بھرتا رہتا ہے۔ یہ درست ہے.
جو کیمیٹی جائز ہوتی ہے اس کی صورت کچھ ایسی ہوتی ہے کہ ایک گروپ مل کر ایک مخصوص رقم طے کرتے ہیں‌ اور اس کے افراد بھی متعین ہوتے ہیں‌ اور ان کی تعداد بھی مقرر ہوتی ہے. ان میں‌ سے ہر ایک مقررہ وقت پر اپنی رقم جمع کرات اہے جس کے بعد ساری جمع ہوئی رقم ایک شخص کو دی جاتی ہے. لیکن یہ رقم حاصل کرنے والا فارغ نہیں‌ہوتا بلکہ تب تک کمیٹی دیتا رہتا ہے جب تک تمام افراد کو رقم مل نہیں‌ جاتی . اس میں‌دی جانے والی رقم اور ملنے والی رقم سب برابر ہوتی ہے اور کسی کو کم یا زیادہ نہیں‌ ملتا.
......
لکی کمیٹی:
لیکن کئی کاروباری حضرات ایسی کمیٹیاں بھی ڈالتے ہیں جنہیں ’’لکی کمیٹی‘‘ کہا جاتا ہے، اس کمیٹی میں جس ممبر کی کمیٹی کھل جاتی ہے وہ پوری رقم تو لے جاتا ہے لیکن پھر کمیٹی کی ماہانہ رقم بھرنے کا پابند نہیں ہوتا اسے لکی کمیٹی کہا جاتا ہے اور یہ جوا کھیلنے کی مانند ہے۔
اس لئے لکی کمیٹی یا اس سے ملتی جلتی کوئی اور کمیٹی ڈالنا اور اس پہ رقم حاصل کرنا جائز نہیں۔
.......
بولی کمیٹی:
اسی طرح ایک ’’بولی کمیٹی‘‘ ہوتی ہے جس میں قرعہ اندازی میں جس ممبر کا نام آتا ہے اسے کوئی دوسرا ممبر زیادہ رقم دے کر وہ کمیٹی لے لیتا ہے اور اس کمیٹی میں بھی جس جس کا نام قرعہ اندازی میں آتا جاتا ہے وہ کمیٹی سے باہر ہو جاتا ہے چنانچہ یہ کمیٹی بھی سراسر جوا اور سود ہے جو کسی طور جائز نہیں۔
......
سوال: آج کل بولی والی کمیٹی کا بڑا زور شور اور بڑے بڑے لوگ اس میں حصہ لیتے ہیں اس کی کیا حیثیت ہے کیا یہ سودی کاروبار کے زمرہ میں آتی ہے یا نہیں؟

الجواب و بالله التوفیق:
بولی والی کمیٹی سود ہے کیونکہ اس میں زیادہ پیسے کی کم پیسے کے ساتھ بیع پائی جاتی ہے صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ نے فرمایا:
«لاَ تَبِيْعُوْا الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ إِلاَّ مِثْلاً بِمِثْلٍ ، وَلاَ تُشِفُّوْا بَعْضَهَا عَلٰی بَعْضٍ،وَلاَ تَبِيْعُوْا الْوَرِقَ بِالْوَرِقِ اِلاَّ مِثْلاً بِمِثْلٍ وَلاَ تُشِفُّوْا بَعْضَهَا عَلٰی بَعْضٍ، وَلاَ تَبِيْعُوْا مِنْهَا غَائِبًا بِنَاجِزٍ»
’’سونا سونے کے بدل نہ بیچو مگر برابر برابر اور زیادہ کم مت بیچو اور چاندی کو چاندی کے بدل نہ بیچو مگر برابر برابر اور ایک طرف زیادہ دوسری طرف کم نہ ہو اور نہ ایک طرف ادھار دوسری طرف نقد‘‘صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ نے فرمایا:
«اَلذَّهَبُ بِالذَّهَبِ ، وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ الحديث وفی آخرہ: ’’فَمَنْ زَادَ أَوِ اسْتَزَادَ فَقَدْ أَرْبٰی الْآخِذُ وَالْمُعْطِیْ فِيْهِ سَوَاءٌ»
’’سونا سونے کے بدلے اور چاندی چاندی کے بدلے الحدیث اور اس کے آخر میں ہے کہ جس نے زیادہ دیا یا زیادہ کا مطالبہ کیا پس وہ سود میں پڑ گیا لینے والا اور دینے والا اس میں برابر ہیں‘‘ نیز صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«اَلذَّهَبُ بِالذَّهَبِ رِبًا إِلاَّ هَاءَ وَهَاءَ، وَالْوَرِقُ بِالْوَرِقِ رِبًا إِلاَّ هَاءَ وَهَاءَ» الحديث
’’سونا سونے کے بدلے سود ہے مگر نقد ونقد اور چاندی چاندی کے بدلے سود ہے مگر نقد ونقد‘‘ اور معلوم ہی ہے کہ سود حرام ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَأَحَلَّ ٱللَّهُ ٱلۡبَيۡعَ وَحَرَّمَ ٱلرِّبَوٰاْۚ﴾-- بقرة275
’’اور حلال کیا اللہ نے بیع کو اور حرام کیا سود کو‘‘
واللہ تعالی اعلم

<https://saagartimes.blogspot.com/2019/02/blog-post_54.html>


No comments:

Post a Comment