تلبیہ کا آخری وقت کب تک ہے؟
عمرہ میں احرام باندھنے کے بعد سے تلبیہ شروع کردیا جاتا ہے لیکن تلبیہ کا آخری وقت کب تک ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
احرام باندھنے اور نیت کرلینے کے بعد سے تلبیہ پڑھنا ضروری ہوجاتا ہے۔
حج میں تلبیہ جمرہ عقبہ کی رمی (دس ذی الحجہ) کرنے تک پڑھا جاتا ہے:
عن الفضل بن عباس رضي اللّٰہ عنہما أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لبی حتی رمیٰ جمرۃ العقبۃ۔ (سنن أبي داؤد ۱؍۲۵۲، صحیح البخاري ۱؍۲۲۸)
اور عمرہ میں تلبیہ طواف شروع کرنے تک پڑھا جاتا ہے
عمرہ میں جو زائر میقات سے احرام باندھا ہو وہ استیلام کے وقت تلبیہ پڑھنا بند کردے
معتمر کے لئے تلبیہ پڑھنے کے آخری وقت کے بارے میں ائمہ حدیث کے مختلف اقوال ہیں
فقہ حنفی کے لحاظ سے معتمر طواف شروع کرنے تک تلبیہ پڑھ سکتا ہے۔
امام زیلعی نصب الرایہ جلد 3صفحہ 114 حدیث نمبر 4515 کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں:
((قطع التلبية في عمرة القضاء حين استلم الحجر الأسود،
احرام باندھنے اور نیت کرلینے کے بعد سے تلبیہ پڑھنا ضروری ہوجاتا ہے۔
حج میں تلبیہ جمرہ عقبہ کی رمی (دس ذی الحجہ) کرنے تک پڑھا جاتا ہے:
عن الفضل بن عباس رضي اللّٰہ عنہما أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لبی حتی رمیٰ جمرۃ العقبۃ۔ (سنن أبي داؤد ۱؍۲۵۲، صحیح البخاري ۱؍۲۲۸)
اور عمرہ میں تلبیہ طواف شروع کرنے تک پڑھا جاتا ہے
عمرہ میں جو زائر میقات سے احرام باندھا ہو وہ استیلام کے وقت تلبیہ پڑھنا بند کردے
معتمر کے لئے تلبیہ پڑھنے کے آخری وقت کے بارے میں ائمہ حدیث کے مختلف اقوال ہیں
فقہ حنفی کے لحاظ سے معتمر طواف شروع کرنے تک تلبیہ پڑھ سکتا ہے۔
امام زیلعی نصب الرایہ جلد 3صفحہ 114 حدیث نمبر 4515 کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں:
((قطع التلبية في عمرة القضاء حين استلم الحجر الأسود،
قلت: أخرجه الترمذي [عند الترمذي في "باب متى يقطع التلبية في العمرة" ص 124، وعند أبي داود في "باب متى يقطع المعتمر التلبية" ص 252 - ج 1، وص 253 - ج 1، وعبد الملك ابن أبي سليمان اسمه ميسرة أبو محمد، أحد الأئمة، قال ابن مهدي: كان شعبة يعجب من حفظه، وقال ابن عيينة عن الثوري: حدثني الميزان عبد الملك ابن أبي سليمان، وقال ابن المبارك عبد الملك ميزان، كذا في "تهذيب التهذيب" ص 397 - ج 6] عن ابن أبي ليلى عن عطاء عن ابن عباس أن النبي عليه السلام كان يمسك عن التلبية في العمرة إذا استلم الحجر، انتهى. وقال: حديث صحيح، ورواه أبو داود، ولفظه: أن النبي عليه السلام قال: يلبي المعتمر حتى يستلم الحجر، انتهى. قال أبو داود: رواه عبد الملك بن أبي سليمان، وهمام عن عطاء عن ابن عباس موقوفًا، انتهى. وفي إسناده محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى، وفيه مقال، ولم يصب المنذري في عزوه هذا الحديث للترمذي، فإن لفظ الترمذي من فعل النبي ـ صلى اللّه عليه وسلم ـ، ولفظ أبي داود من قوله، فهما حديثان، ولكنه قلد أصحاب "الأطراف" إذ جعلوها حديثًا واحدًا، وهذا مما لا ينكر عليهم، وقد بينا وجه ذلك في حديث: "ابدءُوا بما بدأ اللّه به"، وروى الواقدي في "كتاب المغازي" حدثنا أسامة بن زيد عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن النبي عليه السلام لبى - يعني في عمرة القضية - حتى استلم الركن، انتهى.))
در مختار مع الشامی میں ہے:
وقطع التلبیۃ باولہا (درمختار) فی الحج الصحیح والفاسد مفرداً أو متمتعاً او قارناً ۔۔۔۔وقید بالمحرم بالحج لأن المعتمر یقطع التلبیۃ إذا استلم الحجر لأن الطواف رکن العمرۃ فیقطع التلبیۃ قبل الشروع فیہا۔ (شامي 532/3 زکریا)
عمدة القاري 21/10. معارف السنن 296/6
انوار مناسک 199. معلم الحجاج ؍106)
وقطع التلبیۃ باولہا (درمختار) فی الحج الصحیح والفاسد مفرداً أو متمتعاً او قارناً ۔۔۔۔وقید بالمحرم بالحج لأن المعتمر یقطع التلبیۃ إذا استلم الحجر لأن الطواف رکن العمرۃ فیقطع التلبیۃ قبل الشروع فیہا۔ (شامي 532/3 زکریا)
عمدة القاري 21/10. معارف السنن 296/6
انوار مناسک 199. معلم الحجاج ؍106)
فتاوی ہندیہ کے کتاب المناسک الباب الخامس فی کیفیۃ افعال الحج جلد 1.صفحہ:248 کی عبارت:
"ويستحب أن يكون ملبّيا في دخوله حتى يأتي باب بني شيبة فيدخل المسجد الحرام منه متواضعا خاشعا ملبيا ملاحظا جلالة البقعة إلخ"
میں تلبیہ کے آخر وقت کا بیان نہیں ہے
بلکہ مسجد حرام میں باب بنی شبیہ سے داخلہ کے وقت بھی تلبیہ پڑھنے کا ہی بیان ہے، پتہ نہیں تعارض کیسے سمجھ لیا گیا! کوئی تعارض نہیں ہے، غور کرلیا جائے، مکمل عبارت میں نے نقل کردی ہے ۔
واللہ اعلم
شکیل منصور القاسمی
"ويستحب أن يكون ملبّيا في دخوله حتى يأتي باب بني شيبة فيدخل المسجد الحرام منه متواضعا خاشعا ملبيا ملاحظا جلالة البقعة إلخ"
میں تلبیہ کے آخر وقت کا بیان نہیں ہے
بلکہ مسجد حرام میں باب بنی شبیہ سے داخلہ کے وقت بھی تلبیہ پڑھنے کا ہی بیان ہے، پتہ نہیں تعارض کیسے سمجھ لیا گیا! کوئی تعارض نہیں ہے، غور کرلیا جائے، مکمل عبارت میں نے نقل کردی ہے ۔
واللہ اعلم
شکیل منصور القاسمی
<https://saagartimes.blogspot.com/2019/02/blog-post_5.html>
No comments:
Post a Comment