Wednesday 14 December 2016

جان و مال، عصمت و عفت کے تحفظات

ایس اے ساگر
جس نے عزت کی حفاظت کی اللہ عَزَّوَجَلَّ قیامت کے دن اس سے جہنم کا عذاب دور فرما دے گا۔‘‘ 
اس کے بعد آپ صلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہ آیت ِمبارکہ تلاوت فرمائی:
وَکَانَ حَقًّا عَلَیۡنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیۡنَ 
﴿۴۷﴾ (پ۲۱، الروم:۴۷)
اورہمارے ذمۂ کرم پرہے مسلمانوں کی مدد فرمانا۔ 
حضرت سیِّدُنا انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: 
’’ جس نے دُنیا میں اپنے بھائی کی عزت کی حفاظت کی اللہ عَزَّوَجَلَّ قیامت کے دن ایک فرشتہ بھیجے گا جو جہنم سے اس کی حفاظت فرمائے گا۔‘‘ 
ان دنوں ارض انبیاء شام کے علاقے حلب میں یہ سوال گردش کررہا ہے کہ: 
کیا میں اپنی بہن، بیوی، بیٹی کو قتل کرسکتا ہوں قبل اس کے کہ رافضی اور اسدی دہشت گرد اس کی عزت میرے سامنے تار تار کریں اور پھر قتل کردیں۔
"میں ان خواتین میں سے ایک ہوں جنھیں چند لمحوں بعد بدکاری و زیادتی کا نشانہ بنایا جاۓ گا کیوںکہ اب ہمارے اور ان درنندوں کے بیچ (جنھیں ملک کی فوج کہا جاتا ہے) کوئی ہتھیار یا مرد نہیں رہے،
مجھے آپ لوگوں سے کچھ بھی نہیں چاہئے، حتی کہ میں آپ سے دعا بھی نہیں چاہتی کیوںکہ میں ابھی اس قابل ہوں کہ بول سکوں اور میرے خیال میں میری دعا ۔۔۔ آپ کے الفاظ سے زیادہ سچی ہے۔
میں خودکشی کرنے جا رہی ہوں اور مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ تم مجھے جہنمی کہو
میں خود کشی کر رہی ہوں کیوں کہ میں اپنے مرحوم باپ کے گھر میں ثانت قدم نہ رہ سکی، جو لوگ حلب چھوڑ گئے ان سب کو دیکھ کر میرے باپ کا دل جل گیا تھا، میں بغیر کسی وجہ کے خود کشی نہیں کر رہی ہوں، بلکہ اس لئے اپنی جان دے رہی ہوں کہ بشاری فوج کے درندے میری عصمت سے کھلواڑ نہ کر سکیں، جبکہ کل ہی کی تو بات ہے کہ وہ حلب کا نام لیتے ہوۓ ڈرتے تھے، میں خود کشی کر رہی ہوں کہ یومِ حساب، یومِ قیامت حلب میں برپا ہو چکا ہے اور میرا نہیں خیال کہ جہنم کی آگ اس سے بڑھ کر ہو گی... میں خود کشی کر رہی ہوں، اور میں جانتی ہوں کہ آپ سب میرے جہنم میں داخلہ بارے متفق ہوں گے اور یہ وہ واحد چیز ہو گی جس پر آپ سب متفق ہوں گے۔۔۔ ایک عورت کی خودکشی پر ۔۔۔ وہ عورت جو آپ کی ماں، بہن یا بیٹی نہیں بلکہ ایک ایسی عورت جس سے آپ کا کوئی رشتہ ناطہ نہیں، میں اس بات پر اختتام کروں گی کہ آپ کے فتاوی میرے لیے لا یعنی ہیں، لہذا انھیں اپنے لیے اور اپنے خاندانوں کیلیے سنبھال کر رکھیے
میں خود کشی کر رہی ہوں ... اور جب آپ یہ سب پڑھ رہے ہوں گے، میں پاکدامنی کیساتھ مر چکی ہوں گی."
امت کے علماء و سرکردہ افراد کے نام حلب کی ایک بہن کا خط،
یہ سوال جذباتی نہیں ہے بلکہ سنجیدگی کے ساتھ پوچھا گیا ہے....
ایسے حالات میں کیا کرنا چاہئے، مفتیان حضرات توجہ دیں... یعنی کہ کیا اپنے اہل خانہ کو قتل کردے ........ کیا مذکورہ بالا مواقع پر خواتین خودکشی کر سکتی ہیں؟
اہل علم کے نزدیک؛
اگر ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ عورت اپنی عزت بچانے کی کوشش کرے مگر اس میں کامیاب نہ ہونے کا اس کو یقین ہو جائے تو کیا ایسی صورت میں خودکشی کرنا اس کے لیے جائز ہو جائے گا جیسا کے تقسیم ہند کے وقت مسلمان خواتین نے اپنی عزتیں بچانے کی خاطر اپنی جانیں دیدی تھیں یا خودکشی ہر صورت حرام ہے ؟
Feb 16,2012
Answer: 37051
فتوی(م): 504=504-3/1433
خود کشی بہرصورت حرام ہے، اکرعورت اپنی عزت بچانے میں ناکام ہو تب بھی یہی حکم ہے۔ سمعتْ من زوجہا أنہ طلّقہا ولا تقدر علی منعہ من نفسہا إلا بقتلہ، لہا قتلہ بدواء خوف القصاص إلخ وفي الشامي: قال في المحیط وینبغي لہا أن تفتدي بمالہا أو تہرب منہ وإن لم تقدر، قتلتْ متے علمت أنہ یقربہا ولکن ینبغي أن تقتلہ بالدواء ولیس لہا أن تقتل نفْسہا․ (شامي زکریا: ۵/۵۵) تقسیم ہند کے وقت جن خواتین نے عزت بچانے کی خاطر جانیں دیدی تھیں ان کی نیتوں کا حال اللہ کو بہتر معلوم ہے اور ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
......
خود کشی کرنا حرام ہے۔ 
اگر کسی جنگ یا اور موقع پر جہاں برے لوگ مستورات کی عصمت دری کریں (جیسا افغانستان میں ہوا) تو کیا عزت بچانے کے لئے مستورات خود کشی کریں یا کچھ اور حکم ہے؟
Oct 30,2010
Answer: 20414
فتوی(ل): 704=559-5/1431
ایسی صورت میں خودکشی کرنے کا حکم نہیں، البتہ عورت کو چاہئے کہ اپنی عزت بچانے کی ہرممکن کوشش کرے، اگر اس میں وہ ہلاک کردی جاتی ہے تو وہ شہید کہلائے گی،
ذکر الزیلعي في آخر کتاب الإکراہ لو قال لہ: لتلقین نفسک في النار أو من الجبل أو لأقتلنک وکان الإلقاء بحیث لا ینجو منہ ولکن فیہ نوع خفة فلہ الخیار إن شاء فعل ذلک وإن شاء لم یفعل وصبر حتی یقتل عند أبي حنیفة لأنہ ابتلی ببلیتین فیختار ما ہو الأہون في زعمہ وعندہما یصبر ولا یفعل ذلک لأن مباشرة الفعل سعي في إہلاک نفسہ فیصبر تحامیًا عنہ (الأشباہ والنظائر: ۱/۲۶۳)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
......
غالبا حضرت تهانوی رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اگر عورت ٹرین سے اس لئے کود جاتی ہے کہ ٹرین میں رہے گی تو اس کی عزت پر آبنے گی تو تو وہ ٹرین سے کود جائے اور اگر اس دوران وہ مر جائے تو وہ خود کشی نہیں کہلائے گی،
اس کو سامنے رکھ کر کوئی عورت تدبیر اختیار کرتی ہے اور وہ مر جائے تو ان شاءاللہ خود کشی کا گناہ نہ ہوگا،
بشرطیکہ وہ خود کشی کی نیت سے نہ کرے اور اس حیلہ میں موت یقینی نہ ہو بلکہ بچنے کے امکانات ہوں، چاہے بچنے کے امکانات کم ہی ہوں
جیسا کہ ٹرین سے کودنے میں،
لیکن اس کی تحقیق ہونی چاہئے ہذا ما عندی والصواب عند اللہ فان وافقہ والا فالرجوع
اور البحر الرائق شامی وغیرہ میں لکھا ہے کہ اگر زنا کے لئے اکراہ کیا جائے اور مکرہ عورت ہو تو عورت گناہ گار نہیں ہوگی اور اگر مکرہ مرد ہو تو اس کو کسی صورت زنا کی اجازت نہیں اگرچہ جان چلی جائے.
.....
جلی ہوئی عورت جومرچکی ہے، اس کو غسل کیسے دیا جائے گا؟ جواب مرحمت فرمایئں،
غسل کیسےدیاجائے گا، کیوں کہ چمڑیاں بالکل جل گئی ہیں.
اگر لاش جل کر بالکل راکھ نہ ہوگئی ہو بلکہ جلنے کے بعد بھی میت کا سر اور جسم کا نصف حصہ موجود ہو یا اکثر بدن موجود ہو تو اس کو غسل دینا ضروری ہے، ہٰکذا في الہندیة وغیرہا.
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
......
عصمت دری سے بچنے کے لۓ خودکشی کرنا کیساہے.
براۓ کرم وضاحت فرمائیں
الجواب بعون الملک الوھاب
نهیں کرسکتی
ارشا ربانی ہے:
وَلاَ تُلْقُواْ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوَاْ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور صاحبانِ اِحسان بنو، بے شک اﷲ اِحسان والوں سے محبت فرماتا ہے۔
البقرة، 2: 195
امام بغوی نے سورۃ النساء کی آیت نمبر 30 کی تفسیر کے ذیل میں سورۃ البقرۃ کی مذکورہ آیت نمبر 195 بیان کرکے لکھا ہے:
وقيل: أراد به قتل المسلم نفسه.
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد کسی مسلمان کا خودکشی کرنا ہے۔
بغوی، معالم التنزيل، 1: 418
ایک اور مقام پر اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ
اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو
النساء، 4: 29
امام فخر الدین رازی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:
{وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ} يدل علی النهی عن قتل غيره وعن قتل نفسه بالباطل.
{اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو} یہ آیت مبارکہ کسی شخص کو ناحق قتل کرنے اور خودکشی کرنے کی ممانعت پر دلیل شرعی کا حکم رکھتی ہے۔
رازی، التفسير الکبير، 10: 57
درج بالا آیات اور ان کی تفاسیر سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں خودکشی قطعاً حرام ہے۔ اس لیے اگر کسی لڑکی پر خدا نخواستہ حملہ ہو اور اسے عزت کے لٹنے کا ڈر ہو تو لڑکی اپنی بساط کے مطابق مزاحمت کرے، نہ کہ اپنی جان لے۔ کیوں کہ دورانِ جہاد بھی خودکشی کرنے والا جہنمی ہے، جس پر حدیثِ مبارکہ گواہ ہے۔ کسی غزوہ کے دوران میں مسلمانوں میں سے ایک شخص نے خوب بہادری سے جنگ کی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس کی شجاعت اور ہمت کا تذکرہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علمِ نبوت سے انہیں آگاہ فرما دیا کہ وہ شخص دوزخی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہ سن کر بہت حیران ہوئے۔ بالآخر جب اس شخص نے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے خود کشی کرلی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر یہ حقیقت واضح ہوئی کہ خود کشی کرنے والا چاہے بظاہر کتنا ہی جری و بہادر اور مجاہد فی سبیل اﷲ کیوں نہ ہو، وہ ہرگز جنتی نہیں ہو سکتا۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
إِلْتَقَی النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم وَالْمُشْرِکُونَ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ، فَاقْتَتَلُوا، فَمَالَ کُلُّ قَوْمٍ إِلَی عَسْکَرِهِمْ، وَفِي الْمُسْلِمِينَ رَجُلٌ لَا يَدَعُ مِنَ الْمُشْرِکِينَ شَاذَّةً وَلَا فَاذَّةً إِلَّا اتَّبَعَهَا، فَضَرَبَهَا بِسَيْفِهِ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اﷲِ، مَا أَجْزَأَ أَحَدٌ، مَا أَجْزَأَ فُلَانٌ. فَقَالَ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ. فَقَالُوا: أَيُّنَا مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ إِنْ کَانَ هَذَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ. فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: لَأَتَّبِعَنَّهُ، فَإِذَا أَسْرَعَ، وَأَبْطَأَ، کُنْتُ مَعَهُ حَتَّی جُرِحَ، فَاسْتَعْجَلَ الْمَوْتَ، فَوَضَعَ نِصَابَ سَيْفِهِ بِالْأَرْضِ وَذُبَابَهُ بَيْنَ ثَدْيَيْهِ، ثُمَّ تَحَامَلَ عَلَيْهِ، فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَجَائَ الرَّجُلُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّکَ رَسُولُ اﷲِ، فَقَالَ: وَمَا ذَاکَ فَأَخْبَرَهُ. فَقَالَ: إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ، وَإِنَّهُ لَمِنْ أَهْلِ النَّارِ وَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ.
ایک غزوہ (غزوہ خیبر) میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مشرکین کا آمنا سامنا ہوا اور فریقین میں خوب لڑائی ہوئی، پھر (شام کے وقت) ہر فریق اپنے لشکر کی جانب واپس لوٹ گیا۔ پس مسلمانوں میں ایک ایسا آدمی بھی تھا جو کسی اِکا دُکا مشرک کو زندہ نہ چھوڑتا بلکہ پیچھا کرکے اسے تلوار کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیتا تھا۔ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! آج جتنا کام فلاں نے دکھایا ہے اتنا اور کسی سے نہیں ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ تو جہنمی ہے۔ پس لوگ کہنے لگے کہ اگر وہ جہنمی ہے تو ہم میں سے جنتی کون ہوگا! مسلمانوں میں سے ایک آدمی کہنے لگا: میں صورتِ حال کا جائزہ لینے کی غرض سے اس کے ساتھ رہوں گا خواہ یہ تیز چلے یا آہستہ۔ یہاں تک کہ وہ آدمی زخمی ہوگیا، پس اس نے مرنے میں جلدی کی یعنی اپنی تلوار کا دستہ زمین پر رکھا اور نوک اپنے سینے کے درمیان میں رکھ کر خود کو اس پر گرا لیا اور یوں اس نے خودکشی کرلی۔ جائزہ لینے والے آدمی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کیا: میں گواہی دیتا ہوں کہ واقعی آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: بات کیا ہوئی ہے؟ اس شخص نے سارا واقعہ عرض کر دیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک ایک آدمی جنتیوں جیسے عمل کرتا رہتا ہے جیسا کہ لوگ دیکھتے ہیں لیکن درحقیقت وہ جہنمی ہوتا ہے؛ اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے دیکھنے میں وہ جہنمیوں جیسے کام کرتا رہتا ہے لیکن درحقیقت وہ جنتی ہوتا ہے۔
بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب غزوة خيبر، 4: 1541، رقم: 3970
مسلم، الصحيح،کتاب الإيمان، باب غلظ تحريم قتل الإنسان نفسه، 1: 106، رقم: 112
درج بالا حدیث میں آقا علیہ السلام نے واضح طور پر فرما دیا کہ مشکلات کا مقابلہ کرنا جنتیوں والا، اور مشکلات میں خود کشی کر لینا جہنمیوں کا کام ہے۔ اگر مذکورہ لڑکی یا کوئی بھی فرد اپنی عزت، حرمت اور نظریات کے لیے مارا جائے تو وہ شہید ہے۔ حدیثِ مبارکہ ہے:
عَنْ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِه فَهوَ شَهیدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ أَهلِه أَوْ دُونَ دَمِه أَوْ دُونَ دِینِه فَهوَ شَهیدٌ۔
حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو اپنے مال کی حفاظت کرنے کے باعث قتل کر دیا جائے تو وہ شہید ہے۔ جو اپنی بیوی، اپنے خون اور اپنے دین کی حفاظت کرنے کے باعث قتل کر دیا جائے تو وہ شہید ہے۔
 أحمد بن حنبل، المسند، 1: 190، رقم: 1652، مؤسسة قرطبة مصر
اگر کوئی فرد اپنے اہلِ خانہ، اپنی جان اور دین کے تحفظ میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، تو وہ شہید کہلائے گا، تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ عورت اپنی عزت کی حفاظت کرتے ہوئے مزاحمت میں ماری جائے، تو اس کو بھی مرتبہ شہادت نصیب ہوگا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
........
شہید کے اقسام:
اس کی وضاحت کے لئے پہلے احادیث رسول ﷺ دیکھیں۔
(1) ابوہرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:
ما تَعُدُّونَ الشَّہِیدَ فِیکُمْ؟
تُم لوگ اپنے (مرنے والوں) میں سے کِسے شہید سمجھتے ہو ؟
صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:
یا رَسُولَ اللَّہِ من قُتِلَ فی سَبِیلِ اللَّہِ فَہُوَ شَہِیدٌ۔
اے اللہ کے رسول جو اللہ کی راہ میں قتل کِیا جاتا ہے (ہم اُسے شہید سمجھتے ہیں)،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:
انَّ شُہَدَاء َ اُمَّتِی اذًا لَقَلِیلٌ۔
اگر ایسا ہو تو پھر تو میری اُمت کے شہید بہت کم ہوں گے ۔
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کِیا:
فَمَنْ ہُمْ یا رَسُولَ اللَّہِ؟
اے اللہ کے رسول تو پھر شہید (اور) کون ہیں؟
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:
مَن قُتِلَ فی سَبِیلِ اللَّہِ فَہُوَ شَہِیدٌ وَمَنْ مَاتَ فی سَبِیلِ اللَّہِ فَہُوَ شَہِیدٌ وَمَنْ مَاتَ فی الطَّاعُونِ فَہُوَ شَہِیدٌ وَمَنْ مَاتَ فی الْبَطْنِ فَہُوَ شَہِیدٌ۔
"جو اللہ کی راہ میں قتل کِیا گیا وہ شہید ہے، اورجو اللہ کی راہ میں نکلا (اور کسی معرکہِ جِہاد میں شامل ہوئے بغیر مر گیا، یا جو اللہ کے دِین کی کِسی بھی خِدمت کے لئے نکلا اور اُس دوران ) مر گیا وہ بھی شہید ہے، اور اور جو طاعون (کی بیماری) سے مر گیا وہ بھی شہید ہے، اورجو پیٹ (کی بیماری) سے مر گیا، وہ بھی شہید ہے۔
قال بن مِقْسَمٍ اَشْہَدُ علی اَبِیکَ فی ہذا الحدیث اَنَّہُ قال ۔
عبید اللہ ابن مقسم نے یہ سُن کر سہیل کو جو اپنے والد سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ کے ذریعے روایت کر رہے تھے، کہا، میں اِس حدیث کی روایت میں تمھارے والد کی (اِس بات کی درستگی) پرگواہ ہوں اور اِس حدیث میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:
"وَالْغَرِیق ُشَہِیدٌ "
ڈوب کر مرنے والا بھی شہید ہے۔
(2) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہُ سے دوسری روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:
الشُّہَدَاء ُ خَمْسَۃٌ الْمَطْعُونُ وَالْمَبْطُونُ وَالْغَرِق ُ وَصَاحِبُ الْہَدْمِ وَالشَّہِیدُ فی سَبِیلِ اللَّہِ عز وجل۔
شہید پانچ ہیں
(1) مطعون، اور
(2)پیٹ کی بیماری سے مرنے والا، اور
(3) ڈوب کر مرنے والا، اور
(4) ملبے میں دب کر مرنے والا، اور
(5) اللہ کی راہ میں شہید ہونے والا۔
(صحیح مُسلم /کتاب الامارۃ)
::::: ایک وضاحت اور شرح :::::
امام ابن حَجر العسقلانی رحمہ اللہ نے ، فتح الباری / کتاب الطب / با ب مایذکر فی الطاعون ، میں''' المطعون '''کے بہت سے معنی مختلف عُلماء کی شرح کے حوالے سے ذِکر کیے ہیں  جِس کا خلاصہ یہ ہے کہ '' المطعون'' طاعون کے مریض کو بھی کہا جا سکتا ہے، کِسی تیز دھار آلے سے زخمی ہونے والے کو بھی اور جِنّات کے حملے سے اندرونی طور پر زخمی ہونے والے کو بھی کہا جا سکتا ہے ، اس لیے ترجمے میں "مطعون" ہی لکھا گیا ہے۔
(3) حضرت جابر بن عُتیک رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الشَّہَادَۃُ سَبْعٌ سِوَی الْقَتْلِ فی سَبِیلِ اللَّہِ الْمَطْعُونُ شَہِیدٌ وَالْغَرِق ُ شَہِیدٌ وَصَاحِبُ ذَاتِ الْجَنْبِ شَہِیدٌ وَالْمَبْطُونُ شَہِیدٌ وَصَاحِبُ الْحَرِیقِ شَہِیدٌ وَالَّذِی یَمُوتُ تَحْتَ الْہَدْمِ شَہِیدٌ وَالْمَرْاَۃُ تَمُوتُ بِجُمْعٍ شہیدۃٌ۔
اللہ کی راہ میں قتل ہونے والوں کے عِلاوہ سات شہید ہیں
(1) مطعون شہید ہے
(2) اور ڈوبنے والا شہید ہے
(3) ذات الجنب کی بیماری سے مرنے والا شہید ہے اور
(4) اور پیٹ کی بیماری سے مرنے والا، اور
(5) جل کر مرنے والا شہید ہے، اور
(6) ملبے کے نیچے دب کر مرنے والا شہید ہے ، اور
(7) حمل کی حالت میں مرنے والی عورت شہیدہ ہے.
(سُنن ابو داؤد حدیث 3111/ کتاب الخراج و الامارۃ و الفي ,مؤطا مالک /کتاب الجنائز /باب 12)
اِمام الالبانی رحمہ اللہ نے کہا حدیث صحیح ہے.
(4) راشد بن حبیش رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم عُبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ ُ کی عیادت (بیمار پُرسی) کے لئے تشریف لائے تو اِرشاد فرمایا:
أَتَعلَمُونَ مَن الشَّھِیدُ مِن اُمتِی ۔
کیا تُم لوگ جانتے ہو کہ میری اُمت کے شہید کون کون ہیں؟
عُبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے عرض کیا،
"اے اللہ کے رسول (اللہ کی راہ میں مصیبت پر ) صبر کرنے اور اجر و ثواب کا یقین رکھنے والا "
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:
انَّ شُہَدَاء َ امتی اذاً لَقَلِیلٌ الْقَتْلُ فی سَبِیلِ اللَّہِ عز وجل شَہَادَۃٌ وَالطَّاعُونُ شَہَادَۃٌ وَالْغَرَقُ شَہَادَۃٌ وَالْبَطْنُ شَہَادَۃٌ وَالنُّفَسَاء ُ یَجُرُّہَا وَلَدُہَا بِسُرَرِہِ إلی الْجَنَّۃِ والحَرق ُ و السِّلُّ ۔
اِس طرح تو میری اُمت کے شہید بہت کم ہوں گے
(1) اللہ عز وجل کی راہ میں قتل ہونا شہادت ہے اور
(2) طاعون (کی موت) اورشہادت ہے اور
(3) ڈوبنا (یعنی پانی میں ڈوبنے سے موت واقع ہونا ) شہادت ہے اور
(4) پیٹ (کی بیماری) شہادت ہے اور
(5) ولادت کے بعد نفاس کی حالت میں مرنے والی کو اُس کی وہ اولاد (جِس کی ولادت ہوئی اور اِس ولادت کی وجہ سے وہ مرگئی) اپنی کٹی ہوئی ناف سے جنّت میں کھینچ لے جاتی ہے ، اور
(6) جلنا (یعنی جلنے کی وجہ سے موت ہونا)اور
(7) سل (یعنی سل کی بیماری کی وجہ سے موت ہونا) شہادت ہے۔
(مُسند احمد / حدیث راشد بن حبیش رضی اللہ عنہ ُ ، مُسند الطیالیسی، حدیث 586) ،
اِمام الالبانی رحمہ اللہ نے کہا حدیث صحیح ہے۔
''سل'' کی بھی مختلف شرح ملتی ہیں، جن کا حاصل یہ ہے کہ '''سل'' پھیپھڑوں کی بیماری ہے ۔
(5) عبداللہ ابن عَمرورضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:
مَن قُتِلَ دُونَ مَالِہِ فَہُوَ شَہِیدٌ ۔
(صحیح البخاری حدیث 2348 و صحیح مُسلم حدیث 141)
جِسے اُس کے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا وہ شہید ہے۔
(6) حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:
مَن قُتِلَ دُونَ مَالِہِ فَہُوَ شَہِیدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ اَھلِہِ او دُونَ دَمِہِ او دُونَ دِینِہِ فَہُوَ شَہِیدٌ۔
(1) جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا وہ شہید ہے اور
(2) جو اپنے گھر والوں کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا وہ شہید ہے اور
(3) جو اپنی جان کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا وہ شہید ہے اور
(4) اپنے دِین کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا گیا ہو شہید ہے۔
(سنن النسائی،حدیث 4106،سنن ابو داؤد حدیث4772)
اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دِیا ہے ۔
مذکورہ بالا احادیث کی روشنی میں شہید کی مندرجہ ذیل اقسام سامنے آتی ہیں۔
(1) اللہ کی راہ میں قتل کیا جانے والا ، یعنی شہیدِ معرکہ اور مسلمانوں کے یقینی اجماع کے مطابق یہ افضل ترین شہادت ہے۔
(2) اللہ کی راہ میں مرنے والا، یعنی جو اللہ کی راہ میں نکلا اور موت واقع ہو گئی مثلاً غازی ، مہاجر، وغیرہ ، سورت النساء
(4)/ آیت 100۔
(3) مطعون ، طاعون کی بیماری سے مرنے والا ۔
(4) پیٹ کی بیماری سے مرنے والا۔
(5) ڈوب کر مرنے والا۔
(6) ملبے میں دب کر مرنے والا،۔
(7) ذات الجنب سے مرنے والا، (ذات الجنب وہ بیماری جِس میں عموماً پیٹ کے پُھلاؤ، اپھراؤ کی وجہ سے، یا کبھی کسی اور سبب سے پسلیوں کی اندرونی اطراف میں ورم (سوجن) ہو جاتی ہے جو موت کا سبب بنتی ہے)۔
(8) آگ سے جل کر مرنے والا ۔
(9) حمل کی وجہ سے مرنے والی ایسی عورت جس کے پیٹ میں بچہ بن چکا ہو۔
(10) ولادت کے بعد ولادت کی تکلیف سے مرنے والی عورت۔
(11) پھیپھڑوں کی بیماری (سل) کی وجہ سے مرنے والا ۔
(12) جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا ۔
(13) جو اپنے گھر والوں کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا ۔
(14) جو اپنی جان کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا۔
(15) جواپنے دِین کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا گیا۔
اِن کے عِلاوہ کِسی بھی اور طرح سے مرنے والے کے لئے اللہ اوراُس کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے کوئی ایسی خبر نہیں ملتی کہ اُسے شہید سمجھا جائے۔
قنوت نازلہ کی تفصیل:
موجودہ زمانے میں قتل وغارت گری ا تنی زیادہ عام ہو چکی ہے کہ سرکارِ دو عالم صلی الله علیہ وسلم کا وہ ارشاد روزِ روشن کی طرح واضح ہو کر سامنے آجاتاہے کہ آں جناب صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”والذي نفسي بیدہ! لا تذھب الدنیا حتیٰ یأتي علی الناس یومٌ لا یدري القاتلُ فیم قتَل، ولا المقتولُ فیم قُتِل“․ فقلتُ: فکیف ذالک؟ قال: ”الھرج ُ ! القاتل والمقتول في النار“․ (رواہ مسلم في صحیحہ،عن أبي ھریرة رضي اللّٰہ عنہ،کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب لا تقوم الساعة حتیٰ یمر الرجل بقبر الرجل، رقم الحدیث: 2908،ص:1182، دارالسلام)
ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ آں جناب صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ یہ دنیا ختم نہیں ہوگی یہاں تک کہ ایک ایسا دن آجائے کہ قاتل کو یہ معلوم نہیں ہو گا کہ وہ کس وجہ سے قتل کر رہا ہے اور نہ ہی مقتول کو معلوم ہو گا کہ اسے کس جرم میں قتل کیا گیا؟! “
اور پھر اسی پر بَس نہیں یہ قتل وغارت اتنی بڑھی کہ اس کا رُخ ایک عالمی طاغوتی منصوبہ کے تحت باقاعدہ طور پر عامة الناس سے وارثانِ انبیاء ،علماء اور طلباء کی طرف موڑ دیا گیا،اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ وارثانِ انبیاء تو شہادت جیسے مرتبہ عظمیٰ پر فائز ہونے والے ہیں، لیکن ان کے قتل کے منصوبے بنانے والے اور اس فعلِ بد میں میں شریک ہونے والوں کی بد بختی کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ان اہلُ اللہ کی دشمنی پر کمر بستہ ہیں۔
قربِ قیامت میں علم اٹھا لیا جائے گا:
ان اہلِ علم شخصیات کا قتلِ عام بھی علاماتِ قیامت میں سے ہے ،جیسا کہ سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”إن اللہ لا یقبض العلم انتزاعاً ینتزعہ من العباد ولکن یقبض العلم بقبض العلماء، حتیٰ إذا لم یبق عالما اتخذ الناس رء وساً جھالاً،فسُئلوا، فأفتوا بغیر علمٍ، فضلوا وأضلوا“․ (رواہ الإمام البخاري في صحیحہ،عن عبد اللہ بن عمرو بن العاص، کتاب العلم، باب کیف یقبض العلم، رقم الحدیث:100، 1/32، دار طوق النجاة)
ترجمہ: ”بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان سے علم کو اس طرح ختم نہیں فرمائیں گے کہ اسے دفعةً اٹھا لیں بلکہ علماء ِ دین کے اٹھانے کی صورت میں علم کو اٹھا لیں گے، یہاں تک کہ جب کوئی بھی عالم(ِ حقیقی) باقی نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنا لیں گے، ان جہلاء سے سوال کیے جائیں گے تو یہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے، خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے“۔
موجودہ حالات میں ایک سنت عمل:
ان حالات میں کہ جب مسلمانوں پر کوئی بڑا حادثہ پیش آجائے، مثلاً: 
طاعون کی وباء پھیل جائے ، یا کفار حملہ کر دیں، یا خود مسلمانوں میں ہی قتل و غارت عام ہو جائے تو ایسے مواقع میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے ایک خاص عمل کرنا ثابت ہے، جسے قنوتِ نازلہ کہتے ہیں۔
حضرت اَنَس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ”نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ایک مہینہ تک نمازِ فجر میں قنوت(نازلہ) پڑھی، جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے عرب کے بعض قبیلوں مثلاً: رِعْل، ذکوان، عُصَیَّةاور بنی لِحیان کے خلاف بددعا فرمائی تھی“۔
عن اَنَس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ قال : أن نبي اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم قنت شھراً في صلاة الصبح، یدعوا علیٰ أحیاء العرب علیٰ رِعْلٍ و ذَکْوان و عُصَیِّة وبني لِحیان․ (صحیح البخاري، کتاب المغازي، باب غزوة الرجیع ورعل وذکوان وبئر معونة،رقم الحدیث:1579،ص:، دارالسلام)
چناں چہ ! ملک کے موجودہ حالات کے پیشِ نظر صدرِ وفاق المدارس العربیہ پاکستان و مہتمم جامعہ فاروقیہ کراچی حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان صاحب دامت برکاتہم العالیہ اور مہتمم جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاوٴن کراچی حضرت شیخ الحدیث مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے اپنے متوسلین اور ائمہ مساجد کو نصیحت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اپنی اپنی مساجد میں قنوتِ نازلہ شروع کردیں تو اللہ رب العزت کی ذاتِ اقدس سے قوی امید ہے کہ حالات میں بہتری پیدا ہو جائے گی اور مسلمانوں کی دلی تسلی کے ساتھ ان قاتل اور بدبخت لوگوں کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے گرفت کا عمل بھی شروع ہو جائے گا۔
اس لیے کہ ایسے حالات میں مصائب وبلیّات اور سختیاں دور کروانے کے لیے، مسلمانوں کی فتح اور کافروں کی شکست (اور آفات کی دوری)کے لیے بالاتفاق نماز ِ فجرکی جماعت میں قنوتِ نازلہ پڑھنا مسنون و مستحب ہے۔
چناں چہ !خاتمة المحققین علامہ شامی نے لکھا ہے :
(ولا یقنت لغیرہ إلا) لنازلة، فیقنت الإمام في الجھریة․ وفي حاشیة ابن عابدین تحت قولہ:”إلا لنازلة“ قال في الصحاح: النازلة: الشدیدة من شدائد الدھر، ولا شک أن الطاعون من أشد النوازل…قال أبو جعفر الطحاوي:إنما لا یقنت عندنا في صلاة الفجر من غیر بلیة، فإن وقعت فتنة أو بلیة فلا بأس بہ، فعلہ رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم․ (حاشیة ابن عابدین، کتاب الصلاة ، مطلب:في القنوت للنازلة: 2/542، دار المعرفة، بیروت)
قنوتِ نازلہ سے متعلق بعض متفرق مسائل:
چناں چہ! خیال ہوا کہ قنوتِ نازلہ سے متعلقہ مسائل ، طریقہ کار اور اس میں پڑھی جانے والی دعا منظرِ عام پر لائی جائے ، تاکہ ائمہ مساجد کے لیے سہولت و آسانی ہو جائے، ذیل میں وہ مسائل ذکر کیے جاتے ہیں اور اہلِ علم حضرات کے اطمینانِ قلب کے لیے حوالہ جات بھی ذکر کر دئیے گئے ہیں:
تنہا نماز پڑھنے والے کے لیے قنوتِ نازلہ پڑھنا درست نہیں ہے۔
(فیقنت الإمام في الجھریة)․ وفي حاشیة ابن عابدین تحت قولہ:”فیقنت الإمام في الجھریة“و ظاھر تقییدھم بالإمام أنہ لا یقنت المنفرد․(حوالہ بالا)
قنوت ِ نازلة احناف کے نزدیک صرف فجر کی نماز میں پڑھی جا سکتی ہے ،البتہ امام شافعی  کے نزدیک قنوت ِ نازلہ کا تمام نمازوں میں پڑھنا درست ہے۔
(وأما القنوت في الصلوٰت کلھا للنوازل فلم یقل بہ إلا الشافعي، وکأنھم حملوا ما روي عنہ علیہ الصلاة والسلام أنہ قنت في الظھر والعشاء کما في مسلم، وأنہ قنت في المغرب أیضاً کما في البخاري علی النسخ لعدم ورود المواظبة والتکرار الواردین في الفجر عنہ علیہ الصلاہ والسلام، وھو الصریح في أن قنوت النازلة عندنا مختص بصلاة الفجر دون غیرھا من الصلوات الجھریة․(حاشیة ابن عابدین، کتاب الصلاة ، مطلب:في القنوت للنازلة: 2/542، دار المعرفة، بیروت)
قنوتِ نازلہ پڑھنے کا طریقہ:
قنوتِ نازلہ پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ نمازِ فجر کی دوسری رکعت میں رکوع کے بعد ”سَمِعَ اللّٰہ ُ لِمَنْ حَمِدَہ“ کہہ کر امام کھڑا ہو جائے، اور قیام کی حالت میں دعائے قنوت (جو آگے آ رہی ہے) پڑھے اور مقتدی اس کی دعا پرآہستہ آواز سے آمین کہتے رہیں،پھر دعا سے فارغ ہو کر ”اللہ اکبر“کہتے ہوئے سجدے میں چلے جائیں اور بقیہ نماز امام کی اقتداء میں اپنے معمول کے مطابق ادا کریں۔
وأنہ یقنت بعد الرکوع لا قبلہ، بدلیل أن ما استدل بہ الشافعي علی قنوت الفجر، وفیہ تصریح بالقنوت بعد الرکوع، حملہ علماوٴنا علی القنوت للنازلة، ثم رأیت الشرنبلالي في مراقي الفلاح صرح بأنہ بعدہ؛ واستظھر الحموي أنہ قبلہ، والأظھر ما قلناہ، واللّٰہ أعلم․ (حاشیة ابن عابدین، کتاب الصلاة ، مطلب:في القنوت للنازلة: 2/542، دار المعرفة، بیروت)
اگر دعائے قنوت مقتدیوں کو یاد ہو تو امام بھی آہستہ پڑھے اور مقتدی بھی آہستہ آواز میں پڑھے اور اگر مقتدیوں کو یاد نہ ہو جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے، تو امام بلند آواز سے دعا کے کلمات کہے اور سب مقتدی آہستہ آہستہ آمین کہتے رہیں۔
وھل المقتدي مثلہ أم لا؟ و ھل القنوت ھنا قبل الرکوع أم بعدہ ؟ لم أرہ․ والذي یظھر لي أن المقتدي یتابع إمامہ، إلا إذا جھر، فیوٴمن․ (حاشیة ابن عابدین، کتاب الصلاة ، مطلب:في القنوت للنازلة: 2/542، دار المعرفة، بیروت)
قنوتِ نازلہ کے دوران دعا میں ہاتھوں کو لٹکایا جائے یا دعا کے انداز میں دونوں ہاتھوں کو اٹھایا جائے؟ اس بارے میں تفصیل یہ ہے کہ اس حالت میں احتمالاً تین طرح کی صورتیں اپنائی جا سکتی ہیں:ناف کے نیچے ہاتھوں کو باندھا جائے ،جیسا کہ عام طور سے قیامِ نماز میں باندھے جاتے ہیں۔ دونوں ہاتھ نیچے کی طرف لٹکائے جائیں۔ دعا مانگنے کے انداز میں ہاتھ اُوپراٹھا لیے جائیں۔ ان تین صورتوں میں سے پہلی دونوں صورتیں درست ہیں،لیکن ان میں سے دوسری صورت (یعنی:ہاتھوں کو لٹکائے رکھنا) بہتر ہے۔جب کہ تیسری صورت (یعنی: دعا کی طرح ہاتھوں کو اٹھانا) مناسب نہیں ہے۔
جیسا کہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب  نے اپنی کتاب ”بوادر النوادر“ میں لکھا ہے:
”مسئلہ مجتہد فیہ ہے، دلائل سے دونوں طرف (یعنی: پہلی دو صورتوں کی طرف)گنجائش ہے اور ممکن ہے کہ ترجیح قواعد سے وضع(ہاتھ باندھنے) کو ہو۔کما ھو مقتضیٰ مذہب الشیخین، لیکن عارضِ التباس و تشویشِ عوام کی وجہ سے اِرسال کو ترجیح دی جاسکتی ہے،کماھومذھب محمد“۔(بوادر النوادر، نوے واں نادرہ، تحقیق اِرسال یا وضع یدین در قنوتِ نازلہ:6/122،123، ادارہ اسلامیات)
قنوتِ نازلہ کی دعا پڑھنے کی حالت میں جو مسبوقین امام کے ساتھ نماز میں شریک ہوں ، وہ تکبیر ِ تحریمہ کہنے کے بعد قیام کی حالت میں امام کی دعا پر آہستہ آواز سے آمین کہتے رہیں، ان کی یہ رکعت شمار نہیں ہو گی ، (کیوں کہ ان کی شرکت امام کے رکوع سے اُٹھ جانے کے بعد ہوئی ہے)بلکہ وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی دونوں رکعتوں کو حسبِ قاعدہ پورا کریں گے۔
قنوت ِنازلہ کتنے دنوں تک جاری رکھی جائے؟ اس بارے میں کوئی مقدار متعین نہیں ہے کہ اتنے دن تک پڑھی جائے اور اس کے بعد پڑھنا جائز نہیں۔بلکہ ضرورت کے موافق اس دعا کو جاری رکھا جائے، تاہم اتباع ِسنت کی غرض سے ایک مہینہ تک اس کو جاری رکھا جائے ، جیسا کہ شروع میں ذکر کی گئی حدیثِ نبوی صلی الله علیہ وسلم میں ذکر ہوا۔
قلت و فیہ بیان غایة القنوت للنازلة أنہ ینبغي أن یقنت أیاماً معلومةً عن النبي صلی الله علیہ وسلم، وھي قدرُ شھرٍ، کما في الروایات عن أنس: ”أنہ صلی الله علیہ وسلم قنَت شھراً ثم ترک“ فاحفظْہ فھذا غایةُ اتباع السنة النبویة صلی الله علیہ وسلم․ (إعلاء السنن، أحکام القنوت النازلة: 6/118، إدارة القرآن، کراتشي)
قنوتِ نازلہ کی دعا:
دعائے قنوتِ نازلہ بہت سی روایات میں قدرے مختلف الفاظ کے ساتھ وارد ہوئی ہے ، ان سب کو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ حالات کے مطابق علماء ِعصر نے ایک جامع دعا نقل کی ہے:
﴿اللّٰہمَّ اھْدِنَا فِيْ مَنْ ھَدَیْتَ، وَعَافِنَا فِيْ مَنْ عَافَیْتَ، وَتَوَلَّنَا فِيْ مَنْ تَوَلَّیَتَ، وَبَارِکْ لَنَا فِيْ مَا أَعْطَیْتَ، وَقِنَا شَرَّ مَا قَضَیْتَ، إِنَّکَ تَقْضِيْ وَلَا یُقْضیٰ عَلَیْکَ، وَإِنَّہ لَا یَذِلُّ مَنْ وَالَیْتَ، وَلَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ، تَبَارَکْتَ رَبَّنا وَتَعالَیْتَ، نَسْتَغْفِرُکَ وَنَتُوْبُ إِلَیْکَ، وَصَلَّی اللّٰہُ عَلَی النَّبِيِّ الْکَرِیْمِ، اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلِلْمُوٴْمِنِیْنَ وَلِلْمُوٴْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ، وَأَلِّفْ بَیْنَ قُلُوْبِہِمْ وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِہِمْ، وَاجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِھِمُ الْإِیْمَانَ وَالْحِکْمَةَ،وَثَبِّتْھُمْ عَلیٰ مِلَّةِ رَسُوْلِکَ، وَاَوْزِعْھُمْ أَنْ یَشْکُرُوا نِعْمَتَکَ الَّتِيْ أَنْعَمتَ عَلَیْھِمْ وَأَنْ یُوْفُوْا بِعَھْدِکَ الَّذِيْ عَاھَدتَّھُمْ عَلَیْہِ، وَانْصُرْھُمْ عَلَی عَدُوِّکَ وَعَدُوِّھِمْ، اِلٰہَ الْحَقِّ، سُبْحَانَکَ؛ لَا اِلٰہَ غَیْرُکَ، اَللّٰھُمَّ انْصُرْ عَسَاکِرَ الْمُسْلِمِینَ، وَالْعَنِ الْکَفَرَةَ وَالْمُشْرِکِیْنَ لَا سِیَمَا الرَّافِضَةَ وَمَنْ حَذَا حَذْوَھُمْ مِنَ الْأَحْزَابِ وَالْمُنَافِقِیْنَ الَّذِیْنَ یُکَذِّبُوْنَ رُسُلَکَ، وَیُقَاتِلُوْنَ أَوْلِیَاءَ کَ مِنَ الطُّلَّابِ وَالْعُلَمَآءِ وَالْمُسْلِمِیْنَ، اَللّٰھُمَّ خَالِفْ بَیَنَ کَلِمَتِھِمْ، وَفَرِّقْ جَمْعَھُمْ، وَشَتِّتْ شَمْلَھُمْ، وَزَلْزِلْ أَقْدَامَھِمْ، وَاَلْقِ فِيْ قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبَ، وَخُذْھُمْ أَخْذَ عَزِیْزٍ مُّقْتَدِرٍ، وَأَنْزِلْ بِھِمْ بَأْسَکَ الَّذيْ لَا تَرُدُّہ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ﴾․
ترجمہ:یا اللہ ! ہمیں راہ دکھلا اُن لوگوں میں جن کو آپ نے راہ دکھلائی، اور عافیت دے اُن لوگوں میں جن کو آپ نے عافیت عطا فرمائی، اور کارسازی فرمائیے ہماری ان لوگوں میں جن کے آپ کارسازہیں، اور ہمیں ان چیزوں میں برکت عطا فرمائیے جو آپ نے ہمیں عطا فرمائی، اور ہماری ان چیزوں کے شر سے حفاظت فرمائیے جن کا آپ نے فیصلہ فرمایا، کیوں کہ آپ ہی فیصلہ کرنے والے ہیں، اور آپ کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا، بے شک آپ جس کی مدد فرمائیں وہ ذلیل نہیں ہو سکتا، اور عزت نہیں پا سکتا وہ شخص جو آپ سے دشمنی کرے، اے ہمارے رب آپ بابرکت ہیں اور بلند و بالا ہیں۔ہم تجھ ہی سے مغفرت طلب کرتے ہیں اورآپ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ رحمتیں نازل فرمائیے اس نبی پر جو بڑے کریم ہیں، اے اللہ! ہمارے اور موٴمن مردوں اور عورتوں کے اور مسلمان مَردوں اور عورتوں کے گناہ معاف فرما دے، اور ان کے دلوں میں باہم الفت پیدا فرمادیجیے، اور ان کے باہمی تعلقات کو درست فرمادیجیے، اور ان کے دلوں میں ایمان و حکمت کو قائم فرما دیجیے، اور ان کو اپنے رسول کے دین پر ثابت قدم رکھ، اور توفیق دے انہیں کہ شکر کریں آپ کی اس نعمت کا جو آپ نے انہیں دی ہے اور یہ کہ وہ پورا کریں آپ کے اس عہد کو جوآپ نے ان سے لیا ہے،اور ان کی اپنے اور ان کے دشمنوں کے خلاف مدد فرما، اے اللہ! ان کافروں اور مشرکوں پر لعنت فرما،خصوصاً روافض پر اور ان گروہوں پر جو ان کے نقشِ قدم پرچلتے ہیں اور منافقین پر جو آپ کے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں، اور آپ کے اولیاء کو قتل کرتے ہیں،بالخصوص علماء، طلبہ اور عامة المسلمین کو، اے اللہ ! خود انہیں کے اندر آپس میں اختلاف پیدا فرما، اور ان کی جماعت کو متفرق کردے، اور ان کی طاقت پارہ پارہ کر دے، اور ان کے قدموں کو اُکھاڑ دے،اور ان کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دے ، اور ان کو ایسے عذاب میں پکڑ لے جس میں قوت و قدرت والا پکڑا کرتا ہے اور اُن پر اپنا ایسا عذاب نازل فرما جو آپ مجرم قوموں سے دور نہیں کرتے۔
پانچوں نمازوں کے بعد امام و مقتدی سب یہ دعا کریں:
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے جواہر الفقہ میں لکھا ہے کہ پانچوں نمازوں کے بعد امام اور مقتدی یہ دعا بھی مانگیں ، وہ دعاموجودہ حالات کے پیشِ نظر قدرے تغیرو تبدل کے ساتھ نقل کی جاتی ہے،
﴿اَللّٰھَمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ، سَرِیْعَ الْحِسَابِ، اَللّٰہُمَّ اھْزِمِ الْاَحْزَابَ، اَللّٰہُمَّ اھْزِمْھِمْ وَزَلْزِلْھُمْ، اَللّٰھُمَّ انْصُرِ الإِسْلَامَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُجَاھِدِیْنَ الَّذِیْنَ یُجَاھِدُوْنَ فِيْ سَبِیْلِکَ حَقّاً، وَلَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَائِمٍ فِيْ مَشَارِقِ الْأَرْضِ وَمَغَارِبِھَا، اَللّٰھُمَّ احْفَظْنَا وَاحْفَظِ الطُّلَّابَ وَالْعُلَمَآءَ خَاصَّةً وَالْمُسْلِمِیْنَ عَامَّةً وَکَافَّةً، وَالْمَدَارِسَ وَالْمَعَاھِدَ الدِّیْنِیَّةَ کُلَّھَا، اَللّٰھُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا وَاٰمِنْ رَوْعَاتِنَا، وَاکْنُفْنَا بِرُکْنِکَ الَّذِيْ لَا یُرَامُ، وَاَعِنَّا وَلَا تُعِنْ عَلَیْنَا، وَانْصُرْنَا وَلَا تَنْصُرْ عَلَیْنَا، وَامْکُرْلَنَا وَلَا تَمْکُرْبِنَا، وَاھْدِنَا وَیَسِّرِ الْھُدیٰ لَنَا، اَللّٰھُمَّ إِلَیْکَ نَشْکُوْا ضُعْفَ قُوَّتِنَا، وَقِلَّةَ حِیْلَتِنَا، وَھَوَانَنَا عَلیٰ النَّاسِ، إِنَّہُ لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَأَ مِنْکَ إِلَّا إِلَیْک﴾َ۔
ترجمہ:اے اللہ! اے کتاب نازل کرنے والے! جلد حساب لینے والے! یا للہ! ان طاقتوں کو شکست دیدے، یا اللہ! اسلام ، مسلمان اور ان مجاہدین کی مدد فرما،جو تیرے راستے میں زمین کے مشرق و مغرب میں جہاد کرتے ہیں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں کرتے، یااللہ! ہماری حفاظت فرما، خاص طور پر طلبہ اور علماء کی اور عام طور پر عام مسلمانوں کی اور مدارس و تمام مراکز دینیہ کی حفاظت فرما۔ یا للہ! ہماری کمزوریوں پر پردہ دال دے اور خوف کی چیزوں سے ہم کو امن عطا فرما۔اور ہمیں اپنی اس طاقت کی پناہ میں لے جس کا کسی دشمن کی طرف سے بھی ارادہ نہیں کیا جاسکتا، اور ہماری مدد فرما اور ہمارے مقابل کی مدد نہ فرما اور ہم کو فتح دے، ہمارے مقابل کو فتح نہ دے، اور ہمارے مخالف کی مدد نہ فرما، اور ہم کو ہدایت عطا فرما، اور ہمارے لیے ہدایت کو آسان فرما، یا اللہ! ہم آپ ہی کے سامنے اپنی کمزوری ، بے سامانی اور لوگوں کی نظروں میں بے وقعتی کی شکایت پیش کرتے ہیں، کیوں کہ آپ کے عذاب سے نجات و پناہ بجز آپ کے کوئی نہیں دے سکتا۔

No comments:

Post a Comment