Wednesday 28 December 2016

طارق بن زياد رحمة اللہ علیہ

ایس اے ساگر

جزیرہ نما آئبیریا کے جنوب میں برطانیہ کے زیر تسلط علاقہ جبرالٹر واقع ہے، جس کا زبردست تاریخی پس منظر ہے. جبرالٹر کا عربی نام جبل طارق ہے جو بنو امیہ کے ایک فوجی جرنیل طارق بن زیاد کے نام پر رکھا گیا ہے، جنھوں نے 92 ھ کے دوران اسپین فتح کیا تھا، تاریخ شاہد ہے کہ اسپین پر مسلمانوں سے قبل عیسائی بادشاہ راڈرک کی حکومت تھی جس کے بارے میں اسلامی اور انگریزی تاریخوں میں لکھا گیا ہے کہ وہ ایک عیاش بادشاہ تھا جو اپنے محل میں بچوں اور بچیوں کی تربیت کے بہانے ان کے ساتھ زیادتی کیا کرتا تھا، راڈرک کے ماتحت مراکش کے ساحلی علاقہ پر جولین کی حکومت قائم تھی جو جبل طارق کا قریبی ترین علاقہ ہے، جولین کی بیٹی راڈرک کے محل میں تھی جس کے ساتھ اس نے زیادتی کی جولین کو اس کا علم ہوا تو اس نے زیادتی کا بدلہ لینے کے لئے مسلمانوں کے کمانڈر موسی بن نصیر سے مدد کی درخواست کی کہ وہ اسپین پر حملہ کرکے وہاں کے مظلوم باشندوں کی مدد کرے، موسی نے خلیفہ وقت ولید بن عبد الملک کی اجازت سے طارق بن زیاد کو سات ہزار کا لشکر دے کر اسپین پر چڑھائی کا حکم دیا،

جبل الطارق پر کشتیاں جلانے کا حکم:

ویکی پیڈیا کے مطابق طارق بن زیاد بربر نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمان اور بنو امیہ کے جرنیل تھے۔ انھوں نے 711ء میں ہسپانیہ (اسپین) کی مسیحی حکومت پر قبضہ کرکے یورپ میں مسلم اقتدار کا آغاز کیا۔ وہ ہسپانوی تاریخ میں Taric el Tuerto کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ انھیں اسپین کی تاریخ کے اہم ترین عسکری رہنماؤں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ شروع میں وہ اموی صوبہ افریقیہ کے گورنر موسی بن نصیر کے نائب تھے جنھوں نے ہسپانیہ میں وزیگوتھ بادشاہ کے مظالم سے تنگ عوام کے مطالبے پر طارق کو ہسپانیہ پر چڑھائی کا حکم دیا۔ 30 اپریل 711ء کو طارق کی افواج جبرالٹر پر اتریں۔ واضح رہے کہ جبرالٹر اس علاقے کے عربی نام جبل الطارق کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ اسپین کی سرزمین پر اترنے کے بعد طارق نے تمام کشتیوں کو جلادینے کا حکم دیا۔ تاکہ فوج فرار کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے. انھوں نے 7 ہزار کے مختصر لشکر کے ساتھ پیش قدمی شروع کی اور بعد ازاں 19 جولائی کو جنگ وادی لکہ میں وزیگوتھ حکمران لذریق کے ایک لاکھ کے لشکر کا سامنا کیا اور معرکے میں ایک ہی دن میں بدترین شکست دی۔ جنگ میں روڈرک مارا گیا۔ فتح کے بعد طارق نے بغیر کسی مزاحمت کے دارالحکومت طلیطلہ پر قبضہ کرلیا۔ طارق کو ہسپانیہ کا گورنر بنادیا گیا لیکن جلد انہیں دمشق طلب کیا گیا کیونکہ خلیفہ ولید اول سے ہسپانیہ پر چڑھائی کی اجازت نہیں لی گئی تھی۔

معركة جبل طارق ..
خطبة طارق ورواية حرق المراكب

بعض حضرات کے مطابق طارق بن زیاد بن عبداللہ ہسپانیہ کے پہلے فاتح اور اسلام کے پہلے والی تھے۔ دنیا کے بہترین سپہ سالاروں میں سے ایک تھے۔ طارق بن زیاد نے ایک مختصر فوج کے ساتھ یوروپ کے عظیم اسپین کو فتح کیا تھا۔ اور یہاں دین اسلام کاعلم بلند کیا تھا۔ اسپین کی فتح اور یہاں پراسلامی حکومت کا قیام ایک ایسا تاریخی واقعہ ہے جس نے یورپ کو سیاسی‘ معاشی اور ثقافتی پسماندگی سے نکال کر ایک نئی بصیرت فکر عطا کی تھی۔ اور اس پر ناقابل فراموش اثرات مرتب کئے تھے۔ طار ق بن زیاد ایک متقی، فرض شناس اور بلندہمت انسان تھے۔ ان کے حسن اخلاق کی بنیاد پر عوام اور فوجی سپاہی انہیں احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔
طارق بن زیاد بربر نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمان اور بنو امیہ کے جرنیل تھے جنھوں نے 711ء کے دوران ہسپانیہ میں عیسائی حکومت کا خاتمہ کرکے یوروپ میں مسلم اقتدار کا آغاز کیا۔ وہ ہسپانوی تاریخ میں Taric el Tuerto کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ انھیں اسپین کی تاریخ کے اہم ترین عسکری رہنماؤں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ طارق بن زیاد کی تعلیم و تربیت موسیٰ بن نصیر کے زیر نگرانی ہوئی جو ایک ماہر حرب اور عظیم سپہ سالار تھے۔ طارق رحمتہ اللہ علیہ نے فن سپہ گری میں شہرت حاصل کی اور ان کی بہادری اور عسکری چالوں کے چرچے ہونے لگے۔ افریقہ کی اسلامی سلطنت کو اندلس کی بحری قوت سے خطرہ لاحق تھا۔ شروع میں وہ اموی صوبہ افریقیہ کے گورنر موسی بن نصیر کے نائب تھے جنہوں نے ہسپانیہ میں وزیگوتھ بادشاہ کے مظالم سے تنگ عوام کے مطالبے پر طارق کو ہسپانیہ پر چڑھائی کا حکم دیا۔ موسیٰ بن نصیر نے دشمن کی طاقت اور دفاعی استحکامات کا جائزہ لیکر طارق بن زیاد کی کمان میں سات ہزار (بعض کے نزدیک بارہ ہزار) فوج دیکر اسے ہسپانیہ کی فتح کےلئے روانہ کی. 30 اپریل 711ء کو طارق کا اسلامی لشکر ہسپانیہ کے ساحل پر اترا اور ایک پہاڑ کے نزدیک اپنے قدم جمالیے جو بعد میں جبل الطارق کہلایا۔ واضح رہے کہ جبرالٹر اس علاقے کے عربی نام جبل الطارق کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ طارق نے جنگ کےلئے محفوظ جگہ منتخب کی اور اس موقع پر اپنی فوج کو ایک نہایت ولولہ انگیز خطبہ دیا اورکہا کہ،
"ہمارے سامنے دشمن اورپیچھے سمندر ہے۔ جنگ سے قبل اس نے جہازوں کو جلا دینے کا حکم دیا تھا۔ تاکہ دشمن کی کثیر تعداد کے باعث اسلامی لشکر بددل ہو کر اگر پسپائی کا خیال لائے تو واپسی کا راستہ نہ ہو۔ اسی صورت میں ضرور ایک ہی راستہ باقی رہ جاتا تھا کہ یا تو دشمن کو شکست دے دی جائے یا یہ جان جان آفرین کے سپرد کردی جائے۔"
یہ ایک ایسی زبردست جنگی چال تھی کہ جس نے اپنی اہمیت کی داد آنے والے عظیم سپہ سالاروں سے بھی پائی۔ انھوں نے 7 ہزار کے مختصر لشکر کے ساتھ پیش قدمی شروع کی اور بعد ازاں 19 جولائی کو جنگ وادی لکہ میں وزیگوتھ حکمران لذریق کے ایک لاکھ کے لشکر کا سامنا کیا اور بہادری کی عظیم داستان رقم کرتے ہوئے اسے محض آٹھ دن میں بدترین شکست دی جنگ میں۔ شہنشاہ راڈرک مارا گیا یا بھاگ نکلا جس کے انجام کا پتہ نہ چل سکا۔ اس اعتبار سے یہ جنگ فیصلہ کن تھی کہ اس کے بعد ہسپانیوی فوج کبھی متحد ہو کر نہ لڑ سکی. طارق بن زیاد کی کامیابی کی خبر سن کر موسیٰ بن نصیر نے حکومت اپنے بیٹے عبداللہ کے سپرد کی اورخود طارق بن زیاد سے آملا۔ اور دونوں نے مل کر کئی اور علاقے فتح کئے. فتح کے بعد طارق نے بغیر کسی مزاحمت کے دارالحکومت طلیطلہ پر قبضہ کرلیا۔ طارق کو ہسپانیہ کا گورنر بنادیا گیا لیکن اسی دوران خلیفہ ولید بن عبدالملک نے اپنے قاصد بھیج کر دونوں کو دمشق بلوالیا اور یوں طارق بن زیادہ کی عسکری زندگی کا اختتام ہوا۔ کیونکہ خلیفہ ولید اول سے ہسپانیہ پر چڑھائی کی اجازت نہیں لی گئی تھی۔
)مقام وفات ( ↭↭↭↭↭ دمشق, الشام 720ء
وفاداری ↭↭↭↭↭ اموی خلافت
عہدہ ↭↭↭↭↭ جامع
جنگیں/محارب ↭↭↭↭↭ فتح ہسپانیہ
دیگر کارنامے ↭↭↭↭↭ الاندلس کے گورنر

بعض سے منقول ہے کہ" عام طور پر کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے طارق بن زیاد سمندر کے راستے سے کشتیوں کے ذریعے جبل طارق پہنچے لیکن اس بارے میں اندلسیہ میں مقیم شیخ محمد ادریسی سے معلوم کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ طارق بن زیاد کی آمد سے قبل مسلمان فوجیوں کا مقدمۃ الجیش حالات کا جائزہ لینے کے لئے اسپین کے ساحل طریف کے مقام پر اترا تھا، یہ علاقہ جبل طارق سے انیس میل کے فاصلہ پر واقع ہے، طارق بن زیاد کی مدد کے لئے موسی بن نصیر نے مزید پانچ ہزار کا لشکر روانہ کیا جنھوں نے جولین کے ساتھیوں کے ساتھ مل کر راڈرک کے ستر ہزار فوج کا جوانمردی کے ساتھ مقابلہ کیا اور بلاخر مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔ جبرالٹر کا علاقہ 6.5 مربع کلو میٹر پر اور کل آبادی تقریباً تیس ہزار افراد پر مشتمل ہے جس میں پندرہ سو سے زائد مسلمان آباد ہیں، نوے فیصد مسلمانوں کا تعلق مراکش سے ہے اور باقی دس فیصد پاکستانی اور بنگلہ دیش وغیرہ سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے ہے، یہاں دو مسجدیں ہیں جس میں ایک خوبصورت مسجد پہاڑ کے اوپر شاہ فہد نے تعمیر کی ہے، 1995 سے لیکر 1997 تک دو سال میں یہ عظیم الشان مسجد تعمیر ہوئی جس پر اس وقت تقریبا پانچ ملین پاؤنڈ کا خرچہ آیا، مسجد میں ایک اسکول، لائبریری اور ایک لیکچر ہال بھی ہے، مسجد میں پانچ وقت اسپیکر پر آذان دی جاتی ہے، مسجد کا افتتاح شاہ فہد نے 8 اگست 1997 کو کیا تھا۔1713 عیسوی کو جبرالٹر ایک معاہدے کے تحت برطانیہ کے حوالے کیا گیا تھا جہاں آج تک برطانیہ کی حکومت قائم ہے، یہاں بڑی تعداد میں انگریز رہائش پذیر ہیں اس جزیرہ نما شہر میں عوام کے لیے حکومت برطانیہ کی طرف سے ہر قسم کی سہولیات فراہم کی گئی ہے، جبل طارق سے مراکش کا ساحل بہت قریب ہے۔ جب ہم جبل طارق پہنچے تو 25 دسمبر کا دن تھا معلوم ہوا کہ کرسمس کی چھٹیوں کی وجہ سے بہت سے مسلمان اپنے رشتہ داروں سے ملنے مراکش گئے ہوئے ہیں، جبل طارق سے مراکش تک فیری کے ذریعے 45 منٹ میں سفر طے کیا جاتا ہے اور یہ وہی سمندر ہے جس میں طارق بن زیاد سات ہزار کی فوج لیکر مراکش سے کشتیوں کے ذریعہ جبل طارق پہنچے تھے، مشہور یہ ہے جبل طارق پہنچ کر طارق بن زیاد نے تمام  کشتیاں جلا ڈالی تھی تاکہ فوج کے سپاہی واپسی کی خواہش اور تمنا دل سے نکال کر یکسو ہو کر پورے جوش اور جذبے سے مقابلہ کرے، علامہ اقبال نے اسی کی منظر کشی کرتے ہوئے فرمایا۔

طارق چو بر کناررهٔ اندلس سفینه سوخت
گفتند   کار  تو  به   نگاهِ  خرد  خطا ست
دوریم   از  سواد  وطن   باز  چون  رسیم
ترک  سبب  ز روی  شریعت  کجا  رواست
خندید و دست خویش بشمشیر برد و گفت
هر ملک ملک ماست  که ملک خدای ماست"

No comments:

Post a Comment