Sunday 18 December 2016

حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین مکرمین کے خلاف پروپیگنڈہ

کچھ لوگ اس خیال کی اشاعت کررہے ہیں کہ نعوذ باللہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین مکرمین (حضرت سیدنا عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا) دونوں (نعوذ باللہ، نعوذ باللہ ، نعوذ باللہ) مشرک و کافر مرے۔ یہ لوگ کچھ احادیث نقل کرتے ہیں:

حدیث ۱: ابن مسعود سے روایت ہے کہ ملیکہ کے دو بیٹے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: ہماری ماں اپنے شوہر کا احترام کرتی تھی اور اپنے بچوں پر شفیق تھی۔ انھوں نے پھر مہمانوں وغیرہ کے متعلق ذکر کیا ، پھر بتایا کہ لیکن ایام جاہلیت میں انھوں نے ایک لڑکی زندہ درگور کردی تھی۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری ماں جہنم میں ہے۔ وہ اس حال میں واپس ہونے لگے کہ تکلیف کا اثر ان کے چہرہ پر نمایاں تھا۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو واپس بلایا ، وہ خوشی خوشی اس خیال میں آئے کہ شاید معاملہ بدل گیا ہو۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری ماں تمہاری ماں کے ساتھ ہے۔ (مسند احمد، 3598)
حدیث ۲:عن انس ان رجلا قال یارسول اللہ! این ابی؟ قال: فی النار ، فلما قفی دعاہ و قال: ان ابی و اباک فی النار (صحیح مسلم، کتاب الایمان، حدیث 398)
Aug 11,2007

Answer: 876

(فتوى: 833/ب = 783/ب)
اس مسئلہ میں سب سے زیادہ اسلم طریقہ یہ ہے کہ توقف كیا جائے، کیونکہ علماء کے نزدیک خود یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ ایک گروہ یہ کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین ایمان نہیں لائے تھے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ وہ دونوں ایمان لے آئے تھے۔ دلائل میں دونوں کے پاس متعدد احادیث ہیں۔ اس لیے سلامتی اسی میں ہے کہ ہم سکوت اختیار کریں۔ یہ مسئلہ عقائد اسلام میں سے نہیں ہے، نہ ہی عمل سے اس کا کوئی تعلق ہے، لہٰذا خاموشی اختیار کرنا سب سے بہتر راستہ ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
.............
الجواب حامداً ومصلیاً
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے ایماندار ہونے میں اکابر کے مختلف اقوال ہیں،بعض فرماتے ہیں کہ’’ماتاعلی الکفر‘‘ ایک روایت میں ہے ’’استاذنت ربی ان استغفر لامی فلم یاذن لی‘‘۔
مسلم کی ایک اور روایت میں ہے: ’’ان رجلا قال یارسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم این ابی قال فی النارفلما قفادعاہ فقال ان ابی واباک فی النار‘
مسلم شریف ص۱/۳۱۴، جنائز، فصل فی الذہاب الی زیارۃ القبور۔
(شامی ص۶۳۳؍ج۲)
آیت ’’ولاتسئل عن اصحاب الجحیم بصیغہ نہی‘‘ حضورا کے سوال لیت شعری مافعل ابوای کے جواب میں نا زل ہوئی،
تفسیرمظہری، ص۴؂۶۷؍ج۱؍ میں لکھا ہیکہ یہ قوی نہیں، بعض روایت سے معلوم ہوتاہیکہ حضورکے والدین کوزندہ کیاگیا اوروہ آپ پر ایمان لائے
، بیہقی نے دلائل النبوۃ میں حضرت انسؓ سے اورابن نعیم نے حضرت ابن عباسؓ سے روایت بیان کی ہے:

رواہ البیہقی فی دلائل النبوۃ من حدیث انس وابونعیم فی دلائل النبوۃ من حدیث ابن عباسؓ نحوہ وقد صنف الشیخ الاجل جلال الدین السیوطی رضی اللّٰہ عنہ فی اثبات اسلام اباء النبی ﷺ رسائل واخذت من تلک الرسائل رسالۃ فذکرت فیہا مایثبت اسلامہم (تفسیر مظہری ، ص۱۲۱؍ج۱؍ندوۃ المصنفین دہلی، دلائل لانبوۃ ص۱/۱۷۴، ذکر شرف اصل رسول اﷲ ﷺ، مطبوعہ عباس احمد الباز مکہ المکرمہ)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لوگ دوفرقوں میں نہیں بٹے مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے ان دونوں میں سے سب سے بہتر فرقہ میں رکھا ،پس میں اپنے ماں باپ سے پیدا ہوا کہ میرے اندرزمانہ جاہلیت کا کوئی اثر نہیں آیا، میں نکاح سے پیدا ہواہوں زنا سے پیدا نہیں ہوا، آد م ں سے لیکر اپنے ماں باپ تک پس میں تم میں سب سے بہتر ہوں ذات کے اعتبار سے اورسب سے بہتر ہوں با پ کے اعتبار سے۔۔

وقد صنف السیوطی الرسائل ثلثۃ فی نجاۃ والدیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وذکر الادلۃ من الجانبین (وقبلہ)وقد بالغ السیوطی فی اثبات ایمان ابوی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم
(بذل المجہود ،ص۲۱۴؍ج۴؍باب زیار ۃ القبو ر )قلت ذکرالحسینی ان للسیوطی ست رسائل …… (۱) الدرج المنیفۃ (۲) مسالک الحنفا (۳) نشر العلمین (۴) المقامۃ السندسیۃ (۵) السبل الجلیۃ (۶) التعظیم والمنۃ

اما قول ابن حجر وحدیث احیاۂما حتی اٰمنا بہ ثم توفیاحدیث صحیح وممن صححہ الامام القرطبی والحافظ ابن ناصرالدین فعلی تقدیر صحتہ لایصلح ان یکون معارضاً لحدیث مسلم مع ان الحفاظ طعنوافیہ ومنعوا جوازہ وصنف السیوطی الرسائل ثلثۃ فی نجاۃ والدیہ وذکر الادلۃ من الجانبین (بذل المجہود ص۲۱۴؍ ج۴؍ باب زیارۃ القبور، مکتبہ رشیدیہ سہارنپور،

قال ابن عابدین واحیاء الابوین بعد موتہما لا ینافی کون النکاح کان فی زمن الکفر ولا ینافی ایضا ماقالہ الامام فی الفقہ الاکبر من ان والدیہ ﷺ ماتا علی الکفر ولا مافی صحیح مسلم استأ ذنت ربی ان استغفر لامی فلم یأذن لی وما فیہ ایضا ان رجلا قال یا رسول اللہ این ابی قال فی النار فلما قفا دَعاہ فقال ان ابی واباک فی النار لا مکان ان یکون الاحیاء بعد ذلک لانہ کان فی حجۃ الوداع وکون ا لایمان عند المعاینۃ غیر نافع فکیف بعد الموت فذاک فی غیر الخصوصیۃ التی اکرم اللہ بہا نبیہﷺ واما الاستدلال علی نجاتہما بانہما ماتا فی زمن الفترۃ فہو مبنی علی اصول الاشاعرۃ ان من مات ولم تبلغہ الدعویٰ یموت ناجیا اما الماتریدیۃ فان مات قبل مضی مدۃ یمکنہ فیہا التامل ولم یعتقد ایمانا ولا کفراً فلا عقاب علیہ بخلاف مااذا اعتقد کفراً اومات بعد المدۃ غیر معتقد شیئا نعم البخاریون …وبالجملہ کما قال بعض المحققین انہ لا ینبغی ذکرہذہ المسئلۃ الامع مزید الادب ولیست من المسائل التی یضر جہلہا اویسئل عنہا فی القبر اوفی الموقف فحفظ اللسان عن التکلم فیہا الا بخیر اولیٰ واسلم ۔(ردالمحتار ہامش الدرالمختار ص۴۱۹ جلد۲ باب نکاح الکافر )
شاہ عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے نجات ابوین کے متعلق تین مسلک بیان کئے ہیں، پھرفرمایا ہے۔ ’’فالاولیٰ فی ہذہ المسائل السکوت (فتاویٰ عزیزی ص۱۱۸؍ج۱، مطبوعہ رحیمیہ دیوبند) وفتاویٰ عبدالحی ص۷۷؍ مطبوعہ رحیمیہ دیوبند)
نقلہ العبد محمد عفی عنہ
.......
مزید تفصیل کےلئے سیرت حلبیہ جلد اول کو دیکھا جائے
ص 173

No comments:

Post a Comment