Friday 30 December 2016

دارالعلوم دیوبند کے نائب شیخ الحدیث مولانا عبدالحق کی وفات پر علمائے کرام کا خراج عقیدت

ایس اے ساگر 
دارالعلوم دیوبند کے نائب شیخ الحدیث مولانا عبدالحق کی وفات پر علمی حلقوں میں صف ماتم بچھی ہوئی پے. اس سلسلہ میں ملائشیا سے متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن مدظلہ کے تعزیتی پیغام کے علاوہ دیگر علمائے کرام کے تاثرات پیش خدمت ہیں؛
.......
شیخ الحدیث مولانا عبدالحق اعظمی
کا سانحۂ ارتحال
از: علامہ فضیل احمد الناصری القاسمی
یہ اطلاع دیتے ہوے مجھے بڑا صدمہ ہو رہا ہے کہ ہزاروں علما و فقہا کے استاذ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق اعظمی اب ہمارے درمیان نہیں رہے.....اناللہ وانا الیہ راجعون.....ان کی رحلت ہارٹ فیل ہونے سے ہوئی.....مرحوم انتہائی سادہ دل، باخدا، مرنجاں مرنج، علمی اور حدیثی شخصیت تھے.....ان کا انتقال ایک عہد کا خاتمہ ہے.....کم و بیش ساٹھ برسوں تک متواتر بخاری شریف کا درس دیا....دارالعلوم دیوبند میں پینتیس چھتیس سال تک بخاری شریف جلد ثانی پڑھائی ..... وہ یہاں "شیخ ثانی" سے مشہور تھے.....مرحوم کی علمی حیثیت مسلم تھی ..... وہ میرے والد مرحوم حضرت مولانا جمیل احمد ناصری سے دوسال سینئر تھے .... والد مرحوم سے ان کا بڑا یارانہ تعلق تھا ..... وہ ان کے والد حضرت مولانا مسلم صاحب اعظمی کے گھریلو خادم تھے ..... اس بنیاد پر وہ مجھ پر برابر شفیق رہے ..... جب بھی ملاقات کرتا، وہ میری قلتِ حاضری کی شکایت کرتے .... میں نے ان سے بخاری شریف جلد ثانی کے علاوہ مشکوۃ شریف بھی پڑھی ہے ..... بڑے صاحب عزیمت اور اسباق کے پابند تھے.....ہر موسم میں درس گاہ پہنچ جاتے.....دو دو تین گھنٹے بیٹھنا ان کا عام معمول تھا ..... ان کی رہائش گاہ چھتہ مسجد کی چھت پر شمالی جانب تھی ..... چڑھنا اترنا بے حد مشکل تھا، مگر ہمت کے دھنی تھے، بلا ناغہ آجاتے ..... 1928 میں پیدا ہوئے اور تقریباً نواسی سال کی عمر پا کر ہمارے درمیان سے اٹھ گئے ..... ان کے انتقال پر دل مغموم ہے ..... دارالعلوم دیوبند کے نائب شیخ الحدیث مولانا عبدالحق کی وفات پر ملائشیا سے متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن آنکھیں رو رہی ہیں .... دماغ ماؤف ہے ..... اللہ انہیں غریقِ رحمت فرماے....ان کے سانحے کے ساتھ ہی بخاری شریف کے دونوں استاذ سے ہم محروم ہوگئے ..... غضب ہے ہو گئی رخصت گلستاں سے بہار آخر ..... رہے نام اللہ کا....
.......
اب چراغوں میں روشنی کہاں ؟
علامہ شکیل منصور القاسمی
دنیا میں جو بھی آیا ہے ،جانے ہی کے لئے آیا ہے ۔موت زندگی کی سب سے بڑی اور اٹل حقیقیت ہے۔ہر نفس کو اس کا ذائقہ چکھنا ہے۔کسی کو بھی اس سے فرار ممکن نہیں۔انسان خاکی ہے ،موت اسے خاک میں ملادیتی ہے (سوائے انبیاء کرام علیہ الصلوۃ والسلام)
بڑے بڑے سورما آئے اور چلے گئے ۔لاکھوں کڑوروں خاک میں پنہاں ہورہے ہیں۔موت کو شکست دینا ممکن نہیں ۔
لیکن خدمت، ایثار، کارنامے، جذبے، اوصاف وکمالات، جدوجہد، مجاہدہ، ریاضت موت کو بھی شکست دیدیتی ہیں اور انہیں کبھی فنا نہیں ۔
[ص: 2065]
2682 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ قَالَ هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَتَمَنَّى أَحَدُكُمْ الْمَوْتَ وَلَا يَدْعُ بِهِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَهُ إِنَّهُ إِذَا مَاتَ أَحَدُكُمْ انْقَطَعَ عَمَلُهُ وَإِنَّهُ لَا يَزِيدُ الْمُؤْمِنَ عُمْرُهُ إِلَّا خَيْرًا
صحيح مسلم. كتاب الذكر والدعاء.
لاکھوں لوگ مرتے ہیں لیکن موت کے بعد دلوں میں دھڑکنے اور زندہ رہنے والے چند ہی بانصیب لوگ ہوتے ہیں ۔ جو مرکے بھی نہیں مرتے بلکہ موت کے منہ سے بھی زندہ بچ جاتے ہیں۔
مادر علمی دار العلوم دیوبند کی پیشانی کے جھومڑ "نابغہ روزگار " عہد ساز شخصیت، محرم اسرار دین، محدث ،فقیہ، بے مثال خطیب 
استاذ العلماء شیخ عبد الحق صاحب اعظمی ' آج 30  دسمبر روز جمعہ 2016 عیسوی '  ہمیں بلکتے ،سسکتے اور ہچکیاں مارتے ہوئے چھوڑ کے وہاں چلے گئے جہاں ہم سب کو بالآخر جاناہے ۔لیکن آپ کا جانا عام لوگوں کی طرح نہیں ہے۔آپ  کم وبیش چار دہائیوں پہ محیط بے لوث خدمات حدیث ،رجال کار کی تیاری ،ریاضت ومجاہدات کے وہ انمٹ نقوش چھوڑ کے گئے ہیں جو حصہ تاریخ بن گئے ۔موت انسانی جسم کو کھا تو سکتی ہے لیکن اس کے کارناموں کو چھو بھی نہیں سکتی۔ عطر و گلاب کی خوشبو وقتی اور عارضی طور پہ جوبن دکھاتی اور جسم وفضاء کو معطر کرتی ہے۔لیکن پہر یا تو خزاں کھاجاتی ہے یا خود مرکے مٹی میں مل جاتی ہے۔لیکن اعمال وکردار کی خوشبو ہی ایسی خوشبو ہے جو صدقہ جاریہ بن کے دائمی ہوجاتی اور سدا بہار رہتی ہے۔
مرنا سب کو ہے اور مرتا بھی ہر کوئی ہے ! لیکن اصل کمال اس کا ہے جو مرکے بھی نہ مرے!  جو موت کے منہ میں جاکے بھی زندہ رہے !!
شیخ زمن مولانا عبد الحق صاحب اعظمی جسم خاکی سے وفات پاگئے  لیکن "شیخ ثانی " زندہ ہیں !موت ان کی چاردہائی پہ مشتمل خدمات وکارناموں کو شکست نہیں دے سکتی !! موت کا بے رحم پنجہ ان کے کارناموں کی معطر کلیوں کو مسل نہیں سکتا! ان کے اخلاق وکردار کی خوشبو کو خزاں نہیں پہنچ سکتی! 
شیخ ثانی کی خدمات کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ مستقبل میں حضرت کے تلامذہ ،عقیدت مند اور فیض یافتہ مستقل کتابیں اور مضامین لکھیں گے ۔جن لوگوں نے حضرت کو پڑھا یا دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ وہ گوناگوں خوبیوں اور کمالات کے مالک تھے ۔پبلسٹی ،شہرت ،دنیاوی عزت ،اخباری ذکر وتذکرے سے دور ،سادہ وضع کے حامل ،غایت درجہ کے شفیق و مہربان مربی وسخصیت ساز عبقری شخص تھے۔
  آپ کی پوری زندگی ریاضت ومجاہدے سے عبارت تھی۔کم ہمتی  کوکبھی آپ نے راہ نہ دی۔کبھی کسی عہدہ کی طلب رہی نہ داد وتحسین کی پرواہ ۔بے لوث ومخلصانہ خدمات نے میرے شیخ کو "امر "کردیا ہے۔اور ایک طرح کی "حیات جاودانی " عطاکردی ہے۔
آپ ہماری آنکھوں سے یقینا اوجھل ہوگئے لیکن دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ہفتم کے سال ترتیب اولی میں ہونے کی وجہ سے احقر کو حضرت سے استفادہ کا موقع نہ ملا۔دورہ  کے سال مکمل قاری العبارہ کے بازو میں بیٹھنے سے حضرت کی نگاہ کا نور ،روحانی فیض اور قلبی واردات نے حضرت شیخ اول وشیخ ثانی کو دلوں میں ہمیشہ کے لئے امر کردیا۔جسے میں کبھی بھلا نہیں سکتا !
چھ سال قبل ایک ملاقات میں حضرت نے فرمایا تھا کہ بخاری جلد ثانی پہ کچھ تحریری نوٹ تیار کررکھی ہے۔اس کی ترتیب ،تنقیح وتخریج کا کام کرنا ہے ۔شکیل تم سے یہ کام ہوسکتا ہے۔عاجز نے ان شاء اللہ کہتے ہوئے ہامی بھردی ۔لیکن ہائے بدقسمتی دوسری دنیا میں آجانے کے بعد پہر اس مبارک عمل میں شریک نہ ہوسکا ۔جس کا صدمہ زندگی بھر رہے گا۔
حضرت شیخ کے اوصاف وکمالات پہ  تفصیلی تحریر تو غم ہلکا ہونے کے بعد ہی لکھ پاءوں گا۔اس وقت ذہن وقلم کچھ بھی ساتھ دینے سے انکاری ہے۔جو کچھ بھی قلبی واردات سپرد قلم کیا ہوں یہ عاجز کے لئے باعث افتخار ہے ۔
ماان مدحت محمدا بمقالتي
لكن مدحت مقالتي بمحمدا
چار دانگ عالم میں پھیلے حضرت شیخ کے ہزاروں روحانی فرزند کے اعمال صالحہ کے طفیل 'اللہ میرے شیخ کو فردوس کا درجہ عطا فرمائے۔پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین یا رب العالمین بجاه سید المرسلین۔
شکیل منصور القاسمی
+597 8836887
......
استاذ گرامی حضرت مولانا عبد الحق اعظمی رحمہ اللہ
یاسر ندیم الواجدی 
دیوبند سے جب یہ اطلاع ملی کہ حضرت شیخ ثانی اب اس دنیا میں نہیں رہے، تو ذہن کے پردے پر رعب و معصومیت کے آثار سے بھرپور ان کا چہرہ سامنے آگیا۔ لمبا قد، گہرا رنگ، سر پر گول ٹوپی، ہاتھ میں عصا اور کاندھے پر رومال۔ ہم نے ابتداء سال ہفتم میں حضرت سے مشکاة المصابيح جلد ثانی پڑھی ہے۔ ہفتم میں آنے سے پہلے حضرت والا کو بارہا دارالعلوم آتے جاتے دیکھا کہ طلبہ کا ایک جھرمٹ ہے اور آپ شان سے درس بخاری کے لیے چلے آرہے ہیں۔ اس وقت حضرت کے رعب سے بڑا متاثر ہوتا اسی لیے زیادہ سے زیادہ دور سے سلام کرنے پر ہی اکتفا کرتا۔ مگر جب مشکاة کے درس میں ان کے سامنے ببیٹھنے کی نوبت آئی تو ان کی معصومیت اور طلبہ کے ساتھ ان کی شفقت کا روز ہی مشاہدہ کیا۔ مجھ ناچیز پر تو وہ کچھ زیادہ ہی مہربان تھے، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جس زمانے میں وہ بنارس میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے، قریب ہی واقع ایک دوسرے مدرسے میں میرے نانا حضرت مولانا قاری عبداللہ سلیم صاحب کا بھی تقرر ہوا تھا، دونوں حضرات کی عمر میں اگرچہ فرق تھا مگر چونکہ دونوں ہی حضرت مدنی رحمہ اللہ کے شاگرد تھے اس نسبت سے ایک دوسرے سے گہرا تعلق قائم رہا۔ جب حضرت کو اس نسبی تعلق کا علم ہوا تو آپ ہی نے نانا محترم کے ساتھ اپنے تعلق کا ذکر کیا۔ 
ششماہی امتحان تک حضرت نے مشکاة كی عبارت کے لیے مجھے غیر اعلانیہ طور پر متعین کردیا تھا۔ جب دورہ حدیث شروع ہوا تو حضرت کی عنایتیں بڑھ گئیں۔ اس سال مجھے اور دیگر دو طلبہ کو عبارت کے لیے خاص کرلیا گیا۔ عشاء کے بعد جب حضرت دار الحدیث میں داخل ہوتے تو دروازے ہی سے عبارت خواں کی جگہ نظر دوڑاتے، اگر ہم تینوں طلبہ میں سے کوئی ایک موجود ہوتا تو مطمئن ہوجاتے ورنہ اپنی رعب دار نگاہوں سے اس عبارت خواں کو مسترد کردیتے۔ رعب اور معصومیت کی اس ملی جلی کیفیت سے سارے طلبہ محظوظ ہوتے۔
حضرت کی سادگی اور معصومیت کا یہ واقعہ تو کبھی ذہن سے نہیں نکلے گا کہ ایک دن چند ساتھیوں نے چھٹی کی اسکیم بنائی اور ہمارے درسی ساتھی مولانا سید حسن مدنی کی قیادت میں چند طلبہ حضرت کے گھر پہنچ گئے۔ آپ اس وقت درس کے لیے تیار ہورہے تھے، مولانا حسن مدنی نے کہا کہ "حضرت چہرے سے لگ رہا ہے کہ کچھ بیمار ہیں"۔ فرمایا: "اچھا مولی صاحب! واقعی؟" مولانا حسن مدنی نے مجھے کہنی ماری کہ میں بھی تائید کروں۔ میں نے کہا: "جی بڑی نقاہت چہرے سے لگ رہی ہے" تیسرا بولا کہ حضرت آج آپ نہ پڑھائیں، اصل تو صحت ہے۔ فرمانے لگے کہ "ہاں صبح سے کچھ طبیعت میں گرانی محسوس تو کررہا ہوں، چلو تم لوگ کہتے ہو تو آرام کرلیتا ہوں"۔ دورہ حدیث کے تمام اساتذہ میں یہ طالب علمانہ شرارتیں صرف حضرت کے ساتھ ہی ممکن تھیں۔ آج جب یہ واقعہ پھر تازہ ہوا تو سادگی ان کی صورت میں مجسم نظر آئی۔ 
آخری سال پلک جھپکتے ہی گزرگیا اور اچانک ایک دن اعلان ہوا کہ کل بعد نماز عشاء حضرت آخری درس دیں گے، درس کی محفل سجی اور حضرت نے "چلیے" کہہ کر مجھے عبارت پڑھنے کا حکم دیا۔ جوں جوں آخری حدیث قریب آرہی تھی دل کے سمندر میں جذبات کا طوفان بڑھتا جارہا تھا۔ ایک طرف اپنے اساتذہ کی شفقتوں سے محرومی کا احساس اور دوسری طرف دار الحديث کی منور فضاؤں سے بچھڑنے کا خیال۔ جیسے تیسے کرکے آخری حدیث پڑھی اور پھر حضرت کی نصیحت، الوداعی کلمات اور رقت آمیز دعا نے طلبہ کے جذبات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، شاید ہی کسی کی آنکھ نے اس کا ساتھ دیا ہو، وہ وسیع وعریض ہال یکا یک گریہ گاہ بن گیا اور اس ایک رات نے دارالعلوم دیوبند اس کے اساتذہ اور اس کی چہاردیواری کے لیے ہمارے دلوں میں محبت کی مشعل ہمیشہ کے لیے روشن کردی۔ ابھی بھی حضرت رحمہ اللہ کا جملہ کانوں میں گونج رہا ہے: "اب پتہ نہیں تم لوگوں سے ملاقات ہو نہ ہو، ہم زندہ رہیں نہ رہیں، اگر یہاں نہیں تو ان شاء الله جنت میں ملاقات ہوگی"۔ حضرت تو دار بقاء کی طرف کوچ کرگئے، ہم اور ان کے ہزاروں تلامذہ اسی امید اور دعا کے ساتھ اپنی بقیہ زندگی گزاریں گے حضرت سے جنت میں ملاقات ہوگی۔ آمین۔
......
الشيخ المحدث عبد الحق الأعظمي
بقلم: محمد أكرم الندوي
أوكسفورد
الشيخ المحدث عبد الحق بن محمد عمر الأعظمي الجكديشفوري ثم الديوبندي.
ولد يوم الاثنين سادس رجب سنة خمس وأربعين وثلاثمائة وألف في جكديشفور من أعمال أعظمكراه، بالولاية الشمالية من الهند، وتوفي أبوه وهو ابن ست سنين، وكفله الشيخ أبو الحسن محمد مسلم من كبار علماء قرية بوتريا من مديرية جونفور، وهي قرية زوجتى، وخرج منها علماء كبار، وآخرهم الشيخ المفتي محمد منظور الجونفوري الكانفوري عضو هيئتي أمناء دار العلوم بديوبند ومظاهر العلوم بسهارنفور، وكان الشيخ محمد مسلم من تلاميذ العلامة الكبير ماجد علي المانوي الجونفوري من كبار أصحاب العالم الرباني محيي السنة وقامع البدع رشيد أحمد الكنكوهي.
التحق بمدرسة بيت العلوم بسرائي مير، وهي المدرسة التي أنشأها العالم الرباني الشيخ الداعية المجاهد عبد الغني الفولفوري، ولد سنة ثلاث وتسعين ومائتين وألف، أخذ العلم عن أبي الخير المكي بن سخاوة علي الجونفوري، والسيد أمين النصير آبادي، والشيخ ماجد علي المانوي الجونفوري، أجازه حكيم الأمة أشرف علي التهانوي في الطريقة، وأنشأ مدرسة روضة العلوم في فولفور، ومدرسة بيت العلوم في سرائي مير، له المعرفة الإلهية، والمعية الإلهية، والصراط المستقيم، وغير ذلك، توفي سنة اثنتين وثمانين وثلاثمائة وألف.
وهي المدرسة التي حفظ فيها والدي الحافظ تجمل حسين، وعمي الحافظ عبد اللطيف الجونفوري القرآن الكريم، وكان بين عمي عبد اللطيف وبين الشيخ عبد الحق صداقة ومودة، ومن ثم كنت أسمع اسمه في بيتي وأنا صغير، وكان يدرّس فيها آنذاك زوج عمتي الشيخ الكبير العالم الرباني الصالح عبد القيوم البكراوي.
وأخذ في بيت العلوم اللغة العربية والنحو والصرف والمختصرات إلى شرح الوقاية، ثم التحق بدار العلوم في مئو نات بنجن بلد الشيخ حبيب الرحمن الأعظمي وكبار المحدثين والعلماء، وأخذ بها الهداية في الفقه الحنفي، وكتب الأصول والأدب العربي، ومشكوة المصابيح.
ثم التحق بدار العلوم بديوبند، وسمع بها صحيح البخاري والنصف الأول من جامع الترمذي على العلامة حسين أحمد المدني، وصحيح مسلم على الشيخ العالم إبراهيم البلياوي، وسنن أبي داود والنصف الثاني من جامع الترمذي والشمائل المحمدية على الشيخ إعزاز علي الأمروهي الديوبندي، وسنن النسائي والموطأ برواية يحيى وشرح معاني الآثار للطحاوي على الشيخ فخر الحسن المرادآبادي، وسنن ابن ماجه على الشيخ ظهور أحمد الديوبندي، والموطأ برواية محمد على الشيخ جليل أحمد، وتخرج سنة ثمان وستين وثلاثمائة وألف.
وأجازه الشيخ حسين أحمد المدني، والعلامة المحدث حبيب الرحمن الأعظمي، والعلامة الشيخ زكريا الكاندهلوي، والشيخ المحدث فخر الحسن، والعالم المربي الشيخ عبد الغني الفولفوري، والمقرئ محمد طيب القاسمي.
عين مدرسًا للحديث الشريف في مدرسة مطلع العلوم ببنارس، ثم في المدرسة الحسينية بجونفور، ثم عمل مدرسًا في دار العلوم بمئو نات بنجن، وتم تعيينه مدرسًا للحديث الشريف في دار العلوم بديوبند سنة اثنتين وأربعمائة وألف، وظل يدرس بها إلى آخر حياته النصف الثاني من صحيح البخاري وغيره من الكتب.
صحبته، وجلست إليه أستفيده غير مرة، وكان يحبني ويحتفي بي من أجل الصداقة بينه وبين عمي ومن أجل كون زوجتي من قرية شيخه ومربيه الشيخ محمد مسلم، ولقيته مرة وهو في طريقه إلى قرية بوتريا، وانتظرنا طويلا سيارة أو عربة نركبها إلى القرية، فلم نحظ بها فقرر الشيخ أن نسير إليها مشيا على الأقدام، فمشيت معه أخدمه وقد انبسط إلي وظل يحدثني طول الطريق، والمسافة إلى القرية كانت ثلاثة أميال تقريبا، وذلك سنة ست وأربعمائة وألف.
ولما انتقلت إلى أوكسفورد شرَّفنا بالزيارة بها، و وسمعت منه الحديث المسلسل بالأولية، وأجاز لي بسائر المسلسلات عن الشيخ زكريا الكاندهلوي، وقرأت عليه الحديث الأول من صحيح البخاري في جامع أوكسفورد في جماعة من العلماء بعد صلاة الجمعة ثامن شوال سنة عشرين وأربع مائة والف، وأجاز لي، ولأخي محمد مزمل، وأخواتي أسماء وعاصمة وصائمة، وبناتي حسنى وسمية ومحسنة ومريم وفاطمة، واستجزته لصديقنا الفاضل محمد بن عبد الله آل الرشيد، وسألته عن سنه فقال: هو الآن اين سبعين سنة.
وزرته في غرفته المتواضعة في المبنى القديم لدار العلوم بديوبند في شهر رمضان سنة أربع وثلاثين وأربعمائة وألف، فرحب بي واحتفى بي احتفاءًا كبيرًا، وجلست إليه طويلا، وسألته عن بعض أخباره مما استفدت به في ترجمته، وأعطاني مائة روبية قائلا: لم يمكنني ضيافتك من أجل الصوم، ولكن خذ هذا المال واشتر به في المساء شيئًا لإفطارك.
إن إسناده عن الشيخ عبد الغني الفولبوري، عن الشيخ ماجد علي الجونفوري، عن الإمام رشيد أحمد الكنكوهي من الأسانيد النادرة.
توفي رحمه الله بعد صلاة العشاء في دار العلوم بديوبند مساء السبت غرة ربيع الثاني سنة ثمان وثلاثين وأربعمائة وألف عن ثلاث وتسعين سنة.
[1] العالم الرباني الشيخ الداعية المجاهد عبد الغني الفولفوري، ولد سنة ثلاث وتسعين ومائتين وألف، أخذ العلم عن أبي الخير المكي بن سخاوة علي الجونفوري، والسيد أمين النصير آبادي، والشيخ ماجد علي المانوي الجونفوري، أجازه حكيم الأمة أشرف علي التهانوي في الطريقة، وأنشأ مدرسة روضة العلوم في فولفور، ومدرسة بيت العلوم في سرائي مير، له المعرفة الإلهية، والمعية الإلهية، والصراط المستقيم، وغير ذلك، توفي سنة اثنتين وثمانين وثلاثمائة وألف. 
(من مصادر ترجمته: بزم أشرف كى جراغ 104-107، وأكابر)
......
میں عربی ہفتم کاطالبعلم تھا دارالعلوم دیوبند میں میری طبیعت خراب ہوگئی پیٹ میں شدید دردہوگیا ڈاکٹر انج گویل کےیہاں ایڈمٹ تھا کوئی فائدہ نہ تھا دوسرا سبق حضرت شیخ عبد الحق صاحب اعظمی نوراللہ مرقدہ کاتھااسی گھنٹہ میں حضرت شیخ رحمۃاللہ علیہ نےدعاکرائی اسی وقت درد ختم ہوگیا اسوقت سےالحمد للہ آج تک درد نہیں ہوا اسی مرض میں میرا دومرتبہ آپریشن بھی ہوچکاتھا 
اللہ تعالٰی حضرت شیخ کی مغفرت فرمائے اور تمام متعلقین کوصبرجمیل کی توفیق عطا فرمائے اور حضرت کی قبر کو اللہ تعالٰی جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنائے آمین 
عبدالمعبو قاسمی الہ آبادی
........
آہ ! قاسم ورشید کا مسند نشیں جاتا رہا

اشکبار آنکھوں کے ہر دریچہ، قلب حزیں کے ہر گوشہ پر،بلکہ کائنات جسم وروح میں ایک زلزلہ ہے کہ استاذ العلماء، محدث عصر، فقیہ بے نظیر ،مسند نشینِ نانوتوی وگنگوہی ، شارح کلام نبوی حضرت اقدس مولانا عبدالحق اعظمی اب ہمیں چھوڑ کر "وطن اصلی" کی مسافر ہوئے،جانا تو ہے ہی،عارضی اقامت میں دل لگانا بھی کیا دل لگی ہے، لیکن ایسے وقت میں کہ علم و عمل کے رہنما اور اصاغر کو اکابر کی اشد ضرورت ہے تب یہ راہی جنت اپنی منزل کو روانہ ہوگیا.
جب کہ علم کے نام پر آوارگی ہو، فکر کے نام پر عیاری ہو، ایسے میں علماء کا اٹھ جانا قیامت کی گھنٹی نہین تو اور کیا ہے.
وہ علم کو بحیثیت علم نہ اٹھائے گا بلکہ علماء کو اپنے پاس بلالے گا جس سے علم خود ہی اٹھ جائے گا، ایسے صادق کی خبر ہے جس کی بات میں ادنی تخلف نہیں.
علم و عمل، اخلاق کردار، حیاء وتواضع، کا اعلی نمونہ،جب مسند حدیث پر بیٹھے تو شراح حدیث کے سر ان کے سامنے تسلیم ہوں، فقہیات میں گویا ہوں تو فقہ کو ناز ہو، ہر دلعزیز، بڑوں کے بڑے، چھوٹوں پر پدر شفیق، کہاں پائین گے تم سا؟ یوں رلا کہ چل دئیے کہ ہم کہیں بھی تو کس سے کہیں....
پہلی باقاعدہ ملاقات *امام الاولیاء و الابرار محی السنہ حضرت اقدس مولانا محمد ابرارالحق صاحب نور اللہ مرقدہ* کے چمن خوش رنگ میں ہوئی، دورہ کا امتحان لینے تشریف لائے تھے، امتحان لیا، بچوں کی ہمت افزائی فرمائی، تنہائی میں ملاقات میسر آئی تو عرض کیا کہ دارالعلوم کا ارادہ رکھتا ہوں؟
فرمایا کہ آجاؤ .....،دعا کی درخواست کردی، دعا دی،نتیجہ سامنے آیا.
فراغت اگلے ہی سال ایک علاقہ مین خدمت میں لگ گیا، وہاں ایک مدرسہ میں حضرت ختم بخاری کے لئے تشریف لائے، میں نے تعارف کرایا، اپنا راز دار بنا کر فرمانے لگے : میں یہاں صبح سے آیا ہوا ہوں، ملنے والے علماء آرہے ہیں، لیکن میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ اس علاقہ مین مدارس و علماء کی کثرت کے باوجود یہاں علم کا مزاج نہیں، علماء تک میں اس کا ظہور واثر نہیں، میں وہاں سال بھر خدمت کرچکا تھا، چند واقعات علماء کے سنائے، اور بزبان حال عرض کیا کہ حضرت میرے پاس دلائل تھے نتیجہ آج ملا، آپ نتیجہ پر پہونچے دلائل خود وہاں آگئے......مجھے میرے واقعات کی تعبیر ہی نہیں ملی تھی، بلکہ حضرت شیخ کے علم وفن کی دقت کا اندازہ کیجئے کہ کیا حال ہوگا کہ ایسا مزاج کو کھنگالا کہ پورے علاقہ کا تجزیہ چند گھنٹوں میں فرمالیا.
دارالعلوم میں بخاری جلد ثانی پڑھنے توفیق ملی، اسی کی نسبت آپ *شیخ ثانی* لے لقب سے ملقب ہوئے، طریق استدلال، تفہیم مقال کا انداز نرالا اور دلنشیں تھا، فن قراءت میں عبور تھا،سند یافتہ بھی تھے، قاری حدیث کو جب ٹوکتے تو اس کے پسینہ چھوٹ جاتے، جب تک تلفظ صحیح نہ ہوجاتا آگے بڑھنے کی مجال نہ تھی.
علوم وفنون سے وارفتگی کا عالم یہ تھا کہ کسی کتاب کا نام نہ آیا ہوگا کہ جو انھوں نے نہ دیکھ لی ہو، الاشباہ والنظائر کے سبق میں - اہل فتوی وفن جانتے ہیں کہ اس کتاب کا اصولی پایہ کیا ہے، نیز اس کے ہر صفحہ پر کتابوں کی ایک فہرست ہے- ہر کتاب کے نام پر رک کر کلام فرماتے:
یہ کتاب میرے پاس موجود ہے
یہ کتاب میں نے فلاں جگہ دیکھی ہے
یہ کتاب اب معدوم ہے، دستیاب نہیں.
ان تینوں میں سے ایک تبصرہ ضرور ہوتا، یعنی ایسا ہونہیں سکتا تھا کہ کوئی کتاب عالم وجود میں ہواور اس کا طلب و اشتیاق نہ ہو، کیونکہ انتہائے طلب ہی اس جگہ لاسکتی ہے.
ہائے وہ پدرانہ شفقت کی عکاسی، علم و عرفان باری، طلبہ سے ادلال و مزاح، بلیغ اصلاح و تنبیہ یاد آ آکر رلاتی ہے،کسی کندھے پر سر رکھ کر خوب رونے کو جی چاہتا ہے، لیکن یاں سبھی درد ونالہ ، کرب و حزن میں بے چین نظر آرہے ہیں، شریک غم تو ہیں، پر محتاج تعزیت ہم خود بھی ہیں.
تیس سالہ دارالعلوم کی خدمات پر وہ کسی سرٹفیکٹ کی محتاج نہیں، کیونکہ وہ ایسی طویل جماعت کو چھوڑ گئے ہیں جو دین کے مختلف ومتنوع شعبوں میں لگے ہیں، سب کے الگ الگ کارنامہ ہیں ، ان سب کا احاطہ کسی شخص کے لئے خارج از امکان ہے، کہا بھی گیا ہے کہ *موت العالِم موت العالَم* ایک پورے عالم کو تہ وبالا کرنے پڑے گا ان کے حق الخدمت کی صرف سطح و مقدار کو جاننے کے لیے.
قاسمی و رشیدی علوم کا وہ مرصع و مجموعہ جو اس مسند کی ایک طویل عرصہ زیب و زینت بنا رہا، جس کی چمک چھوٹے بڑے کو محظوظ کرتی رہی، آج وہ اس مسند کی یادگار بن کر ہمشہ کے لیے ان سے جاملا جن کے وہ ترجمانی کرتا رہا، کیا منظر ہوگا کہ سرزمین ہند کے سادات اہل السنہ قاسم ورشید ان کا استقبال کناں ہوں گے، ادھر خلیل و اشرف زیارت کے مشتاق ہوں گے، زکریا و محمود اپنی باری کا انتظار کررتے ہوں گے، کوئی گلے لگائے گا، کوئی پیٹھ ٹھونکے گا، کوئی پیشانی پر بوسہ بھی دے گا.
یہ دعوی نہیں، لیکن کسی کی امید کو توڑنے کا جواز بھی تو مجھے بتادو؟ دلیل چاہتے ہو میرے دعوی کی تو تم پر افسوس ہے، میں تو بلا دلیل خداکی عطا تسلیم کرتا ہوں، اس بھی کچھ نگاہ تحقیق کرڈالو، میرا موصوف اس درجہ کا شخص ہے کہ نہ صرف یہ کہ فرشتے اس کے ناز دنیاوی خدام سے زیادہ اٹھانے کے مستحق ہیں، بلکہ وہ خود ناز و ادلال میں انتہا کردے گا.
ہم دست و دل گرفتہ ان کے رفع درجات کی دعا کرتے ہیں، اور اس کی بھی کہ ان تمام لوگوں کے لئے جو اس غم میں شریک ہوئے ہیں جس میں لکھنے والا بھی اللہ تعالی کچھ سامان تسلی کردے، صدقہ میں اپنے حبیب کے.
محمد توصیف قاسمی
شاہ ولی اللہ فقہ اکیڈمی
ممبرا ، تھانہ، مہاراشٹر
........................

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=735450606621046&id=185709091595203

No comments:

Post a Comment