Sunday 18 December 2016

ذرائع ابلاغ کا غلط استعمال

ایس اے ساگر

ٹی وی کی ایجاد بھلے ہی خبروں اور اطلاعات کے مثبت استعمال کی غرض سے وجود میں آئی ہو، لیکن اس کا کیا کیجئے کہ ٹی آر پی کے کھیل نے اسے کہیں کا نہیں رکھا..... آج ایسے چینلوں کی کمی نہیں ہے جو لایعنی شو پیش کرنے میں ایک دوسرے کو مات دینے کی فکر میں ہیں. سردست ویڈیو خبردار کمزور دل والے نہ دیکھیں، نہ ہی اسے دیکھ کر نقالی کی کوشش کریں. یہ اسٹنٹ ڈاکٹروں کی موجودگی میں انجام دیا گیا ہے. اس کا دوسرے پہلو پر غور کریں کہ ایسے پروگرام کے ذریعے خواتین کا کتنی خوبصورتی سے استحصال کیا جاتا ہے. حتی کی ایم بی بی ایس ڈاکٹر بھی اس کی زد میں آگئی. کس طرح اس لڑکی کو اینکر نے جذباتی استحصال کے ذریعے یہ اسٹنٹ کرنے پر مجبور کردیا! انھیں کون سمجھائے کہ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﺍﻧﺴﺎﻧﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﺻﺤﺎﻓﺖ ﮐﯽ ﻧﺎﻗﺎﺑﻞ ﻓﺮﺍﻣﻮﺵ رہا ہے. سب سے بڑے صحافی حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام تھے، جو محض اللہ کی رضا کے لئے آسمانی خبریں بنی نوع انسان کو پہنچایا کرتے تھے. جبکہ قیامت تک یہی کام انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام کے وارثین کے ذمہ ہے. الیکٹرانک میڈیا یہ کیوں بھول جاتا ہے کہ دور حاضر کے ماہرین نے صحافت کے ﭼﺎﺭ ﻣﻘﺎﺻﺪ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺌﮯ ﮨﯿﮟ؛ ہمارے ایک صحافی دوست عارف عزیز صاحب نے اس پر خاطر خواہ روشنی ڈالی ہے جس پر بندہ کی جانب سے ترمیم و اضافہ کے بعد چند نکات واضح ہوئے ہیں؛
1. ﺍﻭﻝ ﺧﺒﺮﯾﮟ ﺑﮩﻢ پہنچاﻧﺎ
2. ﺩﻭﻡ ﻋﻮﺍﻡ ﮐﯽ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﺍﻭﺭ ﺭﮨﻨﻤﺎﺋﯽ ﮐﺮﻧﺎ
3. ﺳﻮﻡ ﻗﺎﺭﺋﯿﻦ ﮐﮯ ﺫﻭﻕِ ﺳﻠﯿﻢ ﺍﻭﺭ ﺍﺧﻼﻕ ﮐﻮ ﻧﮑﮭﺎﺭﻧﺎ
4. ﭼﮩﺎﺭﻡ ﻋﺎﻡ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ (شرعی) ﺗﻔﺮﯾﺢ ﻃﺒﻊ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﻮﺍﺩ ﻓﺮﺍﮨﻢ ﮐﺮﻧﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﺟﻤﻠﮧ امور ﺑﯿﮏ ﻭﻗﺖ ﺳﺮﺍﻧﺠﺎﻡ ﭘﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﺍﻟﮓ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎﺟﺎﺳﮑﺘﺎ، ﺧﺒﺮﯾﮟ ﺑﮩﻢ پہچانا ﺍﺻﻞ ﮐﺎﻡ ﮨﮯ، ذرائع ابلاغ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺧﺒﺮﯾﮟ پہنچانے کی ذمہ داری ادا کرتے ہیں، وہی ﻋﻮﺍﻡ ﻣﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﮨﻮتے ہیں، ﺑﺸﺮﻃﯿﮑﮧ ﺍﺱ ﮐﯽﺧﺒﺮﯾﮟ ﺳﭽﯽ ﺍﻭﺭ ﻗﺎﺑﻞ ﺍﻋﺘﻤﺎﺩ ﮨﻮﮞ ﺧﺒﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﻓﺮﺍﮨﻤﯽ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻋﻤﻞ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﻋﺎﻡ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﯾﺎ ﺑﺮﯼ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﺟﺎﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ. ﺍﻥ ﮐﺎ ﺫﻭﻕ ﺑﻠﻨﺪ ﯾﺎ ﭘﺴﺖ ﮐﯿﺎﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺍﺧﻼﻕ ﺳﻨﻮﺍﺭﺍ ﯾﺎ ﺑﮕﺎﮌﺍ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ .... ذرائع ابلاغ ﺟﺲ ﺳﯿﺎﺳﺖ ﺩﺍﻥ ﮐﺎ ﺍﻣﯿﺞ ﭼﺎﮨﯿﮟ ﺑﻨﺎﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﮐﺎ شبیہہ ﭼﺎﮨﯿﮟ ﺑﮕﺎﮌ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ذرائع ابلاغ ﮐﺎ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﮐﺎﻡ درست ﺍﻃﻼﻉ ﺑﮩﻢ پہنچاﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺍﺣﻮﺍﻝ ﺳﮯ ﺑﺎﺧﺒﺮ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﮨﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﮐﻮﻥ ﺳﮯ ﺣﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﻭﺍﻗﻌﺎﺕ ﻇﮩﻮﺭ ﭘﺬﯾﺮ ﮨﻮﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﮐﯿﺎ ﺗﺒﺪﯾﻠﯿﺎﮞ ﺁﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺷﻌﺒﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺗﺮﻗﯿﺎﺕ ﮨﻮﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ، ﯾﮧ معلومات ﺑﮩﺘﺮ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ذرائع ابلاغ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮧ ﮨﯽ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺗﮏ پہنچتی ﮨﯿﮟ۔ ﮐﺴﯽ ﺭﮨﻨﻤﺎ ﮐﮯ ﺑﯿﺎﻧﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺧﺒﺮ کو پیش کرنا، عنوان قائم کرنا، ترجیحات طے کرنا، انہی کی ﻣﺮﺿﯽ ﭘﺮ ﻣﻮﻗﻮﻑ ﮨﮯ۔ ذرائع ابلاغ جس ﮐﯽ ﺷﺒﯿﮧ ﭼﺎﮨﯿﮟ ﺑﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﮕﺎﮌ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﮐﺴﯽ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﮐﮯ ﺑﯿﺎﻧﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺧﺒﺮﯾﮟ ﻓﺮﺍﮨﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﭘﺮ ﺳﺮﺧﯽ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺻﺤﺎﻓﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺫﮨﻨﯽ ﺗﺤﻔﻈﺎﺕ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﻟﮯ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﭘﻨﮯ ﻓﺮﺍﺋﺾ ﮐﯽ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﺩﮨﯽ ﮐﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭﺍﺕ ﯾﺎ ﻃﻮﺭ ﻃﺮﯾﻘﻮﮞ ﺳﮯ ﺻﺤﺎﻓﯽ ﻋﻮﺍﻡ ﮐﺎ ﺍﺧﻼﻕ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﺫﻭﻕ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﻭﺑﮕﺎﮌﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﺜﻼً ﮐﻮﺋﯽ چینل، ﺍﺧﺒﺎﺭ ﺣﻘﺎﺋﻖ ﻭ ﺷﻮﺍﮨﺪ ﮐﮯ ﺑﺮﺧﻼﻑ ﺧﺒﺮﯾﮟ ﺷﺎﺋﻊ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﯾﺎ اﻥ ﭘﺮ ﻏﯿﺮ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭﯼ ﺳﮯ عنوان قائم کرتا ﮨﮯ، ﻣﺘﺎﻧﺖ کی بجائے ﺳﻨﺴﻨﯽ ﺧﯿﺰﯼ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﺗﻮ ﺍﯾﺴﺎ ادارہ ﯾﻘﯿﻨﺎً ﻋﻮﺍﻡ ﮐﺎ ﺫﻭﻕ ﺑﮕﺎﮌﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﻮﺟﺐ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ، اﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﻮﺋﯽ صحافی ﻇﺎﻟﻢ کو ﻣﻈﻠﻮﻡ، ﭼﻮﺭ کو ﮨﯿﺮﻭ کے طور پر پیش کرتا ہے، ﯾﺎ ﺟﻨﺲ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺧﺒﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻟﻄﻒ ﺍﻧﺪﻭﺯ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﮦ عوامی ذوق پر نقب زنی کرﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ ﻣﯿﮟ ﺟﺮﺍﺋﻢ ﮐﯽ ﺗﺮﻭﯾﺞ ﻭ ﺍﺷﺎﻋﺖ ﮐﺎ ﺑﺎﻋﺚ ﺑﻨﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﺻﺤﺎﻓﺖ ﮐﮯ ﺩﻭ ﭘﮩﻠﻮ ﺍﮨﻢ ﮨﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺧﺒﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﺍﺷﺎﻋﺖ ﯾﺎ ﺣﻘﺎﺋﻖ کی ترسیل، ﺩﻭﺳﺮﺍ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺭﺍﺋﮯ ﮐﺎ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﮐﺮﻧﺎ ﯾﻌﻨﯽ ﺗﺒﺼﺮﮦ ﻭ ﺗﺠﺰﯾﮧ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮧ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻣﻮﺿﻮﻋﺎﺕ ﭘﺮ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﺮﻧﺎ ﯾﺎ ﺍﺩﺍﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﮐﺎﺭﮐﺮﺩﮔﯽ ﮐﺎ ﺟﺎﺋﺰﮦ ﻟﯿﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﻟﺤﺎﻅ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﮐﮧ ﺣﻘﺎﺋﻖ ﮐﻮ ﮨﺮﮔﺰ ﺗﻮﮌ ﻣﺮﻭﮌ ﮐﺮ ہرگز ﭘﯿﺶ ﻧﮧ ﮐﯿﺎﺟﺎﺋﮯ۔

No comments:

Post a Comment