Friday 16 September 2016

نکاح؛ فرائض، شرائط و طریقہ

نکاح؛ فرائض، شرائط و طریقہ
جب برائی میں مبتلا ہوجانے کا گمان غالب ہو تو نکاح کرنا واجب ہے۔۔۔
جب بیوی کی خوراک پوشاک دینے سے عاجز ہو تو نکاح کرنا ناجائز ہے۔۔
معتدل اور نارمل حالات میں نکاح کرنا سنت موکدہ ہے۔
ایک دو کے علاوہ تمام ہی انبیاء کرام علیہم الصلوۃ و السلام نے اس سنت کو زندہ کیا ہے۔ نکاح ہی وہ واحد عبادت ہے جو حضرت آدم علیہ السلام سے ایں دم تک، اور ایں دم سے آں دم تک یعنی جنت میں بھی عبادت نکاح باقی رہے گی۔
نکاح کے دو رکن اور دس شرطیں ہیں۔ رکن کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بغیر نکاح قائم ہی نہیں ہو سکتا۔ رکن نکاح کے اندر ہوتا ہے۔۔۔۔ شرط نکاح کا مفہوم یہ ہے کہ اس کے بغیر نکاح منعقد تو ہو جاتا ہے۔ لیکن صحیح نہیں ہوتا۔ اور شرط نکاح کے باہر ہوتی ہے۔
1. نکاح کا رکن اول ایجاب اور
2. رکن ثانی قبول ہے۔۔۔
عقد کرنے میں پہلے قول کو ایجاب کہیں گے، خواہ مرد کی طرف سے ہو یا عورت کی طرف سے۔ یا ان کے اولیاء یا وکلاء کی طرف سے۔ اور پچھلے قول کو قبول کہیں گے، خواہ مرد کی طرف سے ہو یا عورت کی طرف سے۔
نکاح کی شرطیں درج ذیل ہیں:
1۔ عاقدین عاقل بالغ اور آزاد ہوں۔ (بغیر عقل اور بلوغ کے ایجاب و قبول صحیح نہیں ہوگا۔ آزاد ہونا اس لئے ضروری ہے کہ باندی اور غلام کو مولا کی اجازت کے بغیر نکاح کرنے کا اختیار نہیں)
2۔ جانبین میں سے ایک کا عورت ہونا
(ہم جنس کی شادی صحیح نہیں ہوگی).
3۔۔ عاقدین اگر خود سے ایجاب و قبول کر رہے ہوں تو دونوں ایجاب و قبول سنیں اور اگر وکیل یا ولی ایجاب و قبول کررہے ہوں تو اب عاقدین کا سننا ضروری نہیں۔
4۔۔دو آزاد، عاقل، بالغ، مسلمان مرد گواہ ہوں۔ (سب قید احترازی ہے۔ البتہ دو مرد میسر نہ ہوسکیں تو ایک مرد اور دو عورتوں کی شہادت بھی معتبر ہے).
5۔۔۔لڑکی اگر بالغہ، باکرہ یا ثیبہ ہو تو اس کی رضامندی ضرو ری ہے۔
6۔ ایجاب و قبول ایک ہی مجلس میں ہوں۔
7 ۔ ایجاب و قبول میں موفقت ہو (اگر ایجاب کے خلاف قبول ہوا تو نکاح صحیح نہیں)
8۔۔ دونوں گواہ ایجاب و قبول ایک ساتھ سنیں۔ الگ الگ سننے سے نکاح صحیح نہ ہوگا۔
9۔۔ نکاح کی نسبت عورت کے پورے جسم کی طرف ہو یا ایسے بعض عضو کی طرف ہو جس سے کل ہی مراد لیا جاتا ہو۔ جیسے سر یا گردن۔
10۔ گواہوں کو معلوم ہو کہ دولہا دلہن کون ہے؟ اور کون کس سے نکاح کرتا ہے۔
دنیا کی تمام ہی زبانوں میں ایجاب و قبول کرنے کی گنجائش ہے۔ اگرچہ عاقدین اس کے معنی نہ سمجھتے ہوں! (جامع الرموز، شرح الوقایہ)
جب دولہا دلہن دونوں نابالغ ہوں یا ایک بالغ اور دوسرا نا بالغ، یا دونوں یا ایک کم عقل ہوں تو ان تمام صورتوں میں بغیر ولی کے نکاح درست نہیں ہوگا.
عورت اگر بالغہ ہو تو وہ خود بھی بغیر سرپرست اور وکیل کے براہ راست عقد نکاح کرسکتی ہے۔ البتہ اس کے لئے شرط یہ ہے کہ اپنے کفو  میں مہر مثل پر نکاح کرے. اپنے سے گرے ہوئے مرد سے نکاح نہ کرے جس سے اس کے کنبہ کو ننگ و عار  لاحق نہ ہو۔
نکاح پڑھانے کا مسنون طریقہ:
سب سے پہلے یہ خطبہ پڑھے۔ (بلا کم و کاست)
الحمدللہ نستعینہ ونستغفرہ و نعوذ با اللہ من شرور انفسنا. من یھدہ اللہ فلا مضل لہ و من یضلل فلا ھادی لہ۔ و اشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ۔
اس کے بعد بالترتیب درج ذیل تین آیتیں پڑھے۔
1۔ آل عمران آیت نمبر 102
2۔۔ سورہ النساء آیت نمبر 1
3۔ الاحزاب آیت نمبر 70۔71 دو آیت
(رواہ احمد و الترمذی وابو دائود و النسائی و ابن ماجہ والدارمی مشکات. کتاب النکاح صفحہ 272 باب اعلان النکاح و الخطبہ و الشرط۔ الفصل الثانی)
خطبہ مذکورہ پڑھنے کے بعد عورت کا نام مع ولدیت لےکر مرد سے کہے،
"میں نے فلانہ بنت فلاں کا نکاح تمھارے ساتھ بعوض مہر مبلغ اتنے روپے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا۔
کیا تم نے قبول کیا؟
تو مرد جواب میں کہے،
" میں نے اس کو قبول کیا۔" ۔۔۔۔
اس کے بعد دعاء کرے،
"بارک اللہ لک و بارک اللہ علیک و جمع بینکما فی خیر (صحیح البخاری۔ باب کیف یدعی للمتزوج. جلد 2 صفحہ 774۔775۔۔۔۔عمل الیوم واللیلہ صفحہ 200۔۔۔۔محمودیہ جلد 10 صفحہ 470۔ پاکستانی)
وسعت ہو تو چھوارے تقسیم کروادئے جائیں۔ بوقت نکاح چھوارہے تقسیم کرنا سنت ہے۔
دیکھئے اعلاء السنن جلد 11۔صفحہ 11۔ط کراچی )
مہر حسب استطاعت طے کردیا جائے۔ شریعت میں زیادہ کی کوئی مقدار متعین نہیں ہے۔ کم سے کم مقدار دس درھم ہے اس سے کم جائز نہیں ہے۔۔۔۔۔ دس درھم، تیس گرام چھ سو اٹھارہ ملی گرام چاندی کے برابر ہے۔ یا تو اس مقدار میں چاندی یا اس کی قیمت ادا کردیجائے تو مہر ادا ہوجائے گا ۔۔۔۔ مہر فاطمی کی مقدار ڈیڑھ کلو تیس گرام نو سو ملی گرام چاندی ہے ۔۔۔۔۔ بعض علماء کے نزدیک ایک کلو چار سو انہتر گرام چھ سو چونسٹھ ملی گرام چاندی مہر فاطمی کی مقدار ہے۔
عورت سے اجازت لینے کے لئے گواہ کا ہونا شرط نہیں ہے۔اجازت عورت ہی سے لینا ضروری نہیں ہے، اس کے ولی سے بھی اجازت لیجاسکتی ہے۔
ولی،وکیل،امام مسجد، قاضی یا کوئ بھی ایجاب و قبول کرواسکتا ہے۔
گواہوں کے لئے یا وکیل کے لئے لڑکی کا محرم ہونا ضروری نہیں ہے۔ ایجاب ایک دفعہ ہی کافی ہے. تین مرتبہ ایجاب و قبول کروانا زائد بات ہے۔ جو اوقات نماز کے لئے مکروہ ہیں ان میں  بھی نکاح صحیح ہے۔ نکاح کے حق میں کوئی وقت مکروہ نہیں ہے۔ اسی طرح صحت نکاح کے لئے اندراج رجسٹر بھی ضروری نہیں ہے۔
خطبہ نکاح کھڑے ہو کے اور بیٹھ کے دونوں طرح پڑھنا جائز ہے۔ ہمارے اکابر کا عمل دونوں طرح رہا ہے۔ لیکن کھڑے ہوکے خطبہ پڑھنا بہتر ہے۔ کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عام عادت کھڑے ہوکر تمام خطبات پڑھنے کی تھی۔ کھڑے ہوکر پڑھنے میں اعلان کی صورت بھی ہے۔ جو بذات خود نکاح میں مطلوب ہے۔ علاوہ ازیں خطبات میں اصل کھڑے ہوکر ہی پڑھنا ہے۔۔۔۔ مگر بیٹھ کر پڑھنا بھی جائز ہے۔ معمول اور رواج دونوں طرح کا ہے۔ اس میں شدت برتنا غیر مناسب ہے۔
ایجاب و قبول سے پہلے خطبہ پڑھنا مندوب ہے۔۔۔۔۔
واللہ اعلم
شکیل منصور القاسمی
علماء کے علاوہ
حافظ جی اور ائمہ مساجد کے لئے ضروری ہے.
ھدایہ جلد ثانی کتاب النکاح کی تلخیص ہے.

No comments:

Post a Comment