Friday 16 September 2016

کیا کریں سانس ( استھما ) کے مریض؟


دمہ ایک عام بیماری ہے جو کسی بھی عمر میں لاحق ہوسکتی ہے ۔ کل آبادی میں دس سے بارہ فیصد بچے اور پانچ سے سات فیصد بڑے اس بیماری میں مبتلا ہوئے ہیں ۔ مختلف تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ یہ بیماری زیادہ تر بچوں اور (سن بلوعت سے قبل) نوجوانوں کو اپنی گرفت میں لیتی ہے ۔ بچوں میں یہ بیماری یا تو ایک مزمن بیماری کا روپ دھارلیتی ہے یا سن بلوغت کے بعد خود بخود غائب ہوجاتی ہے ۔ ایک اور تحقیق کے مطابق ثابت کیا جاچکاہے کہ ا گرچہ یہ بیماری عمر کے کسی بھی موڑپر گھیرلیتی ہے مگر پچاس فیصد افراد عمر کے دسویں سال سے پہلے ہی اس بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں ۔ جہاں تک بالغ افراد کا تعلق ہے مرد وزن یکساں طور متاثر ہوتے ہیں مگر بچوں میں لڑکوں، لڑکیوں کا تناسب ۲:۱ہے یعنی لڑکوں میں یہ بیماری زیادہ پائی جاتی ہے ۔ بدلتے ہو
احتیاط کی ضرورت
دمہ میں مریض پورے طبعی طریقے سے سانس لینے میں دشواری محسوس کرتاہے اور پیہم کھانسے لگتاہے جس کی وجہ ہوا کی نالیوں کا سکڑ کرتنگ ہوجاناہے …سانس کی نالیوں سے ایک خاص قسم کی آواز ’’ویٖز"نکلتی ہے اور مریض کو سانس لینے میں تکلیف اور دشواری محسوس ہوتی ہے چھاتی پر دبائو محسوس ہوتاہے اور دمہ کا حملہ شروع ہوتے ہی مریض بے قراری کی حالت میں ہانپنے لگتاہے ، اس کے چہرے سے پریشانی کے آثار ٹپکنے لگتے ہیں اور وہ تازہ ہوا (آکسیجن)کی تلاش میں ہاتھ پیر مارتے ہوئے دکھائی دیتاہے ۔ چند ثانیوں بعد مریض ایک ’’خصوصی پوزیشن ‘‘ اختیار کرلیتاہے جس سے اسے قدرے راحت ملتی ہے اس دوران دوائیوں کا استعمال کرنے سے وہ تھوڑی دیر بعد پھر سے نارمل دکھائی دیتاہے ۔ دمہ کا حملہ کسی وجہ سے کسی بھی وقت ہوسکتاہے ۔ ہر وقت مناسب علاج ملنے سے مریض کو فوری راحت ملتی ہے لیکن کبھی کبھی مریض پے درپے حملوں کا شکار ہوتاہے ۔ اسے سٹیٹس استھمیٹکس کہتے ہیں ۔ یہ ایک میڈیکل ایمرجنسی ہے جس کا علاج ہسپتال میں تحت نظر ماہرین کیا جانا ضروری ہے ورنہ یہ حالت جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے ۔

اکثر لوگ کھانسی کی عام شکایت دور کرنے کے لیے چند سادہ اور گھریلو نسخوں کا سہارا لیتے ہیں، جو کارآمد بھی ثابت ہوتے ہیں، لیکن بعض صورتوں میں یہ نظامِ تنفس میں خرابیوں کا سبب بن سکتے ہے۔ اس کی وجہ سے حلق کی سوزش، سانس کی نالی میں انفیکشن یا پھیپھڑوں کے مسائل جنم لیتے ہیں اور موٓثر علاج نہ کیا جائے تو یہ مسئلہ خطرناک شکل اختیار کر سکتا ہے۔
ماہرینِ صحت کے مطابق شدید کھانسی کی شکایت تین ہفتے سے زائد عرصے تک برقرار رہ سکتی ہے۔ عام طور پر بازار میں دست یاب ادویہ کے استعمال سے افاقہ ہو جاتا ہے، لیکن بعض صورتوں میں کھانسی سے نجات حاصل کرنے میں زیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے۔ کھانسی کا تعلق نظام تنفس کی پیچیدگیوں سے ہوتا ہے۔ یہ خشک اور شدید قسم کی ہو یا اس کی وجہ سے حلق کی سوزش کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہو متآثرہ فرد کو فوراً طبی علاج کی طرف توجہ دینا چاہیے۔ جب پھیپھڑوں کی مخصوص نالیوں میں خرابی پیدا ہو جائے تو برونکائیٹس کا عارضہ جنم لیتا ہے اور اس کے ابتدائی مرحلے پر مریض کو خشک کھانسی کا سامنا ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں مکمل علاج کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ پھیپھڑوں کی نالیوں میں بلغم جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے اور یہ اپنا کام معمول کے مطابق انجام نہیں دے پاتے۔ اس سے متآثرہ فرد کو سانس لینے میں دشواری محسوس ہونے لگتی ہے۔ مختلف وجوہ کی بنا پر ہونے والی کھانسی کے علاوہ سانس کے مریضوں میں یہ مسئلہ نہایت تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔ انہیں بدلتے ہوئے موسم کے ساتھ بہت احتیاط کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
سانس کی تکلیف یا دائمی کھانسی میں مبتلا مریضوں کو کھانے پینے میں احتیاط کے ساتھ موسمی اثرات سے محفوظ رہنے کی تدبیر کرنی چاہیے، کیوں کہ ان کے پھیپھڑوں کی نالیوں میں پیدا ہونے والا بلغم مزید مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔ ان نالیوں میں بلغم کی وجہ سے نزلے زکام کے جراثیم تیزی سے نشوونما پاتے ہیں۔ ان میں سے بلغم شدید کھانسی کی صورت میں بھی باہر نہیں نکلتا اور پھیپھڑوں کے مہلک انفیکشن کا سبب بنتا ہے۔
پھیپھڑوں کے ورم یا برونکائیٹس کی سب سے بڑی وجہ تمباکو نوشی ہے۔ ۰۴ سال کی عمر سے زائد کے ہر دوسرے تمباکو نوش کو یہ شکایت ہوتی ہے۔ تمباکو نوشی کی کثرت اس مرض کی شدت میں بھی اضافے کا باعث بنتی ہے۔ اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے تمباکو نوشی ترک کر کے طبی علاج کی طرف توجہ دینا ضروری ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سگریٹ نوشی ترک کرنے کے چار ہفتوں بعد کھانسی ختم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ایسے افراد جو کان کنی، دھاتی اور کیمیائی فضلے سے متعلق کارخانوں اور روزانہ دھول مٹی میں کام کرتے ہیں۔ ان میں پھپپھڑوں کی خرابی اور کھانسی کی تکلیف عام ہے۔ اس کا موٓثر اور بروقت علاج نہ ہونے کی صورت میں پھیپھڑوں کے سرطان کا مسئلہ لاحق ہو سکتا ہے۔ کھانسی کا زور توڑنے کے لیے حلق کو خشکی سے بچانا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ پھیپھڑوں کی نالیوں میں جمع شدہ بلغم کو مخصوص ادویہ کے استعمال اور دیگر طبی طریقوں کے ذریعے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ناک اور گلے کی سوزش میں افاقے کے لئے معمولی مقدار میں نمک ملے گرم پانی کی بھاپ لینا چاہیے۔ اس طرح کھانسی پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔
دَمہ(استھما) یونانی لفظ ازما سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں ’سانس کا پھولنا‘ چونکہ دمہ میں مبتلا مریض کی سانس پھولتی ہے اور وہ ہانپنے لگتاہے اسلئے اس بیماری کو استھما کا نام دیا گیا ہے ۔

مجموعی طور دمہ کی دو قسمیں ہیں
 خارجی ، ظاہری یا حساسیتی(الرجی)
 باطنی ، داخلی یا غیر حساسیتی (الرجی)
 دمہ خارجی ، ظاہری یا حساسیتی زیادہ عام ہے جو عام طورپر بچپن میں ہی شروع ہو تاہے اس قسم کے دمہ میں مبتلا بچے اور ان کے قریبی رشتہ دار کسی خاص قسم کی حساسیت (الرجی) کے شکار ہوتے ہیں ۔ ایسے بچوں کو وقتاً فوقتاً مختلف چیزوں کیساتھ الرجی ہوتی ہے ۔ جو خاص محرکات خارجی ان کے اندر حساسیت پیدا کرتے ہیں ان میں زرِ گل (پھولوں کا ریزہ)گھروں کے اندر اُٹھنے والے گرد وغبار میں باریک کیڑے مکوڑے ، جانوروں کی گندگی ، تکیوں اور کمبلوں میں بھرے ہوئے جانور وں کے پر ، مختلف قسم کی غذائیں اور کچھ کیمیائی مادے قابل ذکر ہیں ۔ یہ چیزیں یا ان کی بوسانس لیتے وقت پھیپھڑوں میں چلی جاتی ہیں اور حساسیت پیدا ہوجاتی ہے جس سے دمہ کا حملہ شروع ہوتاہے ۔
 دمہ باطنی ، داخلی یا غیر حساسیتی دمہ کی یہ قسم سن بلوغت کے بعد شروع ہوتی ہے اس میںفرد نہ تو خود کسی حساسیت کا شکار ہوتاہے اور نہ ہی اس کا کوئی قریبی رشتہ کسی خاص حساسیت کا شکار ہوتاہے ۔ ان افراد میں دمہ کا حملہ کسی وائرسی انفکشن کے بعد شروع ہوتاہے ۔ ان افراد میں قابل ذکر محرکات خارجی نہیں ہوتے ہیں لیکن دس فیصد مریض  دوائیوں کے لئے حساس بن جاتے ہیں جن میں اسپرین قابل ذکر ہے یعنی اگر یہ لوگ اسپرین استعمال کریں تو ان پر دمہ کا حملہ ہوسکتاہے ۔ یہ دمہ کی ایک اور قسم بھی ہے جو کچھ خاص دوائیاں استعمال کرنے سے شروع ہوتاہے ۔
ان دو قسموں کے علاوہ ایک اور قسم کا دمہ ہے جسے مخلوط قسم کہتے ہیں ۔ جس میں مریض نہ اولین اور نہ دوئمی قسم میں فٹ ہوتاہے ۔
اب سوال یہ ہے (جو عام طور ڈاکٹروں سے پوچھا جاتاہے)کہ دمہ اور الرجی میں کیا فرق ہے ؟ الرجی یا حساسیت انسانی جسم کے کسی بھی حصہ کا غیر معمولی رد عمل ہے جو کسی بیرونی حالت یا ایجنٹ کی وجہ سے واقع ہوتاہے جبکہ دمہ نتیجہ ہے الرجی کا جس کا تعلق سانس کی نالیوں سے ہے ۔ دمہ جہاں سانس کی نالی اور پھیپھڑوں سے تعلق رکھتاہے الرجی جسم کے کسی بھی حصہ کا عکس العمل ہوسکتاہے ۔
دمہ (استھما) تشخیص کرنے میں ڈاکٹروں کو کوئی دشواری پیش نہیں آتی ۔ مریض کا شرح حال سن کر ظاہری حالت دیکھ کر اور طبی معائینہ کرنے کے بعد ڈاکٹر فوری تشخیص کرتاہے اور وہ دوائیاں تجویز کرتاہے ۔ دمہ کے مریض کے لئے دوائیاں تجویز کرنے کا مقصد یہ ہوتاہے کہ مریض کی عام زندگی کے معمولات کو برقرار رکھا جائے اور مرض کے بار بار کے حملوں کو کم کیا جائے ۔ اس کے لئے مریض کو مرض کے متعلق تمام معلومات بہم پہنچانا اشد ضروری ہے ۔ دمہ میں حملے کے وجوہات یا مرض میں شدت پیدا کرنے کے اسباب مریض کے لئے جاننا بے حد ضروری ہے تاکہ وہ آئندہ احتیاطی تدابیر پر عمل کرکے اپنے آپ کو پے درپے حملوں سے بچا سکے جو دوائیاں مریض کے لئے تجویز کی جائیں ان پر سختی سے عمل کرنا ضروری ہے اور کبھی بھی کسی بھی صورت میں دوائیوں کی تعداد نہ از خود کم کرے نہ زیادہ اور تب تک دوائیوں کا استعمال جاری کیا جائے جب تک ڈاکٹر ہدایت دے کوئی بھی دوائی ڈاکٹری مشورہ کے بغیر استعمال نہ کرے ۔
بچوں کے اسپتال میں کام کرنے والے ماہرین امراضِ اطفال کی متفقہ رائے ہے کہ جو بچے کسی خاص قسم کی الرجی کے شکار ہوں اور دمہ کے مرض میں مبتلا ہوں ان کے لئے سردیوں کے موسم میں احتیاط برتنا لازمی ہے ۔موسم سرما کے آغاز میں درجہ حرارت میں تغیر ہونے کی وجہ سے بچوں میں دمہ کے حملوں میں اضافہ ہوتاہے ۔ ان بچوں کو سردی کے موسم میں (خاص کر صبح و شام کے وقت)گھر سے باہر جانے کی اجازت نہ دی جانی چاہئے اور نہ سڑکوں اور باغوں میں کرکٹ یا کوئی اور کھیل کھیلنے کے لئے اجازت دی جائے۔ اگر گھر سے باہر جانا ناگزیر ہے تو چہرہ (ناک اور منھ) مفلر سے ڈھلک لینے کی ہدایت دی جائے۔ ان بچوں کو فضائی آلودگی ، دھوئیں ، بو، آلودہ غذائوں اور کیڑے مکوڑوں سے دور رکھنا چاہئے ، ایسے بچوں کو کانگڑی کا استعمال نہ کرنے دیا جائے اور جن کمروں میں لکڑی ، کوئلہ سے چلنے والی بخاری ہو ، وہاں بیٹھنے کی اجازت نہ دی جائے ۔ ایسے بچوں کے لئے حمام کی گرمی یا ہیٹر کی گرمی مناسب ہے ۔ علاوہ ازیں اس مرض میں مبتلا بچوں کو سردیوں میں مناسب، متوازن اور مقوی غذا کھلائی جائے اور پانی و دیگر مائع جات کا وافر مقدار استعمال کروایا جائے تاکہ وہ ناآبیدگی کے شکار نہ ہوں اور دمے کے حملوں سے بچ جائیں ۔ ہمارے ہاں عموماً ان بچوں کو دودھ، دہی ، مکھن ، سبزیاں اور میوے نہیں دیئے جاتے ہیں جو کہ ایک غلط روش ہے ۔ ان بچوں کو انواع واقسام کی غدائیں کھلانا ضروری ہے تاکہ ان کے جسم کے اندر نظام قوت مدافعت بہتر طور کام کرسکے اور وہ گونا گوں انفکشنز کے شکار نہ ہوں ۔ ڈاکٹری لحاظ سے ان بچوں کے لئے کوئی غذائی پابندی نہیں ہے ہاں اگر کسی خاص غذا سے الرجی ہو تو اسے نہ دیا جائے ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ موسم سرما میں ان بچوں کو اکثر سردی ، کھانسی ،زکام کی شکایت ہوتی ہے اس کے لئے ڈاکٹروں سے مشورہ کرنا ضروری ہے ، ڈاکٹری مشورہ کے بغیر کسی بھی صور ت  میں ان بچوں کو کوئی دوائی نہ دی جائے۔
جوانی کی دہلیز پار کرنے کے بعد جن افراد کو دمہ کی شکایت ہوتی ہے ان کے بارے میں ماہرین معالجین کا ماننا ہے کہ ان مریضوں کے لئے موسم سرما میں کچھ احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ضروری ہے تاکہ ان کی بیماری شدت اختیار نہ کرے ۔ ان کے کہنے کے مطابق دمہ میں مبتلا اشخاص سردیوں کے موسم میں صبح و شام گھروں سے باہر نہ جائیں ۔ کانگڑی کا استعمال نہ کریں اور جن کمروں میں بخاریوں کا دھواں ہو ، وہاں نہ بیٹھیں… تمباکو اورسگریٹ نوشی ہرگز نہ کریں حتیٰ کہ جن کمروں میں دوسرے افراد سگریٹ یا تمباکو نوشی کرتے ہوں ، وہاں بھی نہ بیٹھیں۔ ابالا ہوا پانی (نیم گرم پانی) اور دیگر مایع جات کا وافر مقدار میں استعمال کریں ، اکثر دیکھا گیا ہے کہ دمہ میں مبتلا مریض پانی بہت کم پیتے ہیں کیونکہ ا ن کو (خاص کر سردیوں میں ) پیاس نہیں لگتی ہے ۔ اکثر مریض یہ سوچتے ہیں کہ ان کو صرف اس وقت پانی پینا چاہئے جب ان کو پیاس لگے مگر تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ پیاس لگنا اس بات کی یقینی علامت نہیں ہے جس میں نابیدگی پیدا ہورہی ہے اکثر ایسا بھی ہوتاہے کہ نابیدگی کے باوجود بھی پیاس محسوس نہیں ہوتی اور مریض یہ سمجھتے ہیں کہ غذا کے ساتھ جو مشروبات جسم میں پہنچتے ہیں وہ اسے آبیدہ رکھنے کے لئے کافی ہیں ۔ ان مریضوں اور بوڑھے لوگوں میں نابیدگی کا امکان زیادہ ہوتاہے لہٰذا انہیں اس سلسلے میں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے ۔ پیاس لگے یا نہ لگے ، وقفے وقفے سے پانی پیتے رہنا ان مریضوں کے لئے بے حد فائدہ مندہے۔ اس کے علاوہ ان مریضوں کے لئے طبی نقطہ نظر سے یہ ضروری ہے کہ رات کا کھانا کھاتے ہی فوری لیٹ نہ جائیں بلکہ کھانا کھانے کے بعد کم ازکم دو گھنٹے بیٹھے رہیں ۔ رہاسوال غذائی پرہیز کا ۔ دمہ میں مبتلا مریضوں کے لئے کوئی خاص قسم کی غدا کھانا ضروری نہیں ہے ۔وہ متوازن ،مقوی غذا کھالیں تاکہ وہ کمزور ہوکر مختلف عفونتوں کا شکار نہ ہوں ۔
ماہرین کے مطابق موسم سرما کے آغاز واواخر میں دمہ میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوتاہے ۔ اسپتال میں بھرتی ہونے والے مریضوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوتاہے جن میں بیشتر دیہی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کا کہناہے کہ موسم سرما میں یخ بستہ ہوا میں ان افراد کے پھیپھڑوں میں چلے جانے سے سانس کی نالی سکڑ کر تنگ ہو جاتی ہیں اور نالیوں کے اندرونی حصوں پر بلغم کی تہیں جم جاتی ہیں اور اس طرح ان کو سانس لینے میں دشواری محسوس ہوتی ہے اور ان پر دمہ کا حملہ شروع ہوتاہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے دیہی علاقوں میں کانگڑیوں اور چولہے کے دھوئیں سے کمرے بھر جاتے ہیں جو دمہ کے مریض کے لئے انتہائی مضر ہے ۔  اس کے علاوہ دیہی علاقوں میں گھر کے سبھی افراد ایک ہی کمرے میں بیٹھ کر وقت گذارتے ہیں اور اگر کسی ایک کو کوئی انفکشن ہوتو فوری طور دوسروں کے جسموں میں سرایت کرجاتاہے اور سردیوں میں ان Viral infections    سے دمہ کے مرض میں شدت پیدا ہوتی ہے اور دمہ کے حملے شروع ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر ملک کے تجربہ کے مطابق دمہ میں مبتلا افراد سردیوں کے موسم میں مقوی غذا نہیں کھاتے ہیں جس سے ان کے جسم میں کمزوری پیدا ہوتی ہے اور مریض مختلف انفکشنز کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ان کی بھی رائے ہے کہ دمہ میں مبتلا افراد کو ہر قسم کے میوے اور سبزیاں اپنی غذا میں شامل کرنا ضروری ہے ، اسی طرح دودھ ، دہی ، مکھن  گوشت ،پنیر کا استعمال بھی ضروری ہے ۔
ایک رپورٹ کے مطابق دمہ کی بیماری کی سب سے اہم وجہ سرد ہوا اور دھواں ہے ۔ اس کے علاوہ دھول اور مٹی بھی دمے کی وجہ بن سکتی ہے ۔ اگر کوئی حجام ہے یا نرسنگ کے شعبے سے وابستہ ہے یا پھر کسی شخص کے کام میں جانوروں وغیرہ کی دیکھ بھال شامل ہے تو کام کے دوران مختلف قسم کے کیمیائی مادوں سے واسطہ پڑتاہے ۔ یہ کیمیائی مادے بھی دمے کی بیماری کا سبب بن سکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر مہندی وغیرہ ،گندم کا آٹا، جانوروں کی گندگی ، یہاں تک کہ سرجری میں استعمال ہونے والے دستانوں میں پایا جانے والا عنصرLatexاور کچھ ادویات جن میں پنسلین وغیرہ شامل ہیں یہ سب دمے کی بیماری کا سبب بن سکتے ہیں ایسے افراد اگر دمہ میں مبتلا ہوں تو اسکو پیشہ ورانہ دمہ یا بیماری حرفای کہتے ہیں ۔
آج کل دمہ میں مبتلا افراد Inhalerکا استعمال کرتے ہیں ۔ ڈاکٹری تحقیق کے مطابق Inhalersکا استعمال دمہ میں مبتلا افراد کے لئے بے حد مفید ہے ۔ ان کے استعمال سے مریض اس کا عادی نہیں ہوتا ، اس کے مناسب اور موزوں استعمال سے پھیپھڑے متاثر نہیں ہوتے جو دوائیاں سانس کے ذریعے پھیپھڑوں تک پہنچتی ہیں ‘ وہ مقدار میں بہت کم ہوتی ہیں اور پھر بہت زیادہ پر اثر ہوتی ہیں ان کا ذیلی ردعمل بھی بہت کم ہوتاہے۔
Inhalersآسانی سے استعمال کئے جاسکتے ہیں اور کم خرچ ہوتے ہیں اور مریض کو فوری آرام ملتاہے ۔ سردیوں کے موسم میں یہ دمہ میں مبتلا افراد بغیر کسی ہچکچاہٹ کے Inhalersکا استعمال کرسکتے ہیں البتہ ڈاکٹر سے مشورہ کرنا ضروری ہے ۔
موسم سرما میں حسب ذیل صورتوں میں ڈاکٹر سے مشورہ کرنا ضروری ہے ۔
 راہ چلتے اچانک کھانسی شروع ہوجائے ،سینے پر دبائو محسوس ہواور سانس لینے میں دقت ہو ۔
جب باہر سے واپس آکر گھر میں سانس پوری طرح اور آسانی سے نہیں لی جاسکتی ہو اور سانس لیتے ہوئے منھ سے آواز ’’ویٖز"نکلتی ہو ۔
جب رات کو سانس کی تکلیف یا کھانسی کی وجہ سے نیند میں خلل پڑے اور کھانسی کی وجہ سے بسترے سے اٹھناپڑے ۔
جب تھوڑی دور چلنے کے بعد سانس پھولنے سے پریشانی محسوس ہو ۔
جب کسی سے بات کرتے وقت دوران گفتگو سینے کے اندر دبائو سا محسوس ہو
جب دوائیوں کا اثر کم ہوInhalersبھی اثر نہ کریں اور دوائیاں زیادہ مقدار میں لینا ضروری ہو۔
جب موسم سرما کے آغاز یا اواخر میں مرض شدت اختیار کرے۔
جب سردی ، بخار ، زکام ، کھانسی کی شکایت شروع ہو ۔
 جب سانس لینے کی انتہائی رفتار میں گراوٹ  یعنی کمی واقع ہو۔
جب کسی خاص قسم کا ذہنی دبائو ، کھچائو، یا تنائو محسوس ہو ۔
خلاصہ یہ کہ موسم سرما میں دمہ کے مریض اپنے آپکو یخ بستہ ہوائوں سے بچا کر رکھیں ۔ اپنے آپ کو دھول ،گرد وغبار اور دھوئیں سے دور رکھیں ۔ متوازن اور مقوی غذا کھانے کی عادت ڈالیں ۔ میوے اور سزیاں اورپانی وافر مقدار میں استعمال کریں ۔ گھر میں کسی بھی فرد کو کوئی انفکشن ہو اسکا بروقت اور مناسب علاج کروائیں  ۔بچوں کو باہر سڑک پر ، میدانوں میں کھیلنے کی اجازت نہ دیں اور اگرآپ دمہ کے مریض ہیں اور کسی وجہ سے پے درپے حملوں کے شکار ہونے لگیں تو فوری نزدیکی ہسپتال جائیں یا کسی ماہر ڈاکٹر کے پاس جاکر علاج کروائیں ۔ 

No comments:

Post a Comment