Tuesday 27 September 2016

من صلى لله أربعين يوما

ایس اے ساگر
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور ميں ایک عورت  جب بھی مسجد ميں نماز پڑھنے آتی تو ایک نوجوان اس کا راستہ روک کر کھڑا ہو جاتا- دو چار دن نظر انداز کرنے کے بعد ایک دن وہ کھڑی ہوگئی اور پوچھا کہ
کيا ماجرا ہے!
نوجوان نے کہا
ميں تيرا چاہنے والا ہوں... میرے دل ميں تيرے لیے محبت کے بے پناہ جزبات ہیں... ميں تجھے حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تيار ہوں-
اس عورت نے کہا:
ٹھیک ہے میری کوئی شرط نہیں... اگر تو میرا اتنا ہی چاہنے والا ہے تو ایک شرط پوری کر دے تو پھر ميں تيرے لیے حاضر ہوں-
اس نے شرط رکھى کہ وہ چالیس دن حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پيچھے نمازیں پڑھ لے.... آخری دن کی آخری نماز کے بعد يہيں ملاقات ہوگی-
اس نے کہا کہ يہ کون سا مشکل کام ہے.... تيرے لیے تو ميں کچھ بھی کرنے کو تيار تھا... يہ تو بہت آسان حل مل گیا-
چالیس دن نمازيں چلتی رہیں- وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی پر سوز اور رقت آمیز قرات سنتا رہا- چاليسويں دن کی آخری نماز کے بعد جب وہ واپس پلٹنے لگا تو وہ عورت وہاں کھڑی تھی.... وہ نظریں جھکا کے گزرنے لگا-
عورت نے کہا کہ ميں حسب وعدہ کھڑی ہوں-
نوجوان نے سر جھکا کر جواب دیا- میرے دل کا تعلق عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے رب سے جوڑ ديا ہے- اب تم کھڑی بھی رہو تو ميں تمہاری طرف نظر التفات بھی نہیں کروں گا-

چالیس دن تک متواتر تکبیر اولی کے ساتھ نماز پڑھنے کی فضیلت

حدثنا عقبة بن مکرم ونصر بن علي الجهضمي قالا حدثنا أبو قتيبة سلم بن قتيبة عن طعمة بن عمرو عن حبيب بن أبي ثابت عن أنس بن مالک قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم من صلی لله أربعين يوما في جماعة يدرک التکبيرة الأولی کتبت له براتان براة من النار وبراة من النفاق قال أبو عيسی وقد روي هذا الحديث عن أنس موقوفا ولا أعلم أحدا رفعه إلا ما روی سلم بن قتيبة عن طعمة بن عمرو عن حبيب بن أبي ثابت عن أنس وإنما يروی هذا الحديث عن حبيب بن أبي حبيب البجلي عن أنس بن مالک قوله حدثنا بذلک هناد حدثنا وکيع عن خالد بن طهمان عن حبيب بن أبي حبيب البجلي عن أنس نحوه ولم يرفعه وروی إسمعيل بن عياش هذا الحديث عن عمارة بن غزية عن أنس بن مالک عن عمر بن الخطاب عن النبي صلی الله عليه وسلم نحو هذا وهذا حديث غير محفوظ وهو حديث مرسل وعمارة بن غزية لم يدرک أنس بن مالک قال محمد بن إسمعيل حبيب بن أبي حبيب يکنی أبا الکشوثی ويقال أبو عميرة

جامع ترمذی:جلد اول
عقبہ بن مکرم، نصر بن علی، سلم بن قتیبہ، طعمہ بن عمرو، حبیب بن ابوثابت، انس بن مالک سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس نے چالیس دن تک تکبیر اولی کے ساتھ خالص اللہ کی رضا کے لئے باجماعت نماز پڑھی اس کی دو چیزوں سے نجات لکھ دی جاتی ہے جہنم سے نجات اور نفاق سے نجات امام ابوعیسی ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حضرت انس سے مرفوعا بھی مروی ہے ہم نہیں جانتے کہ اس حدیث کو روایت کیا ہے اسماعیل بن عیاش نے عمارہ بن غزیہ سے انہوں نے انس بن مالک سے انہوں نے عمر بن خطاب سے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کی مثل اور یہ حدیث غیر محفوظ اور مرسل ہے کیونکہ عمارہ بن غزیہ نے انس بن مالک کو نہیں پایا۔

علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو حسن لغیرہ کہا ہے؛
10 - من صلى لله أربعين يوما في جماعة يدرك التكبيرة الأولى كتبت له براءتان براءة من النار وبراءة من النفاق
الراوي: أنس بن مالك المحدث: ابن حجر العسقلاني - المصدر: تخريج مشكاة المصابيح - الصفحة أو الرقم: 2/15
خلاصة حكم المحدث: [حسن كما قال في المقدمة]

11 - من صلى لله أربعين يوما في جماعه ، يدرك التكبيرة الأولى ، كتب له براءتان : براءة من النار ، و براءة من النفاق
الراوي: أنس بن مالك المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 6365
خلاصة حكم المحدث: حسن

12 - من صلى لله أربعين يوما في جماعة يدرك التكبيرة الأولى ، كتب له براءتان ، براءة من النار و براءة من النفاق
الراوي: أنس بن مالك المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 1979
خلاصة حكم المحدث: له طرق تدل أن له أصلا

13 - من صلى لله أربعين يوما في جماعة ، يدرك التكبيرة الأولى ، كتبت له براءتان : براءة من النار ، و براءة من النفاق
الراوي: أنس بن مالك و أبو كاهل و عمر بن الخطاب المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 2652
خلاصة حكم المحدث: حسن بجموع الطرق

14 - من صلى لله أربعين يوما في جماعة ، يدرك التكبيرة الأولى ؛ كتبت له براءتان : براءة من النار ، وبراءة من النفاق
الراوي: أنس بن مالك المحدث: الألباني - المصدر: تخريج مشكاة المصابيح - الصفحة أو الرقم: 1102
خلاصة حكم المحدث: صحيح لغيره

15 - من صلى لله أربعين يوما في جماعة ، يدرك التكبيرة الأولى ، كتب له براءتان : براءة من النار ، و براءة من النفاق
الراوي: أنس بن مالك المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الترغيب - الصفحة أو الرقم: 409

خلاصة حكم المحدث: حسن لغيره

40 نمازیں پڑھنے کی حکمت :
ثواب، نیکی اور اجر اللہ کا خصوصی انعام ہے۔ نظام کائنات کا پورا سسٹم نور اور روشنی پر قائم ہے۔ یہ نور اور روشنی لہروں میں نازل ہوتا رہتا ہے۔ ایک نیکی کا مطلب ہے کہ بندہ ایک روشنی سے سیراب ہو گیا ہے۔ صلوٰۃ کا مطلب ہے کہ اللہ سے تعلق قائم کرنا۔
ایک نماز کے ثواب کا مطلب یہ ہے کہ نمازی کا اپنے رب سے یک گونہ تعلق مزید بڑھ گیا ہے۔ اور ایک لاکھ ثواب کا مطلب ہے کہ صلوٰۃ قائم کرنے والے بندے یا بندی کا اپنے اللہ سے ایک لاکھ گنا تعلق میں اضافہ ہو گیا ہے۔
مذہبی اعتبار سے چالیس کے عدد کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ قرآن میں کئی جگہ اس کا تذکرہ ملتا ہے۔ حضرت موسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے کوہ طور پر بلایا اور چالیس دن رات مستقل طور پر اللہ تعالیٰ کے دھیان میں رہنے کا حکم دیا۔ ان چالیس دن راتوں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پر لاشعوری حواس کا غلبہ رہا۔ چالیس دن بعد شریعت موسوی کے احکامات تختیوں پر لکھے ہوئے نازل فرمائے۔
حضرت محمدﷺ کو نبوت سے چالیس سال کی عمر میں سرفراز کیا گیا۔ اس کے علاوہ قرآن کی رو سے چالیس سال کی عمر تک بندے کو عارضی دنیا سے اپنا دامن ہٹا لینا چاہئے اور زیادہ وقت عبادت و ریاضت میں مصروف رہنا چاہئے۔ چالیس سال کی عمر تک عقل انسانی میں فہم داخل ہو جاتا ہے اور آدمی کائنات کے نظام کو سمجھنے لگتا ہے۔ وظائف اور چلے بھی عموماً چالیس دن کے ہوتے ہیں۔
روحانی صلاحیتوں کو بیدار کرنے کے لئے جو اسباق دیئے جاتے ہیں وہ بھی عموماً چالیس دن کے ہوتے ہیں۔ غرض کہ چالیس کا عدد ذہنی اور روحانی صلاحیتوں کے لئے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ حضور پاکﷺ کے روضہ مبارک پر ۴۰ نمازیں پڑھنے کے متعلق روایت ہے۔
لوگ حج سے پہلے یا حج کے بعد مدینہ منورہ میں قیام کر کے چالیس نمازیں مسجد نبوی میں پابندی سے ادا کرتے تھے۔ مسجد نبوی میں حضور پاکﷺ کا روضہ مبارک ہے۔ جہاں آپ رسول اللہﷺ محو استراحت ہیں۔ مسجد نبوی آپ رسول اللہﷺ کا حرم ہے۔ یہاں جنت کا راستہ ہے۔ آپ رسول اللہﷺ کا مسجد نبوی میں آنا جانا رہتا ہے۔ مدینہ منورہ میں قیام کے دوران اکثر زائرین آپ رسول اللہﷺ کی خواب میں یا حالت بیداری میں زیارت کرتے ہیں۔
چالیس نمازیں ادا کرنے کے لئے کم از کم آٹھ دن مسجد نبوی میں پانچوں وقت کی حاضری ہوتی ہے۔ ذہن زیادہ تر حضور پاکﷺ کی جانب متوجہ رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے حضور پاکﷺ کے انوار اور روشنیاں ذہن میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ لوگوں کے اندر آپ رسول اللہﷺ کی طرز فکر منتقل ہوتی ہے۔ آپ رسول اللہﷺ کی محبت کی کشش دلوں کو آپ کی جانب کھینچتی ہے۔
ذہن و دل میں یہ بات یقین کے درجے تک پہنچ جاتی ہے کہ آپ رسول اللہﷺ کی ذات اعلیٰ ترین تخلیق ہے۔ آپ رسول اللہﷺ کی ذات اقدس سید البشر ہے۔ جس کا بنانے والا احسن الخالقین ہے۔ بشری پیراہن میں رہتے ہوئے جس طرح آپ رسول اللہﷺ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ بشر ہونے کے ناطے انسان کے دل میں یہ خواہش جاگ اٹھتی ہے کہ میں بھی اپنی اندر کی صلاحیتوں سے کام لوں اور میری وجہ سے آخرت میں میرے پیارے نبی حضورﷺ مجھ سے خوش ہوں۔
چالیس نمازیں قائم کرنے کی حکمت یہ ہے کہ مسجد نبوی میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارا جائے۔ تا کہ حضورﷺ سے ذہنی اور قلبی رابطہ قائم ہو جائے۔ ذہن نور نبوت کو قبول کرنے کے قابل ہو جائے۔ اور جس طرح آپ رسول اللہﷺ نے اللہ کو جانا، پہچانا اور اپنی روحانی صلاحیتوں کے ساتھ اللہ پاک کی ہستی کا مشاہدہ کیا۔ رحمت العالمین کی رحمت سے یہ صلاحیتیں آپ رسول اللہﷺ کے روضہ مبارک پر نمازیں ادا کرنے سے ہمارے اندر بھی بیدار ہو جائیں۔
اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں فرماتے ہیں کہ کائنات میں ہر تخلیق معین مقداروں میں بنائی گئی ہے۔ چالیس کا عدد بھی ایک معین مقدار ہے۔ اللہ تعالیٰ کی فکر میں اس کا تعلق پیغمبروں کے ساتھ ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چالیس دن رات کے لئے کوہ طور پر بلایا گیا۔
حضور پاکﷺ کو چالیس سال کی عمر میں نبوت و رسالت سے سرفراز کیا گیا۔ مسجد نبوی میں چالیس نمازیں قائم کرنے سے رسول اللہﷺ کے امتی میں آپ رسول اللہﷺ کی روشنیاں منتقل ہوتی ہیں اور اللہ اور اس کے رسول دونوں کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔
شعور، قربت اور ماحول سے بنتا ہے۔ آدمی جس ماحول میں رہتا ہے۔ ماحول کے اثرات اس کے اوپر مرتب ہوتے ہیں۔ جب کوئی مسلمان بندہ مسجد نبوی میں مسلسل آٹھ دن آٹھ رات حضورﷺ کے حرم سے وابستہ رہتا ہے اور ذہنی مرکزیت قائم رہتی ہے تو مسجد نبوی کا منور ماحول اس کے اوپر اثر انداز ہوتا ہے اور بندے کا دل محبت و عشق کے جذبات سے معمور ہو جاتا ہے۔ مسجد نبوی میں نمازیں ادا کرنے اجر بھی بہت زیادہ ہے۔ اجر اور ثواب کا مطلب یہ ہے کہ لاکھوں کروڑوں نور کی لہریں حضورﷺ کے امتی میں ذخیرہ ہو جاتی ہیں۔ روح توانا اور سرشار ہو جاتی ہے۔ نماز میں حضور قلب نصیب ہو جاتا ہے۔ شکوک و شبہات اور وسوسوں سے نجات مل جاتی ہے اور بندہ اللہ کے فضل و کرم اور رسول اللہﷺ کی نسبت سے ایسی نمازیں قائم کرتا ہے جس کے بارے میں ارشاد ہے کہ
’’الصلوٰۃ معراج المومنین‘‘
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی 
صفحہ نمبر 127 / 130۔

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1279648025410501&id=194131587295489

No comments:

Post a Comment