ایس اے ساگر
آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ ایک ننھا بچہ ہاتھ پیر ہلاتے وقت اکثر اپنے ہی چہرے پر تھپڑ مارتا اور پھر پریشان ہو کر رونے لگتا ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بچے اپنے بازووں اور ٹانگوں کی حرکت پر قابو پانا سیکھ لیتا ہے۔پہلے تو وہ گھٹنوں کے بل چلنا سیکھتے ہیں، پھر وہ کھڑے ہو کر چلنا اور آخرکار دوڑنا بھی سیکھ لیتے ہیں۔ چلنے پھرنے کی صلاحیت پیدا کرنا تو ایک بات ہے لیکن ذرا جمناسٹ کی مہارت پر غور کریں۔ وہ چھلانگیں لگاتا، ہوا میں قلابازیاں کھاتا اور اپنے جسم کو یوں مروڑتا ہے جیسا کہ وہ گوشت پوست کا نہیں بلکہ ربر کا بنا ہو۔ یہ سب مسلسل ورزش کا کمال ہوتا ہے۔ دراصل انسان، چاہے مرد ہو یا عورت، اسے ہمہ وقت یہ خیال رہتا ہے کہ وہ ہر حوالے سے خوبصورت نظر آئے اور ایسی کوئی ظاہری کمی نہ رہ جائے جس کی وجہ سے وہ دوسروں کے مقابلے میں کم دل کش، کم خوبصورت اور کم حسین لگے۔ اس خواہش کے پیش نظر اکثر لوگ اپنے کمزور پہلووں کے بارے میں سوچتے اور ان کو مزید بہتر بنانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ کسی کو رنگ گورا کرنے کی فکر رہتی ہے تو کوئی اپنے موٹاپے کے لئے پریشان، کوئی بالوں کو گھنا اور سیاہ کرنے کے لئے متفکرہے تو کوئی ناخنوں کی خوبصورتی کے لئے نسخہ کیمیا کی تلاش میں سرگرداں، الغرض جس کو اپنے آپ میں جو کمی محسوس ہوتی ہے اس کو ختم کرنے کے لئے ہمہ وقت کوشاں نظر آتا ہے۔ انہی بے شمار مسائل میں سے ایک مسئلہ انسان کا قد اور قامت ہے۔ایسے لوگوں کو یہ کون سمجھائے کہ عمر کے اکیس برس گذارنے کے بعد کسی شخص کا قد بڑھنا ممکن نہیں ہوتا!
مقامی آب و ہوا کا اثر :
افریقہ اور یوروپ کے ممالک کی بات دیگر ہے ،بر صغیر ہند، پاک میں بالخصوص اور ایشیا میں بالعموم لوگوں کے قد باقی دینا کے مقابلے میں چھوٹے ہوتے ہیں، لیکن کچھ کے قد یہاں کے عمومی مزاج سے کچھ زیادہ چھوٹے بھی ہوتے ہیں جو انسان کی خوبصورتی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس لئے چھوٹے قد کے خواتین و حضرات اپنے قد کو لمبا کرنے کے لئے نہ صرف متفکر رہتے ہیں بلکہ متعدد قسم کی ترکیبیں بھی آزماتے ہیں۔ لوگوں کی اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اور ان کی پرشانی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض’ماہرین‘ نے مختلف’ادویات‘ بنائیں اور چھوٹے قد کی وجہ سے پریشان لوگوں کی جیب پر خوب ہاتھ صاف کیا۔ یہی وجہ ہے کہ قد لمبا کرنے کے لئے بہت سی ادویات اور ٹانک مارکیٹ میں دستیاب ہیں جنہیں لوگ بے تحاشا استعمال کرتے ہیں، جبکہ ماہرین کی رائے میں یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے لئے عام ادویات کی بہ نسبت دیسی علاج زیادہ مفید ہیں کیوں کہ اس کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ ان کے ضمنی اثرات کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ اس مسئلہ کے ہاتھوں پریشان خواتین و حضرات کے لئے کچھ دیسی تراکیب پرمسلسل عمل پیرا ہونے سے خاطر خواہ افاقہ ہو گا۔درخت سے لٹکناقدر بڑھانے کے لئے اور جسم کی بہترین نشو و نما کے لئے ورزش کا کردار کلیدی ہے۔
ورزش اور غذا کا اہتمام :
اگر نوعمری میں والدین کومحسوس ہوکہ ان کے بچے کا قد اس کی عمر کے لحاظ سے کم ہے تو اس کے لئے باقاعدہ ورزش کا اہتمام کروائیں جس میں درخت کے ساتھ لٹکنا، اور اگر درخت میسر نہ ہو تو گھر میں ایسا انتظام کرنا جس کی مدد سے وہ لٹکنے کی ورزش کر سکے۔ اس طرح کی ورزش سے نہ صرف خون کی روانی میں بہتری آتی ہے بلکہ آپ کا جسم کھلتا ہے اور قد بڑھنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔اس ورزش کی اثرات کے لئے عمر کی کوئی پابندی نہیں تاہم یہ فطری بات ہے کہ جسم کی نشو و نما کا بہترین وقت نوعمری کا زمانہ ہے جب انسانی جسم زیر تکمیل ہوتا ہے اگر اس وقت اس جانب توجہ دی جائے تو خاطر خواہ فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔اپنی خوراک کا خصوصی خیال رکھیں۔ انسانی صحت کی بہتری کے لئے جس طرح مناسب غذا لازمی ہے۔ اسی طرح اس کے قد میںاضافہ کے معاملے میں بھی مناسب غذا کا کردار اہم ہو سکتا ہے۔ اگر آپ کی خوراک میں لحمیات، چکنائی، نمکیات اور سارے مطلوبہ وٹامنز موجود ہوں تو امید ہے کہ آپ کے جسم میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں رہے گی۔ تاہم یاد رہے کہ قد کی لمبائی کا عمل بہت ہی سست رو ہو گا، ایک ہفتے یا مہینے کے بعد ہی مایوس ہو جانادانش مندی کا فیصلہ نہیں ہو گا۔ تاہم قد بڑھانے کے سلسلے میں زیادہ خوراک کھانے کے ساتھ ساتھ ورزش پر بھی خصوصی توجہ کی ضرورت ہو گی، کیوں کہ اس بات کا خطرہ بہر حال ہو گا کہ کہیں قد بڑھانے کے چکر میں آپ اپنی صحت خراب کر بیٹھیں۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ چھوٹا قد بعض اوقات شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے بالخصوص جب چھوٹے قد کے ساتھ پیٹ بڑھا ہو ا ہو، ذیل میں قد بڑھانے کیلئے چند نسخہ جات پیش کئے جاتے ہیں:
نسخہ نمبر ایک:
تخم سرس ، اجوائن دیسی ، ہم وزن پیس کر آدھا چمچ پانی میں کے ساتھ ہر کھانے کے بعد پانچ ماہ تک استعمال کریں۔
نسخہ نمبر دو ؛
ساگ میں ادرک شامل کریں اس کے کھانے سے قد اور وزن دونوں بڑھتےہیں۔
نسخہ نمبر تین:
ٹراو ٹ مچھلی یا عام مچھلی کے کانٹے لے کر ہم وزن کنگھی بوٹی میں ملا کر رگڑیں۔ صبح و شام دو یا چار رتی استعمال کریں ایک مہینے میں ایک انچ قد بڑھ جائے گا۔
کیلشیم سے بھرپور خوراک :
انسان جب جوان ہوتا ہے اور اس کے ہاتھ پاو ¿ں بخوبی کام کررہے ہوتے ہیں تو اسے خیال بھی نہیں آتا کہ وہ وقت بھی آئے گا جب اس کی کمر جھکنے لگے گی، توانائی ساتھ چھوڑجائے گی اور ہڈیاں چٹخنے لگیں گی۔ بڑھاپے میں کمزور اور بوسیدہ ہڈیاں بھی جان کاعذاب بن جاتی ہیں جبکہ مختلف طریقوں سے ہم نہ صرف اپنی ہڈیوں کی مضبوطی کو قائم رکھ سکتے ہیں بلکہ بوسیدہ ہڈیوں کی بیماری یعنی بوسیدگی استخواں Osteoporosis سے بھی بچ سکتے ہیں۔ بوسیدگی استخواں میں ہڈیاں کمزور ہوجاتی ہیں اور بہ آسانی ٹوٹ جاتی ہیں۔ جب اس مرض کی ابتداہوتی ہے تو اس کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی ہڈی کے ٹوٹنے پر اس بیماری کاپتا چلتا ہے۔ بوسیدہ ہڈیوں کے باعث زیادہ ترکلائی کولھے اور ریڑھ کی ہڈی میں شکستگی ہوتی ہے۔ آئیے اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ ہڈیوں کو مضبوط بنانے اور بوسیدگی استخواں کا راستہ روکنے کے لئے کیا جاسکتا ہے۔ مچھلی کھائیے اور دودھ پیجئے،ان دونوں چیزوں میں کیلشیئم ہوتا ہے جو ہڈیوں کو مضبوط کرتا ہے۔ چکنائی نکلا یاکم چکنائی والا دودھ استعمال کیجئے۔ مچھلی میں روغنی مچھلی کا انتخاب کیجئے کیوں کہ اس میں پایا جانے والا کیلشیم جسم میں بہتر طرح سے جذب ہوتا ہے۔ کیلشیم کے حصول کاایک اچھا ذریعہ ہرے پتوں والی سبزیاں بھی ہیں۔ اگر غذا سے کیلشیم کی مطلوبہ مقدار حاصل نہ ہوسکے تو اسے گولیوں یادیگر مصنوعات سے پورا کیجئے لیکن یہ خیال رکھئے کہ دن بھر میں یہ مقدار دو ہزار ملی گرام سے نہ بڑھے۔
کبھی نہ بھولیں:
 لیکن یہ بھی یادرکھئے کہ میگ نیزئیم بھی ہڈیوں کے لئے مفید بلکہ ضروری ہے۔ اس کے علاوہ وٹامن ڈی اور جست بھی اہم ہے۔ وٹامن ڈی دھوپ سے بھی حاصل ہوتا ہے۔اسے حاصل کرنے کے دیگر ذرائع روغنی مچھلی انڈاور مارجرین ہیں۔ انہیں اپنی غذا میں مناسب طریقے سے شامل کیجئے۔ ہڈیوں کومضبوط بنانے کے لئے ورزش بھی اہم ہے۔ٹینس، اسکواش، باسکٹ بال اور تیز دوڑ سے ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں۔ وزن اٹھانے سے ہڈیوں پربوجھ پڑتا ہے جو اچھا اثرڈالتا ہے۔ ہفتے میں تین چار بار آدھے آدھے گھنٹے ورزش کیجئے۔ تمباکو نوشی ترک کردیجئے۔ عورتوں میں تمباکو نوشی اکثر جلد سن یاس کاباعث بن سکتی ہے جس کی وجہ سے بوسیدگی استخواں کاخطرہ ان کے لئے بڑھ جاتا ہے۔ نمک اور کیفین کا استعمال کم کیجئے۔انسانی جسم کیلشیم کی جومقدار جذب کرتا ہے۔ یہ دونوں اشیااس پر منفی اثر ڈالتی ہیں۔ بوسیدگی استخواں میں موروثی اثرات کا بھی دخل ہوسکتا ہے۔ چنانچہ جن عورتوں کی ہڈیاں چھوٹی اور کم گنجان ہوتی ہیں یاجن کے خاندان میں یہ بیماری چلی آرہی ہو، ان کے لئے اس کا خطرہ زیادہ ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات ہڈیوں کی صحت پر کچھ دوائیں بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر جو لوگ دمہ الرجی یا جوڑوں کی تکلیف کے لئے بہت زیادہ مقدار میں کورٹی کوسٹیرائڈز استعمال کرتے ہیں ان کے لئے بوسیدگی استخواں کاخطرہ بڑھ جاتا ہے۔بوسیدگی استخواں سے محفوظ رہنے میں ہمارے طرز زندگی کوبھی دخل ہے۔ بہرحال زندگی میں اعتدال قائم رکھ کر ہم اس بیماری سے بچ سکتے ہیں۔
خطرناک علاج!
بوسیدہ ہڈیوں اور جسمانی کمزوری کے لئے عام طور پر ہم میڈیکیٹڈ کیلشیم استعمال کرتے ہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اس کا زیادہ ترحصہ بذریعہ پیشاپ خارج ہوجاتا ہے اور اس کابیشتر حصہ گردوں میں جاکر پتھری کاباعث بنتا ہے۔بسا اوقات ہزار کوشش کے باوجود فائدہ نہیں ہوتا اور قد نہیں بڑھتا، انسان اپنے ہمجولیوں اور ہم عمروں کے مقابلے میں پست قامت نظر آتا ہے جس کی وجہ سے کبھی خود احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے اور کبھی اپنے ہی ساتھی طرح طرح کے القابات سے نوازتے ہیں جس سے انسان دلبرداشتہ ہو جاتا ہے۔ ایسی صورتحال سے بچنے کی سب سے اہم حکمت عملی یہ ہے کہ انسان اپنی ذات میں ایسی دیگر خوبیاں پیدا کر لے کہ قد جیسی چھوٹی چھوٹی چیزیں ان بڑی خوبیوں میں دب جائیں اور انسان پست قامت ہونے کے باوجود کر بھی معاشرے میں بڑے مقام تک پہنچ سکتا ہے۔شاعر مشرق ڈاکٹر محمد اقبال نے احساس کمتری سے نکلنے کا نسحہ عطا فرمایا ہے:
پہاڑسے کیا کہا گلہری نے؟
 ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے
کوئی بڑا کوئی چھوٹا یہ اسکی حکمت ہے
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں
 


-0:10

LikeShow more reactions
Comment
Comments
Sa sagar
Write a comment...