Monday 7 November 2016

اسلام میں لڑکیوں کی پرورش کی فضیلت

اسلام نے لڑکیوں کی پرورش کو ایک نیک عمل اورمستحن فعل قرار دے کر اس کو نجات اخروی کا ذریعہ بنایا ہے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے لڑکیوں کی پرورش کرنے والوں کو قیامت میں اپنی رفاقت اور ہم نشینی کی بشارت دی ہے۔

- أيُّما امرأةٍ قامت نفسَها على ثلاثِ بناتٍ لها إلا كانت معي في الجنةِ . وأهوى بأصبعَيه . وأيُّما رجلٍ أنفق على ثلاثٍ أو مثلِهن من الأخواتِ كان معي في الجنةِ . هكذا وأهوى بأصبعَيه
الراوي: أنس بن مالك المحدث: الإمام أحمد - المصدر: العلل ومعرفة الرجال - الصفحة أو الرقم: 3/458
خلاصة حكم المحدث: منكر
حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے:
”رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص دو لڑکیوں کی پرورش کرے، یہاں تک کہ وہ جوان ہو جائیں تو قیامت میں میرا اس کا ساتھ ( انگلیوں کوملا کر فرمایا) اس طرح ہو گا۔“
امام بخاری نے الادب المفرد میں کئی روایتیں نقل کی ہیں کہ جس شخص کے دو یا تین لڑکیاں ہوں اوراس نے ان کی پوری پرورش اور پرداخت کی تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ مسلم شریف کی روایت ہے کہ جو شخص لڑکیوں کی پیدائش میں مبتلا کیا گیا اور اس نے ان کی پوری پرورش وپرداخت کی تو وہ لڑکیاں اس کے لیے دوزخ سے آڑبن جائیں گی۔
     
- من عال ثلاث أخوات أو ثلاث بنات أو بنتان أو أختان . . .
الراوي: أبو سعيد الخدري المحدث: أبو داود - المصدر: سنن أبي داود - الصفحة أو الرقم: 5148
خلاصة حكم المحدث: سكت عنه [وقد قال في رسالته لأهل مكة كل ما سكت عنه فهو صالح]
ابوداؤد شریف میں ہے کہ جس نے تین لڑکیوں کی پرورش اور شادی کروائی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا، وہ جنت میں داخل ہو گا۔ حسن سلوک کے استحقاق میں لڑکے اور لڑکیوں کو برابر قرار دیا، محض لڑکی ہونے کی وجہ سے لڑکے اور لڑکی کے ساتھ طرز عمل میں کوئی فرق نہ کرنا چاہیے۔
مَن كان له ثلاثُ بناتٍ أو ثلاثُ أخَواتٍ أو ابنتانِ أو أُختانِ فأحسَن صُحبتَهنَّ واتَّقى اللهَ فيهنَّ دخَل الجنَّةَ
الراوي: أبو سعيد الخدري المحدث: ابن حبان - المصدر:صحيح ابن حبان - الصفحة أو الرقم: 446
خلاصة حكم المحدث: أخرجه في صحيحه
ما مِن أُمَّتي أحَدٌ يكونُ له ثلاثُ بناتٍ أو ثلاثُ أخواتٍ فيُحسِنُ صُحبتَهنَّ إلَّا كُنَّ له سِترًا مِن النَّارِ
الراوي: عائشة المحدث: الطبراني - المصدر: المعجم الأوسط -الصفحة أو الرقم: 5/322
خلاصة حكم المحدث: لم يرو هذا الحديث عن زيد بن علي إلا عبد الله بن عيسى ولا رواه عن عبد الله بن عيسى إلا زياد بن خيثمة تفرد به شجاع بن الوليد
......
لا يكونُ لأحدِكم ثلاثُ بناتٍ أو ثلاثُ أخواتٍ فيُحسِنُ إليهنَّ إلَّا دخل الجنَّةَ
الراوي: أبو سعيد الخدري المحدث: المنذري - المصدر:الترغيب والترهيب - الصفحة أو الرقم: 3/111
خلاصة حكم المحدث: في أسانيده اختلاف
......
ما من أمَّتي من أحدٍ يكونُ له ثلاثُ بناتٍ أو ثلاثُأخواتٍ يعولُهنَّ حتَّى يبلُغنَ إلَّا كان معي في الجنَّةِ هكذا وجمَع إصبَعَيْه السَّبَّابةَ والوسطى
الراوي: أنس بن مالك المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 8/160
خلاصة حكم المحدث: [روي] بإسنادين ورجال أحدهما رجال الصحيح
حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کی لڑکی پیدا ہو وہ اس کو زندہ رکھے، اس کی بے توقیری نہ کرے اور نہ لڑکے کو اس پر ترجیح دے تو اس کو خدا جنت میں داخل فرمائے گا۔ جو لڑکی شادی کے بعد بے آسرا ہو جائے ، باپ کے علاوہ اس کا کوئی سہارا نہ ہو ، اس کی کفالت بڑے ثواب کا کام ہے۔ ایک مرتبہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سراقہ بن جعشم سے فرمایا کہ میں تم کو سب سے بڑا کار خیر بتاؤں؟ سراقہ نے عرض کیا ضرور یا رسول الله! فرمایا ،اس لڑکی کی کفالت، جو تمہارے پاس لوٹا دی گئی ہو اور اس کے لیے تمہارے سوا کوئی دوسرا کمانے والا نہ ہو۔ کلام مجید میں عورتوں سے جن چیزوں پر بیعت لینے کا حکم ہے ، ان میں ایک یہ بھی ہے کہ اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی۔ 
( سورہٴ ممتحنہ)
اس آیت کے نزول کے بعد جب عورتوں، بلکہ مردوں سے بھی بیعت لیتے تھے، تو اس میں یہ شرط بھی ہوتی تھی کہ وہ اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گے ۔
( بخاری)
اس سلسلہ میں یہ آیت حرف آخر کا حکم رکھتی ہے کہ قیامت کے ہول ناک دن میں جب زندہ درگور کی جانے والی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ کی پاداش میں قتل کی گئی؟ ( سورہ تکویر) تو اس کے قاتلوں پر کیا گزرے گی اور وہ اس کا کیا جواب دیں گے؟ لڑکی کا قتل تو بڑی چیز ہے ، اس کی موت کی تمنا کرنا بھی جرم ہے، الادب المفرد میں ہے کہ حضرت عبدالله بن عمر کے پاس ایک آدمی تھا، جس کے کئی لڑکیاں تھیں، اس نے ان کی موت کی تمنا ظاہرکی، ابن عمر بہت برہم ہوئے اور فرمایا کہ کیا تم ان کو رزق دیتے ہو؟
اولاد کی پیدائش کے بعد ان کی پرورش کا سب سے پہلا کام رضاعت ہے ، اس کی مدت کی تعیین خود کلام مجید نے کر دی تھی۔
”اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس دودھ پلائیں، یہ مدت اس کے لیے ہے جو چاہے کہ رضاعت کی مدت پوری کرے اور لڑکے والے (باپ) پر ان ماؤں کا کھانا اورکپڑا دستور کے مطابق ہے۔“
( سورہٴ بقرہ:30)
کھانے کپڑے کی شرط اس لیے لگا دی گئی ہے کہ اگر مدت رضاعت میں شوہر نے بیوی کو طلاق دے دی تو بھی اس کا کھانا کپڑا باپ کے ذمے رہے گا، اگر باپ کسی دوسری عورت سے دودھ پلوائے تو اس کا کھانا کپڑا بھی باپ کے ذمہ ہو گا اور ظاہر ہے کہ بیوی کا نان ونفقہ شوہر کے ذمہ ہے ، اس لیے اس شرط کی ضرورت ہی نہ تھی ، اس آیت سے یہ بھی مستنبط ہوتا ہے کہ اولاد جب تک سن شعور کو پہنچ کر کھانے کمانے کے قابل نہ ہو جائے ، ان کی کفالت والد کے ذمہ ہے، حدیثوں میں اس کی تصریح ہے۔
اولاد کے بارے میں مختلف احکام
حضرت ثوبان رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ نے فرمایا کہ سب سے افضل دینار وہ ہے جس کو آدمی اپنے اہل وعیال پر صرف کرے اور جس کو جہاد کی سواری میں صرف کرے اور جس کو الله کی راہ میں اپنے ساتھیوں پر صرف کرے۔ اس روایت کے ایک راوی ابو قلابہ کہتے ہیں کہ پہلے آپ صلی الله علیہ وسلم نے اہل وعیال کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اس شخص سے بڑا اجر کس کو ہو سکتا ہے جو اپنے صغیر السن بچوں پر صرف کرتا ہے اوراس کے ذریعہ ان کو دوسروں کی احتیاج سے مستغنی کر دیتا ہے ۔ ( ترمذی)
اولاد کو خوش حال چھوڑ جانا اخلاقی فرض ہے، اس لیے ترکہ میں ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت جائز نہیں۔ حضرت سعد بن ابی وقاص دولت مند صحابی تھے ، ان کے صرف ایک لڑکی تھی، وہ ایک مرتبہ ایسے سخت بیمار پڑے کہ زندگی کی امید باقی نہ رہی ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے ، انہوں نے عرض کیا کہ یار سول الله ! میرے پاس دولت ہے اورمیری وارث تنہا ایک لڑکی ہے، میں چاہتا ہوں کہ دو تہائی مال کی وصیت کارخیر کے لیے کر جاؤں۔ فرمایا: نہیں! سعد نے عرض کیا: اچھا تو نصف کی وصیت کردوں؟ فرمایا، نہیں! صرف ایک تہائی کی وصیت کرو اورایک تہائی بھی بہت ہے ، اپنے بعد اپنے ورثا کو خوش حال چھوڑ جانا اس سے بہتر ہے کہ ان کو محتاج چھوڑ جاؤ اور وہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ 
( بخاری ومسلم)
اولاد کی پرورش کے ساتھ ان کی تعلیم وتربیت کی ذمہ دار ی بھی والدین پر ہے ۔ کلام مجید نے اس کو ایک مختصر اور بلیغ جملہ میں ادا کیا ہے:
” اے ایمان والو! اپنے آپ کو اوراپنے اہل وعیال کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔“(تحریم)
اس سے مقصود ان تمام برائیوں اور خرابیوں سے بچانا ہے جو آتش دوزخ کی مستحق بناتی ہیں، اس میں اخلاقی تعلیم وتربیت کے سارے پہلو آجاتے ہیں ، حدیثوں میں اس کی تصریح ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی کا اپنی اولاد کو ادب سکھانا، ایک صاع خیرات کرنے سے بہتر ہے ۔ دوسری روایت میں ہے کہ والد کا اولاد کے لیے سب سے بہتر عطیہ حسن ادب کی تعلیم ہے۔ اس تعلیم کا یہ نتیجہ ہے کہ وہ اولاد جو والدین کے لیے بلا اورمصیبت سمجھی جاتی تھی، وہ دل کا ٹکڑا اور آنکھوں کی ٹھنڈک بن گئی۔
”اے ہمارے پرورگار! ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنا۔“ ( فرقان:6)
اس بار ے میں سب سے بڑا اسوہ خود رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا عمل ہے، اولاد سے آپ صلی الله علیہ وسلم کی محبت کے واقعات حدیثوں میں محفوظ ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کی سب اولادیں آپ صلی الله علیہ وسلم کی زندگی ہی میں وفات پاگئی تھیں، صرف حضرت فاطمہ زہرا رضی الله عنہا رہ گئی تھیں، ان سے آپ صلی الله علیہ وسلم کو غایت درجہ کی الفت تھی، ان کے متعلق آپ صلی الله علیہ وسلم کارشاد ہے:”فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے ، جو اس کو ناراض کرے گا وہ مجھ کو ناراض کرے گا۔“
آپ صلی الله علیہ وسلم کو حضرت فاطمہ سے اس درجہ محبت تھی کہ ایک مرتبہ حضرت علی نے حضرت فاطمہ کی زندگی میں ابوجہل کی لڑکی سے شادی کا پیام دیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے مخصوص خطبہ دیا اور فرمایا:
”بنی ہشام علی سے اپنی بیٹی کا عقد کرنا چاہتے ہیں اورمجھ سے اجازت مانگتے ہیں، میں کبھی اس کی اجازت نہ دوں گا، کبھی نہ دوں گا، کبھی نہ دوں گا، البتہ علی میری بیٹی کو طلاق دے کر نکاح کرسکتے ہیں۔ فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے، جس نے اس کو تکلیف پہنچائی اس نے مجھ کو تکلیف پہنچائی۔“
دوسری روایتوں میں اس مخالفت کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ میں کسی حلال چیز کو حرام نہیں کرتا اورکسی حرام چیز کو حلال نہیں کرتا، لیکن خدا قسم ! خدا کے رسول کی بیٹی اوراس کے دشمن کی لڑکی ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں۔
حضرت فاطمہ جب آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں آتیں تو آپ صلی الله علیہ وسلم ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہو جاتے اورانہیں اپنے پہلو میں بٹھاتے، ان کی پیشانی کو بوسہ دیتے ، جب سفر پر جاتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہ سے رخصت ہوتے اورجب واپس آتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ سے ملتے ، ان کے صاحب زادوں حضرت حسن وحسین رضی الله عنہما سے آپ صلی الله علیہ وسلم کی محبت کے واقعات اتنے مشہور ہیں کہ ان کو نقل کرنے کی ضرورت نہیں۔
آپ صلی الله علیہ وسلم کی صاحب زادی حضرت زینب اپنے بعد ایک صغیر السن لڑکی چھوڑ گئی تھیں، اس کا نام امامہ تھا، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو اس سے اتنی محبت تھی کہ کبھی کبھی مسجد میں ساتھ لاتے تھے اور گود میں لیے ہوئے نماز پڑھاتے تھے، ایک مرتبہ امامہ کو کندھے پر بٹھائے ہوئے مسجد میں تشریف لائے اوراسی حالت میں نماز پڑھائی ، جب رکوع میں جاتے تو اتار دیتے تھے اور جب کھڑے ہوتے تو پھر لے لیتے۔

No comments:

Post a Comment