Wednesday 30 November 2016

چار شادیوں کے چودہ فائدے

ایس اے ساگر
اسلام میں چار نکاح کی اہمیت و حکمت کیا ہے؟

چار نکاح کی اجازت کیا ہر ایک مرد کے لئے ہے یا کوئی تخصیص ہے؟


بحوالہ مدلل اس پر روشنی ڈالیں

الجواب وباللہ التوفيق :
حامدا و مصلیا ومسلما 
شریعت مطہرہ اور دین اسلام ایک مکمل مذہب ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں پوری پوری رہنمائی کرتاہے ،اور یہی مابہ الامتیاز چیز ہے دوسرے ادیان سے کہ انکے ادیان کچھ رسموں میں سمٹے ہوئے ہوتےہیں ۔
اسی میں سے ایک نکاح ہے کہ شریعت کے یہاں اس کا بہت صاف ستھرا نظام ہے اور جو اس پر اعتراض کرتےہیں در حقیقت ان کو مذہب اسلام سے حسد ہے چنانچہ اسی تعلق سے اعتراضات میں ایک یہ تعدد ازواج ہے جو آج بڑا بحث کا محور بن گیا ہے ۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تعدد ازواج یہ انسان کا فطری تقاضا ہے اور اس سے انکار فطرت انسانی سے ناواقفیت ہے ،چنانچہ اسکی حکمتوں کو بیان کیا گیا ہے ۔
صاحب کتاب النوازل حضرت مفتی سلمان منصورپوری صاحب نے حضرت تھانوی ؒ کے حوالے سے نقل کیا ہے ،
(۱) تقویٰ کا حصول :
شریعت کی نظر میں پاکدامنی اور گناہوں سے پاک زندگی کی بڑی اہمیت ہے اور جابجا اسے اجاگر کیاگیاہے اور ایک سے زائد نکاح اس مقصد میں بہت معین ہے 
چنانچہ عورتیں ہر حالت میں یکساں نہیں رہتیں بلکہ ان کو کئی ایسے حالات سے سابقہ پڑتا ہے جس میں وہ شوہر کے لئے استمتاع کے کام کی نہیں رہتیں ،
ان کو ہر ماہ ۵،۷ دن حیض آتا ہے جس میں صحبت ممنوع ہے اور حمل کا وقت ایسا ہوتاہے جس میں صحبت نقصان دہ ہوتی ہے اور یہ زمانہ بھی لمبا ہوتاہے 
اب اسکے علاج کی دو شکلیں ہیں 
یاتو مرد کو کہیں بھی اپنے تعلقات قائم کرکے جنسی ضرورت پوری کرنے کی اجازت دے دی جائے جیساکہ یورپ اور مغرب کی تہذیب ہے،کہ وہاں نکاح ثانی تو معیوب ہے البتہ آپ نکاح کے علاوہ کہیں بھی تعلقات رکھیں 
دوسری شکل ہے کہ مرد ایک نکاح اور کرلے اور حلال طریقے سے جنسی تعلقات قائم کرے اور پھر دوسری کے حقوق بھی ادا کریں صرف خواہش کرکے ختم نہ کردے ۔
یہ دو میں سے ظاہر ہے ہر عقلمند کا فیصلہ ہوگا کہ دوسری شکل ہی زیادہ بہتر ہے ۔
(۲) دوسری حکمت حفظ القویٰ ;
مردوں کو اللہ تعالٰی نے فطری طور پر زیادہ قوت عطا فرمائی ہے اور عورت فطرتا کمزور ہے تو مرد کی جنسی تکمیل کے لئے بھی ایک سے زائد نکاح کی اجازت دینا عین عقل کے مطابق ہے 
(۳) تیسری حکمت زوجین میں عدم توافق :
کبھی ایسا ہوتاہے کہ مرد،عورت دونوں نیک اور اپنی جگہ صحیح ہوتےہیں لیکن آپس میں مزاج میں یگانگت و یکسانیت نہیں ہوتی تو اس میں دو صورتیں ہیں :۔کہ یا تو اس پہلی کو چھوڑ دے اور دوسری کرلے 
یا دوسرا نکاح اسکے باقی رہتے ہوئے کرلے ہر عقلمند فیصلہ کرسکتاہے کہ دوسری صورت زیادہ بہتر ہے 
(۴) چوتھی وجہ بانجھ پن :
اگر پہلی بیوی میں اولاد کی طاقت نہیں اور ہر مرد کو اولاد کے حصول کا جذبہ فطری ہوتاہے حتی کہ انبیاء علیہم السلام نے اولاد کے لئے دعائیں کی ہیں تو اب یاتو اسے چھوڑ دے یا اس کو رکھتے ہوئے دوسری کرلے ،ظاہر ہے دوسری صورت بہتر ہے 
(۵) کثرت بنات :
بعض جگہ عورتوں کی بڑی کثرت ہوتی ہیں خود ہمارے یہاں ہی دیکھ لیں کہ کس ودر عورتیں ہیں 
ایسے وقت میں بہتر یہی ہے کہ ایک سے زائد نکاح کی اجازت دیدی جائے تاکہ عورتیں بے نکاح رہ کر گھٹ گھٹ کر زندگی نہ گزاریں 
(۶) بعض مرتبہ حکام و امراء کے لئے تعدد نکاح ایک سیاسی مصلحت بن جاتی ہے جس سے بہت سے فائدے ہوجاتے ہیں 
تاریخ اسکی شاہد ہے، خود نبیﷺ کے حضرت صفیہ رض سے نکاح کرنے کی بناپر سو گھرانے آزاد ہوگئے تھے 
(۷) زنا سے اجتناب :
جہاں نکاح ثانی ممنوع ہوگا اور بیوی صحبت کی متحمل نہ ہوگی تو زنا کے دروازے کھلیں گے اور جہاں نکاح ہوگا بدی کا دروازہ بند ہوگا ۔
(۸) نکاح کا ایک اہم مقصد افزائش نسل ہے جو زیادہ عورتوں کی صورت میں باحسن وجوہ پورا ہوگا 
(کتاب النوازل ص ۱۸۷ ملخصا )
اور غور کیا جائے تو اسلام نے عورتوں کی حفاظت کی اور انکو کھلونا اور ہوس کا ذریعہ بننے سے روکا ہے چنانچہ اسلام سے پہلے شادی میں کوئی حد بندی ہی نہ تھی ،آدمی جتنی چاہے کرتا اور جس کے چاہے حقوق ادا کرتا جسکے چاہے پامال کرتا ،
کئے صحابہءکرام سے منقول ہے ،جب وہ ایمان لائے تو انکے پاس آٹھ،دس بیویاں تھیں نبیﷺ سے فرمایا :
چار کو پسند کرلو باقی کو چھوڑ دو 
اس سے واضح ہوگیا کی اسلام نے تو عورتوں کو تحفظ فراہم کیا ہے ۔
دنیا کے تمام مذاہب نے ایک سے زیادہ بیوی کو قانونی حیثیت دی ہے ،
مشہور اسلامی اسکالر اور محقق ڈاکٹر مصطفٰی سباعی نے اپنی کتاب المراۃ بین الفقہ والقانون میں تحریر فرماتےہیں کہ تمام  قدیم اقوام مثلاﹰ یونانیوں چینیوں ہندوﺅں بابلیوں اشوریوں اور مصریوں میں بھی اس کا رواج موجود تھا لیکن بیویوں کی کوئی تعداد مقرر نہیں تھی، چینی مذہب لبکی میں ایک سو تیس بیویاں رکھنے کی اجازت تھی اور بعض چینی سربراہوں کے یہاں تین ہزار بیویاں تھیں۔
قدیم

ہندوستان میں بھی ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کا چلن تھا ،
۱۔شری رام چندر جی کی اولاد مہاراجہ دسرتھ کی تین بیویاں تھیں ۔
۲۔شری کرشن جی کی سینکڑوں بیویاں تھیں 
(ماخوذ از سہ ماہی خبرنامه مسلم پرسنل لا بورڈ اپریل تا جون ۲۰۱۶ )
ان تفصیلات سے معلوم ہوگیا کہ یہ چیز تمام مذاہب میں رائج تھی 

اب یہ سوال کہ کیا ہر ایک کے لئے ہے یا تخصیص ہے :
تو شریعت نے ایک سے زائد نکاح کے لئے بڑی شرطیں لگائی ہیں 
(۱) عدل ،تمام بیویوں میں مساوات و برابری بہت ضروری ہے 
(۲) حقوق کی ادائیگی پر قدرت 
جس کو ان دو میں سے کسی ایک کی بھی قدرت نہ ہو اسکو ایک سے زائد نکاح کرنا جائز نہیں 
(ماخوذ از معارف القرآن۲،۲۹۴ )
دیکھئے اسلام نے ہر طرح سے عورت کے تحفظ اور اسکے لئے ہر طرح سے اچھا انتظام کیا ،بس شرط ہے کہ انصاف سے دیکھا جائے
والله سبحانہ اعلم  

ابراہیم علیانی
آج کا سوال نمبر 196
23 محرم الحرام ؁ھ1438 مطابق
25اکتوبر ؁ع2016 بروز سہ شنبہ۔۔
............................................................................................
بعض کے نزدیک ایک بیوی پر اکتفاء مناسب نہیں ہے کیونکہ امت کی تعداد میں اضافہ بھی ضروری ہے، تجربہ کی بات یہ ہے کہ اگر جسم میں مردانگی ہو اور کمائی بھی ہو اور دو بیویوں کو سنبھالنے جی صلاحیت بھی تو پھر دو کیا چار بھی کر لینی چاہئے کہ اس سے سب مل کر شوہر کو خوش کرنے کی چکر میں رہیں گی. دو تو کم از کم ہونا چاہئیں، قران پاک میں بھی اوّل حکم دو سے نکاح کا ہے، 
غور کیاجاۓ آیت میں 
فانکحوا مَا باب لکم من النساء مثنی
دو سے شادی کرنے کا حکم دیا تو پتہ چلا کہ شریعت کا تقاضا تعدد کا ہے اور کم سے کم دو ہی کا ہے پھر تین پھر چار، اگر عدل نہ کر سکنے کا اندیشہ ہو تو پھر فواحدہ کہا گیا ہے.
ورنہ اصل تو تعدد ہی کو شریعت چاہتی ہے.
إِنَّ الْعَدْلَ بَيْنَ اثْنَتَيْنِ مُسْتَحِيلٌ ; لِأَنَّهُ عِنْدَمَا يَتَزَوَّجُ الْجَدِيدَةَ لَا بُدَّ أَنْ يَكْرَهَ الْقَدِيمَةَ، فَكَيْفَ يَعْدِلُ بَيْنَهُمَا، وَاللهُ أَمَرَ بِالْعَدْلِ، فَالْأَحْسَنُ وَاحِدَةٌ،
اللہ تعالٰی تم کو بہتر بدلہ دے، آپ کا فورا نکاح کردے اور کنواری عورت سے شادی کروادے اور اللہ آپ کو چار ،چار دیدے.
شیخ محمد صالح المنجد 14022: تعدد زوجات کا حکم اوراس کی حکمت
اللہ سبحانہ وتعالی نے رسالت کو دین اسلام کے ساتھ ختم کیا ہے اور یہ وہی دین اسلام ہے جس کے بارہ میں اللہ تعالی نے یہ بتایا کہ اس کے علاوہ کوئی اور دین قابل قبول نہيں ہوگا۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے اس کا ذکر کرتے ہوئے کچھ اس طرح فرمایا ہے:
{بلاشبہ اللہ تعالی ہاں دین تو اسلام ہی ہے اور جو کوئی بھی دین اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے گا اس سے وہ دین قبول نہیں کیا جائے گا اوروہ آخرت میں بھی خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا} 
آل عمران (85) ۔
تعدد زوجات کے بارہ میں حکم ، پھر اس کی حکمت اورغرض و غایت بھی آپ کے سامنے ہے
اول :
دین اسلام میں تعدد زوجات کاحکم:
تعدد کی اباحت اوراس کے جواز میں شرعی نصوص :
اللہ تبارک وتعالی نے اپنی کتاب عزیز قرآن مجید میں فرمایا ہے:
{اور اگرتمہیں یہ خدشہ ہوکہ تم یتیم لڑکیوں سے نکاح کرکے انصاف نہیں کرسکوں گے تو اور عورتوں میں سے جو بھی تمھیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کرلو ، دو دو ، تین تین، چار چار سے، لیکن اگر تمھیں برابری اور عدل نہ کرسکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا تمہاری ملکیت کی لونڈي ، یہ زيادہ قریب ہے کہ تم ایک طرف جھک پڑنے سے بچ جاؤ} 
النساء ( 3 ) ۔
تو تعدد کے جواز میں یہ نص ہے اور اس آیت سے اس کے جواز پر دلیل ملتی ہے، لہذا شریعت اسلامیہ میں یہ جائز ہے کہ وہ ایک عورت یا پھر دو یا تین یا چار عورتوں سے بیک وقت شادی کرلے، یعنی ایک ہی وقت میں اس کے پاس ایک سے زیادہ بیویاں رہ سکتی ہيں ۔
لیکن وہ ایک ہی وقت میں چار بیویوں سے زيادہ نہیں رکھ سکتا اورنہ ہی اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے، مفسرون، فقہاء عظام اور سب مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کسی نے بھی اس میں کوئي اختلاف نہيں کیا۔
اور یہ بھی علم میں ہونا چاہئے کہ تعدد زوجات کے لیے کچھ شروط بھی ہیں: ان میں سے سب سے پہلی شرط عدل ہے :
اول : عدل :
اس کی دلیل اللہ سبحانہ و تعالی کا مندرجہ ذيل فرمان ہے :
{تو اگر تمھيں یہ خدشہ ہو کہ تم ان کے درمیان برابر اور عدل نہیں کرسکتے تو پھر ایک ہی کافی ہے} النساء ( 3 ) ۔
تواس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تعدد زوجات کے لیے عدل شرط ہے ، اوراگرآدمی کویہ خدشہ ہو کہ وہ ایک سےزیادہ شادی کرنے کی صورت میں عدل و انصاف نہیں کرسکے گا تو پھر اس کےلیے ایک سے زيادہ شادی کرنا منع ہے ۔
اور تعدد کے جواز کے لیے جو عدل اور برابری مقصود اور مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ اسے اپنی بیویوں کے مابین نفقہ، لباس، اور رات بسر کرنے وغیرہ اور مادی امور جن پر اس کی قدرت اور استطاعت ہے میں عدل کرنا مراد ہے۔
اور محبت میں عدل کرنے کے بارہ میں وہ مکلف نہیں اور نہ ہی اس چيز کا اس سے مطالبہ ہے اور نہ ہی وہ اس کی طاقت رکھتا ہے اور پھر اللہ تعالی کے مندرجہ ذيل فرمان کا بھی یہی معنی ہے :
{اور تم ہرگز عورتوں کے مابین عدل نہیں کرسکتے اگرچہ تم اس کی کوشش بھی کرو} النساء (129) ۔
دوم : دوسری شرط:
بیویوں پرنفقہ کی قدرت (خرچہ کرنے کی استطاعت):
اس شرط کی دلیل یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی کتاب عزيز میں کچھ اس طرح فرمایا ہے:
{اور ان لوگوں کو پاکدامن رہنا چاہئے جو اپنا نکاح کرنے کی طاقت نہیں رکھتے حتی کہ اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی کردے} النور ( 33 )

اللہ سبحانہ وتعالی نے اس آیت کریمہ میں یہ حکم دیا ہے کہ جو بھی نکاح کرنے کی استطاعت اورطاقت رکھتا ہو اور اسے کسی قسم کا مانع نہ ہو تو وہ پاکبازی اختیار کرے، اور نکاح کے مانع اشياء میں یہ چيزيں داخل ہيں:
جس کے پاس نکاح کرنے کے لیے مہر کی رقم نہ ہو، اورنہ ہی اس کے پاس اتنی قدرت ہو کہ وہ شادی کے بعد اپنی بیوی کا خرچہ برداشت کرسکے ۔
دیکھیں المفصل فی احکام المراۃ ( 6 / 286 ) ۔
دوم :
تعدد نکاح کی اباحت میں حکمت:
1 – تعدد اس لیے مباح کیا گیا ہے کہ امت مسلمہ کی کثرت ہوسکے ، اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ کثرت شادی کے بغیر نہیں ہوسکتی، اور ایک بیوی کی بہ نسبت اگر زيادہ بیویاں ہوں تو پھر کثرت نسل میں بھی زيادتی ہوگی۔
اور عقلمندوں کے ہاں یہ بات معروف ہے کہ افراد کی کثرت امت کے لیے تقویت کا باعث ہوتی ہے ، اورپھر افرادی قوت کی زيادتی سے کام کرنے کی رفتار بھی بڑھے گی جس کے سبب سے اقتصادیات بھی مضبوط ہوں گی –لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ حکمران ملک میں اگر تدبیری امور صحیح جاری کریں اورموارد سے صحیح طور پر نفع اٹھائيں توپھر-
آپ ان لوگوں کی باتوں میں نہ آئيں کہ جو یہ کہتے پھرتے ہیں کہ افراد کی کثرت سے زمین کے موارد کو خطرہ ہے اور وہ انہیں کافی نہیں رہيں گے، یہ ان کے بات غلط ہے اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالی حکیم و علیم ہے جس نے تعدد کو مشروع کیا اور اپنے بندوں کے رزق کی ذمہ داری بھی خود ہی اٹھائی، اور زمین میں وہ کچھ پیدا فرمایا جو ان سب کے لیے کافی ہے بلکہ اس سے بھی زيادہ ہے، اور اگر کچھ کمی ہوتی ہے تو وہ حکومتوں اور اداروں کے ظلم و زیادتی اور غلط قسم کی پلاننگ کی وجہ سے ہے ۔
مثال کے طور پر آپ سکان اور افرادی قوت کے اعتبار سے سب سے بڑے ملک چین کو ہی دیکھیں جو کہ اس وقت پوری دنیا میں سب سے قوی ملک شمار کیا جاتا ہے، بلکہ کئی ہزار گناہ شمار ہوتا ہے، اور اسی طرح دنیا کا سب سے بڑا صنعتی ملک بھی چین ہی شمار ہوتا ہے، توکون ہے جو چین پر چڑھائی کرنے کا سوچے اور اس کی جرات کرے کاش ؟ اور پھر کیوں ؟
2 - سروے سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں کہيں زيادہ ہے، تواس طرح اگر ہر مرد صرف ایک عورت سے ہی شادی کرے تو اس کا معنی یہ ہوا کہ کتنی ہی عورتوں شادی کے بغیر بچ جائيں گے جو کہ معاشرے اور بذات خود عورت کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوگا ۔
عورت ذات کو جو نقصان پہنچے گا وہ یہ کہ اس کے پاس ایسا خاوند نہیں ہوگا جو اس کی ضروریات پوری کرے اور اس کے معاش اور رہائش وغیرہ کا بندوبست کرے اور حرام قسم کی شہوات سے اسے روک کر رکھے ، اور اس سے ایسی اولاد پید کرے جو کہ اس کی آنکھوں کے لیے ٹھنڈک ہو، جس کی بنا پر وہ غلط راہ پر چل نکلے گی اور ضائع ہوجائے گی سوائے اس کے جس پر آپ کے رب کی رحمت ہو ۔
اور جو کچھ معاشرے کو نقصان اور ضرر ہوگا وہ یہ ہے کہ سب کو علم ہے کہ خاوند کے بغیر بیٹھی رہنے والی عورت سیدھے راستے سے منحرف ہوجائے گی اور غلط اور گندے ترین راستے پر چل نکلے گی، جس سے وہ عورت زنا اور فحش کام میں پڑ جائے گی– اللہ تعالی اس سے بچا کررکھے– اور معاشرے میں فحاشی اور گندے ترین ایڈز اور اس جیسے دوسرے متعدی امراض پھیلیں گے جن کا کوئی علاج نہیں، اور پھر خاندان تباہ ہوں گے اورحرام کی اولاد بہت زيادہ پیدا ہونے لگے گی جسے یہ علم ہی نہیں ہوگا کہ ان کا باپ کون ہے ؟
تو اس طرح انھیں نہ تو کوئی مہربانی اور نرمی کرنے والا ہاتھ ہی میسر ہوگا، اور نہ ہی کوئی ایسی عقل ملے گی جو ان کی حسن تربیت کرسکے، اور جب وہ اپنی زندگی کا آغاز کریں اور اپنی حقیقت حال کا انہیں علم ہوگا کہ وہ زنا سے پیدا شدہ ہیں تو ان کے سلوک پر برا اثر پڑے گا اور وہ الٹ جائيں اور پھر انحراف اور ضائع ہونا شروع ہوجائيں گے ۔
بلکہ وہ اپنے معاشرے پر وبال بن جائيں گے اور اسے سزا دیں گے، اور کسے معلوم ہوسکتا کہ وہ اپنے معاشرے کی تباہی کے لیے کدال بن کر اسے تباہ کرکے رکھ دیں ، اور منحرف قسم کے گروہوں کے لیڈر جن جائيں، جیسا کہ آج دنیا کے اکثر ممالک کی حالت بن چکی ہے۔
3 - مرد حضرات ہر وقت خطرات سے کھیلتے رہتے ہیں جوکہ ہوسکتا ہے ان کی زندگی ہی ختم کردے ، اس لیے کہ وہ بہت زيادہ محنت ومشقت کےکام کرتے ہیں ، کہیں تووہ لڑائيوں میں لشکر میں فوجی ہیں ، تومردوں کی صفوں میں وفات کا احتمال عورتوں کی صفوں سے زيادہ ہے ، جوکہ عورتوں میں بلاشادی رہنے کی شرح زیادہ کرنے کا باعث اورسبب ہے ، اوراس کا صرف ایک ہی حل تعدد ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں کی جائيں ۔
4 – مردوں میں کچھ ایسے مرد بھی پائے جاتے ہيں جن کی شھوت قوی ہوتی ہے اورانہیں ایک عورت کافی نہیں رہتی ، تواگر ایک سے زيادہ شادی کرنے کا دروازہ بند کردیا جائے اوراس سے یہ کہا جائے کہ آپ کو صرف ایک بیوی کی ہی اجازت ہے تو وہ بہت ہی زيادہ مشقت میں پڑجائے گا، اور ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی شھوت کسی حرام طریقے سے پوری کرنے لگے ۔
آپ اس میں یہ بھی اضافہ کرتے چلیں کہ عورت کوہرماہ حیض بھی آتا ہے اورجب ولادت ہوتی ہے توپھر چالیس روز تک وہ نفاس کی حالت میں رہتی ہے جس کی بنا پر مرد اپنی بیوی سے ہم بستری نہیں کرسکتا ، کیونکہ شریعت اسلامیہ میں حيض اورنفاس کی حالت میں ہم بستری یعنی جماع کرنا حرام ہے ، اورپھر اس کا طبی طور پر بھی نقصان ثابت ہوچکا ہے ، تو اس لیے جب عدل کرنے کی قدرت ہوتو تعدد مباح کردیا گیا ۔
5 - یہ تعدد صرف دین اسلامی میں ہی مباح نہیں کیا گيا بلکہ پہلی امتوں میں بھی یہ معروف تھا ، اوربعض انبیاء علیھم السلام کئي عورتوں سے شادی شدہ تھے، دیکھیں اللہ تعالی کے یہ نبی سلیمان علیہ السلام ہیں جن کی نوے بیویاں تھیں، اورعھد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کئي ایک مردوں نے اسلام قبول کیا تو ان کے پاس آٹھ بیویاں تھیں اوربعض کی پانچ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ ان میں سے چار کورکھیں اورباقی کوطلاق دے دیں ۔
6 – ہوسکتا ہے ایک بیوی بانجھ ہو یا پھر خاوند کی ضرورت پوری نہ کرسکے، یا اس کی بیماری کی وجہ سے خاوند اس سے مباشرت نہ کرسکے ، اورخاوند کوئي ایسا ذریعہ تلاش کرتا رہے جوکہ مشروع ہو اور وہ اپنی ازواجی زندگی میں اپنی خواہش پوری کرنا چاہے جوکہ اس کے لیے مباح ہے تواس کے لیے اس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ دوسرے شادی کرے ۔
تواس لیے عدل و انصاف اوربیوی کے بھلای یہی ہے کہ وہ بیوی بن کر ہی رہے اور اپنے خاوند کو دوسری شادی کرنے کی اجازت دے دے ۔
7 - اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عورت آدمی کے قریبی رشتہ داروں میں سے ہوجس کا کوئي اعالت کرنے والا نہ ہو اور وہ شادی شدہ بھی نہیں یا پھر بیوہ ہو اوریہ شخص خیال کرتا ہوکہ اس کے ساتھ سب سے بڑا احسان یہی ہے کہ وہ اسے اپنی بیوی بنا کر اپنے ساتھ اپنی پہلی بیوی کےساتھ گھر میں رکھے تا کہ اس کے لیے عفت و انفاق دونوں جمع کردے جوکہ اسے اکیلا چھوڑنے اوراس پر خرچ کرنے سے زيادہ بہتر ہے ۔
8 - کچھ مشروع مصلحتیں جو تعدد کی دعوت دیتی ہيں :
مثلا دوخاندانوں کے مابین روابط کی توثیق ، یا پھر کسی جماعت اورکچھ افراد کے رئیس اوران کے مابین راوبط کی توثیق، اوروہ یہ دیکھے کہ یہ غرض شادی سے پوری ہوسکتی ہے اگرچہ اس پرتعدد ہی مرتب ہو یعنی اسے ایک سے زيادہ شادیاں کرنی پڑیں ۔
اعتراض :
ہوسکتا ہے کوئی اعتراض کرتاہوا یہ کہے :
تعدد یعنی ایک سے زائد بیویاں کرنے میں ایک ہی گھر میں کئي ایک سوکنوں کا وجود پیدا ہوگا ، اوراس بنا پر سوکنوں میں دشمنی و عداوت اورفخر ومقابلہ پیدا ہوجائے گا جس کا اثر گھر میں موجود افراد یعنی اولاد اور خاوند پربھی ہوگا، جوکہ ایک نقصان دہ چيز ہے ، اورضرر ختم ہوسکتا ہے اوراسے ختم کرنے کے لیے تعدد زوجات کی ممانعت ضروری ہے ۔
اعتراض کا رد :
اس کا جواب یہ ہے کہ :
خاندان میں ایک بیوی کی موجودگی میں بھی نزاع اورجھگڑا پیدا ہوسکتا ہے، اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک سے زيادہ بیویاں ہونے کی صورت میں نزاع اورجھگڑا پیدا نہ ہو ، جیسا کہ اس کا مشاہدہ بھی کیاگيا ہے ۔
اوراگرہم یہ تسلیم بھی کرلیں کہ ایک بیوی کی بنسبت زیادہ بیویوں کی صورت میں نزاع اورجھگڑا زيادہ پیدا ہوتا ہے ، تواگرہم اس جھگڑے کوضرر اورنقصان اورشر بھی شمار کرلیں تویہ سب کچھ بہت سی خير کے پہلو میں ڈوبا ہوا ہے ، اورپھر زندگی میں نہ توصرف خير ہی خير ہے اورنہ ہی صرف شر ہی شر ، مطلب یہ ہے کہ مقصود و مطلوب وہ چيز ہے جو کہ غالب ہو تو جس کے شر پر خیر اوربھلائی غالب ہوگی اسے راجح قرار دیا جائے گا ، اورتعدد میں بھی اسی قانون کومد نظر رکھا گيا ہے ۔
اورپھر ہر ایک بیوی کا مستقل اورعلیحدہ رہنے کا شرعی حق ہے ، اورخاوند کے لیے جائز نہيں کہ وہ اپنی بیویوں کو ایک ہی مشترکہ گھرمیں رہنے پر مجبور کرے ۔
ایک اوراعتراض :
جب تم مرد کے لیے ایک سے زیادہ شادیاں کرنا مباح کرتے ہو توپھر عورت کے لیے تعدد کیوں نہیں ، یعنی عورت کویہ حق کیوں نہیں کہ ایک سے زیادہ آدمیوں سے شادی کرسکے ؟
اس اعتراض کا جواب :
عورت کواس کا کوئي فائدہ نہيں کہ اسے تعدد کا حق دیا جائے ، بلکہ اس سے تو اس کی قدر اورعزت میں کمی واقع ہوگی ، اوراس کی اولاد کا نسب بھی ضائع ہوگا ، اس لیے کہ عورت نسل بننے کا مستودع ہے ، اورنسل کا ایک سے زيادہ مردوں سے بننا جائز نہیں اورپھر اس میں بچے کے نسب کا بھی ضياع ہے ۔
اوراسی طرح اس کی تربیت کی ذمہ داری بھی ضائع ہوگی اورخاندان بکھر جائے گا اولاد کے لیے باپ کے روابط ختم ہوجائيں گے جوکہ اسلام میں جائز نہیں ، اوراسی طرح یہ چيز عورت کی مصلحت میں بھی شامل نہيں اورنہ ہی بچے اورمعاشرے کی مصلحت میں ہے۔
دیکھیں المفصل فی احکام المراۃ ( 6 / 290 ) ۔
واللہ اعلم .


No comments:

Post a Comment