Thursday 10 November 2016

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر

ایس اے ساگر
ڈاکٹر اقبال کی یوم ولادت کی مناسبت سے دنیا بھر میں یوم اردو منایا جاتا ہے. لیکن اس بات کو فراموش کر دیا جاتا ہے کہ شاعر مشرق کو ٹیپو سلطان شہید سے کتنی محبت تھی. حتی کہ 1929 کے دوران جب آپ نے شہید سلطان کے مزار پر حاضری دی اور تین گھنٹے بعد باہر نکلے تو شدّت جذبات سے آنکھیں سرخ تھیں۔ آپ نے فرمایا،
"ٹیپو کی عظمت کو تاریخ کبھی فراموش نہ کرسکے گی وہ مذہب ملّت اور آزادی کے لئے آخری دم تک لڑتا رہا یہاں تک کے اس مقصد کی راہ میں شہید ہوگیا."

شیر کی زندگی:

شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے، یہ فقرہ ہر بہادر شخص کی زبان پر عام ہے.  لیکن عام طور پر لوگوں کو علم نہیں کہ یہ کس نے کہا تھا. رہی سہی کسر متعصب عناصر نے پوری کردی ہے. نصاب کی کتب سے آپ کے تذکرے کو پہلے ہی حذف کیا ہوا تھا جبکہ حالیہ ایام میں آپ کو مجاہد آزادی تسلیم کرنے سے بھی انکار کردیا گیا ہے. جبکہ مذکورہ مشہور و معروف جملہ سلطان فتح علی ٹیپو کا ہے۔ جو بعد میں ایک ضرب المثل کے طور پر مشہور ہوگیا، لیکن اس کا کیا کیجئے کہ فرقہ پرست سیاست کے سبب نئی نسل اس اس سے ناواقف ہے. انھیں کون بتائے کہ مورخین شاہد ہیں کہ ٹیپو سلطان 10 نومبر 1750 کو پیدا ہوئے۔ تریخ کی کتب میں آپ کو بھلے ہی کلین شیو دکھایا جاتا ہو لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے تاہم  ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف جدوجہد کرنے والے آپ آخری حکمران تھے۔ آپ کا پورا نام فتح علی ٹیپو تھا۔ آپ نے اور آپ کے والد سلطان حیدر علی نے جنوبی ہند میں 50 سال تک انگریزوں کو روکے رکھا اور کئی بار انگریزی افواج کو شکست فاش دی۔ سلطان ٹیپو کی والدہ کا نام فاطمہ اور والد کا نام حیدر علی تھا۔ سلطان حیدر علی کو قدرت نے جنوبی ہند میں ایک وسیع و عریض سلطنت سے نوازا تھا لیکن وہ سلطنت کے وارث سے محروم تھے۔ اس سلطنت میں آج کا بنگلور بھی شامل تھا جو آج ملک بھر میں جدید ٹیکنالوجی کا مرکز تسلیم کیا جاتا ہے۔ ٹیپو نام کی وجہ شہرت ایک تاریخی روایت ہے کہ حیدر علی نے جنوبی ہندوستان کے شہر اوکاٹ میں ایک مشہور ولی ٹیپو مستان کے مزار پر حاضری کے دوران اللہ تعالی سے بیٹے کی دعا مانگی ۔ اور مراد پوری ہونے پر بزرگ کے نام پر ہی بچے کا نام رکھنے کی نیت بھی کی اور جب 10نومبر 1750ء کو بیٹا پیدا تولد ہوا تو اس کا نام ٹیپو رکھا۔ ٹیپو کے دادا کا نام فتح محمد تھا۔ ٹیپو نے اپنے ایک بیٹے کا نام فتح حیدر رکھا جو ٹیپو کے باپ اور دادا کے ناموں کا امتزاج تھا۔ خود ٹیپو کا نام 'فتح علی خان' مشہور ہوا جس کا پہلا لفظ ان کے دادا کا نام اور دوسرا لفظ باپ کے نام کا آخری لفظ تھا۔ تاہم ان کا پیدائشی نام فتح علی نہیں تھا، اور ٹیپو ان کا لقب نہیں بلکہ پیدائشی نام تھا۔ اپنے بیٹے فتح حیدر کی نسبت سے ان کی کنیت ابوالفتح تھی. آپ نے برطانوی سامراج کے خلاف ایک مضبوط مزاحمت فراہم کی اور برصغیر کے لوگوں کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کروانے کے لئے ناقابل فراموش عملی اقدامات کئے۔ سلطان نے نہ صرف انتہائی دوررس اثرات کی حامل فوجی اصلاحات نافذ کیں بلکہ صنعت و تجارت کو بھی فروغ دیا. آپ نے انتظامیہ کو ازسرنو منظم کیا. سلطان کو اس بات سے اتفاق تھا کہ برصغیر کے لوگوں کا پہلا مسئلہ برطانوی حکومت کا اخراج ہے۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ نظام حیدرآباد دکن اور مرہٹوں نے ٹیپو کی طاقت کو اپنی بقا کیلئے نہ صرف  خطرہ سمجھا بلکہ انگریزوں سے اتحاد بھی قائم کرلیا۔

ٹیپو سلطان نے ترکی، ایران، افغانستان اور فرانس سے مدد حاصل کرنے کی کوششیں کیں مگر کا میاب نہ ہوسکے۔ میسور کی آخری جنگ کے دوران جب سرنگاپٹم کی شکست یقینی ہوچکی تھی سلطان ٹیپو نے محاصرہ کرنے والے انگریزوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کی اور قلعے کو بند کروا دیا، لیکن غدار ساتھیوں نے دشمن کیلئے قلعے کا دروازہ کھول دیا اور قلعے کے میدان میں زبردست جنگ چھڑ گئی۔ بارُود کے ذخیرے میں آگ لگ جانے کے باعث مزاحمت کمزور ہوگئی اس موقع پر فرانسیسی افسر نے ٹیپو کو Chitaldrug بھاگ جانے اور اپنی جان بچانے کا مشورہ دیا مگر سلطان ٹیپو راضی نہ ہوئے اور اسی موقع پر آپ نے وہ تاریخی جملہ کہا،
"شیر کی ایک دن کی زندگی ، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔"
آخر کار 1799ء میں دوران جنگ سر پر گولی لگنے سے شہید ہوگئے۔ انگریز آپ کو لاش کے قریب آتے ہوئے بھی ڈرتے تھے کہ کہیں یہ پھر نہ کھڑے ہوجائیں۔کیونکہ ان کی بہادری بہت مشہور تھی۔ شہادت کی اطلاع جب انگریز جنرل کو ہوئی تو وہ خوشی سے پھولا نہ سمایا۔ اور سلطان کی لاش کے قریب آیا اور اس موقع پر جنرل نے ایک بہادر سپاہی کی طرح شیر میسور کو سلیوٹ کیا اور تاریخی جملہ کہا کہ،
”آج سے ہندوستان ہمارا ہے، اب کوئی طاقت ہماری راہ نہیں روک سکتی.“
اور اس کی نعش اندر محل کے زنان خانے میں بھجوائی تاکہ اہلخانہ اس کا آخری دیدار کریں اس کے ساتھ ہی آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھک گیا۔ جب سلطان کی قبر کھودی جانے لگی تو آسمان کا سینہ بھی شق ہو گیا اور چاروں طرف غیض و غضب کے آثار نمودار ہوئے، بجلی کے کوندے لپک لپک کر آسمان کے غضب کا اظہار کر رہے تھے۔ اور آسمان بھی اس عظیم لیڈر کی شہادت پر خوب رویا۔

انداز حکمرانی :

ٹیپو سلطان کی زندگی ایک سچے مسلمان کی زندگی تھی مذہبی تعصب سے پاک تھے، یہی وجہ تھی کہ غیر مسلم ان کی فوج اور ریاست میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ ٹیپو سلطان نے اپنی مملکت کو مملکت خداداد کا نام دیا ۔حکمران ہونے کے باوجود خود کو عام آدمی سمجھتے ۔باوضو رہنا اور تلاوت قرآن آپ کے معمولات میں سے تھے۔ ظاہری نمودو نمائش سے اجتناب برتتے۔ ہر شاہی فرمان کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کیا کرتے تھے۔ زمین پر کھدر بچھا کر سویا کرتے تھے۔

علم دوست حکمران:

ٹیپو سلطان ہفت زبان حکمران کہے جاتے ہیں آپ کو عربی، فارسی، اردو، فرانسیسی، انگریزی سمیت کئی زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔ آپ مطالعے کے بہت شوقین تھے اور زاتی کتب خانے کے مالک تھے جس میں کتابوں کی تعداد کم و بیش 2000 بیان کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ آپ سائنسی علوم میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔ آپ کو برصغیر میں راکٹ سازی کا موجد کہا جاتا ہے۔

عظیم سپہ سالار:

ہر جنگ میں اپنی افواج کے شانہ بشانہ رہنے والے ٹیپو سلطان اپنے زمانے کے تمام فنون سپہ گری سے واقف تھے۔ اپنی افواج کو پیادہ فوج کی بجائے سواروں اور توپ خانے کی شکل میں زیادہ منظّم کیا۔ اسلحہ سازی، فوجی نظم و نسق اور فوجی اصلاحات میں تاریخ ساز کام کیا۔ میسور کی چوتھی جنگ جو سرنگاپٹم میں لڑی گئی جس میں سلطان نے کئی روز قلعم بند ہوکر مقابلہ کیا مگر سلطان کی فوج کے دو غدّار میر صادق اور پورنیا نے اندورن خانہ انگریزوں سے ساز باز کرلی تھی۔ میر صادق نے انگریزوں کو سرنگاپٹم کے قلعے کا نقشہ فراہم کیا اور پورنیا اپنے دستوں کو تنخواہ دینے کے بہانے پیچھے لے گيا۔ شیر میسور کہلانے والے ٹیپو سلطان نے داد شجاعت دیتے ہوئے کئی انگریزوں کو جہنم واصل کیا اور سرنگاپٹم کے قلعے کے دروازے پر جامِ شہادت نوش فرمایا. 

انا للہ وانا الیہ راجعون

لیکن ڈاکٹر اقبال کو 'ضرب کلیم' میں یہ کہنے کے لئے مجبور کر گئے کہ

فتویٰ ہے شیخ کا، یہ زمانہ قلم کا ہے
دنیا میں‌ اب رہی نہیں تلوار کار گر

لیکن جنابِ شیخ کو معلوم کیا نہیں
مسجد میں اب یہ وعظ ہے، بے سود و بے اثر

تیخ و تفنگ دستِ مسلماں میں ہے کہاں
ہوں بھی تو دل ہیں موت کی لذت سے بے خبر

کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل
کہتا ہے اسے کون کہ مسلماں کی موت مر

باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے
یوروپ زرہ میں ڈوب گیا، دوش تا کمر

ہم پوچھتے ہیں شیخِ کلیسا نواز سے
مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر

حق سے اگر ہے غرض تو زیبا ہے کیا یہ بات
اسلام کا محاسبہ، یوروپ سے در گزر

No comments:

Post a Comment