سوال: بد اخلاق بیوی کے شوہر کی دعا قبول نہیں ہوتی؟
ایک روایت کی تحقیق دریافت کرنی ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا: ”تین قسم کے آدمی دعا تو کرتے ہیں لیکن ان کی دعا قبول نہیں ہوتی: (۱) وہ شخص جس کی بیوی برے اخلاق والی ہو اور وہ اسے طلاق نہ دے۔ (۲) وہ آدمی جس نے کسی سے قرضہ لینا ہو لیکن اس پر کوئی گواہ نہ بنایا ہو اور (۳) وہ آدمی جس نے بیوقوف (یعنی مال کے انتظام کی صلاحیت نہ رکھنے والے چھوٹے یا ناتجربہ کار) آدمی کو مال دے دیا ہو، حالانکہ الله تعالیٰ نے فرمایا: اپنے اموال بیوقوفوں کے حوالے نہ کردو۔“
••• باسمہ تعالی •••
الجواب وبہ التوفیق:
اس روایت کو امام حاکمؒ نے مؔستدرک میں (مرفوعا) ذکر کیا ہے اور پھر روایت پر کلام فرماتے ہوئے لکھا ہے کہ: حضرات شیخینؒ (بخاری و مسلم) نے اس روایت کو ذکر نہیں کیا؛ کیونکہ اس کی سند میں جو راوی ہیں امام شعبہؒ ان کے بعض اصحاب اس کو موقوفا بیان کرتے ہیں، یعنی اس روایت کو وہ حضرت ابوموسی اشعریؓ صحابی رسول کا فرمان کہتے ہیں:
🔰 المستدرک علی الصحیحین 🔰
حدثني علي بن حمشاد العدل، ثنا أبوالمثني معاذ بن معاذ العنبري، ثنا أبي، ثنا شعبة، عن فراس، عن الشعبي، عن أبي بردة، عن أبي موسى الأشعري، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "ثلاثة يدعون الله، فلا يستجاب لهم: رجل كانت له امرأة سيئة الخلق فلم يطلقها، ورجل كان له على رجل مال فلم يشهد عليه، ورجل أعطى سفيها ماله، وقد قال عز وجل: (ولا تؤتوا السفهاء أموالكم) [النساء: 5].
هذا حديث صحيح علي شرط الشيخين، ولم يخرجاه؛ لتوقيف أصحاب شعبة هذا الحديث علي أبي موسي.
٭ المصدر: المستدرك
٭ المحدث: حاكمؒ
٭ المجلد: 2
٭ الصفحة: 331
٭ الرقم: 3181
٭ الطبع: دارالكتب العلمية، بيروت، لبنان.
🌷شیخ البانیؒ کی تحقیق🌷
اس روایت کو شؔیخ البانیؒ نے اپنی السلسلة الصحیحة میں جگہ دی ہے اور دونوں باتیں ذکر کی ہیں:
1) یہ روایت مرفوع نہیں؛ بل کہ حضرت ابوموسی اشعریؓ کا ارشاد ہے ( جیسا کہ امام حاکمؒ کے حوالے سے سطور بالا میں ذکر ہوا)
2) اس روایت کا متابع (مرفوع ہونے میں) موجود ہے.
♻️ السلسلة الصحيحة ♻️
١٨٠٥ - "ثلاثة يدعون فلا يستجاب لهم : رجل كانت تحته امرأة سيئة الخلق فلم يطلقها،"
و رجل كان له على رجل مال فلم يشهد عليه ، و رجل آتى سفيها ماله و قد قال الله عز وجل: (و لا تؤتوا السفهاء أموالكم)."
"قال الألباني: رواه ابن شاذان في "المشيخة الصغرى" (٥٧ / ١) و الحاكم ( ٢ / ٣٠٢ ) من طريقين: عن أبي المثنى معاذ بن معاذ العنبري حدثنا أبي حدثنا شعبة عن فراس عن الشعبي عن أبي بردة عن أبي موسى الأشعري مرفوعا ، و قال الحاكم : "صحيح" على شرط الشيخين و لم يخرجاه لتوقيف أصحاب شعبة هذا الحديث على أبي موسى الأشعري ". و وافقه الذهبي .
"قلت : كذا وقع في "المستدرك" : "أبي المثنى معاذ بن معاذ العنبري حدثنا أبي" "و في" المشيخة": معاذ بن المثنى أخبرنا أبي"
و كل ذلك من تحريف النساخ و الصواب: "المثنى بن معاذ بن العنبري" كما يتضح من الرجوع إلى ترجمة الوالد و الولد من "تاريخ بغداد" و "تهذيب التهذيب" و غيرهما،
و قد جزم الطحاوي في "مشكل الآثار" (٣ / ٢١٦) أن معاذ بن معاذ العنبري قد حدث به عن شعبة۔
ثم إنهما ثقتان غير أن المثنى لم يخرج له البخاري شيئا۔
فالسند ظاهره الصحة، لكن قد يعله توقيف أصحاب شعبة له إلا أنه لم ينفرد به معاذ بن معاذ بل تابعه داود بن إبراهيم الواسطي : حدثنا شعبة به . أخرجه أبو نعيم في "مسانيد أبي" يحيى فراس" (ق ٩٢ / ١).
و داود هذا ثقة كما في" الجرح "( ١ / ٢ / ٤٠٧ )۔"
و تابعه عمرو بن حكام أيضا، و فيه ضعف۔
أخرجه أبو نعيم أيضا و الطحاوي۔
و تابعه عثمان بن عمر و هو ثقة أيضا قال حدثنا شعبة به۔
أخرجه الديلمي (٢ / ٥٨). و قد وجدت له طريقا أخرى عن الشعبي.
رواه ابن عساكر (٨ / ١٨٢ / ١ - ٢) عن إسحاق بن وهب - و هو بخاري - عن الصلت بن بهرام عن الشعبي به .
لكن إسحاق هذا ذكره الخليلي في "الإرشاد" و قال: "يروى عنه ما يعرف و ينكر ، و نسخ" رواها الضعفاء"
★ المصدر: السلسلة الصحيحة
★ المحدث: الشيخ البانيؒ
★ المجلد: 4
★ الصفحة: 420
★ الرقم: 1805
★ الطبع: مكتبة المعارف، للنشر والتوزيع، الريـاض.
🕯️ حديث كا مطلب 🕯️
امام عبدالرؤف مناویؒ ”فیض القدیر“ میں لکھتے ہیں کہ کسی کی بیوی بد خلق ہو اور شوہر کو تنگ کرتی ہو اس کی زندگی اور گھر کا سکون غارت کردیا ہو اصلاح کے بعد بھی وہ باز نہ آتی ہو اور ایسا شخص پھر دعا کرے کہ اللہ مجھے اس بیوی سے چھٹکارا دلادے تو یہ دعا کارگر نہ ہوگی؛ کیونکہ شوہر کے پاس اختیار موجود ہے کہ طلاق دے کر حسب اقتضائے شرع رخصت کردے.
اسی طرح کسی نے کسی کو مال حوالہ کردیا اور اس پر کسی طرح کا گواہ اور لکھت پڑھت نہ کی پھر وہ شخص مال سے مکر گیا تو اب دعا کیا کرے گی؛ کیونکہ غلطی تو خود کیے بیٹھا ہے یعنی پہلے تدبیر و اسباب اختیار کرتا پھر دعا کرتا.
اسی طرح جب اللہ نے فرمادیا کہ بے وقوف کو مال سپرد مت کرو (وہ مال کو ضائع ہی کرے گا) لیکن کوئی شخص پھر بھی بے وقوفوں کے حوالے کوئی مال و متاع کردے پھر دعا کرے کہ میرا مال حاصل ہوجائے تو یہ دعا بھی کارگر نہیں یعنی اپنے حماقت کو اب دعا سے سدھارا نہیں جاسکتا۔ (دنیا دارالاسباب ہے اسباب کو اختیار کرنا اور غیر دانشمندانہ حرکت کرنے سے خود کو بچانا مومن کی شان ہے یہ نہ ہو کہ پاؤں پر کلہاڑی مارکر پھر دعاؤں سے اس کی اصلاح کی جائے)
(ثَلَاثَةٌ يَدْعُونَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ؛ فَلَا يُسْتَجَابُ لَهُمْ: رَجُلٌ كَانَتْ تَحْتَهُ امْرَأَةٌ سَيِّئَةُ الْخُلُقِ)؛ بِالضَّمِّ؛ (فَلَمْ يُطَلِّقْهَا) ؛ فَإِذَا دَعَا عَلَيْهَا لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ؛ لِأَنَّهُ الْمُعَذِّبُ نَفْسَهُ بِمُعَاشَرَتِهَا؛ وَهُوَ فِي سَعَةٍ مِنْ فِرَاقِهَا؛ (وَرَجُلٌ كَانَ لَهُ عَلَى رَجُلٍ مَالٌ فَلَمْ يُشْهِدْ عَلَيْهِ)؛ فَأَنْكَرَهُ؛ فَإِذَا دَعَا لَا يُسْتَجَابُ لَهُ؛ لِأَنَّهُ الْمُفَرِّطُ الْمُقَصِّرُ؛ بِعَدَمِ امْتِثَالِ قَوْلِهِ (تَعَالَى): وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ ؛ (وَرَجُلٌ آتَى سَفِيهًا) ؛ أَيْ: مَحْجُورًا عَلَيْهِ بِسَفَهٍ؛ (مَالَهُ) ؛ أَيْ: شَيْئًا مِنْ مَالِهِ؛ مَعَ عِلْمِهِ بِالْحَجْرِ عَلَيْهِ؛ فَإِذَا دَعَا عَلَيْهِ لَا يُسْتَجَابُ لَهُ؛ لِأَنَّهُ الْمُضَيِّعُ لِمَالِهِ؛ فَلَا عُذْرَ لَهُ؛ (وَقَدْ قَالَ اللَّهُ (تَعَالَى): وَلا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ)۔
(ك) ؛ فِي التَّفْسِيرِ؛ (عَنْ أَبِي مُوسَى)؛ الْأَشْعَرِيِّ ؛ قَالَ الْحَاكِمُ: عَلَى شَرْطِهِمَا؛ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ؛ لِأَنَّ الْجُمْهُورَ رَوَوْهُ عَنْ شُعْبَةَ مَوْقُوفًا؛ وَرَفَعَهُ مُعَاذٌ عَنْهُ؛ انْتَهَى؛ وَأَقَرَّهُ الذَّهَبِيُّ فِي التَّلْخِيصِ؛ لَكِنَّهُ فِي الْمُهَذَّبِ قَالَ: هُوَ مَعَ نَكَارَتِهِ إِسْنَادُهُ نَظِيفٌ.
÷ المصدر: فيض القدير
÷ المحدث: الإمام المناوي
÷ المجلد: 3
÷ الصفحة: 336
÷ الرقم: 3554
÷ الطبع: دارالمعرفة، بيروت، لبنان.
نوٹ: اس روایت کو (باوجودیکہ ضعیف ہے) بیان کیا جاسکتا ہے، نیز دعا قبول نہ ہونا فقط اسی خاص صورت کے لئے ہے (کہ خود کردہ را علاج نیست) یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر معاملے میں دعا بے اثر ہوگی۔
وﷲ تعالی اعلم
(✍🏻... کتبہ: محمد عدنان وقار صدیقی، 20 اكتوبر، 2024) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2024/12/blog-post_31.html
No comments:
Post a Comment