Tuesday 28 November 2023

بے راہ رو مسلم حکمرانوں کو نصیحت کرنا فریضہ دینی ہے

بے راہ رو مسلم حکمرانوں کو نصیحت کرنا فریضہ دینی ہے 
-------------------------------
--------------------------------
سوال: ایک غیر مقلد نے منسلکہ پوسٹ ارسال کی ہے. 
اس کا کیا جواب دیا جائے ؟ رہبری فرمائیں. اس شخص کا کہنا ہے کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب حکمراں کا فسق و فجور میں مبتلا ہونا اور فلسطین کے تعلق سے ان کا سکوت یہ قابل مواخذہ نہیں ہے.
الجواب و باللہ التوفیق:
مرسلہ پوسٹ ذیل کی حدیث کا ناقص ترجمہ ہے 
پوری حدیث یوں ہے: 
خِيارُ أئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ تُحِبُّونَهُمْ ويُحِبُّونَكُمْ، وتُصَلُّونَ عليهم ويُصَلُّونَ علَيْكُم، وشِرارُ أئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ تُبْغِضُونَهُمْ ويُبْغِضُونَكُمْ، وتَلْعَنُونَهُمْ ويَلْعَنُونَكُمْ، قالوا: قُلْنا: يا رَسولَ اللهِ، أفَلا نُنابِذُهُمْ عِنْدَ ذلكَ؟ قالَ: لا، ما أقامُوا فِيكُمُ الصَّلاةَ، لا، ما أقامُوا فِيكُمُ الصَّلاةَ (صحيح مسلم: 1855) 
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تمہارے بہترین حکمراں وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کريں، تم ان کے حق ميں دعائے خير کرو اور وہ تمہارے حق ميں دعائے خير کریں۔ اور تمہارے بدترین حکمراں وہ ہیں جنہیں تم ناپسند کرو اور وہ تمہیں ناپسند کريں، تم ان پر لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں-“ عوف بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا ہم ان کی بيعت توڑ کر ان کے خلاف بغاوت نہ کريں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں‘ جب تک وہ تم میں نماز قائم کرتے رہیں۔ نہیں‘ جب تک وہ تم میں نماز قائم کرتے ہیں.“
اس حدیث پاک کا مفہوم یہ ہے کہ مسلم حکمرانوں میں سے کچھ تو نیک ہوں گے اور کچھ فاسق اور بے دین ہوں گے۔ اس کے باوجود جب تک وہ شعائرِاسلام کی حفاظت کرتے رہيں جس میں نمازسب سے اہم ہے، ان کے خلاف خروج وبغاوت جائز نہیں ہے۔ 
یعنی مسلمانوں کی شیرازہ بندی اور آپسی اتحاد واتفاق کے مقصد سے ان کے خلاف بغاوت کرنے اور مسلح ونگ کے ذریعے حملہ آور ہونے سے منع کیا گیا ہے، اسے خارجیت قرار دیا گیا ہے، 
یہ مطلب نہیں ہے کہ حکمرانوں کو شتر بے مہار چھوڑ دیا جائے کہ جو کچھ بھی کرتے رہیں اس کی تحسین وتائید کی جاتی رہے. صحیحین کی حدیث: 
"الدين النصيحة» قلنا: لمن؟ قال: «لله، ولكتابه، ولرسوله، ولأئمة المسلمين وعامتهم" 
کے بموجب ہر مومن کا دینی فریضہ ہے؛ بلکہ دین اس بات پر منحصر ہے  کہ بندہ مومن حالات وواقعات کے تقاضوں کے مطابق معتدل ومتوازن انداز اور شائستہ ومؤثر لب ولہجے میں، ان کے ادب واحترام اور حیثیت عرفی کی رعایت کے ساتھ، ملکی آئین ودستور کی حدود میں رہتے ہوئے  حکمرانوں کو حق بات کی نصیحت کرتا رہے، انہیں تقریر وتحریر، مضمون، کالم نویسی، تصنیف وتالیف اور پر امن احتجاج اور بوقت ضرورت بالمشافہ ملاقاتوں کے ذریعے ایسی چیز کی طرف ان کی رہنمائی کرتا رہے جس سے وہ ناآشنا ہیں اور جس چیز کو وہ بھول چکے ہیں یا جس سے وہ غافل ہیں اس کی یاد دہانی کراتا رہے، علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں 
مجھے ہے حکم اذاں لاالٰہ الاّ اللہ
یعنی مسلمانوں کے ذہن ودماغ میں مفادات ، مرغوبات ، ترجیحات اور عقائد وخیالات کی صورت میں مختلف غیر حسی بت پوشیدہ ہیں، جو مومنین کو تقاضۂِ ایمانی سے برگشتہ کرتے رہتے ہیں، ایسے میں ہر مومن  کی ذمہ داری ہے کہ بالعموم دنیا اور بالخصوص مسلمانوں کے لئے "برہانِ اسلام" کا اعادہ کرتا رہے، یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود وحاکمِ وقت قابل اتّباع وپیروی نہیں!  
مرکز البحوث الإسلامية العالمي ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2023/11/blog-post_28.html

No comments:

Post a Comment