Friday 10 November 2023

اذان کے کلمات میں کتنا مد کیا جائے؟

اذان کے کلمات میں کتنا مد کیا جائے؟
سوال:مکرم ومحترم حضرت مولانا مفتی نظام الدین صاحب زیدمجدہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج فجرکی اذان کی آواز پر تحقیق کرنے پر ظاہر ہوا کہ دارالعلوم کی مسجد کی اذان ہے، اور اس طرح ہوئی ہے متعدد کلمات میں مد زیادہ مسموع ہوا، نیز بعض کلمات میں تمطیط بھی ظاہر ہوئی، اس سلسلہ میں اپنی معلومات کی بناء پر ایسی اغلاط کی اصلاح کی سعی کرتا رہتا ہے۔ براہ کرم آپ بھی اپنی تحقیق سے مطلع فرماکر ممنون فرماویں۔
ومن ثم تاکد علی الموذنین ان یحترز وامن اغلاط یقعون فیہا فان بعضہا کفر وبعضہا لحن خفی کترک ادغام دال محمد فی راء رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم- ومدّ الف اﷲ والصلوٰۃ والفلاح الخ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ،ج:۱، باب اذان(ای المدّالطبعی) مقدار الف وصلاً ووقفاً ونقصہ عن الف حرام شرعاً فیعاقب علی فعلہ ویثاب علی ترکہ۔ فما یفعلہ بعض ائمۃ المساجد واکثر الموذنین من الزیادۃ فی المدالطبعی علی حدّہ العرفی ای عرف القرّاء۔ فمن اقبح البدع واشد الکراہۃ۔ وقد یقتدی بہم بعض الجہلۃ من القرّاء۔ بنات القول المفید فی علم التجوید
۔المستفتی: ابرارالحق
(حضرت مولانا ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم خلیفہ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ)
-------
جواب: محترمی المحترم دامت برکاتہم وعمت وتمت بالخیر والعافیۃ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
جناب والا تو احقر کے نزدیک مستند ہیں اور آپ کی سب باتیں سند کے درجہ میں سمجھتا ہوں، پس جتنی باتیں آنجناب نے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ سے نقل فرمائی ہیں وہ سب بھی صحیح ہیں، جناب کا اتنا فرمادینا بھی کافی تھا کہ مؤذنین کی غلطیوں کی اصلاح کرو اوراس طرح کرو اور بس مگر جناب نے فرمادیا کہ اپنی تحقیق سے مطلع کرو، اس کی تفصیلات تتمیماللفائدۃ چند روایات جو اذان سے متعلق ہیں پہلے نقل کردی جاتی ہیں، مثلاً۔
(۱) ابوداؤد شریف باب کیف الاذان یرفع، کہ صاحب رؤیا عبداللہ بن زید کو خود اذان دینے کا حکم دینے کے بجائے حضرت عبداللہ بن زید کو حکم فرمایا کہ قم مع بلال فالق علیہ ما رأیت فلیؤذن بہ فانّہ اندیٰ صوتامنک فقمت ُ مع بلال الخ۔ اسی حدیث پاک کے اندر اشارہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیاد پر شارح مشکوٰۃ صاحبؒ اشعۃ اللمعات باب کیف الاذان میں اندیٰ صوتامنک کا ترجمہ اس طر ح فرماتے ہیں زیر اکہ بدرستی تیز تروبلند تروشیریں تر است۔
(۲) عن ابی ہریرۃ ص قال قال رسول اﷲ ﷺ المؤذن یغفرلہ مدی صوتہ ویشہدلہ کل رطب ویابس وشاہد الصلوٰۃ، مشکوۃ شریف ۔ قال فی التعلیق ،ج:۱۔ مدی الصوت غایۃ الصوت۔ المعنی انہ یتکمل مغفرۃ اﷲ تعالیٰ اذا استوفی وسعۃ فی رفع الصوت۔
(۳) اسی کی تشریح البحرالرائق ج:۱،ص:۲۷۹ میں اس باب میں ہے وان کان فی الصحراء اویرفع (الصوت) للترغیب الوارد فی الحدیث فی رفع صوت المؤذن لا یسمع مدی صوت المؤذن انس ولاجن ولاملک الا شہدلہ یوم القیمۃ۔
۴) زیر تشریح اسی حدیث پاک: عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اذا نودی للصلوۃ ادبر الشیطان لہ ضراط حتی لا یسمع التاذین الخ۔ عن الشیخین۔ (مشکوٰۃ شریف ،ص: ۶۴)
(۵) عن قـتـــادۃ قال سئل انس کیف کانت قراء ۃ النبی صلی اﷲ علیہ وسلم، فقال کانت مدًا مدًا ثم قرأ بسم اﷲ الرحمن الرحیم بمد بسم اﷲ وبمد الرحمن و بمد الرحیم، رواہ البخاری۔ (مشکوٰۃ شریف: ص: ۱۹۰)
وتحت قول بمد بسم اﷲ کانت مداً ای ذات مد والمراد منہ تطویل النفس فی حروف المدواللین عند الفصول والغایات وفی غیر ذلک مما یحسن المدلفظہٗ (التعلیق الصبیح، ج: ۳، ص: ۲۹)
اس روایت سے ایک خاص بات یہ معلوم ہوئی کہ تلاوت کرنا سراً بھی بلاکراہت جائز ہے لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہراً قرأت فرماتے تو بکثرت مد فرماتے حتی کہ بسم اللہ کو بھی مد کے ساتھ قرأت فرماتے اور الرحمن کو بھی مد کے ساتھ قرأت فرماتے اور رحیم کو بھی مد کے ساتھ قرأت فرماتے، اور شراح مدت رحیم کے مد کی تشریح فرماتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ای (کانت) ذات مدوالمراد منہ تطویل النفس فی حروف المد واللین عند الفصول والغایات وغیرذلک ممایحسن المدلفظہ (التعلیق الصبیح ، ج: ۳، ص: ۲۹)
یہیں سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ تلاوت ہمیشہ جہراً ہونا لازم نہ ہونے کے باوجود جب جہراً تلاوت کا موقع آیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مداً مداً تلاوت فرماتے تھے۔ کما مرّ فی روایۃ البخاری ومسلم اور اسی طرح بسم اللہ میں بھی مد فرماتے رحمن میں بھی مدد فرماتے رحیم میں بھی مد فرماتے،نیز موقع بموقعہ ہر جگہ مد فرماتے اور یہ مد کرنا اگر چہ فن تجوید کے اعتبار سے مد اصطلاحی نہیں ہوتا تھا بلکہ تحسین صوت کے لئے تطویل نفس اس طرح ہوتا تھا کہ سننے والے اس کو مد سمجھتے تھے، پس تلاوت جس میں جہر ہر حال میں لازم نہیں مگر جب جہر فرماتے تو تحسین صوت کے لئے بشکل تطویل نفس مد فرماتے خواہ لغوی ہی ہو تو اذان صلوٰۃ میں مدیٰ صوتہ وغیرہ روایات کے مطابق مؤذن کا اپنی پوری طاقت وقوت کے ساتھ جہر کرنا شرعاً مطلوب ہے، اس لئے اس جہر میں تحسین صوت کے لئے حدود شرع میں رہتے ہوئے مد کرنا شرعاً مطلوب ہوگا، انہی وجوہ سے فقہ ائمہ اربعہ ج، ۱، ص: ۳۲۱ میں بیان مندوبات الاذان وسننہ میں حنفیہ کا قول بایں الفاظ منقول ہے۔ قالت الحنفیۃ التغنی فی الاذان حسن الاذادیٰ الی تغیر الکلمات بزیادۃ حرکۃ اوحرف فانہ یحرم مافعلہ لا یحل سماعہ اور یہیں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مرقاۃ شرح مشکوۃ باب الاذان وغیرہ سے جو عبارتیں نقل کی گئی ہیں وہ سب واجب اللحاظ والعمل ہیں اور ان سب روایات وعبارت ودلائل کا حاصل یہ نکلا کہ اذان کے کسی کلمہ میں کسی حرکت یا حرف کی زیادتی وکمی کے بغیر اور آواز بگاڑنے کے بغیر مدی صوتہ وغیرہ دلائل کے پیش نظر اپنی بلند سے بلندآواز سے اسی طرح اذان دیجائے کہ اس میں گانے کی آواز بن جانے کا کوئی شائبہ نہ آوے ہاں اگر تحسین صوت کے لیے تطویل نفس (سانس کھینچنا) کرنے سے مدلغوی کی صورت پیدا ہوجائے تو اس میںمضائقہ نہ ہوگا جیسا کہ عبارت سے ظاہر ہے بشرطیکہ اہل تجوید اور مجودین کے اصول کے خلاف اور ان کا اصطلاحی مد نہ ہوجائے۔
اس تمہید کے بعد اب احقر اپنے عامیانہ اور سادے الفا ظ میں بعض ان خرابیوں کی نشاندہی کرتاہے جو بعض موذنین میں پائی جاتی ہیں مثلاً لفظاًاشہد کو اشدوا پڑھ رہے ہیں ان میں لحن جلی ہوجاتا ہے جو ناجائز اور حرام ہے، اسی طرح لاالٰہ میں لا کو اتنا کھینچ دیتے ہیں جو الٰہ سے کٹ کر الگ ہوجاتاہے یہ فعل تقطیع کہلاتا ہے جو حرام و ناجائز ہے۔ ماناکہ لاالٰہ میں لام کے اندر مدطویل اصلی ہے مگر اس کو اہل تجوید کے مد اصلی سے زائد نہ ہونا چاہئے ورنہ تقطیع مذکور ہوکر ممنوع وحرام ہوجائے گا۔
اسی طرح لفظ اللہ کے الف کو صلاۃ وفلاح کے الف کو اس طرح اتار و چڑھاؤ سے ادا کرتے ہیں کہ تطریب اور ارتعاش پیدا ہوکر بسا اوقات تقطیع بھی پیدا ہوکر ہمزہ کی زیادتی بھی معلوم ہوجاتی ہے اور آواز الف میں اَئَ اَئَ کی آواز پیدا ہوکر لحن جلی بھی پیدا ہوکر ممنوع وحرام وناجائز ہوجاتا ہے۔اسی طرح کی اور جو بعض خرابیاں بعض مؤذنین میں پیدا ہوجاتی ہیں جیسا کہ مرقاۃ شریف مشکوۃ شریف کی شرح میں مذکور ہے ان سب سے بھی احتراز واجب ہے،چوں کہ استفتاء میں بعض ائمہ مساجد کی تلاوت فی الصلوٰۃ کی کوتاہیوں اور ان کی اصلاح کی جانب بھی اشارہ ہے اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کی موٹی موٹی بعض کوتاہیوں کو بتلاکر اصلاح کی جانب ان کی توجہ مبذول کروادی جائے، بعض اچھے خاصے قاری مگر نماز میںاس طرح قرأت فرماتے ہیں کہ ان کی قرأت منھ کے اندر ہی رہ جاتی ہے پتہ نہیں چلتا ہے کہ کیا پڑھ رہے ہیں، پس اگر بھاری آواز ہے تو بسا اوقات غل بل غل بل پر کر اونٹ کی آواز کے مثل آواز ہوجاتی ہے،اور اگر باریک آواز ہے تو کبوتر وقمری کی آواز کی طرح ہوجاتی ہے۔ حالاں کہ یہ آیت کریمہ ورتل القرآن کا مفہوم یہ ہے کہ ہر لفظ اپنے صحیح مخرج سے اس طرح نکلے کہ ہرکلمہ متبین ومتمیّز ہوکر الگ الگ موتی کی طرح بکھرے ہوئے اور صاف مسموع ہوں کہ سننے والے کا ذہن ان کے مفاہیم کی جانب متوجہ ہوسکے جیسا کہ مفسرین نے اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرمایا ہے اسی طرح بعض حضرات صاف تو پڑھتے ہیں مگر طریقہ پڑھنے کاغلط ہوتا ہے مثلاً الحمد ایک الگ کلمہ ہے اس کو الگ متبین ومتمیّز ہونا چاہیے اور ﷲ الگ کلمہ ہے، اس کو الگ متبین ومتمیّز ہونا چاہیے اور رب العالمین الگ کلمہ ہے اس کو الگ متبین ومتمیّز ہونا چاہیے، مگر پڑھنے میں الحم کی میم پر اس طرح زور دیتے ہیں کہ اس کی د،کٹ کر الگ اور للہ کے ساتھ مل کر دُللّٰہ کی آوازبن جاتی ہے،اسی طرح للہ ایک الگ کلمہ ہے مگر للہ میں لام کو اتنا زور دیتے ہیں کہ وہ کٹ کر رب العالمین کے ب کے ساتھ مل جاتی ہے اور متصل ہوجاتی ہے۔ اسی طرح اتنا زور دیتے ہیں کہ وہ کٹ کر رب العالمین اک الگ کلمہ ہے اس کوصرفی ونحوی قواعد کے ساتھ رعایت کے ساتھ ہونا چاہیے، مگر تلفظ بگڑ کر ترتیل الحم الگ اور للہ الگ اور ھِ رب العالمین رب الگ ہوکر غتربود ہوجاتا ہے۔ العالمین معرف باللام ہے یہ اس لئے صرفی ونحوی ضابطہ کے مطابق ب العالمین سے مل گئی اور لغوی وصرفی ضابطہ معانی کے مطابق پڑھنے کی وجہ سے غلطی شمار نہ ہوگا، پھر ایاک کا ف فتحہ کے ساتھ ایک الگ اور مستقل لفظ ہے محض ایا کوئی لفظ نہیں ہے مگر اس کے پڑھنے میںایّاکو اتنا زوردیتے ہیں کہ کاف کا فتحہ رواں نہیں رہا بلکہ ک نستعین کے ساتھ ملحق ہوکر معنی میں بگاڑ پیدا ہوجائے،اسی طرح مغضوب علیہم میں ضؔ ہے ض ؔکو د ؔ سے بدل کر صاف مغدوب علیہم پڑھ دیتے ہیں اس غلطی سے یہ کلمہ سہل ہوجاتا ہے اور قرآنی لفظ نہیں رہتا ہے، اسی طرح ولاالضالین ضؔ سے ہے مگر ضؔ کو دؔ سے بدل کر صاف ولاالدالین پڑھ دیتے ہیں جس سے معنی کفری پیدا ہوجاتے ہیں اس لئے کہ ولاالضالین کے معنی ہیں ہم کو گمراہوں کا راستہ نہ دکھا اور ولا الدالین کے معنی ہیں راہبروں اور راہنمائوں کا راستہ نہ دیکھائے۔
پھر اس سوال کاجواب پھر نماز کے فاسد ہوجانے کا حکم کیوں نہیں دیا جاتا، یہ جواب کتب فقہ میں دیکھئے، یہ بحث خارج ازموضوع ہے، یہاں تو صرف دکھانا مقصود ہے کہ فن تجوید سے کیا کیا غلطیاں اور کس درجہ کی سرزد ہوتی ہیں۔
چنانچہ عربی زبان میں ضؔ، ظؔ، ذؔ، زؔ، ہر ایک الفاظ میں اور ان سب کے صفات لازمہ الگ الگ ہیں اور صفات لازمہ ہی سے آواز پیدا اور متمیّز ہوتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ض کے اندر پانچ صفات لازمہ ہیں،ان میں سے تین صفات لازمہ وہی ہیں جو ظ کے صفات لازمہ ہیں،لہٰذا ،ض،ذ،ظ، کی آواز میں توکچھ مشابہت ہوسکتی ہے نہ کہ ذزد کی آواز کے ساتھ اس لئے ان کے صفات لازمہ میں سے بعض حروف میں کوئی مشابہت نہیں ہے جو انہیں میں اس کے مشارکۃ فی الذات کا اور بعض میں دیگر مشارکۃ ہے تو حروف دوایک وصف میں سے ہے کہ یہ مشارکۃ صفات لازمہ کی د، کے ساتھ نہ ہونے کے باوجود ،ض، کو د، کے آوازکیوں اور کہاں سے پڑھا جائے گا۔ اگر کہا جائے کہ عرب کے لوگ آج کل اسی طرح پڑھتے ہیں تو یہ کوئی شرعی وجہ نہیں، اس لئے کہ بہت سے عرب آج کل ق، کو گ، پڑھتے ہیں اور بہت حائِ حطی خاء ثخذ پڑھتے ہیں وغیرہ، بلکہ احقر کے تجربہ ومشاہدہ میں تو یہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں جہاں لفظ ،ض، ہے اگر اس کو لفظ د ،سے پڑھا جائے تو پھر یا تو معنی کفری پیدا ہوجائیں گے جیسے ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ میں فتردی پڑھنے میں کفری معنی پیدا ہوجاتے ہیں، اور ایسا ہی حال اور بھی بہت سی آیات میں ہوتاہے اوربعض آیات میں معنی فاسد ہوجاتے ہیں۔ جیسے اقرضوا ﷲ قرضاً حسنا الآیۃ میں ض کو بدل کر د پڑھ دیں گے تو اقردواللہ قرداً حسنا ہوجائیں گے اور معنی یہاں متغیر ہوجائیں گے پس قیاس کن زگلستان من بہار مرا۔
حدر پڑھانے والے قاری حضرات کو اس طرف خاص توجہ رکھنا اور توجہ دلانا لازم ہے۔
فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔
کتبہ العبد نظام الدین الاعظمی عفی عنہ
مفتی u، ۱۲؍۱۲؍۱۴۱۳ھ
--------
حضرت محی السنہ رحمۃ اللہ علیہ کی اس تحریک پر علماء نے بڑا ظلم کیا ہے۔
حضرت مد تعظیمی کے اصرار کے درجہ میں خلاف تھے ،اور علماء اس میں گنجائش کا حوالہ دیتے ہیں۔
مگر اور جگہوں پر کوئی گنجائش نہ ہوکر بھی ان پر توجہ نہیں۔
بعض اغلاط تو جہلاء کی ہیں،  تصحیف ، تحریف  وغیرہ
مگر علماء و پڑھا لکھا طبقہ بھی اپنے حلقے کی خامیوں اور بڑی خامیوں پر توجہ نہیں کرتا ، جیسے اسی فتوی میں مذکور تطریب، تقطیع، وغیرہ ۔
 نہایت جامع و مدلل فتوی ہے۔

No comments:

Post a Comment