Tuesday, 28 November 2023

بے راہ رو مسلم حکمرانوں کو نصیحت کرنا فریضہ دینی ہے

بے راہ رو مسلم حکمرانوں کو نصیحت کرنا فریضہ دینی ہے 
-------------------------------
--------------------------------
سوال: ایک غیر مقلد نے منسلکہ پوسٹ ارسال کی ہے. 
اس کا کیا جواب دیا جائے ؟ رہبری فرمائیں. اس شخص کا کہنا ہے کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب حکمراں کا فسق و فجور میں مبتلا ہونا اور فلسطین کے تعلق سے ان کا سکوت یہ قابل مواخذہ نہیں ہے.
الجواب و باللہ التوفیق:
مرسلہ پوسٹ ذیل کی حدیث کا ناقص ترجمہ ہے 
پوری حدیث یوں ہے: 
خِيارُ أئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ تُحِبُّونَهُمْ ويُحِبُّونَكُمْ، وتُصَلُّونَ عليهم ويُصَلُّونَ علَيْكُم، وشِرارُ أئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ تُبْغِضُونَهُمْ ويُبْغِضُونَكُمْ، وتَلْعَنُونَهُمْ ويَلْعَنُونَكُمْ، قالوا: قُلْنا: يا رَسولَ اللهِ، أفَلا نُنابِذُهُمْ عِنْدَ ذلكَ؟ قالَ: لا، ما أقامُوا فِيكُمُ الصَّلاةَ، لا، ما أقامُوا فِيكُمُ الصَّلاةَ (صحيح مسلم: 1855) 
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تمہارے بہترین حکمراں وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کريں، تم ان کے حق ميں دعائے خير کرو اور وہ تمہارے حق ميں دعائے خير کریں۔ اور تمہارے بدترین حکمراں وہ ہیں جنہیں تم ناپسند کرو اور وہ تمہیں ناپسند کريں، تم ان پر لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں-“ عوف بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا ہم ان کی بيعت توڑ کر ان کے خلاف بغاوت نہ کريں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں‘ جب تک وہ تم میں نماز قائم کرتے رہیں۔ نہیں‘ جب تک وہ تم میں نماز قائم کرتے ہیں.“
اس حدیث پاک کا مفہوم یہ ہے کہ مسلم حکمرانوں میں سے کچھ تو نیک ہوں گے اور کچھ فاسق اور بے دین ہوں گے۔ اس کے باوجود جب تک وہ شعائرِاسلام کی حفاظت کرتے رہيں جس میں نمازسب سے اہم ہے، ان کے خلاف خروج وبغاوت جائز نہیں ہے۔ 
یعنی مسلمانوں کی شیرازہ بندی اور آپسی اتحاد واتفاق کے مقصد سے ان کے خلاف بغاوت کرنے اور مسلح ونگ کے ذریعے حملہ آور ہونے سے منع کیا گیا ہے، اسے خارجیت قرار دیا گیا ہے، 
یہ مطلب نہیں ہے کہ حکمرانوں کو شتر بے مہار چھوڑ دیا جائے کہ جو کچھ بھی کرتے رہیں اس کی تحسین وتائید کی جاتی رہے. صحیحین کی حدیث: 
"الدين النصيحة» قلنا: لمن؟ قال: «لله، ولكتابه، ولرسوله، ولأئمة المسلمين وعامتهم" 
کے بموجب ہر مومن کا دینی فریضہ ہے؛ بلکہ دین اس بات پر منحصر ہے  کہ بندہ مومن حالات وواقعات کے تقاضوں کے مطابق معتدل ومتوازن انداز اور شائستہ ومؤثر لب ولہجے میں، ان کے ادب واحترام اور حیثیت عرفی کی رعایت کے ساتھ، ملکی آئین ودستور کی حدود میں رہتے ہوئے  حکمرانوں کو حق بات کی نصیحت کرتا رہے، انہیں تقریر وتحریر، مضمون، کالم نویسی، تصنیف وتالیف اور پر امن احتجاج اور بوقت ضرورت بالمشافہ ملاقاتوں کے ذریعے ایسی چیز کی طرف ان کی رہنمائی کرتا رہے جس سے وہ ناآشنا ہیں اور جس چیز کو وہ بھول چکے ہیں یا جس سے وہ غافل ہیں اس کی یاد دہانی کراتا رہے، علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں 
مجھے ہے حکم اذاں لاالٰہ الاّ اللہ
یعنی مسلمانوں کے ذہن ودماغ میں مفادات ، مرغوبات ، ترجیحات اور عقائد وخیالات کی صورت میں مختلف غیر حسی بت پوشیدہ ہیں، جو مومنین کو تقاضۂِ ایمانی سے برگشتہ کرتے رہتے ہیں، ایسے میں ہر مومن  کی ذمہ داری ہے کہ بالعموم دنیا اور بالخصوص مسلمانوں کے لئے "برہانِ اسلام" کا اعادہ کرتا رہے، یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود وحاکمِ وقت قابل اتّباع وپیروی نہیں!  
مرکز البحوث الإسلامية العالمي ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2023/11/blog-post_28.html

Monday, 27 November 2023

تشہد میں انگشتِ شہادت اٹھانے کا مسنون طریقہ اور اس کی وجہ وحکمت؟

تشہد میں انگشتِ شہادت اٹھانے کا مسنون طریقہ اور اس کی وجہ وحکمت؟
-------------------------------
--------------------------------
سوال: (1) قعدہ میں التحيات پڑھتے ہوئے کلمہ (لا) پر شہادت کی انگلی اٹھانے کا کیا حکم ہے؟
سنت ہے یا واجب؟
(2) شہادت کی انگلی اٹھاتے وقت بلا اختیار خنصر انگلی بھی ساتھ ساتھ اٹھ جاتی ہے تو کیا اس ڈر سے کہ خنصر انگلی بھی اٹھ جاتی ہے شہادت کی انگلی ہی نہ اٹھانے کے جواز کا کوئی قول فقہائے کرام میں سے کسی کا ہے؟
(3) اگر دونوں انگلیاں (شہادت اور خنصر) ساتھ ساتھ بالاختیار اٹھادے تو اس سے کیا خرابی لازم آئے گی؟
محمد مناظر احسن قاسمی 
حال مقیم قطر 
الجواب وباللہ التوفیق:
لاالٰہ پڑھتے وقت دو کام کرنا ہے. ایک چھنگلی اور اس کے ساتھ والی انگلی بند کرنا، اور ابہام کو وسطی کے ساتھ حلقہ بنانا ہے. 
دوسرا اس کے ساتھ ہی مسبحہ کو اوپر کرنا ہے،  "الا اللہ" پڑھتے ہوئے اسے چھوڑ دینا ہے۔ لیکن انگلیوں کے حلقہ بنانے اور چھوٹی انگلیوں کو بند رکھنے کی کیفیت کو آخر تشہد تک باقی رکھنا ہے۔
یہ عمل مسنون ہے:
عن عبدالله بن الزبير قال: "كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قعد في الصلاة جعل قدمه اليسرى بين فخذه وساقه وفرش قدمه اليمنى ووضع يده اليسرى على ركبته اليسرى ووضع يده اليمنى على فخذه اليمنى وأشار بإصبعه" . رواه مسلم (579) .
وفي النسائي (1270) وأبي داود (989) "كان يشير بأصبعه إذا دعا ولا يحركها."
اب رہا آپ کا یہ خلجان کہ رفع سبابہ سے ماسوی اللہ کی نفی کیسے ہوگی؟
تو وہ اس طرح ہوگی کہ انگلیاں یا ہاتھ "اوپر اٹھانا" کسی چیز کو پس پشت ڈالنے اور انکار کرنے کو مشیر ہوتا ہے. اسی لئے تکبیرتحریمہ کے وقت رفع یدین کے من جملہ حکمتوں میں "طرح الدنیا" کو بھی بتایا جاتا ہے. جب "ہاتھ اٹھانا" طرح وانکار ونفی“ ہوسکتا ہے تو اب تشہد میں کوئی ہاتھ کیسے اٹھائے گا ؟ اب کلمہ توحید پڑھتے ہوئے اس کے لئے یہی کچھ ممکن ہے کہ  "جزو ید" مسبحہ اٹھاکر ماسوی اللہ کا طرح وانکار مراد لیا جائے۔ چنانچہ جب رفع سبابہ سے عملاً اور "لاالٰہ" پڑھ کر قولاً ہر دو طریقوں سے ما سوی اللہ کی مکمل نفی ہوگئی تو اب مقصد حاصل ہوگیا اور "الا اللہ" کہتے ہوئے یعنی اثبات توحید لذات اللہ کے وقت انگلی نیچے رکھ دے.
کمرے کی بجلی اور لائٹ آف کرنے "نفی نور" کے لئے بھی سوئچ کو اوپر "رفع" کیا جاتا ہے، اور اثبات نور "لائٹ آن" کرنے کے لئے سوئچ کو نیچے "وضع" کیا جاتا ہے۔ 
رفع سے نفی اور وضع سے اثبات کا فلسفہ آپ اس سے بھی بخوبی سمجھ سکتے ہیں 
هذا ما فتح الله عليَّ علٰى هذا الفقير، والله سبحانه و تعالى أعلم بالصواب 
شكيل منصور القاسمی 
سوال 
——-
جزاکم اللہ خیرا 
بڑی خوبی سے اور بالخصوص بذریعہ عام فہم تمثیل سے مفتی صاحب آپ نے (رفع برائے نفی) اور (وضع برائے اثبات) سمجھا دیا ۔۔ بس اب یہ بات بھی آپ اپنے خوبصورت انداز میں سمجھادیجئے کہ (سبابہ اور خنصر) کا ایک ساتھ رفع ہو یا سبابہ کے ساتھ اور کسی بھی انگلی کا ایک ساتھ رفع ہو دو یا تین وغیرہ انگلیوں کا ایک ساتھ رفع ہو تو کیا حکم ہے؟
بالاخیار اور بدون خطا کے ۔۔ کیا حکم ہے؟
اور بلا اختیار لیکن مع التکرار اور لاابالی پن میں ۔۔ تو کیا حکم ہے۔۔
کسی نمازی نے سوال کیا ہے۔
شکریہ
الجواب وباللہ التوفیق:
اس جزئیہ کا جواب بھی اسی میں موجود ہے. رفع سبابہ کے ساتھ ابہام کو وسطی سے ملائیں گے اور بقیہ انگلیوں کو حلقے سے مربوط اور موڑ کے یعنی کہ بند رکھیں گے، سبابہ کے ساتھ کسی بھی دوسری انگلی کو اٹھانا خلافِ سنت ہے. بندہ اختیار کی حد تک ہی مکلف ہے، بقیہ انگلیوں کو حلقے سے جوڑ کے اور موڑ کے رکھنے کی پوری کوشش کرے، اس کی باضابطہ عادت ڈالے، اگر بامر مجبوری ممکن نہ ہو تو غیراختیاری طور پہ عارضی حالت میں اس عمل سے نماز میں کراہت نہ آئے گی 
البتہ اگر کوئی عمداً ایسا کرتا ہے تو یہ عمل مکروہ ہوگا. کیونکہ ہمارے یہاں رفع سبابہ کے ساتھ اسے مزید یمیناً وشمالاً آخر تشہد تک حرکت دیتے رہنا جب مکروہ ہے:
فی اعلاء السنن (۱۱۲/۳): قال الطحطاوی في حاشیته علی مراقي الفلاح: قوله،وتسن الاشارۃ،أی من غیرتحریك فإنه مکروہ عندنا۔
حالانکہ بعض احادیث سے اس کے ثبوت کے اشارے بھی ملتے ہیں تو رفع خنصر — جس کا کہیں سے کوئی ثبوت نہیں ہے— تو بدرجہ اولیٰ ناپسندیدہ عمل ہوگا۔ 
اس ناپسندیدہ، وقار نماز کے منافی اور غیر ثابت عمل کی اصلاح کی جانب پوری توجہ مبذول کی جائے۔
شامی میں ہے:
وشیخ الاسلام الجد وغیرھم أنه یشیر لفعله علیه الصلاۃ والسلام ونسبوہ لمحمد والامام بل فی متن دررالبحار وشرحه غرر الاذکار المفتی به عندنا انه یشیر باسطا أصابعه کلھا ، وفی الشرنبلالیۃ عن البرھان الصحیح أنه یشیر بمسبحته وحدھا یرفعھا عند النفی ویضعھا عند الاثبات واحترز بالصحیح عما قیل لایشیرلأنه خلاف الدرایۃ والروایۃ وبقولنا بالمسبحۃ عما قیل یقعد عند الاشارۃ وفی العینی عن التحفۃ الاصح انھا مستحبۃ۔
وفی القھستانی: وعن اصحابنا جمیعاً انہ سنۃ فیحلق ابھام الیمنی ووسطھا ملصقا رأسہا برأسھا ویشیر بالسبابۃ فھذہ النقول کلھا صریحۃ بان الاشارۃ المسنونۃ انما ھی علی کیفیۃ خاصۃ الخ الدر المختار مع رد المحتار: (508/1، ط: دارالفکر)۔
وفي حاشیة ابن عابدین: والصحیح المختار عند جمھور أصحابنا أنه یضع كفيه علی فخذیه ثم عند وصوله إلی کلمۃ التوحید یعقد الخنصر والبنصر ویحلق الوسطی والإبھام ویشیر بالمسبحة رافعا لھا عند النفی وواضعا لھا عند الاثبات ثم یستمر علی ذلک...
(ج :1/134)
والله أعلم بالصواب 
مرکز البحوث الإسلامية العالمي ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2023/11/blog-post_27.html



کوئی گھڑی 100 فیصد درست نہیں

 کوئی گھڑی 100 فیصد درست نہیں

انسانی زندگی میں وقت اور گھڑی کی اہمیت 11 چونکا دینے والے حقائق 

وقت سے متعلق آپ کیا سوچتے ہیں؟ گھڑیوں کی آپ کی نظر میں اہمیت کیا ہے؟ کیا گھڑی کے بنا زندگی کا تصور ممکن ہے؟ان سوالوں کا کوئی مختصر جواب دینا مشکل ہو سکتا ہے۔اس لیے ہم نے آپ کیلئے وقت کی انسانی زندگی میں اہمیت سے جڑے 11 حقائق تحریر کیے ہیں:

1۔ زبان کا وقت سے کیا تعلق ہے؟

وقت کو اکثر ایک سیدھی لکیر کے طور پر تصور کیا جاتا ہے مگر یہ لائن جو سیدھی لکیر تصور کی جاتی ہے یہ جاتی کہاں ہے؟ اس کی سمت کیا ہے؟لیکن یہ جو بات ہم تصور کر رہے ہیں کہ وہ ہو ہی نہ تو یعنی کوئی لائن ہو ہی نہ۔

اب کہا یہ جاتا ہے کہ ان تمام سوالات کے جواب کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کون سی زبان بولتے ہیں۔وقت کے بارے میں سوچنے اور سمجھنے یا تفہیم اس زبان سے بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے جو ہم استعمال کرتے ہیں۔مثال کے طور پر، انگریزی بولنے والے وقت کو آگے یا پیچھے سمجھتے ہیں۔انگریزی بولنے والے مستقبل کا ذکر کرتے ہوئے ہاتھ سے آگے کی جانب اشارہ کرتے ہیں اور جب وہ ماضی کا ذکر کرتے ہیں تو ا±ن کے ہاتھ کا اشارہ پیچھے کی جانب ہوتا ہے۔وقت کو افق پر دائیں سے بائیں تک پھیلی سیدھی لکیر کے طور پر بھی سمجھا جاتا ہے۔چین میں رہنے والے اور چائنیز زبان بولنے والے وقت کو ایک اوپر سے نیچے جانے والی لائن کے طور پر دیکھتے ہیں، نہ صرف یہ بلکہ تصور یہ بھی کیا جاتا ہے کہ اس اوپر سے نیچے آنے والی لائن کی تہہ میں مستقبل ہے۔یونانیوں نے وقت کو لمبائی میں نہیں بلکہ سہہ جہتی سمجھا۔اسی طرح آسٹریلیا کا ایک قبیلہ وقت کو مشرق اور مغرب سمجھتا ہے۔اس کے علاوہ، ہماری زبان وقت گزرنے کے بارے میں ہماری تفہیم کا تعین کرتی ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ کوئی اپنے حال کے بارے میں کیا کہتا ہے اس سے بہتر کہ وہ اپنے ماضی کے بارے میں کیا کہتا ہے۔

2۔ جو آپ اب سمجھتے ہیں وہ اب نہیں:

جب آپ ان الفاظ کو پڑھ رہے ہوں گے تو اب اسے سمجھنا بہت آسان ہو گا لیکن ایسا نہیں۔مثال کے طور پر اس شخص کے بارے میں سوچیں جو آپ کے سامنے میز کے دوسری طرف بیٹھا ہے اور بول رہا ہے۔

ان کے اشارے ان کے الفاظ سے پہلے آپ تک پہنچ جاتے ہیں کیونکہ روشنی آواز سے زیادہ تیزی سے سفر کرتی ہے۔ہمارا دماغ ان دونوں کو جوڑتا ہے۔اسی وجہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ جب کسی شخص کے ہونٹ ہلتے نظر آتے ہیں تو وہ تبھی بول رہا ہوتا ہے۔جب ہونٹ ہل رہے ہوتے ہیں تو ہم سب سے پہلے دیکھتے ہیں لیکن یہ وقت کے بارے میں سب سے عجیب بات نہیں۔

3۔ وقت کے بغیر کوئی شعوری تجربہ نہیں ہوسکتا:

ہم اپنے ہاتھوں کی مدد سے گھڑی کی ٹک ٹک کی گنتی کرتے ہیں۔ اب زرا یہ گمان کریں کے یہ ٹک ٹک ہے کیا تو جناب یہ ٹک ٹک آپ کے دل کی دھڑکن ہے۔وقت اور ہمارے وجود کی بات کرتے ہیں تو یہ گھڑی کی ٹک ٹک اور ہمارے دل کی دھک دھک ایک ساتھ چلتے ہیں۔ایک اندھیری غار میں لیٹا ہوا شخص بھی دنیا اور گھڑیوں سے چاہے جتنا ہی دور کیوں نہ ہو مگر وہ اپنی اس جسمانی گھڑی کے زیر اثر ہوتا ہے۔ہولی اینڈرسن سائمن فریزر یونیورسٹی، برٹش کولمبیا میں سائنس، فلسفے اور میٹا فیزکس کا مطالعہ کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم وقت کا ٹریک کھو دیں گے تو اس سے ہمارے اپنے بارے میں تصور متاثر ہوگا۔‘ان کا ماننا ہے کہ ’اگر وقت کی سمجھ نہ ہو اور ہم وقت گزرنے کو محسوس نہ کریں تو ہم کچھ بھی محسوس نہیں کریں گے۔‘سوچیں کہ وقت گزرنے کی وجہ سے آج آپ کیا ہیں۔ آپ کی شخصیت وقت کے ساتھ تشکیل پاتی ہے۔آپ کی شخصیت یادوں کے مجموعے کے سوا کچھ نہیں۔

4۔ کوئی گھڑی 100 فیصد درست نہیں:

سائنسدان وقت کی پیمائش کرنے کیلئے بہت محنت کرتے ہیں۔ وہ گزرنے والے لمحات، منٹوں، گھنٹوں پر نظر رکھنے کیلئے جدید ترین ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں۔اگرچہ ان کی ایٹمی گھڑیاں بہت درست ہیں لیکن پھر بھی وہ وقت کی مکمل پیمائش کرنے کے قابل نہیں۔زمین پر کوئی بھی گھڑی صحیح طریقے سے وقت کی پیمائش نہیں کر سکتی۔ اب یہ طے کرنے کا عمل کہ یہ کون سا وقت ہے بہت سی گھڑیوں پر مشتمل ہے۔اسی طرح دنیا کے وقت کا حساب لگایا جاتا ہے۔قومی لیبارٹریاں پیرس (فرانس) میں بین الاقوامی ادارہ برائے وزن اور پیمائش کو اپنی ریڈنگ بھیجتی ہیں۔ وہاں ان ریڈنگز کی اوسط کا حساب لگایا جاتا ہے۔بس یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ وقت ایک انسانی ایجاد ہے۔

5۔ وقت کا تجربہ صرف ہمارے ذہن میں ہے:

وقت کے بارے میں ہماری سوچ سمجھ یا تفہیم بہت سے عوامل سے تشکیل پاتی ہے، جیسے ہمارا شعور، ارتکاز، معنی، اور سمجھ کہ ہم موجود ہیں۔وقت کے بارے میں ہمارا ادراک ہمیں اپنی ذہنی حقیقت سے منسلک رکھتا ہے۔ہماری زندگی نہ صرف وقت کے ساتھ شروع ہوتی ہے بلکہ اس کے ساتھ جاری بھی رہتی ہے۔ ہم صرف وقت کے ذریعے زندگی کو محسوس کرتے ہیں اور لطف اندوز کرتے ہیں۔اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہماری زندگی پر ہمارا کچھ کنٹرول ہے۔مثال کے طور پر، اگر آپ نہیں چاہتے کہ آپ کی زندگی جلد بازی میں گزر جائے تو، ایک حل ہے اور وہ یہ کہ اپنی زندگی میں جدت کو جگہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اسی طرح، بعض اوقات معمول کی زندگی بہت تیزی سے گزرتی نظر آتی ہے۔اس کے مقابلے میں اگر آپ زندگی میں جدت کو برقرار رکھیں گے تو زندگی لمحہ بہ لمحہ پرسکون طریقے سے گزرنا شروع ہو جائے گی۔وقت گزرتا دکھائی نہیں دے گا۔

6۔ 22 ویں صدی کے شہری ہم میں موجود ہیں:

ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ آنے والی صدی اکثر ایک طویل دور لگ سکتی ہے۔اب بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جو شاید 2099 کا نیا سال دیکھیں گے۔ 2023 میں پیدا ہونے والا بچہ اس وقت 70 سال کی عمر میں ہو گا۔ہم ماضی اور مستقبل سے اس سے کہیں زیادہ جڑے ہوئے ہیں جتنا ہم تصور کرتے ہیں۔ان کے رشتوں کی وجہ سے، ان کی آنے والی نسلوں کی وجہ سے۔

7۔ ہم سب وقت کے جمود کو محسوس کرسکتے ہیں:

وقت کی رفتار ہر ایک کیلئے ایک جیسی نہیں۔ جیسے ہی گاڑی سڑک پر رینگتی ہے، ایسا لگتا ہے جیسے یہ صدیوں سے رینگ رہی ہے۔اگر ریت کو ہوا میں پھینکا جائے تو یہ ہوا میں کیسے رکتی ہے؟بعض اوقات ہمارا ماحول وقت کے بارے میں ہمارے تصور کو بھی متاثر کرتا ہے۔جب تناو¿ ہوتا ہے تو وقت تیزی سے گزرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس سے ہمیں زندگی اور موت کے فیصلے جلدی کرنے میں مدد ملتی ہے۔اسی طرح دماغی بیماریاں جیسے مرگی اور دورے بھی وقت کے بارے میں ہمارے تصور کو متاثر کرتے ہیں۔

8۔ گھڑی دن کی روشنی کے مطابق چلنا کیوں شروع ہوتی ہے؟

بہت سے ممالک میں، گرمیوں اور سردیوں میں گھڑیوں کو آگے پیچھے منتقل کیا جاتا ہے تاکہ دن کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے۔سب سے پہلے اگرچہ یہ پوری دنیا میں نہیں کیا جاتا ہے۔ایک برطانوی بلڈر ولیم ولیٹ نے امریکہ سمیت دنیا کے ایک چوتھائی حصے کو اس بارے میں بتایا۔ پہلی عالمی جگ دوران، برطانیہ نے دن کیلئے اپنی گھڑیاں قائم کیں۔اس وقت ایسا کوئلے کی قلت کی وجہ سے کیا گیا تھا۔سورج طلوع ہونے کے ساتھ گھڑیوں کو ہم آہنگ کرنے کا مطلب یہ تھا کہ رات کو روشن کرنے کیلئے کم بجلی کی ضرورت تھی۔یہ خیال اتنا مو¿ثر ثابت ہوا کہ برطانیہ نے اسے دوسری عالمی جنگ کے دوران اپنایا۔ برطانیہ نے ایک قدم آگے بڑھ کر اپنی گھڑیاں عالمی اوسط وقت سے دو گھنٹے پہلے طے کیں۔اس سے صنعت میں بہت زیادہ توانائی بچائی جا سکتی ہے۔

9۔ کائنات کے خاتمے کے بعد کوئی ماضی، حال اور مستقبل باقی نہیں رہے گا؟

علامتی طور پر وقت کو تیر سمجھا جاتا ہے۔ وقت کا یہ تیر اس مستقبل کی طرف اشارہ کرتا ہے جو بگ بینگ سے باقی رہ گیا تھا۔کائنات کے آغاز میں کائنات میں بہت کم اینٹروپی تھی، اینٹروپی بے ترتیبی کی پیمائش ہے۔ تب سے یہ تجسس لگاتار بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ وقت کے تیر کو سمت دیتا ہے۔چونکہ تیر صرف ایک سمت (آگے) میں جاتا ہے اس لیے ایک انڈے کو توڑا جا سکتا ہے لیکن اسی انڈے کو اس انڈے کا پانی، زردی اور خول ملا کر نہیں بنایا جا سکتا۔کوئی نہیں جانتا کہ کائنات کے خاتمے کے بعد کیا ہو گا۔خیال کیا جاتا ہے کہ دنیا (کائنات) کا خاتمہ شدید گرمی میں ہو گا۔

10۔ چاند کی کشش کی وجہ سے ہمارے دن لمبے ہوتے جارہے ہیں:

آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ ہمارا چاند ہم سے انچ در انچ دور ہوتا جا رہا ہے۔ہر سال چاند اور زمین کے درمیان فاصلہ تقریباً 1.5 انچ (3.8 سینٹی میٹر) بڑھ رہا ہے۔ اس عمل میں ہمارے دن لمبے ہوتے جا رہے ہیں۔چاند زمین کے پانی کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ چاند زمین کے پانی کو کھینچتا اور دھکیلتا ہے۔یہ کشش زمین اور پانی کے درمیان رگڑ پیدا کرتی ہے۔زمین پانی کے نیچے تیزی سے حرکت کرتی ہے۔ اس رگڑ کی وجہ سے زمین کی اپنے محور کے گرد رفتار کم ہو جاتی ہے جبکہ چاند رفتار پکڑ کر دور جا رہا ہوتا ہے۔چاند کی اس طاقت کی وجہ سے ہمارے دن 1.09 ملی سیکنڈ فی صدی لمبے ہو جاتے ہیں۔ کچھ دیگر تخمینوں کے مطابق یہ اضافہ 1.78 ملی سیکنڈ فی صدی سے کچھ زیادہ ہے۔لہٰذا اگرچہ یہ بہت بڑا نہیں لگتا لیکن اگر ہم زمین کی ساڑھے چار ارب سال کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ بہت زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ اس طرح ہمارے دن لمبے ہو جاتے ہیں۔

11۔ بہت سے لوگ روایتی وقت میں نہیں رہتے، ان کیلئے یہ 2023 نہیں:

یہ دراصل نیپال کے بکرمی کیلنڈر کیلئے سال 2080 ہے۔ نیپال کا کیلنڈر باقی دنیا کے ٹائم زون سے 15 منٹ پیچھے چلتا ہے۔دنیا میں کم از کم چار کیلنڈر استعمال ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بہت سی جگہوں پر لوگ ایک سال میں ایک سے زیادہ سال گزارنے پر خوش ہیں۔برما میں یہ 1384 سال سے چل رہا ہے۔اسی طرح تھائی لینڈ میں یہ تعداد 2566 اور ایتھوپیا میں 2016 ہے جہاں سال 13 ماہ کا ہوتا ہے۔اسلامی کیلنڈر کے مطابق جولائی میں 1445 ہجری میں اضافہ ہوا۔ (بشکریہ: بی بی سی اردو) ( #ایس_اے_ساگر )




Monday, 20 November 2023

روز قیامت کے گواہان

روز قیامت کے گواہان
 قیامت کے دن ہر انسان کے گناہوں پر آٹھ گواہ پیش ہوں گے 
                      پہلا گواہ
جس جگہ بندے نے گناہ کیا ہو گا وہ جگہ وہ زمین کا ٹکڑا قیامت کے دن اس کے خلاف گواہی دے گا
                 ( سورۃ الزلزال آیت نمبر 5،6 )
                        دوسرا گواہ
وہ دن بھی گواہی دے گا جس دن بندے نے گناہ کیا ہو گا
              ( سورۃالبروج آیت نمبر 3 )
                 تیسرا گواہ
قیامت کے دن بندے کی زبان گواہی دے گی
( سورۃ النور آیت نمبر 24 )
                  چوتھا گواہ
انسان کے جسم کے باقی اعضاء ہاتھ پاؤں یہ بھی گواہی دیں گے
               (سورۃ یٰسین آیت نمبر 25)
                 پانچواں گواہ
دو فرشتے جو تم پر نگران مقرر ہیں جو معزز ہیں لکھنے والے ہیں جو کچھ تم کرتے ہو وہ جانتے ہیں
( سورۃ الانفطار آیت نمبر12 )
                   چھٹا گواہ
وہ نامہ اعمال جو فرشتے لکھ رہے ہیں تو زبان بھی گواہی دے گی اور نامہ اعمال بھی دکھائے جائیں گے
              ( سورۃ الکہف :آیت نمبر 49 )
                    ساتواں گواہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی گواہ ہوں گے اللّه رب العزت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی گواہی مانگیں گے
( سورۃ النساء آیت نمبر 41 )
                  آٹھواں گواہ
اللّه رب العزت قرآن میں فرماتے ہیں جو تم گناہ کرتے ہو ہم قیامت کے دن اس پر گواہ ہوں گے
              ( سورۃ یونس آیت نمبر 61 )
ہمارے گناہوں پر اللّه خود گواہ ہوگا
اللّه  ... اللّه  ... کیا عالم ہوگا 
یا اللّه ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہمیں نیک اعمال کرنے کی توفیق عطافرما
ایسی توبہ نصیب فرما جس کے بعد کوئی گناہ نہ ہو!

On the Day of Resurrection, there will be eight witnesses for our sins


Monday, 13 November 2023

روز قیامت نبیوں کا نفسی نفسی کہنا؟

روز قیامت نبیوں کا نفسی نفسی کہنا؟
-------------------------------
--------------------------------
قیامت کا دن اس قدر دہشت ووحشت کا ہوگا کہ بچے بوڑھے ہوجائیں: 
يَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيبًا (المزمل 17)
تمثیلی پیرائے میں کہا جائے تو اگر کوئی حاملہ ہو تو شدت گھبراہٹ سے حمل ساقط کردے اور اگر کوئی دودھ پلانے والی ہو تو شدت ہول وخوف سے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے:
وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا (الحج 2)
لوگوں کے دل کانپ رہے ہونگے:
قُلُوبٌ يَوْمَئِذٍ وَاجِفَةٌ (النازعات 8)
آنکھیں خوف زدہ ہونگی: 
(أَبْصَارُهَا خَاشِعَةٌ[ النازعات: 9)
لوگ گھٹنوں کے بل گرے ہونگے:
وَتَرَىٰ كُلَّ أُمَّةٍ جَاثِيَةً (الجاثية 28)
لوگوں کو لب ہلانے کی بھی اجازت نہ ہوگی :
هَٰذَا يَوْمُ لَا يَنطِقُونَ (المرسلات - 35)
انتہائی مشکل ترین دن ہوگا: 
فَذَٰلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ (9 المدثر)
کوئی جاے پناہ نہ ہوگی:
مَا لَكُم مِّن مَّلْجَإٍ (الشورى 47)
پریشانی شدید تر ہو جائےگی، لوگ پسینے سے بہہ جائیں گے۔ ایسی عمومی پریشانی ، گھبراہٹ اور دہشت ووحشت کے لمحات میں انسان حساب کتاب اور غضب وجلال خداوندی میں آسانی اور ازالہ گھبراہٹ کے لئے اولو العزم انبیاء ورسل سے شفاعت کی گہار لگاتے پھریں گے. اس روز ہر انسان اپنی ذات کے بارے جھگڑتا ہوا آئے گا، ہر ایک “نفسی نفسی”  کہتا ہوگا اور سب کو اپنی اپنی پڑی ہوگی: 
يَوْمَ تَأْتِى كُلُّ نَفْسٍۢ تُجَٰدِلُ عَن نَّفْسِهَا وَتُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍۢ مَّا عَمِلَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
(النحل - 111)
جھگڑے سے مراد یہ ہے کہ ہر ایک اپنے دنیوی عملوں کے بارے میں  عذر بیان کرے گا. حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اس آیت کی تفسیر میں  فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن لوگوں  میں  جھگڑا یہاں  تک بڑھے گا کہ روح اور جسم میں بھی جھگڑا ہوگا، روح کہے گی: یارب! (جسم میں داخل ہونے سے پہلے) نہ میرے ہاتھ تھے کہ میں ان سے کسی کو پکڑتی، نہ پاؤں  تھے کہ ان کے ذریعے چلتی، نہ آنکھ تھی کہ اس سے دیکھتی (گویا میں قصور وار نہیں؛ بلکہ جسم ہی قصور وار ہے) جسم کہے گا: یارب! تو نے مجھے لکڑی کی طرح پیدا کیا، نہ میرا ہاتھ پکڑسکتا تھا ، نہ پاؤں  چل سکتا تھا،نہ آنکھ دیکھ سکتی تھی، جب یہ روح نوری شعاع کی طرح آئی تو اس سے میری زبان بولنے لگی، آنکھ بینا ہوگئی اور پاؤں  چلنے لگے، (جو کچھ کیا اُس نے کیا ہے) ۔ اللّٰہ تعالیٰ ایک مثال بیان فرمائے گا کہ ایک اندھا اور ایک لنگڑا دونوں  ایک باغ میں  گئے، اندھے کو توپھل نظر نہیں  آتے تھے اور لنگڑے کا ہاتھ ان تک نہیں  پہنچتا تھا تواندھے نے لنگڑے کو اپنے اوپر سوار کرلیا اس طرح انہوں  نے پھل توڑے تو سزا کے وہ دونوں مستحق ہوئے (اس لئے روح اور جسم دونوں  ملز م ہیں )اور تم دونوں کو عذاب ہوگا۔ تفسیر قرطبی میں ہے:
قوله تعالى يوم تأتي كل نفس تجادل عن نفسها وتوفى كل نفس ما عملت وهم لا يظلمون قوله تعالى : يوم تأتي كل نفس تجادل عن نفسها أي تخاصم وتحاج عن نفسها ; جاء في الخبر أن كل أحد يقول يوم القيامة : نفسي نفسي ! من شدة هول يوم القيامة سوى محمد - صلى الله عليه وسلم - فإنه يسأل في أمته . وفي حديث عمر أنه قال لكعب الأحبار : يا كعب ، خوفنا هيجنا حدثنا نبهنا . فقال له كعب : يا أمير المؤمنين ، والذي نفسي بيده لو وافيت يوم القيامة بمثل عمل سبعين نبيا لأتت عليك تارات لا يهمك إلا نفسك ، وإن لجهنم زفرة لا يبقى ملك مقرب ولا نبي منتخب إلا وقع جاثيا على ركبتيه ، حتى إن إبراهيم الخليل ليدلي بالخلة فيقول : يا رب ، أنا خليلك إبراهيم ، لا أسألك اليوم إلا نفسي ! قال : يا كعب ، أين تجد ذلك في كتاب الله ؟ قال : قوله - تعالى - : يوم تأتي كل نفس تجادل عن نفسها وتوفى كل نفس ما عملت وهم لا يظلمون . وقال ابن عباس في هذه الآية : ما تزال الخصومة بالناس يوم القيامة حتى تخاصم الروح الجسد ; فتقول الروح : رب ، الروح منك أنت خلقته، لم تكن لي يد أبطش بها ، ولا رجل أمشي بها ، ولا عين أبصر بها ، ولا أذن أسمع بها ولا عقل أعقل به ، حتى جئت فدخلت في هذا الجسد ، فضعف عليه أنواع العذاب ونجني; فيقول الجسد : رب ، أنت خلقتني بيدك فكنت كالخشبة ، ليس لي يد أبطش بها ، ولا قدم أسعى به، ولا بصر أبصر به، ولا سمع أسمع به، فجاء هذا كشعاع النور ، فبه نطق لساني ، وبه أبصرت عيني ، وبه مشت رجلي ، وبه سمعت أذني، فضعف عليه أنواع العذاب ونجني منه . قال: فيضرب الله لهما مثلا أعمى ومقعدا دخلا بستانا فيه ثمار، فالأعمى لا يبصر الثمرة والمقعد لا ينالها ، فنادى المقعد الأعمى ايتني فاحملني آكل وأطعمك ، فدنا منه فحمله ، فأصابوا من الثمرة ; فعلى من يكون العذاب ؟ قال : عليكما جميعا العذاب ; ذكره الثعلبي. (التفسیر القرطبی النحل - 111) 
میدان محشر میں حساب کتاب شروع ہونے سے قبل زبان حال یا مقال سے ہرفردِ بشر بجز محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اپنی فکر میں “ نفسی نفسی “ کہتا پھرے گا 
کوئی دوست کسی دوست کو نہیں پوچھے گا. نفسی نفسی زبان حال یا مقال سے سیدالانبیاء کے علاوہ ہر فرد بشر(بہ شمول انبیاء) کا دہرایا جانے والا عام مقولہ ہوگا 
یہ مقولہ بصراحت صحیحین  چند اولوالعزم انبیاء کی زبانی موجود ہے (البخاري (4712)، ومسلم (194) 
آیت مبارکہ (كل نفس تجادل عن نفسها) کا عموم بتاتا ہے کہ اپنے نفس کے اعمال کی جوابدہی اور دفاع کی فکر ہر کسی کو دامن گیر ہوگی، جن انبیاء کے پاس لوگ شفاعت کی غرض سے جائیں گے وہ بھی اپنے بعض اعمال کے ظاہری شکل وصورت کے لحاظ سے جوابدہی کی فکر میں ہونگے اور اس باعث شفاعت سے معذوری ظاہر فرمائیں گے. اور سید الانبیاء کی طرف  محول فرمادیں گے۔ ذرا اندازہ لگائیں کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ جیسے جلیل القدر نبی، جن کی حنیفیت،  امامت اور صالحیت کے  بارے قرآن کریم ناطق ہے: 
إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِّلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (120)
{وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الآخِرَةِ لَمِنِ الصَّالِحِينَ} [العنكبوت: ٢٧]
جب وہ  "نفسی نفسی" فرمارہے ہیں جیساکہ صحیحین کی روایت میں موجود ہے  تو باقی انبیاء کا کیا پوچھنا؟ حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
وَفِي الْحَدِيثِ الصَّحِيحِ-فِي أَمْرِ الشَّفَاعَةِ-: أَنَّهُ إِذَا طُلِبَ إِلَى كُلٍّ مِنْ أُولِي الْعَزْمِ أَنْ يَشْفَعَ عِنْدَ اللَّهِ فِي الْخَلَائِقِ، يَقُولُ: نَفْسِي نَفْسِي، لَا أَسْأَلُهُ اليومَ إِلَّا نَفْسِي، حَتَّى إِنَّ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ يَقُولُ: لَا أَسْأَلُهُ الْيَوْمَ إِلَّا نَفْسِي، لَا أَسْأَلُهُ مَرْيَمَ الَّتِي وَلَدَتْنِي. وَلِهَذَا قَالَ تَعَالَى: (يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ * وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ * وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ)
(تفسير ابن كثير تحت آية (يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ * وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ * وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ)
پھر اس ذیل میں خوب واضح انبیاء کرام کا نفسی نفسی کا کہنا عام امتیوں کی طرح ان کی گھبراہٹ کو مستلزم نہیں ہے ؛ بلکہ بموجب آیات کریمہ: 
وَلا يَسْأَلُ حَمِيمٌ حَمِيماً  يُبَصَّرُونَهُمْ} [المعارج: ١٠، ١١] “ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ (عبس37)
“يَوْمَ تَأْتِى كُلُّ نَفْسٍۢ تُجَٰدِلُ عَن نَّفْسِهَا” ( النحل ۱۱۱)
ہر کسی کو اپنے اعمالِ نفس کی جوابدہی کی فکر ہوگی. سوائے محمد عربی کے کوئی نبی اپنی ذاتی شرافت یا علو مقام کے باوجود اپنے گرد وپیش نظر آنے والے یا بہرِ شفاعت پہنچے کسی عزیز، رشتہ دار یا امتی کو اس روز کی دہشت وخطر ناکی سے بچانے کی پوزیشن میں نہیں ہونگے. اس خصوصی شفاعت کبری کے تاجدار اس روز صرف ہمارے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم ہونگے. 
(يغبطه فيه الأولون والآخرون) 
روز قیامت کی ہولناکیوں کے مد نظر اعمال نفس کے دفاع وجوابدہی کی فکر کوئی معیوب شئی نہیں ہے۔ آیات واحادیث شفاعت سے اس کا عموم ثابت ہوتا ہے ۔اسی فکرِ جوابدہی کا تکرار، زبان مقال یا زبان حال سے روز محشر “ نفسی نفسی “ کے پیرائے میں عام ہوگا۔ عام امتی کی گھبراہٹ کی نوعیت الگ ہوگی، انبیاء کرام کے مقولے کا مفہوم مختلف ہوگا۔ مفہوم کے فرق کے ساتھ یہ مقولہ عام ہے، احادیث میں جن انبیاء کا ذکر آیا ہے انہی کے ساتھ خاص نہیں ہے. عموم آیات کریمہ سے اس مقولے کی تعمیم کی گنجائش ہے۔ جب یہ صحیح احادیث ومتعدد آیات کریمہ سے اشارۃً ثابت ہے تو پھر یہ شان انبیاء کے منافی بھی نہیں ہوسکتا اور اوپر بیان کردہ معنی ومفہوم کے پس منظر میں تنقیص آمیز بھی نہیں ہے. احادیث سے ماثور ومنقول صیغوں میں اپنی طرف سے حذف وزیادتی کرنا اور پھر اسے کلام رسول کی حیثت سے بیان کرنا  غلط ہے، یہاں بھی غلط ہوگا۔ حدیث کا نام وعنوان دیئے بغیر تشریح وتوضیح کی حیثیت سے اگر کوئی عربی زبان میں ہر نبی کی طرف اس مقولے کی نسبت اگر کررہا ہے تو اس میں (بندہ کے خیال ناقص میں) شرعی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس ذیل میں یہ خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ اپنے اعمال کی جوابدہی کی یہ فکر عمومی حساب کتاب شروع ہونے سے قبل کی ہے. حساب کتاب ہوجانے اور جنت وجہنم کے فیصلے ہوجانے کے بعد جنتی کو اب ہول وخوف نہیں ہوگا، فرشتے باب جنت پہ استقبال  کے لئے  فرش راہ ہونگے:
لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْأَكْبَرُ وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ هَٰذَا يَوْمُكُمُ الَّذِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ[ سورة الأنبياء: 103]
علامہ بغوی معالم التنزیل میں لکھتے ہیں:
 (لا يحزنهم الفزع الأكبر) قال ابن عباس: الفزع الأكبر النفخة الأخيرة بدليل قوله عز وجل (ويوم ينفخ في الصور ففزع من في السماوات ومن في الأرض) (النمل 87)، قال الحسن: حين يؤمر بالعبد إلى النار قال ابن جريج: حين يذبح الموت وينادى يا أهل الجنة خلود فلا موت ويا أهل النار خلود فلا موت وقال سعيد بن جبير والضحاك : هو أن تطبق عليهم جهنم وذلك بعد أن يخرج الله منها من يريد أن يخرجه. 
تفسیر جلالین میں بھی اس کا محل یہی بتایا گیا ہے:
(لا يحزنهم الفزع الأكبر) وهو أن يؤمر بالعبد إلى النار
جنت کی نعمتوں کو دیکھ کر جنتیوں کے چہرے ہنستے کھلتے اور ہشاش بشاش ودرخشندہ ہونگے جبکہ جہنمیوں کے چہرے غبار آلود اور کالک میلے ہوئے ہونگے، اس نوع کی دیگر کیفیات کا بیان جنت وجہنم کے فیصلے ہوچکنے کے بعد کا ہے ؛ جبکہ عمومی ہول ودہشت آغاز حساب کتاب سے پہلے کا ہے. فلامنافاة!   
علماء کرام کو زبانی کلامی درسی بیانات پہ انحصار کی بجائے اصول فقہ میں بیان کردہ استنباط واستخراجِ احکام کے مصادر ومراجع  سے استفادے کی کوشش پہ زیادہ توجہ مرکوز رکھنی  چاہیے ۔ تضییق وتحجیر اور تمییع وتوسعِ بے جا کے درمیان اعتدال وتوازن کے ساتھ غور وتدبر اور اخذ واستنباط کی ضرورت ہے. 
فقط واللہ اعلم
مرکز البحوث الإسلامية العالمي
(پیر 28؍ ربیع الثانی 1445 ھ13؍نومبر 2023ء)

Friday, 10 November 2023

اذان کے کلمات میں کتنا مد کیا جائے؟

اذان کے کلمات میں کتنا مد کیا جائے؟
سوال:مکرم ومحترم حضرت مولانا مفتی نظام الدین صاحب زیدمجدہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج فجرکی اذان کی آواز پر تحقیق کرنے پر ظاہر ہوا کہ دارالعلوم کی مسجد کی اذان ہے، اور اس طرح ہوئی ہے متعدد کلمات میں مد زیادہ مسموع ہوا، نیز بعض کلمات میں تمطیط بھی ظاہر ہوئی، اس سلسلہ میں اپنی معلومات کی بناء پر ایسی اغلاط کی اصلاح کی سعی کرتا رہتا ہے۔ براہ کرم آپ بھی اپنی تحقیق سے مطلع فرماکر ممنون فرماویں۔
ومن ثم تاکد علی الموذنین ان یحترز وامن اغلاط یقعون فیہا فان بعضہا کفر وبعضہا لحن خفی کترک ادغام دال محمد فی راء رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم- ومدّ الف اﷲ والصلوٰۃ والفلاح الخ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ،ج:۱، باب اذان(ای المدّالطبعی) مقدار الف وصلاً ووقفاً ونقصہ عن الف حرام شرعاً فیعاقب علی فعلہ ویثاب علی ترکہ۔ فما یفعلہ بعض ائمۃ المساجد واکثر الموذنین من الزیادۃ فی المدالطبعی علی حدّہ العرفی ای عرف القرّاء۔ فمن اقبح البدع واشد الکراہۃ۔ وقد یقتدی بہم بعض الجہلۃ من القرّاء۔ بنات القول المفید فی علم التجوید
۔المستفتی: ابرارالحق
(حضرت مولانا ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم خلیفہ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ)
-------
جواب: محترمی المحترم دامت برکاتہم وعمت وتمت بالخیر والعافیۃ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
جناب والا تو احقر کے نزدیک مستند ہیں اور آپ کی سب باتیں سند کے درجہ میں سمجھتا ہوں، پس جتنی باتیں آنجناب نے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ سے نقل فرمائی ہیں وہ سب بھی صحیح ہیں، جناب کا اتنا فرمادینا بھی کافی تھا کہ مؤذنین کی غلطیوں کی اصلاح کرو اوراس طرح کرو اور بس مگر جناب نے فرمادیا کہ اپنی تحقیق سے مطلع کرو، اس کی تفصیلات تتمیماللفائدۃ چند روایات جو اذان سے متعلق ہیں پہلے نقل کردی جاتی ہیں، مثلاً۔
(۱) ابوداؤد شریف باب کیف الاذان یرفع، کہ صاحب رؤیا عبداللہ بن زید کو خود اذان دینے کا حکم دینے کے بجائے حضرت عبداللہ بن زید کو حکم فرمایا کہ قم مع بلال فالق علیہ ما رأیت فلیؤذن بہ فانّہ اندیٰ صوتامنک فقمت ُ مع بلال الخ۔ اسی حدیث پاک کے اندر اشارہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیاد پر شارح مشکوٰۃ صاحبؒ اشعۃ اللمعات باب کیف الاذان میں اندیٰ صوتامنک کا ترجمہ اس طر ح فرماتے ہیں زیر اکہ بدرستی تیز تروبلند تروشیریں تر است۔
(۲) عن ابی ہریرۃ ص قال قال رسول اﷲ ﷺ المؤذن یغفرلہ مدی صوتہ ویشہدلہ کل رطب ویابس وشاہد الصلوٰۃ، مشکوۃ شریف ۔ قال فی التعلیق ،ج:۱۔ مدی الصوت غایۃ الصوت۔ المعنی انہ یتکمل مغفرۃ اﷲ تعالیٰ اذا استوفی وسعۃ فی رفع الصوت۔
(۳) اسی کی تشریح البحرالرائق ج:۱،ص:۲۷۹ میں اس باب میں ہے وان کان فی الصحراء اویرفع (الصوت) للترغیب الوارد فی الحدیث فی رفع صوت المؤذن لا یسمع مدی صوت المؤذن انس ولاجن ولاملک الا شہدلہ یوم القیمۃ۔
۴) زیر تشریح اسی حدیث پاک: عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اذا نودی للصلوۃ ادبر الشیطان لہ ضراط حتی لا یسمع التاذین الخ۔ عن الشیخین۔ (مشکوٰۃ شریف ،ص: ۶۴)
(۵) عن قـتـــادۃ قال سئل انس کیف کانت قراء ۃ النبی صلی اﷲ علیہ وسلم، فقال کانت مدًا مدًا ثم قرأ بسم اﷲ الرحمن الرحیم بمد بسم اﷲ وبمد الرحمن و بمد الرحیم، رواہ البخاری۔ (مشکوٰۃ شریف: ص: ۱۹۰)
وتحت قول بمد بسم اﷲ کانت مداً ای ذات مد والمراد منہ تطویل النفس فی حروف المدواللین عند الفصول والغایات وفی غیر ذلک مما یحسن المدلفظہٗ (التعلیق الصبیح، ج: ۳، ص: ۲۹)
اس روایت سے ایک خاص بات یہ معلوم ہوئی کہ تلاوت کرنا سراً بھی بلاکراہت جائز ہے لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہراً قرأت فرماتے تو بکثرت مد فرماتے حتی کہ بسم اللہ کو بھی مد کے ساتھ قرأت فرماتے اور الرحمن کو بھی مد کے ساتھ قرأت فرماتے اور رحیم کو بھی مد کے ساتھ قرأت فرماتے، اور شراح مدت رحیم کے مد کی تشریح فرماتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ای (کانت) ذات مدوالمراد منہ تطویل النفس فی حروف المد واللین عند الفصول والغایات وغیرذلک ممایحسن المدلفظہ (التعلیق الصبیح ، ج: ۳، ص: ۲۹)
یہیں سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ تلاوت ہمیشہ جہراً ہونا لازم نہ ہونے کے باوجود جب جہراً تلاوت کا موقع آیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مداً مداً تلاوت فرماتے تھے۔ کما مرّ فی روایۃ البخاری ومسلم اور اسی طرح بسم اللہ میں بھی مد فرماتے رحمن میں بھی مدد فرماتے رحیم میں بھی مد فرماتے،نیز موقع بموقعہ ہر جگہ مد فرماتے اور یہ مد کرنا اگر چہ فن تجوید کے اعتبار سے مد اصطلاحی نہیں ہوتا تھا بلکہ تحسین صوت کے لئے تطویل نفس اس طرح ہوتا تھا کہ سننے والے اس کو مد سمجھتے تھے، پس تلاوت جس میں جہر ہر حال میں لازم نہیں مگر جب جہر فرماتے تو تحسین صوت کے لئے بشکل تطویل نفس مد فرماتے خواہ لغوی ہی ہو تو اذان صلوٰۃ میں مدیٰ صوتہ وغیرہ روایات کے مطابق مؤذن کا اپنی پوری طاقت وقوت کے ساتھ جہر کرنا شرعاً مطلوب ہے، اس لئے اس جہر میں تحسین صوت کے لئے حدود شرع میں رہتے ہوئے مد کرنا شرعاً مطلوب ہوگا، انہی وجوہ سے فقہ ائمہ اربعہ ج، ۱، ص: ۳۲۱ میں بیان مندوبات الاذان وسننہ میں حنفیہ کا قول بایں الفاظ منقول ہے۔ قالت الحنفیۃ التغنی فی الاذان حسن الاذادیٰ الی تغیر الکلمات بزیادۃ حرکۃ اوحرف فانہ یحرم مافعلہ لا یحل سماعہ اور یہیں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مرقاۃ شرح مشکوۃ باب الاذان وغیرہ سے جو عبارتیں نقل کی گئی ہیں وہ سب واجب اللحاظ والعمل ہیں اور ان سب روایات وعبارت ودلائل کا حاصل یہ نکلا کہ اذان کے کسی کلمہ میں کسی حرکت یا حرف کی زیادتی وکمی کے بغیر اور آواز بگاڑنے کے بغیر مدی صوتہ وغیرہ دلائل کے پیش نظر اپنی بلند سے بلندآواز سے اسی طرح اذان دیجائے کہ اس میں گانے کی آواز بن جانے کا کوئی شائبہ نہ آوے ہاں اگر تحسین صوت کے لیے تطویل نفس (سانس کھینچنا) کرنے سے مدلغوی کی صورت پیدا ہوجائے تو اس میںمضائقہ نہ ہوگا جیسا کہ عبارت سے ظاہر ہے بشرطیکہ اہل تجوید اور مجودین کے اصول کے خلاف اور ان کا اصطلاحی مد نہ ہوجائے۔
اس تمہید کے بعد اب احقر اپنے عامیانہ اور سادے الفا ظ میں بعض ان خرابیوں کی نشاندہی کرتاہے جو بعض موذنین میں پائی جاتی ہیں مثلاً لفظاًاشہد کو اشدوا پڑھ رہے ہیں ان میں لحن جلی ہوجاتا ہے جو ناجائز اور حرام ہے، اسی طرح لاالٰہ میں لا کو اتنا کھینچ دیتے ہیں جو الٰہ سے کٹ کر الگ ہوجاتاہے یہ فعل تقطیع کہلاتا ہے جو حرام و ناجائز ہے۔ ماناکہ لاالٰہ میں لام کے اندر مدطویل اصلی ہے مگر اس کو اہل تجوید کے مد اصلی سے زائد نہ ہونا چاہئے ورنہ تقطیع مذکور ہوکر ممنوع وحرام ہوجائے گا۔
اسی طرح لفظ اللہ کے الف کو صلاۃ وفلاح کے الف کو اس طرح اتار و چڑھاؤ سے ادا کرتے ہیں کہ تطریب اور ارتعاش پیدا ہوکر بسا اوقات تقطیع بھی پیدا ہوکر ہمزہ کی زیادتی بھی معلوم ہوجاتی ہے اور آواز الف میں اَئَ اَئَ کی آواز پیدا ہوکر لحن جلی بھی پیدا ہوکر ممنوع وحرام وناجائز ہوجاتا ہے۔اسی طرح کی اور جو بعض خرابیاں بعض مؤذنین میں پیدا ہوجاتی ہیں جیسا کہ مرقاۃ شریف مشکوۃ شریف کی شرح میں مذکور ہے ان سب سے بھی احتراز واجب ہے،چوں کہ استفتاء میں بعض ائمہ مساجد کی تلاوت فی الصلوٰۃ کی کوتاہیوں اور ان کی اصلاح کی جانب بھی اشارہ ہے اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کی موٹی موٹی بعض کوتاہیوں کو بتلاکر اصلاح کی جانب ان کی توجہ مبذول کروادی جائے، بعض اچھے خاصے قاری مگر نماز میںاس طرح قرأت فرماتے ہیں کہ ان کی قرأت منھ کے اندر ہی رہ جاتی ہے پتہ نہیں چلتا ہے کہ کیا پڑھ رہے ہیں، پس اگر بھاری آواز ہے تو بسا اوقات غل بل غل بل پر کر اونٹ کی آواز کے مثل آواز ہوجاتی ہے،اور اگر باریک آواز ہے تو کبوتر وقمری کی آواز کی طرح ہوجاتی ہے۔ حالاں کہ یہ آیت کریمہ ورتل القرآن کا مفہوم یہ ہے کہ ہر لفظ اپنے صحیح مخرج سے اس طرح نکلے کہ ہرکلمہ متبین ومتمیّز ہوکر الگ الگ موتی کی طرح بکھرے ہوئے اور صاف مسموع ہوں کہ سننے والے کا ذہن ان کے مفاہیم کی جانب متوجہ ہوسکے جیسا کہ مفسرین نے اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرمایا ہے اسی طرح بعض حضرات صاف تو پڑھتے ہیں مگر طریقہ پڑھنے کاغلط ہوتا ہے مثلاً الحمد ایک الگ کلمہ ہے اس کو الگ متبین ومتمیّز ہونا چاہیے اور ﷲ الگ کلمہ ہے، اس کو الگ متبین ومتمیّز ہونا چاہیے اور رب العالمین الگ کلمہ ہے اس کو الگ متبین ومتمیّز ہونا چاہیے، مگر پڑھنے میں الحم کی میم پر اس طرح زور دیتے ہیں کہ اس کی د،کٹ کر الگ اور للہ کے ساتھ مل کر دُللّٰہ کی آوازبن جاتی ہے،اسی طرح للہ ایک الگ کلمہ ہے مگر للہ میں لام کو اتنا زور دیتے ہیں کہ وہ کٹ کر رب العالمین کے ب کے ساتھ مل جاتی ہے اور متصل ہوجاتی ہے۔ اسی طرح اتنا زور دیتے ہیں کہ وہ کٹ کر رب العالمین اک الگ کلمہ ہے اس کوصرفی ونحوی قواعد کے ساتھ رعایت کے ساتھ ہونا چاہیے، مگر تلفظ بگڑ کر ترتیل الحم الگ اور للہ الگ اور ھِ رب العالمین رب الگ ہوکر غتربود ہوجاتا ہے۔ العالمین معرف باللام ہے یہ اس لئے صرفی ونحوی ضابطہ کے مطابق ب العالمین سے مل گئی اور لغوی وصرفی ضابطہ معانی کے مطابق پڑھنے کی وجہ سے غلطی شمار نہ ہوگا، پھر ایاک کا ف فتحہ کے ساتھ ایک الگ اور مستقل لفظ ہے محض ایا کوئی لفظ نہیں ہے مگر اس کے پڑھنے میںایّاکو اتنا زوردیتے ہیں کہ کاف کا فتحہ رواں نہیں رہا بلکہ ک نستعین کے ساتھ ملحق ہوکر معنی میں بگاڑ پیدا ہوجائے،اسی طرح مغضوب علیہم میں ضؔ ہے ض ؔکو د ؔ سے بدل کر صاف مغدوب علیہم پڑھ دیتے ہیں اس غلطی سے یہ کلمہ سہل ہوجاتا ہے اور قرآنی لفظ نہیں رہتا ہے، اسی طرح ولاالضالین ضؔ سے ہے مگر ضؔ کو دؔ سے بدل کر صاف ولاالدالین پڑھ دیتے ہیں جس سے معنی کفری پیدا ہوجاتے ہیں اس لئے کہ ولاالضالین کے معنی ہیں ہم کو گمراہوں کا راستہ نہ دکھا اور ولا الدالین کے معنی ہیں راہبروں اور راہنمائوں کا راستہ نہ دیکھائے۔
پھر اس سوال کاجواب پھر نماز کے فاسد ہوجانے کا حکم کیوں نہیں دیا جاتا، یہ جواب کتب فقہ میں دیکھئے، یہ بحث خارج ازموضوع ہے، یہاں تو صرف دکھانا مقصود ہے کہ فن تجوید سے کیا کیا غلطیاں اور کس درجہ کی سرزد ہوتی ہیں۔
چنانچہ عربی زبان میں ضؔ، ظؔ، ذؔ، زؔ، ہر ایک الفاظ میں اور ان سب کے صفات لازمہ الگ الگ ہیں اور صفات لازمہ ہی سے آواز پیدا اور متمیّز ہوتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ض کے اندر پانچ صفات لازمہ ہیں،ان میں سے تین صفات لازمہ وہی ہیں جو ظ کے صفات لازمہ ہیں،لہٰذا ،ض،ذ،ظ، کی آواز میں توکچھ مشابہت ہوسکتی ہے نہ کہ ذزد کی آواز کے ساتھ اس لئے ان کے صفات لازمہ میں سے بعض حروف میں کوئی مشابہت نہیں ہے جو انہیں میں اس کے مشارکۃ فی الذات کا اور بعض میں دیگر مشارکۃ ہے تو حروف دوایک وصف میں سے ہے کہ یہ مشارکۃ صفات لازمہ کی د، کے ساتھ نہ ہونے کے باوجود ،ض، کو د، کے آوازکیوں اور کہاں سے پڑھا جائے گا۔ اگر کہا جائے کہ عرب کے لوگ آج کل اسی طرح پڑھتے ہیں تو یہ کوئی شرعی وجہ نہیں، اس لئے کہ بہت سے عرب آج کل ق، کو گ، پڑھتے ہیں اور بہت حائِ حطی خاء ثخذ پڑھتے ہیں وغیرہ، بلکہ احقر کے تجربہ ومشاہدہ میں تو یہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں جہاں لفظ ،ض، ہے اگر اس کو لفظ د ،سے پڑھا جائے تو پھر یا تو معنی کفری پیدا ہوجائیں گے جیسے ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ میں فتردی پڑھنے میں کفری معنی پیدا ہوجاتے ہیں، اور ایسا ہی حال اور بھی بہت سی آیات میں ہوتاہے اوربعض آیات میں معنی فاسد ہوجاتے ہیں۔ جیسے اقرضوا ﷲ قرضاً حسنا الآیۃ میں ض کو بدل کر د پڑھ دیں گے تو اقردواللہ قرداً حسنا ہوجائیں گے اور معنی یہاں متغیر ہوجائیں گے پس قیاس کن زگلستان من بہار مرا۔
حدر پڑھانے والے قاری حضرات کو اس طرف خاص توجہ رکھنا اور توجہ دلانا لازم ہے۔
فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔
کتبہ العبد نظام الدین الاعظمی عفی عنہ
مفتی u، ۱۲؍۱۲؍۱۴۱۳ھ
--------
حضرت محی السنہ رحمۃ اللہ علیہ کی اس تحریک پر علماء نے بڑا ظلم کیا ہے۔
حضرت مد تعظیمی کے اصرار کے درجہ میں خلاف تھے ،اور علماء اس میں گنجائش کا حوالہ دیتے ہیں۔
مگر اور جگہوں پر کوئی گنجائش نہ ہوکر بھی ان پر توجہ نہیں۔
بعض اغلاط تو جہلاء کی ہیں،  تصحیف ، تحریف  وغیرہ
مگر علماء و پڑھا لکھا طبقہ بھی اپنے حلقے کی خامیوں اور بڑی خامیوں پر توجہ نہیں کرتا ، جیسے اسی فتوی میں مذکور تطریب، تقطیع، وغیرہ ۔
 نہایت جامع و مدلل فتوی ہے۔

Monday, 6 November 2023

اپنے خالق کےحضور میں میاں جی عظمت اللہ رحمۃ اللہ علیہ

اپنے خالق کےحضور میں میاں جی عظمت اللہ رحمۃ اللہ علیہ
میں نے تقریبا 1995 اور ء1994ء کے دوران اپنے تبلیغی شعور کے آغاز میں، میاں جی کو دیکھا اور سنا،اور تب سے اب تک نہ جانے کتنی مرتبہ دیکھنے، سننے اور ملنے کا موقع ملا، ہم انہیں جب دیکھتے اللہ یاد آجاتا، جب ان کے بیانات سنتے، اللہ کی عظمت سے دل لبریز ہوجاتا اور آخرت کی یاد تازہ ہوجاتی، یہ بات مبالغہ نہیں حقیقت ہے اور اس حقیقت کا اعتراف کرنے والے سینکڑوں نہیں ہزاروں اور لاکھوں ہیں اور اس کی شہادت دینے والے عوام ہی نہیں علماء بھی ہیں_
وہ امی تھے، میرا اپنا خیال ہے کہ  قرآن کریم کے علاوہ وہ اردو زبان بھی ٹھیک سے نہیں پڑھ سکتے تھے ان کے لہجے اور تعبیرات میں میواتیت غالب ہوا کرتی تھی، ان سب کے باوجود عوام وخواص ان کے بیانات کے طالب اور متمنی ہوا کرتے، ان کے بیانات نظام الدین میں بھی ہوتے تھے اور چھوٹے، بڑے اجتماعات میں بھی، بھوپال کے عالمی اجتماع میں بھی، رائیونڈ اور ککریل میں بھی، کئی مرتبہ میں نے خالص علماء کے بڑے مجمع میں بھی ان کا بیان سنا ہے، بسا اوقات دوران بیان ان کی آنکھ سے آنسو رواں ہوجاتے اور سامعین کی آنکھیں بھی نم ہوجاتیں_
ان کا بیان ان کے نام کا پرتو ہوا کرتا، عظمت اللہ ان کا نام تھا اور عظمت الہی ہی ان کے بیان کا غالب حصہ ہوا کرتا ہے، دو، ڈھائی گھنٹے کے بیان میں وہ اللہ کی قدرت اور عظمت اس قدر سمجھاتے کہ ہر سامع اپنے دل میں ایمان کی حلاوت  اور ترقی محسوس کرتا، مولنا یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے دور کے لوگ کہتے کہ ان کا بیان مولنا کے بیان سے ماخوذ ومستفاد ہے، بیان سننے والا غیراللہ کو بے حیثیت وبے قیمت سمجھنے لگتا، صاحب قدرت رب کے سامنے خود کو ذلیل و بے بس محسوس کرتا_
غالبا 2014 کی بات ہوگی، رمضان کا مہینہ تھا، دارالعلوم دیوبند کے ایک صاحب تحقیق وتصنیف، موقر استاد، نظام الدین تشریف لائے. عصر کے بعد مسجد میں میاں جی کا بیان تھا، مجھ سے کہنے لگے چلو بیان میں شرکت کرتے ہیں، مجھے کچھ تردد ہوا کہ کہیں میاں جی کی خالص دیہاتی زبان واسلوب کسی بدگمانی کا سبب نہ بن جائے کہ یہ عالمی مرکز ہے لیکن بیان کے بعد استاد محترم کا تاثراتی جملہ تھا کہ "بھئی ایسے ہی لوگوں کے بیان سے ایمان میں تازگی پیدا ہوتی ہے." 
میاں جی کو میں جب بھی دیکھتا  کسی نہ کسی اجتماعی یا انفرادی عمل میں مشغول پاتا، وہ یاتو بیان کررہے ہوتے، یا پھر تلاوت یا  ملنے والوں کو ترغیب ونصیحت کرریے ہوتے، مجھے ان  کی عملی اور مقصدی زندگی پر ہمیشہ رشک آتا.
انہیں عمر طویل (95) عطاہوئی اور  اچھا عمل نصیب ہوا، گویا آپ اس حدیث کا مصداق  تھے، جس میں سائل نے بہترین آدمی کا سوال کیا تو زبان رسالت مآب سے جواب ملا:
من طال عمره وحسن عمله،
جس کی عمر طویل اور عمل اچھا ہو.
وہ بلاشبہ اس دور میں ایمان، توکل، سادگی، تواضع، اخلاق واخلاص کے اعلی معیار پر تھے اور  فکر، دعوت، عبادت وقربانی وعزیمت  کے باب میں دعوت و تبلیغ کے سابقین اولین کا نمونہ تھے، انہوں نے راہ خدا میں طویل مدتی ومسافتی سفر خوب کیا. کسی زمانے میں امریکہ میں سال لگایا، چار ماہ چالیس مرتبہ سے زائد لگایا. بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ چار ماہ کے خروج سے واپسی پر جماعت تشکیل کرکے مرکز لائے. امیر نہ ملنے پر دوبارہ خود ہی لے کر چلے گئے. پھر دوبارہ سہہ بارہ ایسا ہوا، اس طرح "چار ماہ" سال ڈیڑھ سال میں پورا ہوا، علماء کی جماعتیں بھی خوب چلائیں. جب تک سفر کے قابل تھے، سال لگانے والے علماء کی تمنا ہوتی تھی کہ ہمارا کچھ وقت میاں جی کے ساتھ لگ جائے. میاں جی مشورے سے انہیں لے جاتے، وقت لگانے والے علماء ان کے ساتھ گذرے ایام کو انتہائی مفید بتاتے.
میاں جی عجائب قدرت کو خوب کھول کھول کر بیان کرتے،اور بذات خود قدرت کا عجوبہ اور انا عند ظن عبدی بی کا نمونہ تھے، مشہور ہے کہ تقریبا پچیس سال قبل ایک بڑے مسلم ڈاکٹر (جنہیں میں بھی جانتا ہوں ) نے میاں جی سے کہا: ہمارے فن اور میڈیکل سائنس کے اعتبار سے آپ  چند مہینوں سے زیادہ زندہ نہیں رہیں گے. میاں جی نے برجستہ کہا: دیکھ نہ تو اپنا ایمان خراب کر ، نہ ہی میرا ایمان خراب کر، (اللہ کی) قدرت سے اب تک زندہ رہے ہیں، آئندہ بھی جب تک قدرت (الہی) چاہے گی زندہ رہیں گے، اس کے بعد ایک عرصے تک نہ صرف بقیدحیات رہے بلکہ سارے اعمال وأسفار بھی کرتے رہے، تقریبا چار سال قبل ان کے لائق وفائق فرزند  مولانا فاروق صاحب جو والد کی خدمت میں رہتے تھے ، طبیعت کی ناسازی کے بعد دہلی کے ایک اسپتال میں لے گئے. ڈاکٹروں نے ڈائلسس تجویز کیا، میاں جی نے منع کردیا اور واپس آگئے اور پھر معمول کے مطابق سارے اعمال یہاں تک کہ بیان بھی کرتے رہے. اسپتال کے مالک کو جب اس کی خبر ہوئی تو وہ بہت معتقد ہوگیا، وہ ملنے آتا اور اپنے نئے اسپتال کا افتتاح اس نے میاں جی  سے یہ کہتے ہوئے کروایا کہ "یہ ہمارے میڈیکل اصول وضوابط سے مستثنی ہیں، یقینا یہ کوئی خاص مقام رکھتے ہیں." 
میاں جی نے ہجرت بہت کی تھی اس لئے ان کی خواہش تھی کہ میرا انتقال یا تو خروج فی سبیل اللہ میں ہو یا پھر مرکز نظام الدین میں، کرونا کے زمانے میں جتنے دنوں مرکز کے باہر رہے، مرکز آانے کے لئے بے قرار رہتے، ہر دن دعاء کرتے کہ: "مولی مجھے گھر پر موت نہ آئے." بالآخر تمنا پوری ہوئی. مولی کےا س سچے عاشق نے مرکز میں قیام کے دوران جمعہ کے مبارک دن اپنی جان، اسی قدرت والے مولی کے سپرد کردی جس کی قدرت سمجھنے اور سمجھانے میں اپنی زریں عمر کا ایک ایک لمحہ خرچ کردیا، وہ درد بدر پھرتا رہا، جوانی میں بھی ، ضعیفی میں بھی ، پیدل بھی، سواری سے بھی.
جان ہی دے دی جگر نے آج پائے یار پر 
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آہی گیا
میرا اپنا حسن ظن ہے (ولا ازكي أحدا علي الله) کہ انہیں 'نفس مطمئنة'حاصل تھا. مجھے امید کہ میاں جی کو  یہ نوید جانفزا سننے کو ملے گی
يايتها النفس المطمئنة،ارجعي الي ربك راضية مرضية، فادخلي في عبادي،وادخلي جنتي. 
محمد اشرف علی محمد پوری 
23/9/2023 ( #ایس_اے_ساگر )

Sunday, 5 November 2023

ایک معلمہ کا پیغام امت مسلمہ کے مردوں کے نام

ایک معلمہ کا پیغام امت مسلمہ کے مردوں کے نام
اے میرے بھائی!
اے پیارے بیٹے!
جب تم اپنے گھر سے باہر نکلو گے تو تمہیں دو قسم کی عورتوں سے سابقہ پڑے گا
پہلی قسم:
ایسی عورت جو عزیز مصر کی بیوی والے مرض میں مبتلا ہوگی بن سنور کر خوشبوؤں میں نہا کر بے پردگی کے ساتھ بےحیا بن کر نکلی ہوگی اور زبان حال سے کہ رہی ہوگی: هيت لك 
دوسری قسم:
ایسی عورت جو با پردہ و باحجاب ہوگی لیکن حالات نے اسے حاجات و ضروریات کی انجام دہی کے لئے باہر نکلنے پر مجبور کردیا ہوگا۔ اس کی زبان حال گویا ہوگی: 
حتى يصدر الرعاء و أبونا شيخ كبير
لہذا پہلی قسم کی عورت کے ساتھ حضرت یوسف علیہ السلام والا طرزعمل اختیار کرنا، نگاہوں میں سرمۂ حیا لگا کر جھکائے رکھنا اور کہنا: معاذ الله
اور دوسری قسم کی عورت کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے طرزعمل کو اپنانا، بہت ہی ادب کے ساتھ خدمت پیش کرکے اپنی راہ اپنالینا: 
فسقى لهما ثم تولى إلى الظل
اس لئے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی عفت نے آپ کو حاکم مصر بنا دیا۔
اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خودداری و باوقار خدمت کے سبب اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے سرو سامانی کے عالم میں ٹھکانہ اور نیک صالح بیوی عطا فرمائی. 
اللهم ارزقنا العفاف و الستر
عورت کے لباس باپ کی تربیت، بھائی کی غیرت، شوہر کی عزت نفس، ماں کی نگہداشت، اور ان سب سے قبل اس کے اللہ تعالیٰ سے تعلق کو بیان کر دیتے ہیں۔
اسی وجہ سے لوگوں نے حضرت مریم علیہا السلام سے کہا تھا: 
يا أخت هارون ما كان أبوك امرأ سوء وما كانت أمك بغيا
حضرت مریم کے ساتھ ساتھ ان کے بھائی، باپ اور ماں کو بھی ذکر کیا، کہ ان کی صلاح و دینداری میں لڑکی کی صلاح و عفت ہے۔ 
ایک خاتون کہتی ہیں: جب میں کسی لڑکی کو فیشن و نمائش میں اور بے حیا و تنگ لباسی میں دیکھتی ہوں تو اس کے والدین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی وعید ذہن میں گردش کرنے لگتی ہے: 
[وقفوهم إنهم مسؤولون] 
تو میں اور زیادہ با حیا بن جاتی ہوں تا کہ میرے والدین سے مجھ سے متعلق سوال نہ ہو!!! 
دنیا کی ساری حرام چیزیں جنت میں حلال ہو جائیں گی سوائے فحاشی و عریانی کے (یعنی جنت میں بھی فحاشی اور عریانیت نہیں ہوگی) اللہ تعالیٰ نے اسے دونوں جہانوں میں حرام ہی رکھا ہے، بلکہ لباس اور ستر پوشی تو ایک بہت بڑی نعمت ہے؛ 
إن لك ألا تجوع فيها و لا تعرى 6 
(جنت میں بھوک اور بے پردگی نہیں ہوگی)





Saturday, 4 November 2023

دمہ کیوں ہوتا ہے اور متاثرہ افراد کو کن چیزوں سے بچنا چاہئے؟

دمہ کیوں ہوتا ہے اور متاثرہ افراد کو کن چیزوں سے بچنا چاہئے؟
عالمی ادارہ صحت لاور عالمی دمہ نیٹ ورک کے مطابق دنیا بھر میں 30 کروڑ افراد دمہ سے متاثر ہیں اور اس تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس مضمون میں اس مرض کی وجوہات، علامات اور اس مرض کے باوجود ایک بہتر زندگی گزارنے کے لیے مشورے دیے جا رہے ہیں۔
دمہ کیا ہوتا ہے؟
دمہ سانس کی بیماری ہے جس میں سانس لینے میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے اور متاثرہ فرد کا سینہ متاثر رہتا ہے۔ یہ بیماری سانس کی نالیوں کے ارد گرد موجود پٹھوں میں سوزش اور ان کے سکڑنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس مرض کا کوئی حتمی علاج تو نہیں ہے لیکن اسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر بدر الدین کا کہنا ہے کہ سانس لینے میں مشکل کے علاوہ متاثرہ فرد کو خشک کھانسی اور چھاتی میں تناو کی کیفیت کی شکایت رہ سکتی ہے۔ ان کے مطابق اس بیماری کی علامات اور ان کی شدت وقت کے ساتھ تبدیل ہو سکتے ہیں۔ عام طور پر یہ رات کے وقت زیادہ پریشان کرتی ہے یا پھر صبح سویرے۔
دمہ میں شدت کیوں آتی ہے؟
بہت سے عوامل دمہ کی علامات میں شدت لا سکتے ہیں۔ جینیاتی عوامل یا الرجی بیرونی عوامل سے مل کر اس بیماری کی شدت بڑھا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ دھواں بھی سانس کی تکلیف بڑھاسکتا ہے۔ تمباکو کا دھواں خصوصا مضر ثابت ہوتا ہے کیوں کہ اس میں ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو سانس کی نالیوں میں سوزش بڑھاتی ہیں اور دمہ میں شدت لا سکتی ہیں۔ پولن، گرد اور مخصوص خوشبو بھی دمہ میں شدت کا سبب بن سکتی ہیں۔
دمہ اور ماحولیاتی تبدیلی
ایسے افراد جو دمہ سے متاثر ہوتے ہیں، موسمیاتی یا ماحولیاتی تبدیلی بھی ان پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ انسان کے پھیپھڑے بیرونی دنیا سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں اور کسی بھی قسم کی تبدیلی ان پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دمہ بدلتے ہوئے ماحول میں شدت اختیار کرتا ہے جیسا کہ بیرونی پولن میں اضافہ یا ٹریفک کا دھواں، آلودگی، آگ، گرمی کی لہر، طوفان یا گرد۔ اس کے علاوہ ہوا میں نمی بڑھنے سے بھی دمہ شدت اختیار کرسکتا ہے۔ ڈاکٹر بدر الدین کا کہنا ہے کہ سانس کی نالیاں کافی حساس ہوتی ہیں اور کسی بھی بیرونی تبدیلی کی وجہ سے اندرونی خلیوں کی تہہ پر اثر پڑتا ہے اور یوں ردعمل میں سانس کی نالیاں سکڑ جاتی ہیں یا پھر کھانسی ہوتی ہے۔
دمہ کن افراد کو ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے؟
ویسے تو یہ مرض کسی بھی عمر میں ہو سکتا ہے لیکن کم عمر افراد میں یہ زیادہ عام ہے۔ اس کی ایک وجہ جینیاتی عوامل ہوتے ہیں تاہم والدین سے بچوں میں اس بیماری کے منتقل ہونے کے امکانات ہمیشہ موجود نہیں ہوتے۔ اگرچہ یہ کہنا مشکل ہے کہ کن افراد کو یہ مرض ہونے کے امکانات زیادہ ہیں لیکن کچھ افراد میں دمہ کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ ان میں وہ افراد شامل ہیں جو وقت سے پہلے پیدا ہوتے ہیں، یا وہ بچے جن کو سانس کی تکالیف اور بیماریاں زیادہ ہوتی ہیں، موٹاپے کا شکار افراد، زیادہ عرصے تک آلودگی یا دھویں کا سامنا کرنے والے افراد اور الرجی سے متاثرہ افراد۔ ڈاکٹڑ بدرالدین کا کہنا ہے کہ ایسے بچے جن میں وائرل انفیکشن زیادہ ہوتا ہے، دمہ ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن یہ ایسا نہیں جیسا بلڈ پریشر ہوتا ہے جس میں نمک اور ہائپر ٹینشن کا سبب بننے والی مصنوعات کا زیادہ استعمال ہوتا ہے۔
دمہ کا علاج
یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ دمہ کا علاج احتیاط ہے جو مریض کو آگاہی دینے سے شروع ہوتی ہے۔ مریض کو بتانا چاہیے کہ تمباکو نوشی سے گریز کریں اور دھویں والی جگہوں پر زیادہ نہ جائیں کیوں کہ ان سے دمہ شدت اختیار کرجاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسی مصنوعات کے استعمال سے پرہیز کریں جو سانس کی نالیوں کو متاثر کرتی ہیں جیسا کہ پینٹ یا صفائی والی مصنوعات۔ دمہ کے مریضوں کو کورٹیکوسٹیروئڈ دیے جاتے ہیں جو سانس کی نالیوں کی سوزش میں کمی لاتے ہیں۔ ڈاکٹر بدرالدین کا کہنا ہے کہ دمہ سانس کی نالیوں کی دائمی سوزش ہے جس کا مطلب ہے کہ بنیادی علاج اور باقاعدہ مانیٹرنگ ضروری ہے۔ سب سے بنیادی نکتہ یہ ہے کہ مریض کو آگاہی دیں. ماہرین کے مطابق مریض کو بیماری کے بارے میں آگاہ کرنا چاہیے اور ان کو بتانا چاہیے کہ مرض میں شدت کیوں اور کیسے آتی ہے۔ ڈاکٹر بدر الدین کا کہنا ہے کہ ایک لیٹنٹ دمہ ہوتا ہے جو ہر وقت ظاہر نہیں ہوتا اور وفقے وفقے سے زیادہ علامات کے بغیر رہتا ہے۔ تاہم ایسے افراد کو بھی چاہیے کہ ڈاکٹر کو باقاعدہ چیک کروائیں اور ٹیسٹ کروائیں جن سے دمہ کا علاج ضرورت کے حساب سے طے کیا جا سکے۔
کیا دمہ سے متاثرہ فرد کھیل سکتا ہے؟
اس بیماری سے متاثرہ افراد کھیل کود کی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتے ہیں۔ کھیل سے پٹھے مضبوط ہوتے ہیں اور دمہ سے متاثرہ افراد میں ذہنی تناو بھی کم ہوتا ہے۔ ڈاکٹر بدر الدین کا کہنا ہے کہ کھیل علاج کا ایک حصہ ہے۔ ایسے چیمپیئن ہیں جن کو دمہ ہے لیکن وہ اس کا خیال رکھتے ہیں۔ ’اس کے علاوہ دمہ کی دوایاں پرفارمنس بڑھانے والی چیزوں میں شمار نہیں ہوتیں۔‘تیراکی، سائیکلنگ اور تیز چلنا دمہ کے مریضوں کے لیے فائدہ مند سرگرمیاں ہیں۔ تاہم سردی میں دوڑنا دمہ میں شدت لا سکتا ہے۔ اگر ایسا کرنا ضروری ہو تو مریض کو دوڑ سے پہلے جسم کو خوب گرما لینا چاہیے اور دس سے پندرہ منٹ قبل برونکو ڈائلیٹر کا استعمال کرنا چاہیے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ دمہ کے مریضوں کو چاہیے کہ کسی بھی طرح کی جسمانی ورزش عمر اور سانس لینے کی صلاحیت کے حساب سے طے کریں اور پہلے طبی ماہرین سے مشورہ کریں۔
کیا دمہ جان لیوا ہو سکتا ہے؟
ڈاکٹر بدر الدین کا کہنا ہے کہ دمہ بے ضرر لگتا ہے لیکن کوئی شدید دورہ مریض کی موت کا سبب بن سکتا ہے۔ دمہ کے شدید دورے اچانک مریض کو ہسپتال تک لے جا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر بدر الدین کہتے ہیں کہ اکثر لوگ طبی ماہرین سے مشورہ کیے بنا دوا چھوڑ دیتے ہیں اور ان کے ساتھ ایسا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر بدر الدین کہتے ہیں کہ دمہ کی ایک قسم، جو عمر رسیدہ افراد میں ہوتی ہے، بھی جان لیوا ہو سکتی ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ ان کی موت دمہ سے ہوئی لیکن حقیقت میں اس کی وجہ کچھ اور ہوتی ہے جس کی علامات دمہ سے ملتی جلتی ہیں۔ واضح رہے کہ اگر دمہ کا خیال نہ رکھا جائے تو ایسی علامات سامنے آ سکتی ہیں جن پر قابو پانا مشکل ہو سکتا ہے اور یہ جان لیوا ہو سکتا ہے۔ کسی شدید دورے کے دوران سانس کی نالیاں اس حد تک سکڑ سکتی ہیں کہ مریض کو ری ایکشن ہو سکتا ہے اور سانس لینا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ بچوں، عمر رسیدہ افراد اور سانس کی انفیکشن سے متاثرہ افراد میں ایسا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
دمہ کے ساتھ بہتر زندگی کیسے گزاری جا سکتی ہے؟
دمہ کے ساتھ زندگی گزارنا ایک چیلنج ہے لیکن ناممکن نہیں۔ یہ ضروری ہے کہ چند قوانین کو زندگی کا حصہ بنا لیا جائے۔
ایک صحتمند زندگی جس میں باقاعدگی سے علاج جاری رکھا جائے اور ایسے عوامل سے بچا جائے جو بیماری میں شدت کی وجہ بنیں دمہ پر قابو رکھنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔


Friday, 3 November 2023

آسان علاج کسے کہتے ہیں

"کیا
آپ نے کبھی 
آسان علاج کے بارے میں کچھ سنا ہے؟"
حضُور پُر نُور ﷺ کی سیرت پاک کا ایک پہلو آپ ﷺ کے طبی کمالات بھی ھیں،  جسے معالجوں نے وہ توجہ نہیں دی جسکی اشد ضرورت تھی. جیسے سائنس کو آج لاکھوں،  ھزاروں تجربات کر کے معلوم ھُوا کہ ذات الجنب (پلورسی) کا سبب وھی ھے جو کی تپ دق کا ھے بلکہ یہ بھی تپ دق کی ایک قسم ھی ھے جبکہ اسی ضمن میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ھیں،  کہ بنی کریم ﷺ نے ھمیں آگاہ فرمایا کہ ذات الجنب کے علاج میں درس اور زیتون کے تیل کا استعمال مفید ھے. 
(جامع ترمذی،  سنن ابن ماجہ)
ایسی مثالیں ان ذھنی غلاموں کے لئے بھی چشم کشا ھیں جو بات بات پر مغرب کی باتیں کرتے،  اور جون اور مائیکل کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے. 
اس مِیں مَیں ان بیچاروں سے ایک ھمدردی بھی کرتا ھوں وہ یہ ھے کہ انہیں پڑھایا ھی جون اور مائیکل گیا ھے. کاش انکی دنیاوی تعلیم کے ساتھ کچھ دینی تعلیم کا اھتمام کیا جاتا تو انہیں معلوم ھوتا کہ اسلامی شخصیات کا زندگی کے ھر ھر شعبے میں کتنا بلند ترین مقام ھے. 
تو جناب ھم بات کر رھے تھے معدے کی شکایات کی،  ایک بات ھمیشہ یاد رکھیں علم طب قیافہ پر مبنی ھے لیکن نبی کریم ﷺ کی طب کو اس لیے فضیلت حاصل ھے کہ ان کے ھر علاج کو وحی الہی سے تائید حاصل ھے اور اسی لئے یہ صریح و یقینی ھے. 

قبض آجکل ھر انسان کی شکایت ھے،  قبض کے سلسلے میں صحابی تراقہ بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ھیں کہ نبی رحمت ﷺ نے ھمیں حکم ارشاد فرمایا کہ 
"ھم رفع حاجت کے وقت بائیں پاوں پر بوجھ ڈالیں اور دائیں پاوں کو کھڑا کرلیں." 
جدید میڈیکل سائنس کی تحقیق نے طبی اعتبار سے اس طریقہ کار کو قبض کا بہترین علاج قرار دیا ھے،  کیونکہ فضلہ انتڑیوں میں سے ھوتا ھوا بائیں طرف کی بڑی آنت میں اکٹھا ھوتا رھتا ھے اور یہاں سے رفع حاجت کے وقت خارج ھوتا ھے. اگر بائیں پاوں اور ٹانگ کے ذریعے آنت کے اس حصے پر دباو ڈالا جائے تو فضلہ کے خارج ھونے میں مدد ملتی ھے اور قبض نہیں رھتی.  
سوڈانی ڈاکٹر عمر سلیمان محمد جدید طرز تعلیم سے آشنا ھونے کے ساتھ علم الحدیث ﷺ سے بھی بہرہ ور تھے اور انہوں نے جدید تحقیقاتی اصولوں کے ساتھ ساتھ ارشادات نبوی ﷺ سے یہ ثابت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے تقریباََ تمام بیماریوں کو کسی نہ کسی پیرائے میں نہ صرف بیان کیا بلکہ علاج بھی تجویز کیا جیسے متعدی امراض سے بچنے کا سادہ طریقہ احادیث مبارکہ میں اس شان سے موجود ھے کہ عقل دنگ رہ جاتی ھے.  
اس ضمن میں حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ھیں کہ نور مجسم سرکار دو عالم حضور پر نور ﷺ کا ارشاد مبارک ھے کہ تندرست افراد (بلا ضرورت) مریض کے قریب نہ جائیں. (بخاری و مسلم) 
اور کوڑھ کے مریض سے ایسے بھاگو جیسے کہ شیر سے بھاگتے ھو،  اس سے اگر بات کرنا ضروری ھو تو اپنے اور اس کے بیچ میں ایک سے دو تیر کے برابر فاصلہ رکھو. 
(متفق علیہ)
اور
کھانستے اورچھینکتے وقت منہ کے آگے ھاتھ یا کپڑا رکھا جائے (بخاری)
ایسے ھی ارشادات گرامی کی مزید تحقیق کی گئی،  تو معلوم ھوا کہ نبی کریم ﷺ کو اللہ عزوجل نے حکمت کا مکمل علم عطا فرمایا تھا جیسا کہ قرآن مجید میں ھے ارشاد باری تعالی ھے :
اور اے محبوب! اگر اللہ کا فضل و رحمت تم پر نہ ہوتا تو ان میں سے کچھ لوگ یہ چاہتے کہ تمہیں دھوکا دے دیں اور وہ اپنے ھی آپ کو بہکا رھے ھیں اور تمہارا کچھ نہ بگاڑیں گے اور اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت اتاری اور تمہیں سکھا دیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور اللہ کا تم پر بڑا فضل ھے.  
(سورۃ النساء - 113)
نبی رحمت ﷺ کے انھی مضامین پر مُشتمل ارشادات پر مزید تحقیق کر کے اور زمانے کی بدلتی ھوئی اقدار کے پیش نظر علم طب نے اب اتنی ترقی کر لی ھے کہ اب اسے مختلف شاخوں میں تقسیم کر دیا گیا ھے، بیماریوں کا علاج بعد کا مسئلہ ھے،  سب سے پہلے تو یہ کہ انسانی صحت کو ھر لحاظ سے محفوظ ماحول مہیا کیا جائے اور بیماریوں کو پیدا ھی نہ ھونے دیا جائے، یعنی "امراض کی قبل از وقت روک تھام" بذات خود ایک باقاعدہ علم کی حیثیت اختیار کر چکی ھے. جسے Prevention Science کہا جاتا ھے. اسکی بنیاد نبی کریم ﷺ کے ایسے ھی ارشادات ھیں. 
تو بات ہو رہی تھی قبض کی، عمومی طور پر اگر اجابت معمول کے مطابق نہ آئے یا آئے تو پاخانہ تھوڑا تھوڑا کئی بار آئے یا روزانہ حاجت ہونے کے بجائے دوسرے، تیسرے روز آئے۔ ان دونوں صورتوں کو قبض کہتے ہیں۔ باقاعدہ اجابت نہ ہونے سے طبیعت مضمحل رہتی ہے جسم کا تھکا تھکا رھنا،  زبان میلی اور بھوک روز بروز کم ہونے لگتی ہے۔ جب آنتوں میں پہلے سے جگہ موجود نہ ہو تو ان میں نئی غذا کا داخل کرنا ممکن نہیں رہتا اور جب غذا اندر نہ جائے تو توانائی میں کمی ایک لازمی نتیجہ ہے۔
آنتوں میں خوراک جب معمول سے زیادہ ٹھہرتی ہے تو وہاں پر سٹراند پیدا ہوکر بدبو دار ریاح پیدا ہوتی ہے۔ اگر رکاوٹ زیادہ ہو تو ان ریاح کا اخراج نہیں ہوتا۔ اس طرح پیٹ بوجھ کے ساتھ ڈھولک کی طرح تن جاتا ہے۔
پیٹ میں ریاح کی کثرت کی وجہ سے دماغ پر بوجھ، چکر، بے خوابی، لازمی نتائج ہیں۔ پیٹ میں جب بوجھ محسوس ہو رہا ہو تو آسانی سے نیند نہیں آتی۔ ڈکار مارنے کی کوشش بذات خود ایک بیماری ہے جس سے اور مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں اطباء کا یہ قول بھی ہے کہ قبض عام بیماریوں کی ماں ہے۔
غذائی علاج:-
قبض کے علاج کے سلسلہ میں ابتدائی اہم بات غذا ہے۔ پرانی قبض میں مبتلا لوگوں کو کھانا وقت پر کھانا چاہئیے۔ کھانا جو بھی ہو، اس میں پھوک یا ریشہ کی معقول مقدار ہونی چاہئیے۔ گوشت کے ساتھ اگر سبزیاں شامل نہ ہوں تو ان کی کمی پھلوں سے دور ہو سکتی ہے لیکن پھلوں کا جوس یا عرق ہرگز اس ضرورت کو پورا نہیں کرتے۔ آٹا ان چھنا ہو۔
پانی کی مقدار زیادہ بھی قبض کشاء ہے لیکن کھانے کے ساتھ اس کی مقدار بہرحال کم ہونی چاہئیے۔ رفع حاجت کے لئے کموڈ کی نسبت پیروں پر بیٹھنا زیادہ مفید ہے۔ اس شکل میں مریض اپنے بائیں گھٹنے کو جوکہ پیٹ کے ساتھ لگا ہوتا ہے، اگر اندر کی طرف دباکر رکھیں تو یہ بڑی آنت کے آخری حصے پر دباؤ ڈال کر اس میں موجود اشیاء کو اپنے دباؤ کی مدد سے آگے کو دھکیل کر باہر نکلنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
علم الغذا کے بارے میں آج سے صدیوں پہلے بڑی اہمیت کا ایک دلچسپ واقعہ یاد آ گیا۔ حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالٰی عنہا سفر پر گئیں تو وہاں سے واپسی پر ایک نئے کھانے کی ترکیب سیکھ کر آئیں۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو اس نئے کھانے کی دعوت دی جس کا حال وہ بیان فرماتی ہیں۔
“انہوں نے چھان کر سفید آٹا گوندھا اور بتایا کہ ہمارے ملک کا یہ کھانا ہے جوکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تیار کر رہی ہوں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے باریک آٹا دیکھ کر فرمایا کہ تم نے آٹے میں جو کچھ نکالا ہے، اس کو اس میں دوبارہ شامل کرو اور پھر تیار کرو۔“ (ابن ماجہ)
یہ واقعہ حدیث کی کئی کتب میں آیا ہے۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں انہوں نے چھلنی نہ دیکھی تھی اور تنکے وغیرہ پھونک مار کر اڑا دیتے تھے۔ یہی بات حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ ان کے گھر میں آٹا چھان کر استعمال کرنے کا رواج نہ تھا۔ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آٹے سے چھان کر جس چیز کو بڑی محنت اور کاوش سے نکال کر پھر اس کی سفید روٹیاں پکائیں مگر ان کو ہدایت فرمائی گئی کہ وہ چھان کو پھر سے شامل کرکے روٹی پکائیں جس سے چھان کی اہمیت کو آ شکار کیا گیا۔
جدید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ آٹے کا چھان پرانی قبض اور ذبابیطس کے مریضوں کے لئے بہترین دوائی ہے۔ اس میں ریشے کے علاوہ وٹامن ب طاقت کا باعث ہوسکتی ہے۔ وٹامن ب عضلات کے لئے مقوی ہے۔
قبض کا دوسرا اہم علاج غذا اور حاجت کے اوقات کا تعین ہے۔ جب جی چاہا بیت الخلاء چلے جائیں اور جب فرصت نہ ہو یا جی نہ چاہے، ملتوی کر دیا جائے۔ ایسے میں قبض کو صرف ادویہ کی مدد سے وقتی طور پر دور کیا جا سکتا ہے۔ باقاعدہ علاج سے نہیں۔ صُبح اٹھ کر کچھ کھانے کے بعد ایک مقررہ وقت پر بیت الخلاء جانا اہم نکتہ ہے بلکہ مقررہ وقت پر اگر حاجت نہ ہو تب بھی جانا چاہئیے۔ اس طرح وقت پر حاجت ہونے کی عادت بن جاتی ہے مگر اس کے لئے تین اہم لوازمات ہیں۔
* خالی پیٹ بیت الخلاء نہ جائیں۔ ضرور کچھ کھا کر جائیں۔ جیسا کہ نہار منہ شہد پینے کے بعد۔
* رات کو کھانا ضرور کھایا جائے کیونکہ رات کا کھانا نہ کھانے سے صُبح تک 19۔ 18 گھنٹے کا فاقہ بن جاتا ہے۔
اتنے لمبے فاقہ سے خون میں مٹھاس کی مقدار گر جاتی ہے۔ کمزوری کے علاوہ سابقہ غذا کو آگے بڑھانے والا عنصر نہ ہونے کی وجہ سے قبض ہوتی ہے۔ 
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ رات کا کھانا ہرگز ترک نہ کیا جائے، خواہ مٹھی بھر کھجور کھا لیں کیونکہ رات کا کھانا ترک کرنے سے بڑھاپا (کمزوری) طاری ہوتی ہے۔
اس سلسلے میں متعدد روایات میسر ہیں جیسے کہ “رات کا کھانا امانت ہے“ اور ارشاد گرامی میں واضح فرمایا گیا ہے کہ رات کا کھانا نہ کھانے سے کمزوری ہو جائے گی۔
* رات کو کھانے اور سونے کے درمیان کم از کم تین گھنٹے کا وقفہ ہونا چاہئیے اور اس وقفہ کے درمیان 500 قدم چلنے سے آنتوں کی توانائی میں اضافہ ہے اور اگلے دن اجابت اطمینان سے ہوتی ہے۔
قبض کشاء ادویات اور طب یونانی:-
جمال گوٹہ۔ جلاب۔ مسبر۔ سقمونیا۔ املتلاس وغیرہ
ان میں جمال گوٹہ اس حد تک مخزش ہے کہ اس کا تیل اگر تندرست جلد پر لگایا جائے تو وہاں پر آبلہ اور پیپ پڑ جاتے ہیں۔ اپنے مضر اثرات کی وجہ سے جمال گوٹہ علاج کے طور پر استعمال نہیں ہوتا۔ اس کے مدبر (اصلاح) کے بعد استعمال کیا جا سکتا ہے۔
چکنائی کی زیادہ مقدار آنتوں میں پھسلن پیدا کرکے اجابت لاتی ہے۔ اس غرض کے لئے روغن بادام، روغن بید انجیر، کسٹرائیل اور گھی شہرت رکھتے ہیں۔
عضلات میں اگر کمزوری ہو تو یہ بھی قبض کا باعث ہے۔ اس لئے وہ تمام ادویہ جو جسم کو اور بالخصوص اعصاب اور عضلات کو طاقت دیتی ہے جیسے کہ کچلا، ہلیلہ سیاہ لوگ اسی اُمید پر سنکھیا بھی دے دیتے ہیں لیکن سنکھیا معدہ اور آنتوں میں شدید قسم کی خراش ہی نہیں بلکہ سوزش پیدا کرتا ہے۔ اسی لئے دودھ اور گھی میں آمیز کرکے دیا جاتا ہے۔
سنامکی ایک قابل اعتماد اور مفید دوائی ہے۔ اس میں تھوڑی سی خرابی پیٹ میں مڑوڑ ڈالنے کی ہے۔ وہ اگر تنکے چن کر اور سوئے اور شہد ملا کر استعمال کریں تو انتہائی نفع بخش ثابت ہوتی ہے۔ سوئے پیٹ سے ہوا نکالنے میں شہد آنتوں کو سکون دیتا اور مقوی ہے۔ اس طرح قبض کا باعث اگر آنتوں کی کمزوری بھی ہو تو سنا اور سوئے سے فائدہ ہوگا۔
طب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:-
قبض کے مسئلہ کو تاجدار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے جس شاندار اور سائنسی طریقہ سے حل فرمایا ہے، طب جدید آج بھی اس سے بہتر لائحہ عمل تجویز نہیں کرسکی جس پر عمل کرتے ہوئے قبض کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
حفظ ماتقدم :۔ 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوقات خوراک متعین فرما کر اور آنتوں کے Gastro. colic reflex سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ جیسا کہ نہار منہ شہد کا استعمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی روزمرہ کی عادت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشہ دار غذاؤں پر اصرار فرمایا۔ ان چھنے آٹے کی تاکید فرمائی۔ “اپنے دسترخوان کو سبز چیزوں سے مزین کرو۔“ یہ ایک جامع ارشاد ہے جوکہ پیٹ میں اتنا بھوک پیدا کرتا ہے کہ آنتوں میں اخراج کا عمل خیرو خوبی سے وقوع پذیر ہوتا رہے۔
علاج بالغذا :-
قبض کی ابتدائی حالتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادویہ کی بجائے کھانے پینے کی چیزوں کو دوا کے طور پر استعمال فرمایا ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا روایت فرماتی ہیں۔
“جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی کو لایا جاتا کہ اس کو بھوک نہیں لگتی تو ارشاد ہوتا کہ اس کو جو کا دلیہ کھلایا جائے۔ پھر فرمایا کہ خدا کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ پیغمبری عطا کی ہے۔ یہ پیٹ کو اس طرح صاف کر دیتا ہے کہ جیسے تم میں سے کوئی اپنے چہرے کو پانی سے دھو کر اس سے غلاظت کو اتار دیتا ہے۔
یہ ایک بڑی خوبصورت مثال ہے کہ کیونکہ جو میں باریک ریشہ کثیر مقدار میں ہوتا ہے۔ یہ پیٹ میں جاکر پھولتا ہے اور آنتوں میں بوجھ کی کیفیت پیدا کرکے اجابت کے عمل کو تیز کرتا ہے۔ جو میں لحمیات کے اجزاء بھی ہوتے ہیں جو جسم کو توانائی مہیا کرتے ہیں۔ اگر کسی کو کمزوری کی وجہ سے قبض محسوس ہو رہی ہو تو جو کھانے سے اس کا مداوا بھی ہو جائے گا۔
تاجدار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے انجیر کی یہاں تک تعریف فرمائی کہ اسے جنت کا میوہ قرار دیا۔ چنانچہ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں کہ تاجدار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ “انجیر کھایا کرو۔ اگر مجھ سے کہا جائے کہ کیا کوئی پھل جنت سے زمین پر آ سکتا ہے تو میں کہوں گا کہ ہاں یہی ہے۔ یہ بلاشبہ جنت کا پھل ہے اسے کھایا کرو کہ یہ بواسیر کو کاٹ کر رکھ دیتا ہے اور گھنٹیا میں مفید ہے۔“
ہم جانتے ہیں کہ بواسیر پُرانی قبض، جگر کی خرابیاں اور پیٹ کی آخری حصہ میں خون کی نالیوں میں دوران خون سست پڑ جانے سے پیدا ہوتی ہے۔ جب یہ ان کا علاج ہے تو مطلب یہ ہوا کہ انجیر قبض کو دور کرتی ہے۔ جگر کے لئے مصلح ہے اور خون کی نالیوں میں دوران خون کو دُرست کرتی ہے۔
انجیر کی ساخت میں موجود چھوٹے چھوٹے دانے پیٹ میں جا کر پھول جاتے ہیں۔ ان کا اسبغول کی مانند پھولنا بھی قبض کو دور کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالٰی عنہا سے تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تم اپنے پیٹ کو چلانے کے لئے کیا استعمال کرتی ہو۔ میں نے بتایا کہ شبرم لیتی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ تو بہت گرم ہے۔ پھر اس کے بعد میں سناء استعمال کرنے لگی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر کوئی چیز موت سے شفاء دے سکتی ہے تو وہ سناء ہے۔ (ابن ماجہ)
سناء کی مفید قسم وہ ہے جو وادی مکہ میں پیدا ہوئی ہے۔ اس کے پتے نشتر کی شکل کے اور دونوں طرف سے چکنے ہوتے ہیں۔ ان کی پھلی گول اور پھول سبزی مائل سنہرے لگتے ہیں۔ اس کا بیج مصر میں بویا گیا مگر زمین کی وہ تائید حاصل نہ ہوسکی۔ اسی طرح بھارت اور سکھر میں پیدا ہونے والی سناء فوائد کے لحاظ سے تیسرے درجہ پر ہے کیونکہ ان اجزاء عاقل کی مقدار کم ہوتی ہے۔
اطباء نے سناء کا استعمال دسویں صدی سے شروع کیا۔ البتہ بوعلی سینا اسے مفید قرار دے چکے ہیں۔ عربوں کو دیکھ کر بھارتی وید بھی اس کے مداح ہوگئے اور اب اس کے کئی متعدد نسخے مرتب ہوئے ہیں۔
بہرحال قبض کے بارے ماہرین کی تازہ ترین رائے کے مطابق اس کا علاج ادویہ کی بجائے غذا میں ریشہ دار اشیاء کے استعمال میں اضافہ (پھل اور سبزیاں) سے کیا جائے۔ آج کے تمام مشاہدات اور ایک ہزار سال کے تجربات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبض کے علاج میں جو ارشادات فرمائے ہیں، سائنس اپنی تمام تر کاوشوں کے باوجود ان کے برابر بھی نہیں آ سکی۔ ان کے اہم نکات کا خلاصہ یہ ہے۔
* کھانا وقت پر کھایا جائے۔
* رات کے کھانے کے بعد جلد نہ سویا جائے اور پیدل چلا جائے۔
* کھانے سے پہلے تربوز یا خربوزہ پیٹ کو صاف کرتا ہے۔
* ناشتہ میں جو کا دلیا آنتوں کو صاف کرتا ہے۔
* ریشے دار غذائیں کھائی جائیں جیسا کہ سبزیاں یا پھل۔
* آٹا چھان کر نہ پکایا جائے کیونکہ اس کی بھوسی قبض اور دل کا علاج ہے۔
* خشک انجیر کے 3۔ 2 دانے ہر کھانے کے بعد کھانے سے نہ صرف قبض ختم ہو جاتی ہے بلکہ یہ بواسیر کا علاج بھی ہے۔
* ان تمام کوششوں کے باوجود اگر قبض میں بہتری نہ ہو تو سب سے پہلے زیتون یا اس کا کوئی مرکب نسخہ استعمال کیجئے۔
اگر ان تمام کوششوں کے باوجود قبض دور نہ ہو یا اس کے ساتھ درد، سوزش یا بخار ہو تو ایسے میں آنتوں میں رکاوٹ یا اپینڈکس کا شبہ کیا جا سکتا ہے جس کے لئے خود علاج کرنے کی بجائے کسی مستند معالج سے رجوع کرنا چاہئیے کہ یہ بیماری خطرناک ہو سکتی ہے۔
اب کچھ نسخہ جات پیش کرتا ھوں.  پہلا نسخہ زبدۃ الحکماء شفاء الملک قبلہ استاد مکرم محترم جناب محمود احمد بھٹہ صاحب کا ھے.  
نسخہ نمبر: 1
تیزپات
پودینہ
اجوائن دیسی
سوۓ
کرفس
سونف
سنڈھ
ھر ایک 50 گرام لے لین 
اور
سوڈا بائی کارب 10 گرام لے لین
ست پودینہ
اور
ست اجوائن
ھر ایک 2 رتی
اب تمام ادویات کو 6 کلو پانی مین بھگو دین 
12 گھنٹہ بعد دو چار ابالے آنے کے بعد پن کر صاف کرکے 5 کلو چینی مین قوام کرکے 
سوڈا بائی کارب اور ست ھر دو قسم شامل کرکے
اس میں 5 گرام سوڈیم بینزویٹ شامل کر دین تاکہ خراب نہ ھو. 
دو دو چمچ صبح دوپہر شام پلا دین فوری اور تیز اثر ھو گا،  معدہ کی گیس یعنی تبخیر دل کی گھبراھٹ بوجہ گیس خفقان قلب معدہ کا درد انتڑیون کی سوزش جگر کے امراض، قبض- بغیر السر معدہ کے آپ ھر اس معدہ کے مرض مین استعمال کر سکتے ھین جو آپ کو نظر آۓ. 
زبدۃ الحکماء شفاء الملک
محترم جناب محمود احمد بھٹہ صاحب 
نسخہ نمبر: 2
مصبر
دارچینی
مرچ سیاہ
سنڈھ
مگھاں
پوست ھلیلہ زرد
سھاگہ بریاں
ھینگ بریاں
شحم حنظل
نوشادر
نمک سیاہ وسفید
قلمی شورہ    
ھر ایک 20 گرام لے کر پاؤڈرکر لیں 
اب اس پاؤڈر کو پلاسٹک کے برتن میں ڈال کر اسپر ایک پاؤ سرکہ انگوری 
اور ایک پاؤ کوار کا گودا ڈال کر مکس کر دیں  
24 گنٹھے پڑا رھنے دیں
اسکے بعد تھوڑا کھرل کر کے گولی بقدر دانہ مٹر بنا لیں 
خشک کرکے ائر ٹائٹ ڈبے میں محفوظ کرلیں
1 تا 2 گولی صبحِ وشام  ھمراہ آب نیم گرم بعد غذا۔
معدہ کے امراض گیس  قبض بد ھضمی جلن کھٹے ڈکار  منہ سےبدبو آنا تیزابیت معدہ انتڑیوں میں درد  ان امراض کی بہترین دوا ھے. 
(حکیم شاھد محمود سیفی)
نسخہ نمبر: 3
اگر معدے کا السر ھو تو :
ﮨﻠﯿﻠﮧ ﺳﯿﺎﮦ 50 ﮔﺮﺍﻡ
ﺳﺘﺎﻭﺭ      10 ﮔﺮﺍﻡ
ﻣﺼﺒﺮ         3 ﮔﺮﺍﻡ
ﮨﻠﯿﻠﮧ ﮐﻮ ﮔﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﻮﻥ ﮐﺮ ﮐﭙﮍﮮ ﺳﮯ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺧﺸﮏ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭘﯿﺲ ﻟﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺩﯾﮕﺮ ﺩﻭﺍﺋﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﭘﯿﺲ ﮐﺮ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﻼ ﺩﯾﮟ ﺑﺲ ﺗﯿﺎﺭ ﮬﮯ .
ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺻﺒﺢ ﺩﻭﭘﮩﺮ ﺷﺎﻡ ﺍﯾﮏ ﺭﺗﯽ ﯾﻌﻨﯽ ﭼﭩﮑﯽ ﺑﮭﺮ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﻟﮯ ﻟﯿﺎ ﮐﺮﯾﮟ
ﺻﺮﻑ ﺳﺎﺕ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﺴﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ. ﺗﺎﮨﻢ ﺍﮔﺮ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺩﻥ ﺑﮭﯽ ﯾﻮﺯ ﮐﺮﯾﮟ ﺗﻮ ﻣﻌﺪﮦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﮩﺖ ﻣﻔﯿﺪ ﮬﮯ. 
(ڈاکٹر زمان صابر)

صاحب فوائد مکیہ حضرت قاری مقری عبدالرحمن مکی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر پر حاضری

"صاحب فوائد مکیہ 
حضرت قاری مقری عبدالرحمن 
مکی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر پر حاضری"
(بقلم: احمد ہاشمی سہارنپوری)
لکھنؤ کے اسفار تو بہت ہوچکے ہیں اور سال میں ایک دو بار جانا ہوتا ہے. پچھلے کئی سال سے ہر سفر میں یہ نیت رہتی تھی کہ اس بار ضرور بالضرور خاتمۃ القراء فی الہند حضرت قاری مقری عبدالرحمن مکی ثم آلہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر تلاش کرکے فاتحہ پڑھنے کے لئے جاؤں گا. لیکن یہ نیت آج بحمدللہ پوری ہوئی اور اللہ کا شکر ادا کیا. لکھنؤ پہنچ کر یہی فکر کھائے جارہی تھی کہ وہاں کا راستہ کس سے معلوم کیا جائے. اس لئے کہ ایک دو حضرات جن سے امید تھی کہ یہ ضرور گئے ہوں گے اور ان کو راستے کا علم ہوگا. ان سے پوچھا تو انہوں نے بھی لاعلمی ظاہر کردی. پھر میں نے عزیزم محمد عفان سلمہ ولد ڈاکٹر محمد سلمان متعلم درجہ عالیہ رابعہ ندوۃ العلماء لکھنؤ (موصوف میرے مرحوم بہنوئی مولوی غفران کے بھتیجے ہوتے ہیں) سے ذکر کیا تو انہوں نے اطمینان دلایا کہ احمد چچُو آپ بیفکر ہوجائیے. ہم آپ کو لے جائیں گے. پھر اس نے اپنے ساتھیوں سے معلومات حاصل کیں اور آج فجر بعد راستہ پوچھتے پاچھتے مزار شریف کے پاس پہنچ گئے. دیکھا تو ایک چہار دیواری ہے. اس میں چند پکی قبریں بنی ہوئی ہیں. ہندی زبان میں ایک بڑا بورڈ لگا ہوا ہے جس پر قاری صاحب اور ایک کسی بزرگ حضرت سید ابراہیم شاہ کا نام لکھا ہوا ہے خیر پڑوس میں ایک دروازہ کھٹکٹایا اور معلوم کیا کہ بھائی اس گیٹ کی چابی کس کے پاس ہے؟ اندر سے ایک صاحب نکلے. انہوں نے ہمیں اس قبرستان کے ذمہ دار کے گھر تک پہنچایا. ایکدم غریب غرباء کی بستی تھی خیر جو ذمہ دار تھے ان کا نام تو معلوم نہیں کیا ہوگا لیکن سب ان کو 'ڈاکٹر بھائی' کہتے ہیں. دیکھنے سے وہ کسی بھی زاویہ سے ڈاکٹر نہیں لگ رہے تھے. وہ نکل کر آئے. سلام دعا کے بعد ان سے درخواست کی اور بتایا کہ ہم سہارنپور سے قصدا آۓ ہیں. ان کو بھی کام پر جانا تھا. بہت جلدی میں لگ رہے تھے. انہوں نے جاکر تالا کھولا پھر اطمینان سے فاتحہ پڑھی. انہوں نے وہاں  ایک تیسری قبر کے بارے میں بتلایا کہ یہ ایک خاتون کی قبر ہے جن کو 'مستانی' کہتے تھے. یہی اس قبرستان کی دیکھ ریکھ کرتی تھیں. بیس پچیس سال قبل ان کا انتقال ہوگیا. پھر میری والدہ یہاں کی دیکھ ریکھ کرنے لگیں. ان کے انتقال کے بعد سے میں دیکھتا ہوں. ہر جمعرات کو عصر سے عشاء تک یہ کھلتا ہے قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی قبر پر جو پتھر لگا ہوا ہے اس پر یہ قطعہ تاریخ لکھا ہوا ہے: 'عبدالحمن مکی قاری بیمثل بود ۱۳۴۹' نیز قبر چادر پڑی ہوئی تھی جس سے اندازہ ہوا کہ کافی وقت سے بدعتیوں کے قبضہ میں ہے. میں نے صرف قبر کے فوٹو لئے تو مجھ سے ڈاکٹر بھائی بولے کہ فوٹو لینا گناہ ہے. میں نے کہا کہ میں تو صرف قبر کی تصویر لے رہا ہوں. بطوریادگار جبکہ جاندار کا فوٹو لینا گناہ ہے. بولے کہ قبر میں جو ہیں وہ بھی تو جاندار ہی ہیں وہ قبر میں زندہ ہی ہیں پھر ہم ان کا شکریہ ادا کرکے واپس ہولئے.
قاری عبدالرحمن مکی رحمۃ اللہ علیہ کون ہیں؟
فن تجوید کی مشہور معروف کتاب فوائد مکیہ کی خصوصیت و اہمیت سے کون ذی علم اور مولوی واقف نا ہوگا خاص طور پر وہ لوگ جہنوں نے تجوید بھی پڑھی ہو یہ کتاب برصغیر ہندپاک کے تمام مدارس تجوید میں تقریبا ایک صدی سے داخل نصاب ہے اور بڑے بڑے مدارس دارالعلوم دیوبند مظاہر علوم سہارنپور ندوۃ العلماء لکھنؤ مدرسہ شاہی وغیرہ میں تو تجوید کی سند فوائد مکیہ پڑھے بغیر دی بھی نہیں جاتی. علماۓ تجوید نے حضرت قاری عبدالرحمن مکی کو 'خاتمۃ القراء فی الہند' کے لقب سے نوازا ہے. آپ کی وفات چھ جمادی الاول ۱۳۴۹ ھ مطابق ۱۹۳۰ بروز پیر لکھنؤ میں ہوئی. پھر آپ کو آپ کے ایک شاگرد کی عطاکردہ ایک قطعہ زمین جو ٹولہ مجیب گنج جس کا موجودہ نام محبوب گنج ہے میں دفن کیا گیا. رحمہ اللہ رحمۃ واسعہ. آپ نے تمام تر فنی استفادہ اپنے برادر اکبر حضرت قاری عبد اللہ مکی سے مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ میں حاصل کیا ہے جو کہ قاری ابراہیم سعد مصری کے نامور تلامذہ میں سے تھے. قاری عبدالرحمن کا بیعت و ارشاد کا تعلق حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی سے تھا. جب آپ اپنے فن میں کامل ہوگئے تو حضرت مولانا رحمت اللہ صاحب کیرانوی نے آپ کو حکم فرمایا کہ عبداللہ تو یہاں میرے پاس رہے گا اور تمہیں (عبدالرحمن) کو حکم دیتا ہوں کہ ہندستان جاؤ اور وہاں جاکر ترویج قرآن و قراءات اور لحون عربیہ کا کام کرو ۔ یہاں پر مختلف مدارس میں خدمات ان کام دینے کے بعد مدرسہ احیاء العلوم ریلوے اسٹیشن کی مسجد الہ آباد میں اصل خدمات شروع فرمائی جہاں ایک سے بڑھ کر ایک شاگرد تیار کئے. آخر میں آپ مدرسہ فرقانیہ لکھنؤ چلے گئے تھے. وہیں وفات ہوئی. 
آپ کے شاگردوں کی تعداد سیکڑوں نہیں ہزاروں میں ہے. جس میں مشہور یہ ہیں قاری عبدالمالک صدرالمدرسین مدرسہ فرقانیہ لکھنؤ، قاری ضیاء الدین صاحب خلاصۃ البیان، قاری محب الدین صاحب معرفۃ الوقوف و معرفۃ الرسوم، قاری عبدالوحید اولین صدر مدرس تجوید و قرأت دارالعلوم دیوبند شیخ القراء قاری حفظ الرحمن پرتابگڑھی صدر مدرس دارالعلوم دیوبند وغیرہ 
اللہ ان تمام حضرات کو بے انتہا جزاۓ خیر عطافرماۓ جنت الفردوس میں اعلی درجات سے نوازے. آمین! ( #ایس_اے_ساگر )