Thursday 8 December 2022

کیا فرض منصبی کی ادائیگی کیلئے دعوت و تبلیغ انتہائی ضروری ہے؟

کیا فرض منصبی کی ادائیگی کیلئے دعوت و تبلیغ انتہائی ضروری ہے؟
(بقلم: مولانا محمد ضمیر رشیدی)
(وارث پورہ، کامٹی، ضلع ناگپور )           
بکری سے انسان کو دودھ ملتا ہے؛ اس لئے انسان بکری کی دیکھ بھال کرتا ہے،دھوپ بارش سے اس کے بچاؤ کا انتظام کرتا ہے، بیمار ہونے پر اس کا علاج کرتا ہے۔ کتے سے اس کی حفاظت کرتا ہے۔ الغرض اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتا ہے؛ مگر جب یہی بکری اس کے کام کی نہیں رہ جاتی، تب اسے قصائی کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ قصہ مختصر کہ جب تک بکری اپنے مقصد کو پورا کررہی تھی تب تک اس کا مقام اس کے مالک کے پاس تھا؛ مگر جونہی وہ اپنے مقصد سے دور ہو گئی، اس کا اپنا وجود ہی ختم ہوگیا۔یہی حال باقی ساری چیزوں کا ہے کہ جب تک وہ اپنے مقصد کو پورا کرتی ہیں، اپنا وجود باقی رکھتی ہیں۔ٹھیک اسی طرح کائنات اور انسان کے پیدا کرنے کا بھی ایک مقصد ہے۔قرآن مجید کی رو سے ساری مخلوقات کو انسان کے لیے بنایا گیا ہے؛ جبکہ انسان کو اللہ تعالی نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔مزید یہ کہ امتِ محمدیہ چونکہ آخری نبی کی امت ہے؛ لہٰذا اس پر ایک اضافی ذمہ داری امر بالمعروف و نہی عن ا لمنکر اور شہادت علی الناس یعنی غیر مسلم اقوام تک دعوت حق کو پہنچانے کی بھی ہے؛جب تک امت مسلمہ اپنی اس ذمہ داری کو ادا کر رہی تھی ،تب تک یہ عزت کی چوٹیوں پر تھی؛ مگر جب سے اپنے فرض منصبی کی ادائیگی سے دوری پیدا ہوئی ہے، تب سے ذلت و رسوائی ا س کا مقدر ہے۔کہیں اس کی عبادت گاہیں مسمار کی جا رہی ہیں، کہیں ان کی عصمت و عفت داؤ ں پر لگی ہوئی ہے، کہیں انکے ملک و مال پر آفت ہے، تو کہیں ان کی اسلامی شناخت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، وغیرہ۔

                اگرچہ یہ ایک ٹھوس اور نا قابلِ تردید حقیقت ہے کہ دنیا میں اسلام سے سلامتی آئے گی اور ایمان سے امن آئے گا؛ مگر اپنے فرضِ منصبی کو ادا نہ کرنے کی وجہ سے اسلام کے ماننے والوں کی سلامتی ہی ہر جگہ خطرہ میں ہے اور ایمان والوں کو ہی کہیں امن نصیب نہیں ہو رہا ہے؛اس لیے ضروری ہے کہ اپنے فرضِ منصبی کی طرف رجوع کیا جائے؛ تاکہ ذلت و رسوائی کے غار سے نکلا جاسکے ۔

                اگرچہ اب تک بے شمار نئے نئے طریقے اس امت کو اس کے کھوئے ہوئے مقام تک پہنچانے کے لیے استعمال کیے جا چکے ہیں اور کیے جا رہے ہیں؛ مگر ایسی تمام کوششیں تباہیوں اور بربادیوں میں مزید اضافہ کی صورت میں ظاہر ہوئی ہیں اور اس کا سلسلہ بدستورہنوز جاری ہے؛مگر افسوس صد افسوس! کہ کسی روشن خیال کی نظر بھی اس طرف نہیں جاتی کہ حقیقی طبیب و شفیق مربی حضرت محمد نے اس مرض کی کیا دوا تجویز کی ہے۔ در اصل اب تک ہمارے مرض کی تشخیص ہی صحیح طور سے نہیں ہو پائی ہے۔جب قرآن حکیم کی تلاوت کی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس امت کو ایک خاص منصبی ذمہ داری کے ساتھ نکالا گیا ہے اوراس ذمہ داری کی ادائیگی کی صورت میں ہی اس امت کو خیرالامم کا لقب دیا گیا ہے؛چنانچہ اس امت کے منصب کو قرآن مجید میں اس آیت میں بیان کیا گیا ہے۔(سورہ آل عمران۔آیت نمبر:۱۱۰)

                اے امت محمدیہ! تم افضل امت ہو تم کو لوگوں کے نفع کے لیے نکالا گیا ہے۔ تم لوگوں کو بھلی باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے ان کو روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ اس آیت شریفہ کی رو سے امتِ محمدیہ کو خیرِ امت کا درجہ دیا گیا ہے، نیز ساتھ ہی اس کی علت یہ بیان کی گئی کہ معروف کا حکم کرتے ہو اور برائی سے رو کتے ہو۔یہ ہمارا فرضِ منصبی ہے اور خصوصی تمغہٴ امتیاز بھی! خصوصی تمغہٴ امتیاز ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کام کو اسی شان و شوکت اور خصوصی اہتما م کے ساتھ کیا جائے جس کا یہ متقاضی ہے، ورنہ کہیں چلتے پھرتے تبلیغ و اشاعت، تعلیم و تربیت ، مذاکرہ و مشورہ ، وعظ و نصیحت، تقریر و تحریر یا تھوڑا سا غور و فکر کر لینا کافی نہیں۔دراصل امر بالمعروف و نہی عن ا لمنکر کوئی سادہ ۱ ور معمولی کام نہیں. یہ کام گہری بصیرت اور ٹھوس یقین کے ساتھ کیے جانے کاطالب ہے۔ ورنہ جس داعی کے اند رخود اپنی دعوت کی بصیرت اور یقین نہ ہو، وہ دعوت ہی کیا! پھر اپنی دعوت کی دلیل عمل سے دینا یہ اس کا اگلا مرحلہ ہے۔ یہ کام پوری زندگی کو اللہ کی مرضیات کے تابع کرنے کا نام ہے۔ یہ حضرت محمد کے عشق میں سرشار ہو کرزندگی گزارنے کا نام ہے۔ دل میں اس نور کے پیدا کرنے کا نام ہے جس کی روشنی میں ہر حال میں اللہ کے حکموں اور حضرت محمد کے طریقوں میں یقینی کامیابی نظر آتی ہے۔بالفاظِ دیگر یہ کام اس یقین کے پیدا کرنے کا ہے جس میں ا للہ کے اوامر اور حضرت محمد کی سنتوں سے معمولی انحراف میں یقینی ہلاکت نظر آتی ہے۔ یہ سیم و زر، حکومت و سیاست، عہدہ و منصب وغیرہ کے ہر بت کو دنیا کے چوراہے پر تو حید کی ٹھوکر مارنے والا کام ہے۔ ہماری پوری زندگی صبغتہ اللہ (اللہ اور رسول کے رنگ) میں رنگ دینے کا کام ہے۔

                 طاقت و قوت ، جاہ و جلال اور حکومت و سیاست کی بالا دستی اور رعب و دبدبہ کے بغیر نیکی کا حکم دیا جا سکتاہے اورنہ برائی سے روکا جا سکتا۔لہٰذا قرآنِ کریم کی روشنی میں اہلِ ایمان پر یہ فرض ہو جا تا ہے کہ وہ ہر قسم کی طاقت و قوت کو اپنے فرضِ منصبی کی ادائیگی کی خاطرحاصل کریں؛ کیونکہ دنیا طاقت کی زبان جانتی اور سمجھتی ہے ۔ خلاصہ یہ کہ یہ کام وہی لوگ بخوبی انجام دے سکتے ہیں؛ جو طاقت و قو ت کے تنِ تنہا مالک ہوں۔یہ کام طاقت کے اثر سے ہی رونما ہو سکتا ہے؛ کیوں کہ طاقت ڈھل جانے کا نام نہیں؛ بلکہ ڈھال دینے کا نام ہے،مڑ جانے کو قو ت نہیں کہتے ، موڑ دینے کو طاقت کہتے ہیں۔دنیا میں کمزوروں اور نا تواں افراد، یا ان کے مجموعے نے کبھی کوئی قابلِ ذکر کار نامہ انجام نہیں دیا؛بلکہ ایسے لوگ ہمیشہ دوسروں کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔طاقت کے آ گے سارے فلسفے، حقائق، اچھائیاں اور دلائل سب بے معنی اور ہیچ ثابت ہوتے ہیں؛اس لیے اس کام کی پشت پناہی کے لیے مال و دلت کی کثرت، حکومت و اقتدار کی آب و تاب اور علم و دلیل کی طاقت وغیرہ ضروری ہیں ۔ خلاصہٴ کلام یہ کہ طاقت و قوت اس کام کے لیے ریڑھ کی ہڈی کے درجہ میں ہے اور حق کو اس کا جائز مرتبہ و مقام اسی وقت مل سکتاہے؛ جب کہ اس کی پشت پر ایک ز بردست قوت موجود ہو ورنہ حق ، حق نہیں رہ جاتا؛ بلکہ وہ محض فلسفہ بن کر سمٹ اور سکڑجاتا ہے۔ قوت کے بغیر سچائی کی حیثیت ردی کے کاغذ سے زیادہ کچھ نہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ قوت و طاقت کے بغیر مومن ، محتسب اقوامِ عالم نہیں رہتا؛ بلکہ اس کی شخصیت سمٹ اور سکڑ جاتی ہے اورپھر وہ راہب بن جاتا ہے۔اور دنیا کی تمام تر طاغوتی طاقتوں کی کوشش اور چاہت بھی یہی ہوتی ہے کہ مومن اس عالمِ رنگ و بو کو چھوڑکر گوشہ نشینی اختیار کرلے؛ تاکہ وہ جس طرح چاہیں، اس جہاں میں تصرف کرسکیں۔

                مزیدوا ضح ہو کہ جس دعوت کی پشت پر عمل کی مہرثبت نہ ہو ، وہ اپنی سنجیدگی کھو دیتی ہے ۔ اہلِ علم جانتے ہیں کہ دنیا میں دعوت کی صداقت و سچائی کی سب سے بڑی دلیل دعوت کے مطابق داعی کی زندگی میں عمل ہی ہے۔ جس دعوت کے ساتھ عمل نہ ہو، وہ از خود ایک کمزور دعویٰ ہے اپنی سچائی کا؛ جبکہ عمل کے ساتھ دعوت ا یک مضبوط دلیل ہے اپنے دعوے کی ۔اگر ہم اپنی دعوت میں مخلص اور سچے ہیں تو ہمیں اس کا ثبوت اپنے عمل سے دینا ہوگاکہ دنیا اس میں یقین کرتی اور رکھتی ہے، جو اس کے مشاہدہ میں آتا ہے؛کیونکہ قولی دعوت سے زیادہ اثر رکھتی ہے عملی دعوت! مگر آج صورتِ حال بر عکس ہے۔ ایمان و یقین میں ضعف اور اضمحلال عام ہے اورنتیجتاً اللہ کے احکام اور پیارے آقا کی سنتیں آج ہماری زندگی سے رخصت ہو تی جا رہی ہیں۔اس کی مثال خود ہمارے روزآنہ کے مشاہدہ میں ہے۔مثلاً نماز جیسے مہتم بالشان عمل سے نوے فی صد افرادِ امت غفلت کے شکار ہیں۔بے نکاحی لڑکی کا جوڑا مل جانے کے باوجود جہیز کی تیاریوں کے لیے نکاح کو ٹالا جاتا ہے۔میت ہو جانے پر دور دراز کے رشتہ داروں کی خاطر تجہیز و تکفین میں دیر کی جاتی ہے۔ میراث کی تقسیم میں ٹال مٹول کیا جاتا ہے۔دیر رات تک گھروں میں بے ہودہ و فحش سیریل دیکھے دکھائے جاتے ہیں اور ان پر تبصرہ کیا جا تا ہے۔ دین و شریعت کی معمولی جانکاری رکھنے والا شخص بھی بآسانی کہہ سکتا ہے کہ یہ ساری چیزیں جو اس وقت مسلم معاشرہ میں پائی جارہی ہیں وہ خلا فِ اسلام ہیں۔ دینِ اسلام کی فطری تعلیمات جن میں سادگی،آسانی، عفت اور پاکی پائی جاتی ہیں انھیں چھوڑکر خلافِ اسلام چیزوں کو دانتوں سے پکڑا جا رہا ہے، جن میں پیچید گی، پریشانی اوربے حیائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ غیر مسلم اقوام جو اس وقت مادہ پرستی ، الحاد ، لا دینیت، دہریت کی طرف تیزی سے رواں دواں ہے ، کسی بھی لحاظ سے مسلمانوں کے اعمال سے اسلام کی طرف کو ئی کشش محسوس نہیں کرتی ہیں؛ حتیٰ کہ وہ مسلمانوں کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتیں!

                انصاف کی بات یہ ہے کہ ہر عاقل بالغ مسلمان مرد اپنے گھر کی عدالت کا قاضی القضاة ہے، اپنے گھر کی پارلیمنٹ کا وزیر قانون ہے ۱ ور ساتھ ہی اپنے گھر کی مملکت کا خلیفہ و فرماں روا؛ لیکن ان سب کے باوجود اپنے گھر کے جملہ کاموں اور امور میں شریعت کے قانون کی روشنی میں کتنے معاملات کو طے کرنے کے لیے شریعتِ اسلامی سے اصو ل و ضوابط اخذ کرتے ہیں، شریعت کے قانون کے مطابق کتنا فیصلہ کرتے ہیں ، شریعت کے قانون کی کتنی پاسدار ی کرتے ہیں، شریعت کے فیصلوں کو اپنے گھروں میں کتنا نافذ کرتے ہیں، ہر شخص کے اپنے گریباں میں دیکھنے کی بات ہے ، دوسرا شخص کسی کے متعلق کیا کہہ سکتا ہے۔مسلمانوں کی اپنی منصبی ذمہ داری (امربالمعروف و نہی عن المنکر) ادا نہ کرنا اپنے فرضِ منصبی سے نہ صرفِ راہ فرار اختیار کرنا ہے؛ بلکہ خدائے ذوالجلال کے احکامات سے بغاوت کرنے کے مترادف ہے۔ یہ معاملہ اس ملٹری افسر جیسا ہے، جو اپنی ڈیوٹی کو چھوڑ کر دشمنوں کا آلہٴ کار بن جائے ۔ اور ظاہر ہے کہ ایسے کسی بھی افسر سے نہ صرف ساری سہولتیں اور مراعات چھین لی جاتی ہیں؛ بلکہ اسے گرفتار کر کے کورٹ مارشل کے تحت سخت سے سخت سزا ئیں دی جاتی ہیں؛ چنانچہ اب اس امت کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہو گیا ہے۔اپنے مقصدِزندگی یعنی فرضِ منصبی کی عدم ادائیگی کی صورت میں اس امت کو اغیار و باطل کے حوالے کر دیا گیا ہے؛ اس لیے کوئی اس کے ملک و مال کو لوٹ رہا ہے، کوئی اس کی عصمت و عفت کو تار تار کر رہا ہے، تو کوئی اس کی عبادت گاہوں کو مسمار کر رہا ہے۔

                ایک حدیث میں اس کام کو انجام نہ دینا لعنت اور پھٹکار کا موجب بتایا گیا ہے؛ چنانچہ ارشادِ باری تعالی ہے۔ لوگو! اللہ تعالی کا حکم ہے کہ بھلی باتوں کا حکم کرو اور بری باتوں سے منع کرو، مبادا وہ وقت آجائے کہ تم دعا مانگو اور میں اس کو قبول نہ کروں اور تم مجھ سے سوال کرو اور میں اس کو پورا نہ کروں اور تم مجھ سے مدد چاہو اور میں تمہاری مدد نہ کروں۔اس حدیث شریف میں متعین ، واضح اور صاف لفظوں میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے تر ک کرنے پر تین قسم کی پھٹکاراور وعیدیں سنائی گئی ہیں۔اور یہی وجہ ہے کہ بار گاہِ ایزدی سے آج ہماری دعائیں ، ہمارے سوالات اور مدد کی پکار رد کی جا رہی ہیں۔ آج ہم بھلائی کا حکم کیا دیتے ، ایک دو نہیں بے شمار برائیاں خود ہمارے معاشرے میں در آئی ہیں۔اور ہم خیرالامم کے منصب سے معزول و برطر ف کر دیے گئے ہیں۔ حدیث شریف میں اس منصبی ذمہ داری سے پہلو تہی کرنے پر جن آسمانی و زمینی پریشانیوں، آلام و تکالیف کی پیشین گوئی کی گئی ہیں، انھیں آج ہم مشاہدہ کی شکل میں اپنے سامنے پاتے ہیں؛مگر افسو س کہ ہمارے دل سخت ہو گئے ہیں ۔اورہم خوابِ غفلت سے جاگنے کو تیار نہیں۔ ایسے سخت اور صبر آزما حالات کو ایمان و یقین کی درستگی و پختگی اور فرضِ منصبی کی ادئیگی سے ہی بدلا جا سکتا ہے کہ یہی ایک یقینی اور حقیقی سبب ہے ۔یہی ہمارا نقطئہ آغا زہے ، یہی ہمارے لیے راہِ عمل ہے اور راہ ِنجات بھی، اس سے کم کوئی چیز ہمیں موجودہ عذاب و فساد سے بچانے والی نہیں۔
(بشکریہ: ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 3‏، جلد: 98 ‏، جمادی الاولی 1435 ہجری مطابق مارچ 2014ء) (صححہ: #ایس_اے_ساگر )

No comments:

Post a Comment