Tuesday 20 December 2022

پسند کی شادی پر حدیث

سوال:
"پسند کی شادی"
کے لئے حدیث کا حوالہ مطلوب ہے!
-------------------------------
--------------------------------
بیٹی پسند کی شادی کا کہے تو اسے بے حیا اور برا مت کہو. پسند کی شادی بیٹیوں کا حق ہے اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سنت ہے. براہ مہربانی اس حدیث کا حوالہ عنایت فرمائیں.  
الجواب و باللہ التوفیق:
نکاح کرنے اور نہ کرنے کا حق عاقلہ بالغہ لڑکی کی اپنی مرضی واپنا اختیار ہے، وہ مالی حقوق میں حق تصرف کی طرح اپنی جان میں بھی تصرف کی خود مالکہ ہے؛ چنانچہ ہر عاقلہ بالغہ لڑکی اپنے نکاح کا ایجاب وقبول شرعی گواہوں کی موجودگی میں خود سے اور دوسرے لڑکے یا لڑکی کے نکاح کا ایجاب وقبول وکیل کی حیثیت سے کرسکتی ہے اور بغیر ولی کے اس کا کیا ہوا نکاح درست اور صحیح ہے؛ بشرطیکہ جس لڑکے سے نکاح کرے وہ خاندانی ،نسبی اور دینی اعتبار سے اس کے مساوی وہم پلہ (کفو) ہو۔ 
صحت نکاح کے لئے اولیاء یعنی باپ دادا بھائی وغیرہ سے اجازت لینا  سماجی و معاشرتی ضرورت ہے۔شرعی وقانونی ضرورت نہیں کہ صحت نکاح کے لئے ایسا کرنا ضروری ہوجائے.
قرآن کریم نے اس بابت اسے حق خودمختاری دی ہے:
"فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّى تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ."
پھر اگر اس نے (تیسری مرتبہ) طلاق دے دی تو اس کے بعد وہ اس کے لئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر کے ساتھ نکاح کرلے، پھر اگر وہ (دوسرا شوہر) بھی طلاق دے دے تو اب ان دونوں (یعنی پہلے شوہر اور اس عورت) پر کوئی گناہ نہ ہوگا اگر وہ (دوبارہ رشتۂ زوجیت میں) پلٹ جائیں. بشرطیکہ دونوں یہ خیال کریں کہ (اب) وہ حدودِالٰہی قائم رکھ سکیں گے، یہ ﷲ کی (مقرر کردہ) حدود ہیں جنہیں وہ علم والوں کے لئے بیان فرماتا ہے۔
البقره، 2: 230
اور فرمایا:
"فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْاْ بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ."
جب وہ (طلاق یافتہ عورتیں) شرعی دستور کے مطابق باہم رضامند ہو جائیں تو انہیں اپنے (پرانے یا نئے) شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو.
البقره، 2: 232
ان آیتوں میں نکاح کرنے کا اختیار لڑکی کو دیا گیا ہے نہ کہ اس کے ولی کو ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک مرفوع حدیث میں یہ حق واختیار عاقلہ بالغہ لڑکی کو دیا ہے۔ اس کے ولی کو نہیں! حضرت عبداللہ بن عباس حدیث مرفوع نقل کرتے ہیں: 
"حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَا حَدَّثَنَا مَالِكٌ ح وَحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَ قُلْتُ لِمَالِكٍ حَدَّثَكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْفَضْلِ عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْأَيِّمُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا وَالْبِكْرُ تُسْتَأْذَنُ فِي نَفْسِهَا وَإِذْنُهَا صُمَاتُهَا قَالَ نَعَمْ۔" (صحيح مسلم. 1421۔ كتاب النكاح)
بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے:
لا تُنْكَحُ الأيِّمُ حتَّى تُسْتَأْمَرَ، ولا تُنْكَحُ البِكْرُ حتَّى تُسْتَأْذَنَ قالوا: يا رَسولَ اللَّهِ، وكيفَ إذْنُها؟ قالَ: أنْ تَسْكُتَ. (صحيح البخاري: 5136).
(ثیبہ عورت کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے اور نہ باکرہ کا بغیر اس کی اجازت کے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! باکرہ کی اجازت کس طرح معلوم ہوسکتی ہے، فرمایا کہ اس کا خاموش رہنا ہی اس کی اجازت ہے)۔
بلکہ ایک دفعہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں ایک عورت کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر ہوا، اس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا تو آپ نے اس کا نکاح فسخ کردیا:
عَنْ خَنْسَاءَ بنْتِ خِذَامٍ الأنْصَارِيَّةِ: أنَّ أبَاهَا زَوَّجَهَا وهي ثَيِّبٌ فَكَرِهَتْ ذلكَ فأتَتِ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فَرَدَّ نِكَاحَهَا. (صحيح البخاري: 6945).
(حضرت خنساء بنت خذام انصاریہ کہتی ہیں کہ میرے والد نے ایک جگہ میرا نکاح کردیا اور میں ثیبہ تھی اور مجھے وہ نکاح منظور نہ تھا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، تو آپ نے میرا نکاح فسخ کردیا)۔
شادی کے سلسلے میں اسلام نے لڑکی کی پسند کا بھی لحاظ رکھنے کا حکم دیا ہے، لیکن اسے بالکل شتر بے مہار بھی نہیں چھوڑدیا گیا کہ گھر سے بھاگ کر غیرکفو میں نکاح رچاتی پھرے. لڑکی کو اپنے اولیاء کو اپنے نکاح کی بابت راضی کرلینا بہتر اور نکاح کے دیرپا رہنے میں ممدومعاون  ہے۔ یہ بڑی شقاوت وبدبختی ہے کہ زندگی بھر پوسنے پالنے اور پرورش کرنے والے والدین کی رضامندی اور ان کے اعتماد کو شادی ونکاح کے معاملے میں اہمیت نہ دی جائے اور ان کے جذبات وامنگوں کا احساس نہ کیا جائے. اور اپنی پسند سے اس طور شادی کرلی جائے کہ والدین کو پتہ تک نہ چلے۔ 
اسی حقیقت کو اور اولیاء سے استصواب ومشورے کی اہمیت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں:
ایما امراة نکحت نفسها بغیر اذن ولیها فنکاحها باطل فنکاحها باطل فنکاحها باطل. فان دخل بها فلها المهر لما استحل من فرجها فان اشتجروا فالسلطان ولی من لاولی له.
 أخرجه أبوداؤد (2083)، والترمذي (1125)، وابن ماجه (1789)،
’’جوعورت اپنے ولی (سرپرست) کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے۔ اب اگر اس نے اس سے صحبت کرلی تو اس عورت کو مہر ملے گا کیونکہ اس نے اس کی شرمگاہ حلال کی ہے۔ پھر اگر (سرپرست) اختلاف کریں تو حاکم ولی ہے جس کا کوئی ولی نہیں۔‘‘
حدیث مذکور میں بغیر ولی کی اجازت کے نکاح کو باطل‘ زجر و توبیخ کے طور پر فرمایا گیا ہے، مگر نکاح ولی کی اجازت کے بغیر بھی صحیح ہوجاتا ہے۔ اسی لئے فرمایا: اگر ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرکے قربت کرلی تو مہر پورا دینا ہوگا۔ اگر نکاح حقیقتاً باطل ہوتا یعنی منعقد ہی نہ ہوتا تو نہ عورت حلال ہوتی نہ نکاح ہوتا نہ حق مہر لازم ہوتا۔
حضرت امام مالک، امام شافعی اور حضرت امام احمد رحمہم اللہ نے حدیث کے ظاہری الفاظ پر عمل کیا ہے. چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ نکاح اسی وقت صحیح ہوتا ہے جب کہ ولی عقد کرے۔ عورتوں کی عبارت کے ساتھ نکاح منعقد نہیں ہوتا عورت خواہ اصیلہ ہو یا وکیلہ ہو۔ جبکہ حنفیہ کے نزدیک اس حدیث کا تعلق یا تو زجر وتوبیخ سے ہے یا نابالغہ اور غیرعاقلہ سے ہے یعنی کمسن لڑکی اور دیوانی کا نکاح اس کے ولی کی اجازت کے بغیر نہیں ہوتا. خلاصہ یہ کہ عاقلہ بالغہ اپنے کفو میں شرعی گواہان کی موجودگی میں ازخود نکاح کرسکتی ہے۔ والدین کی اجازت و رضامندی قانونا ضروری نہیں، ہاں سماجی ومعاشرتی اعتبار سے یہ ضروری ہے۔
شکیل منصور القاسمی (صححہ: #ایس_اے_ساگر )
http://saagartimes.blogspot.com/2022/12/blog-post_20.html?m=1

No comments:

Post a Comment