Monday 15 August 2022

سیرت النبی صلی اللہ علیہ والہ و سلم:چند مشہور واقعات کی تحقیق

سیرت النبی صلی اللہ علیہ والہ و سلم: چند مشہور واقعات کی تحقیق
سوال یہ ہے کہ جو ہمارے یہاں مشہور 
واقعات ہیں جن کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم 
کی طرف کی جاتی ہے، جیسے ایک ضعیفہ کا واقعہ ہےجو کچرا پھینکتی تھی اور ایک ضعیفہ جو مکہ چھوڑ کر جارہی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ڈر کر، کہیں وہ بھی اسلام قبول نہ کرلے اور اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سامنے تشریف لے آئے اور اس کا سامان بھی منزل تک پہنچایا بغیر کسی اجرت کے اور وہ یہ جان کر یہ خوبصورت چہرہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا ہے تو وہ ایمان لے آئی۔ اور ایک یہ کہ عید کے دن کسی مسکین اور یتیم کو گھر لے آتے اور حضرت امام حسینؓ اور حضرت امام حسنؓ کا لباس اسے پہناتے۔ کیا ان واقعات کی کوئی حقیقت ہے؟ کیا یہ صحیح احادیث سے ثابت ہیں؟ یا ضعیف احادیث ہیں؟ براہ مہربانی جواب دیجئے گا۔
الجواب باسم ملهم الصواب:
سوال میں جتنے واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے واقعتا ان کی کوئی اصل نہیں، ایسا واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کے بارے میں منقول ہے اور نہ ہی مدنی زندگی کے بارے میں۔ لہذا انہیں بیان کرنا جائز نہیں۔البتہ ابولہب کی بیوی ام جمیل اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے سامنے کچرا اور کانٹے وغیرہ پھینکا کرتی تھی جسے دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ یہ کیسا پڑوس ہے؟ سورہ لہب میں اللہ جل شانہ نے اسی عورت کی مذمت بیان فرمائی ہے۔ لیکن یہ عورت مسلمان نہیں ہوئی تھی۔
حدثني محمد بن سعد، قال: ثني أبي، قال: ثني عمي، قال: ثني أبي، عن أبيه، عن ابن عباس، في قوله: (وَامْرَأَتُهُ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ) قال: كانت تحمل الشوك، فتطرحه علی طريق النبي صلی الله عليه وسلم، ليعقره وأصحابه. (تفسير الطبري، الأحزاب: 5)
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی یتیم کو اپنے گھر لانےکا ایک واقعہ التحفۃ المرضیۃ میں ذکر کیا گیا ہے: 
خرج الرسول يوما لأداء صلاة العيد فرأی أطفالا يلعبون ويمرحون ولكنه رأی بينهم طفلا يبكي وعليه ثوب ممزق فاقترب منه وقال: مالكَ تبكي ولا تلعب مع الصبيان؟ فأجابه الصبي: أيها الرجل! دعني وشأني، لقد قتل أبي في إحدی الحروب وتزوجت أمي فأكلوا مالي وأخرجوني من بيتي فليس عندي مأكل ولا مشرب ولا ملبس ولا بيت آوي إليه. فعندما رايت الصبيان يلعبون بسرور تجدد حزني فبكيت علی مصيبتي. فأخذ الرسول بيد الصبي وقال له: اما ترضی ان اكون لك ابا وفاطمة اختا وعلي عما والحسن والحسين اخوين؟ فعرف الصبي الرسول وقال: كيف لا ارضی بذلك يارسول الله! فاخذه الرسول صلی الله عليه وسلم الی بيته وكساه ثوبا جديدا واطعمه وبعث في قلبه السرور. فركض الصبي الی الزقاق ليلعب مع الصبيان. فقال له الصبية: لقد كنت تبكي؛ فما الذي جعلك ان تكون فرحا ومسرورا؟ فقال اليتيم: كنت جائعا فشبعت وكنت عاريا فكُسيت وكنت يتيما فأصبح رسول الله ابي وفاطمة الزهراء اختي وعلي عمي والحسن والحسين اخوتي. (وهي تنسب إلی كتاب التحفة المرضية) 
ترجمہ: ’’ایک دن نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم عید کی نماز کے لئے گھر سے باہر تشریف لائے، بچے کھیل رہے تھے، ان میں ایک بچہ کونے میں بیٹھا رورہا تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے بچےٰ تجھے کیا ہوا کہ تو رو رہا ہے اور ان بچوں کے ساتھ نہیں کھیل رہا، وہ بچہ آپ صلی الله علیہ و سلم کو نہیں جانتا تھا، اس نے کہا: اے شخص مجھے اپنے حال پر رہنے دو، میرے والد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں شہید ہوگئے ہیں اور میری والدہ دوسرے شخص سے نکاح کرچکی ہیں، جس نے میرا مال بھی کھالیا ہے اور اب اس کے شوہر نے مجھ کو میرے گھر سے نکال دیا ہے اور اب نہ میرے پاس کھانا ہے، نہ پینا ہے، نہ کپڑے ہیں، نہ ہی کوئی گھر ہے، جو میرا ٹھکانہ ہو، جب میں نے ان بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھا جن کے باپ زندہ ہیں اور انہوں نے نئے کپڑے پہنے ہوئے ہیں تو میرا غم اور بھی بڑھ گیا، اس لئے میں رو پڑا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ پکڑا اور کہا: کیا تو اس چیز پر راضی نہیں کہ میں تیرا باپ ہوں، عائشہ تیری ماں ہو، فاطمہ تیری بہن ہو، علی تیرے چچا ہوں، حسن وحسین تیرے بھائی ہوں؟! اب بچے نے پہچان لیاکہ یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہیں، اس نے کہا: یا رسول الله میں کیسے اس پر راضی نہ ہوں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسے اٹھایا اور گھر لے آئے، اسے اچھا لباس پہناکر خوب آراستہ کیا، اسے کھانا کھلایا حتی کہ اسے خوش کردیا ، یہ بچوں کے پاس ہنستا مسکراتا ہوا آیا، بچوں نے جب اسے اس حال میں دیکھا تو کہا: ابھی تو تم رورہے تھے، اب کیا ہوا کہ تم خوش ہو؟ اس نے کہا کہ میں بھوکا تھا، میرا پیٹ بھر گیا، میں بے لباس تھا، مجھے کپڑے مل گئے ہیں، میں یتیم تھا رسول الله صلی الله علیہ وسلم میرے باپ، عائشہ (رضی اللہ عنہا) میری ماں بن گئیں اور آخر تک تمام قصہ سنایا، بچوں نے کہا: کاش ہم سب کے والد بھی غزوہ میں شہید ہوجائیں جس طرح تیرے والد شہید ہوئے، وہ بچہ آپ صلی الله علیہ و سلم کے ساتھ رہا، یہاں تک آپ صلی الله علیہ و سلم کا وصال ہوگیا، اس دن وہ بچہ روتے ہوئے سر پر مٹی ڈالتے ہوئے نکلا اور کہہ رہا تھا کہ آج میں یتیم ہوگیا، آج میں غریب ہو گیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے چمٹالیا.‘‘
لیکن یہ واقعہ بھی کسی سند سے ثابت نہیں ہے۔ لہذا سوال میں ذکر کردہ واقعے کی کوئی اصل نہیں۔
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر 4324: (S_A_Sagar#)
https://www.facebook.com/100063975462349/posts/438935278248984/
-----------------------------------
https://saagartimes.blogspot.com/2022/08/blog-post.html

No comments:

Post a Comment