Thursday 28 July 2022

ہر کسے را بہر کارے ساختند

ہر کسے را بہر کارے ساختند 
(جس کا کام اُسی کو ساجھے)
محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ 
’’عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: بَیْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِيْ مَجْلِسٍ یُّحَدِّثُ الْقَوْمَ جَائَ ہٗ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ: مَتَی السَّاعَۃُ ؟ فَمَضٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُحَدِّثُ، قَالَ: أَیْنَ السَّائِلُ عَنِ السَّاعَۃِ؟ قَالَ: ھَا أَنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: إِذَا ضُیِّعَتِ الْأَمَانَۃُ فَانْتَظِرِ السَّاعَۃَ، فَقَالَ: کَیْفَ إِضَاعَتُھَا؟ قَالَ: إِذَا وُسِّدَ الْأَمْرُ إِلٰی غَیْرِ أَھْلِہٖ فَانْتَظِرِ السَّاعَۃَ۔‘‘          
(صحیح البخاری، کتاب العلم، باب فضل العلم، ج:۱، ص:۱۴، ط: قدیمی)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس میں تشریف فرما تھے، حدیث بیان فرمارہے تھے، ایک اعرابی (دیہاتی) آیا، پوچھا کہ قیامت کب ہوگی؟ آپ حدیث بیان کرنے میں مشغول تھے، جب فارغ ہوئے تو فرمایا کہ: قیامت کا سوال کرنے والا کہاں ہے؟ سائل نے عرض کیا: جی ہاں یا رسول اللہ! میں حاضر ہوں۔ فرمایا: جب امانت (الٰہی) ضائع ہوجائے، قیامت کا انتظار کرو۔ سائل نے دریافت کیا کہ امانت کیونکر ضائع ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب معاملات نا اہلوں کے سپرد ہوں، قیامت کا انتظار کرو۔‘‘
دیکھئے! کیسا عجیب سوال وجواب ہے اور کتنا واضح وصاف بیان ہے اور کیسی روشن علامت بیان فرمائی ہے، دنیا کا نظام اسی طرح چلتا ہے کہ جوشخص جس کام کے لئے موزوں ہو، اس کے لئے اسی کا انتخاب کیا جائے، صدرِمملکت سے لے کر چپڑاسی وچوکیدار تک غور کرلیجئے، یہی قانونِ فطرت کارفرما ہے، یہی معقول وموزوں زندگی کا نظام ہے، دنیا کا صحیح نظم اسی وقت تک قائم رہے گا، جب تک اس فطری و طبعی اور عقلی قانون پر عمل کیا جاتا رہے گا، جب اس قانون کے خلاف کیا جائے گا، نظم و نسق میں خلل واقع ہوگا، حکیم و طبیب کا کام انجینئر کے کسی نے سپرد نہیں کیا، کسی منطقی و فلسفی یا ریاضی کے استاذ کو فقہ و حدیث کا درس کسی نے حوالہ نہیں کیا، کسی ادیب یا شاعر کو ہیئت و ہندسہ کا درس حوالہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح میدانِ جنگ میں قیادتِ افواج کا کام کسی فلسفی مفکر کے کسی نے حوالہ نہیں کیا: 
’’ہر کسے را بہر کارے ساختند‘‘ 
مثل مشہور ہے۔ حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کبار رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی یہ صلاحیتوں کا تنوع واختلاف واضح تھا، جو کام حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا تھا، ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے نہیں لیا گیا۔ یہ جامعیتِ کبریٰ تو صرف حضرت خاتم الانبیاء سیدالمر سلین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفات میں ہی پیدا فرماکر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ کا کر شمہ دکھلایا تھا اور سارے کمالاتِ علمیہ وعملیہ آپ کی ذاتِ گرامی میں جمع کردیئے تھے:   
’’آنچہ   خوباں   ہمہ   دارند   تو   تنہا   داری‘‘
قرآن کریم اور احادیثِ نبویہ جو دینِ اسلام کے دو بنیادی ستون ہیں، ان کے حقائق اور فقہی مسائل کے استنباط کے لئے تو کبار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی چند خاص خاص شخصیتیں متعین تھیں، عام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی دسترس سے بھی یہ حقائق بالاتر تھے۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جیسی شخصیت قرآن کریم میں اپنی رائے سے کوئی بات بیان کرنے سے گھبرایا کرتے تھے اور فرماتے تھے:
’’أَيُّ سَمَائٍ تُظِلُّنِيْ وَأَيُّ أَرْضٍ تُقِلُّنِیْ إِذَا قُلْتُ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ بِرَأْیِيْ۔‘‘                       
(کنزالعمال، فصل فی حقوق القرآن، ج:۲، ص: ۴۴۵، ط: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)
’’کس آسمان کے زیرسایہ اور کس روئے زمین پر میں رہ سکوں گا جب اللہ کی کتاب میں اپنی رائے کو دخل دینے لگوں گا۔‘‘
۱:- تیرہ سوسال سے اُمت کا اس پر اتفاق و اجماع ہے کہ اسلام اتنا کا مل و اکمل اور ایسا واضح و روشن مذہب ہے کہ وہ کسی کی تعبیر وتشریح کا محتاج نہیں، اسلام کی تعبیر وتشریح کا نام اور اس کام کو کسی کے سپر د کرنے کا سوال صرف انہی لوگوں کی زبان پر آتا ہے جو اسلام کو اپنی اغراض وخو اہشات کے ڈھانچہ میں ڈھا لنا چاہتے ہیں، ورنہ اُمتِ مسلمہ تو تیرہ سوسال سے بغیر کسی کی تعبیر و تشریح کے علی وجہ البصیرت اسلام کو جانتی، پہچانتی اور اس کے احکام پر عمل کررہی ہے۔
۲:- ایسے جزوی حوادث ومسائل جو زمانے کے ساتھ بدلتے اور نو بنو وجود میں آتے رہتے ہیں، ان کے متعلق اسلام کا قطعی اور اساسی اُصول شارع رحمہم اللہ نے حسب ذیل بیان فرمایا ہے:
’’عَنْ عَلِيٍّ رضي الله عنه قَالَ: قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنْ نَّزَلَ بِنَا أَمْرٌ لَیْسَ فِیْہِ أَمْرٌ وَلَا نَھْيٌ فَمَا تَأْمُرُنِيْ؟ قَالَ: ’’شَاوِرُوْا فِیْہِ الْفُقَہَائَ وَالْعَابِدِیْنَ وَلاَ تَمْضُوْا فِیْہِ رَأْيَ خَاصَّۃٍ۔‘‘ (رواہ الطبرانی فی الاوسط، ورجالہ مو ثقون من اہل الصحیح۔ المعجم الاوسط للطبرانی، ج:۲، ص:۱۷۲، ط:دارالحرمین، القاہرۃ)
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر کوئی ایسا مسئلہ پیش آئے جس میں کوئی واضح بیان (نصِ کتاب وسنت) موجود نہ ہو، نہ امر (حکم) ہو، نہ نہی (ممانعت) ہو، ایسے مسئلہ کے بارے میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ (ہم کیا کریں؟) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسے مسائل میں تم فقہاء اور عبادت گزاروں سے مشورہ کیا کرو اور کسی بھی شخصی رائے سے ان کو طے نہ کیا کرو۔‘‘ (S_A_Sagar#)
https://saagartimes.blogspot.com/2022/07/blog-post_28.html

No comments:

Post a Comment