Wednesday 24 August 2022

کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ کو کبرسنی کے باعث طلاق دے دی تھی؟

کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ کو کبرسنی کے باعث طلاق دے دی تھی؟

 -------------------------------

--------------------------------
سوال: فقہ کی کتابوں میں باب القسم (بیویوں کے درمیان باری مقرر کرنا) میں جہاں بہت مسائل سے آتے ہیں ان میں ایک مسئلہ یہ بھی آتا ہیکہ اگر کوئی سوکن اپنی باری دوسری سوکن کو دینا چاہے تو دے سکتی ہے اور دلیل میں یہ پیش کیا جاتا ہیکہ ام المومنین حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا نے اپنی باری ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو دیدیتی تھی. اس کی جو وجہ بیان کی جاتی ہے اس میں قدرے اختلاف نظر آتا ہے. چنانچہ ہدایہ جلد ثانی کے حاشیہ میں امام بیہقی رحمہ اللہ کے حوالہ سے لکھا ہیکہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو طلاق دیدی تھی تو ایک دن آپ علیہ الصلاۃ والسلام نماز کے لئے نکلے تو انہوں نے آپ کا دامن پکڑلیا اور فرمایا کہ مجھے مردوں کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ گئی ہے. البتہ میری خواہش یہ ہیکہ روزمحشر میرا شمار آپ کی ازواج مطہرات میں ہو. اس لئے آپ مجھ سے رجوع فرمالیں. چنانچہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے رجوع فرمالیا. نیز حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ میں اپنی باری ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دیتی ہوں. جبکہ بعض مقامات پر ہیکہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے طلاق نہیں دی تھی بلکہ صرف طلاق کا ارادہ کیا تھا، اگر مذکورہ دونوں باتوں کو مانیں تو معلوم یہ کرنا ہیکہ آخر کیا وجہ ہوئی تھی کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے طلاق دی تھی یا طلاق دینے کا ارادہ فرمایا تھا؟؟ واضح رہے کہ بعض حضرات نے اس کا جواب یہ دیا کہ کبرِسنی کی بنیاد پر آپ نے یہ عمل کیا تھا جبکہ یہ جواب نبی علیہ الصلاۃ والسلام کی بنسبت بعید از عقل معلوم ہوتا ہے، اس کے برخلاف صاحب اعلاء السنن نے فتح الباری کے حوالہ سے لکھا ہیکہ ام المومنین حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ازخود اپنی باری حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دیدی تھی۔۔ دل لگتی بات تو فتح الباری کی ہی معلوم ہوتی ہے لیکن پھر بھی اربابِ علم سے گذارش ہیکہ اس مسئلہ کو مزید منقح فرماکر ممنون و مشکور ہوں.
محمد واصف قاسمی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفیق:
اپنی باری گفٹ کردینے کی بات تو متعدد روایات سے ثابت ہے. البتہ اس کی وجوہات واسباب کے بارے متضاد باتیں نقل کی جاتی ہیں، من جملہ ان کے طلاق دے دینے سے متعلق روایات بھی ہیں؛ لیکن وہ روایات اسنادی حیثیت سے ضعیف ومنقطع ہیں۔ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا بطیب خاطر بلا خوف طلاق از خود اپنی باری سیدہ عائشہ کو گفٹ کرنے اور اپنے حق جسمانی سے تنازل کرنے والی روایت صحیح اور ثابت ہے. جس کا مقابلہ منقطع روایات نہیں کرسکتیں. حضرت سودہ کا نکاح ہی غالباً پینسٹھ سال سے متجاوز ہونے کے بعد ہوا ہے. اس عمر میں شادی کا مقصد جسمانی تقاضوں سے لطف اندوزی قطعی نہیں ہوسکتا. جب یہ مقصد کبھی تھا ہی نہیں تو پھر کبرسنی کے باعث حضور کی طرف سے طلاق یا ارادہ طلاق بے معنی کی بات معلوم ہوتی ہے. ابوداؤد اور ترمذی وغیرہ کی روایات:
۱: (عَنْ عروة بن الزبير قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ : وَلَقَدْ قَالَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ حِينَ أَسَنَّتْ، وَفَرِقَتْ أَنْ يُفَارِقَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ يَوْمِي لِعَائِشَةَ، فَقَبِلَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا، قَالَتْ: نَقُولُ: فِي ذَلِكَ أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى وَفِي أَشْبَاهِهَا - أُرَاهُ قَالَ - : (وَإِنْ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزاً) .رواه أبو داود (2135) 
۲: عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: خَشِيَتْ سَوْدَةُ أَنْ يُطَلِّقَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: "لَا تُطَلِّقْنِي، وَأَمْسِكْنِي، وَاجْعَلْ يَوْمِي لِعَائِشَةَ، فَفَعَلَ، فَنَزَلَتْ: (فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَيْرٌ) . رواه الترمذي (3040)
یا ان جیسی روایات میں ان کا اپنے طور پہ کبر سنی کو باعث متارکت سمجھنے کی جو بات آئی ہے. وہ حضرت سودہ کا ذاتی استنتاج وقیاس ہے. شان رسالت مآب سے کبرسنی کے باعث ان کی تطلیق ثابت ہے نہ ارادۂِ تطلیق! بیہقی وغیرہ نے اس بابت جن روایات، پھر ان کی تبعیت میں مفسرین کرام 
"وإن إمرأة خافت من بعلها نشوراً" 
کے ذیل میں جن روایات یا اقوالِ مفسرین ذکر کئے ہیں: 
وہ ذیل کی روایت کے مقابل کھڑی نہیں ہوسکتیں، جس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت سودہ کے اس عمل کا باعث محض رضاء نبوی طلب کرنا ہے، حضور کی جانب سے کبر سنی کے باعث طلاق کا خدشہ نہیں:  
"غَيْرَ أَنَّ سَوْدَةَ بِنْتَ زَمْعَةَ وَهَبَتْ يَوْمَهَا وَلَيْلَتَهَا، لِعَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم تَبْتَغِى بِذَلِكَ رِضَا رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم" رواه البخاري (2453).
ایک شوہر دیدہ اور سن رسیدہ خاتون سے نکاح کا مقصد ہی حسن معاشرت کا کامل نمونہ پیش کرنا تھا، پھر کبر سنی کے باعث اسے حرم نبوی سے جدا کردینے کا فلسفہ ناقابل فہم ہے، کبر سنی کے باعث حضرت سودہ خود اندیشہ ہائے دوردراز (وسیع تر معنی ومفہوم میں) میں مبتلا ہوکر برضا ورغبت اپنی باری ایثار فرماگئیں، بخاری کی مذکورہ بالا روایت نے غلط فہمیوں کی بنیاد پر بنے گئے سارے جال یکسر کاٹ دی کہ حصول ثواب اور رضاء نبوی کے مقصد سے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے ایثار کی یہ مثال قائم فرمائی. وہاں کوئی خوفِ طلاق دامن گیر تھا نہ معاشرتی جبر وجور کا ادنی خدشہ!
واللہ اعلم بالصواب 

(S_A_Sagar#) 

 https://saagartimes.blogspot.com/2022/08/blog-post_24.html


 

No comments:

Post a Comment