تراویح میں ختم قرآن —— حقیقت، حیثیت اور ہماری بے اعتدالیاں!
----------------------------------
----------------------------------
قرآن کریم کائنات کی عظیم ترین دولت اور نعمت ہے۔ زمین آسمان میں خدا کو سب سے محبوب چیز قرآن کریم ہے۔ اس کی حفاظت کی ذمہ داری خدا نے خود اپنے ذمہ لی ہے۔ اس میں دنیا وآخرت کی بھلائی اور ہدایت ہے۔ اس کا پڑھنا بھی عبادت، سننا بھی عبادت، اور دیکھنا بھی عبادت ہے۔ یہ کتاب تمام آسمانی کتابوں کا عرق وخلاصہ ہے۔ پچھلی امتوں کو بغرض اصلاح جو مضامین مختلف زمانوں میں دیئے گئے وہ سب قرآن کریم میں جمع کردیئے گئے ہیں، ترغیب وتحریض کے مقصد سے مخصوص سورتوں کے مخصوص فضائل بیان کئے گئے ہیں، نمازوں میں اس کی قرأت اس حد تک لازم کی گئی ہے کہ اس کے بغیر نماز کا وجود ہی تسلیم نہیں کیا گیا. چونکہ منبعِ خیرات و برکات قرآن کریم کا قدوم میمنت، لزوم ونزول اسی مہینے میں ہوا ہے؛ اس لئے اس مہینے میں قرآن کریم کے ختم کرنے کو مسنون قرار دیا گیا، جو شخص اس مہینہ میں قرآن کریم کو ختم کرتا ہے، گویا وہ ساری اصلی اور ظلی برکات کا وارث ہوجاتا ہے، ختم قرآن کے مقصد سے ہی تراویح کی مشروعیت عمل میں آئی؛ تاکہ امت نزول قرآن کے ماہ مقدس میں ذوق وشوق کے ساتھ قرآن پڑھنے یا سننے میں مشغول رہ کر ہر خیر وبرکت کو دامن مراد میں سمیٹ سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ نفس نفیس تین راتوں تک تراویح پڑھائی، اس میں حضور علیہ السلام کا ختم قرآن کرنا تو کسی روایت سے ثابت نہیں ہے؛البتہ سنت خلفاے راشدین اور عمل صحابہ سے تراویح میں ختم قرآن کی سنیت ثابت ہوتی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت کی طرح اپنے خلفاء کی سنت کو بھی مضبوط پکڑنے کا حکم دیا ہے، خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تراویح کی امامت کے لئے حافظوں کو بلاکر ان کی قرأت سنی، پھر تیز پڑھنے والے کو تین ختم کرنے کا حکم دیا. اور معمولی تیز پڑھنے والے (یعنی تدویراً پڑھنے والے) کو دو ختم کرنے کے لئے فرمایا۔ اور آہستہ یعنی ترتیل سے پڑھنے والے کو ایک ختم کرنے کے لئے کہا۔ اور صحابہ رضوان ﷲ علیہم اجمعین کو ان کے شوق اور ہمت کے مطابق مذکورہ اماموں میں سے کسی ایک کی اقتداء کی ہدایت فرمائی۔ اب ظاہر ہے کہ امیرالمؤمین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سامنے تراویح میں قرآن ختم کرنے کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لازماً کوئی دلیل ہوگی؛ ورنہ آپ اس کا حکم نہ فرماتے اور نہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اس کو تسلیم کرتے۔ اسی لئے جمہور ائمہ کے یہاں رمضان میں ختم قرآن سنت ہے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جن قراء کو امامت تراویح کے لئے متعین فرمائے تھے. وہ تراویح میں اتنی طویل قرات فرماتے کہ فجر کے قریب لوگ تراویح سے فارغ ہوتے اور بعضوں کو طول قرأت کے باعث لاٹھی کا سہارا لینا پڑتا تھا، یہ دلیل ہے کہ تراویح میں لمبی قرأت کا معمول موجود تھا اور ختم قرآن کا اہتمام دورصحابہ میں بھی تھا؛ اسی لئے ہمارے یہاں پورے رمضان میں ترتیب وار کم از کم ایک ختم قرآن کو مؤکدہ قرار دیا گیا ہے، فقہی کتابوں میں لوگوں کی سستی کے باعث ختم قرآن کو ترک نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جس سے اس کا مؤکد ہونا معلوم ہوتا ہے، جبکہ بعض فقہاء حنفیہ فرماتے ہیں کہ کسی جگہ کے لوگ اتنے سست اور بد دل اور بدشوق ہوں کہ پورا قرآن مجید سننے کی تاب نہ رکھتے ہوں تو اتنا پڑھے کہ مسجد جماعت سے خالی نہ پڑجائیں۔ کیونکہ تکثیر جماعت تطویل قراءت سے زیادہ اہم ہے، ایسی ابتر حالت نہ ہو تو ایک ختم سے کم نہ کرے کیونکہ یہی سنت ہے۔ صحابہ و تابعین اور اسلاف امت کا اب تک اس پہ توارث چلا آرہا ہے، جس کی پیروی ضروری ہے، علامہ ابن تیمیہ اور علامہ طحطاوی جیسے محققین علماء کا کہنا ہے کہ ختم قرآن کے مقصد سے ہی تراویح مشروع ہوئی ہے. ہر محلے کی مسجد میں باجماعت تراویح کے تاکیدی قیام کی غرض بھی یہی ہے کہ عوام جو حافظ نہیں ہیں وہ تراویح میں قرآن سن سکیں اور ختم قرآن کی سنت اور فضیلت سے محروم نہ رہیں۔ اگر ختم قرآن کا تاکُّد ختم کردیا جائے تو چند سالوں بعد حفظ قرآن کے سلسلے پہ انتہائی منفی اور تکلیف دہ اثرات مرتب ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا، پھر کیا بعید ہے کہ حفاظ بھی عنقاء ہوجائیں، اگر نام کے حفاظ دستیاب بھی ہوجائیں تو محراب سنانے کے قابل نہ بچیں، ختم قرآن کے تاکُّد کے باعث اختیاراً نہیں تو؛ اضطراراً ہی سہی؛ لیکن دورِ قرآن کا عملی سلسلہ اور عوام کا مکمل ذوق وشوق کے ساتھ تراویح میں شرکت کا قابل رشک سلسلہ تو ہنوز باقی ہے. حفاظت قرآن جیسے عظیم مصالح ومقاصد اور عمل صحابہ کے تحت تراویح میں ختم قرآن کے تاکد کا قول متقدمین احناف نے اپنایا ہے، لیکن ان تمام حکمتوں کے باوجود ختم قرآن ہے سنت ہی! اسے فرض واجب کا درجہ دیدینا اور فرض وواجب کی طرح ہر حال میں اس قدر لازمی اہتمام کرنا اور قرآن کریم کو اتنی تیز رفتاری کے ساتھ پڑھنا کہ یعلمون وتعلمون کے سوا کچھ بھی سمجھ میں نہ آئے، ثواب کی بجائے الٹا وبال کا باعث ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ سے حسن کی روایت ہے کہ ایک رکعت میں دس آیات کے بقدر جوکہ بیس رکعات میں ایک جزء کے مماثل ہوتا ہے پڑھے، اس طرح پورے مہینے میں ختم بآسانی ہوجائے گا. بادام کے چھلکے پہ قناعت کرنے والے اور مغز کو پھینک دینے والے شخص کی عقل پہ اگر ماتم کیا جاسکتا ہے تو ختم قرآن کے خبط میں تلاوت قرآن کے واجبی آداب کو نظرانداز کر کے ناقابل فہم رفتار میں تلاوت کرنے والا امامِ تراویح اس سے زیادہ قابل افسوس ہے۔ خوب اچھی طرح ذہن نشیں رہے کہ تراویح میں قرآن شریف صاف اور واضح انداز میں پڑھنا ضروری ہے۔ ایسی تیز رفتاری اور عجلت سے قرآن پڑھنا جس سے حروف کٹ جائیں اور الفاظ کی ادائی، صحیح وصاف نہ ہو درست نہیں؛ بلکہ مکروہ ہے، ایسی تراویح ثواب کے بجائے گناہ کا باعث بنتی ہے۔حفاظ اور انتظامیہ دونوں کو چاہئے کہ ایسی عجلت آمیز تلاوت کہ حروف کٹ جائیں اور کچھ سمجھ میں نہ آئے کہ کیا پڑھا جارہا ہے؟ سے لازمی گریز کریں، یہ کار ثواب کی بجاے کار گناہ اور وبال جان ہے، ایک سنت (ختم قرآن) کی ادائی کے لئے ترتیل قرآن کا بے رحمی کے ساتھ یوں حشر نشر کردینا اور کتاب مقدس کی حق تلفی کرنا انتہائی افسوسناک والمناک عمل ہے، واللہ الموفق لکل صواب.
شکیل منصور القاسمی
مركز البحوث الإسلامية العالمي.
(یکم رمضان 1443 ہجری، روز ہفتہ) s_a_sagar#
http://saagartimes.blogspot.com/2022/04/blog-post.html?m=1
No comments:
Post a Comment