بسم اللہ الرحمن الرحیم
رویت ہلال اور فلکی حسابات پہ اعتبار سے متعلق ایک چشم کشا محاضرہ
—————-
مورخہ ۲٤ شعبان المعظم ۱٤٤۳ بہ مطابق ۲۸ مارچ ۲٠۲۲ بہ روز پیر بعد نماز عشاء ۹:۱۵ تا ۱٠:۱۵ بہ عنوان "رؤیت ہلال کے شرعی اصول و ضوابط" زیرصدارت حضرت مولانا ابوحنظلہ عبدالاحد قاسمی حفظہ اللہ اور بحیثیت محاضر شیخ الحدیث حضرت مفتی شکیل منصور القاسمی دامت برکاتہم مقیم حال سورینام (جنوبی امریکہ) منعقد ہوا, محاضر موصوف نے خطبہ مسنونہ کے بعد موضوع پر کلام فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ آج کے موضوع کے دو جزء ہیں:
۱ : رؤیت،
۲ : ہلال۔
موضوع کے محاصرہ کیلئے مناسب معلوم ہوتا ہے لفظ "ہلال" کی لغوی و اصطلاحی تحقیق بیان کردی جائے, ہلال کے لغوی معنی ظہور اور آواز بلند کرنے کےہیں اور یہ لفظ کئی صیغوں میں مستعمل ہے جیسے تہلیل, اہلال بالحج, استہلال الشھر وغیرہ. اصطلاحی معنی قمری مہینہ کی شروع یا اخیر کی دو یا تین راتوں کے چاند کو ہلال سے تعبیر کرتے ہیں، درمیان ماہ کی راتوں کے چاند کو عموما قمر؛ جبکہ چودہویں کے چاند کو خصوصا بدر کہا جاتا ہے ,فرمایا کہ شریعت اسلامیہ کے ہزاروں احکام کی بنیاد چاند پر ہے۔ سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ بتصریح قرآن کریم پچھلی امتوں پر بھی روزہ فرض تھا جس سے واضح ہے کہ امم ماضیہ کے ہاں بھی قمری مہینوں پر ہی عمل ہوتا تھا۔ شریعت اسلامیہ میں احکام شرع میں قمری مہینوں ہی کا اعتبار کیا گیا ہے، حضرت عمر رضی اللہ تعالی نے صحابہ کرام کی مشاورت سے ہجرت نبوی سے اس کا آغاز فرمایا، قمری مہینوں کی تحدید ایجاد بندہ نہیں؛ بلکہ من جانب اللہ ہے جیسا کہ قران کریم میں مذکور ہے:
إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَاللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ (التوبة 36)۔
بخاری میں ہے:
الزَّمانُ قَدِ اسْتَدارَ كَهَيْئَتِهِ يَومَ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَواتِ والأرْضَ، السَّنَةُ اثْنا عَشَرَ شَهْرًا، مِنْها أرْبَعَةٌ حُرُمٌ، ثَلاثَةٌ مُتَوالِياتٌ: ذُو القَعْدَةِ وذُو الحِجَّةِ والمُحَرَّمُ، ورَجَبُ مُضَرَ، الذي بيْنَ جُمادَى وشَعْبانَ. (صحيح البخاري. (3197)
مذہب اسلام جغرافیائی سرحدوں سے پاک اور منزہ ہے، عامی وعالم ،شہری و بدوی وصحراوی ہر کوئی یکساں اس کا مکلف ہے، اسلام سب کے لئے قابل عمل چیزوں پر احکام کی بنیاد رکھتا ہے، چاند پہ مہینوں کے آغاز وانتہاء کی بنیاد اسی لئے رکھا گیا ہے ہر کوئی ہر جگہ سے دیکھ کر اسے محسوس ومعلوم کرسکتا ہے، سورج کے بالمقابل چاند کو اسی لیے معیار بنایا گیا ہے کہ اسے محسوس کیا جاسکتا ہے اور اسکو آسانی سے دیکھا بھی جاسکتا ہے کیونکہ چاند کا حجم اور جسم گھٹتا بھی ہے اور بڑھتا بھی ہے, جس کی رؤیت غروب آفتاب کے بعد ہوتی ہے ، برخلاف شمس اور آفتاب کے کہ اس کو دیکھنا ہرکسی کے بس کی بات نہیں اور سورج ہر وقت ایک ہی حالت پر رہتا ہے۔ اگر ریاضی و فلکیات کی موشگافیوں اور ظن وتخمینات سے مہینوں اور رمضان وفطر کا آغاز ہونے لگے تو جو لوگ ان چیزوں سے واقف نہیں، یا جو جزیروں وپہاڑوں میں آباد ہیں وہ عمل کیسے کریں گے؟ یہ تو اسلام کی آفاقیت کے خلاف ہے۔ موضوع کا دوسرا جزء تھا "رؤیت" جس کو بخاری شریف کی اس روایت سے مستدل فرمایا:
صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فإنْ غُبِّيَ علَيْكُم فأكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ.
صحيح البخاري. 1909.
مذکورہ روایت کے ذیل میں حضرت مفتی محمد شفیع صاحب عثمانی علیہ الرحمہ کا قول نقل فرمایا کہ رویت آنکھ سے دیکھنے کو کہتے ہیں، دیگر معانی میں اس کا استعمال مجاز ہے، فلک پر چاند کا وجود کافی نہیں ہے۔ بلکہ احکام کے ثبوت کیلئے چاند کا قابل دید و قابل رؤیت بصریہ ہونا مدار حکم ہے۔ عمل بالحقیقہ کے امکان کے باوجود مجاز کی طرف رجوع صحیح نہیں، علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مجموع الفتاوی کے حوالہ سے ارشاد فرمایا کہ ہلال کے معنی ہی ظہور کے ہیں وجود فوق الافق کافی نہیں؛ بلکہ ظہور ہونا ضروری ہے تبھی تو ہلال کی حقیقت لغویہ کا تحقق ہوسکے گا۔ فلکی حساب سے پیدا شدہ چاند کو ہلال کہنا ہی صحیح نہیں۔ اگر وجود فوق الافق ہی کافی ہوجاتا تو انتیس تیس کا جھگڑا ہی ختم؛ کیونکہ چاند پورے مہینہ اپنے مدار میں کہیں نہ کہیں رہتا ہی ہے، کبھی معدوم نہیں ہوتا، چھبیس و ستائیس کو بھی دور بیں سے دیکھا جاسکتا ہے۔ مفتی صاحب نے شریعت کے ایک اہم اصول کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ نئی ایجادات سے کوئی وحشت ونفور نہیں، سائنس خدائی مخلوقات سے استفادے کی شکلیں بتاتی ہے، لیکن اس سے اسوقت تک ہی انتفاع جائز ہے جبتک کہ اصول شریعت سے متصادم نہ ہو، مسلمان احکام خداوندی کی پیروی کا پابند عمل ہے، سیارات کی گردشوں و موشگافیوں میں انشغال کا نہیں، باری تعالی کا ارشاد ہے:
اتبعو مآ انزل الیکم من ربکم ولاتتبعو من دونہ اولیآء۔
فلکیات سے امکان رویت ہلال تک استفادے کی تو گنجائش ہے؛ لیکن رویت بصریہ کے اہتمام اور التماس ہلال کے بغیر اصول فلکیات سے ہی محدّد طور پر مہینوں کا آغاز واختتام کردینا اصول شرع "صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ" کے معارض و متصادم ہونے کے باعث مردود و ناقابل عمل وغیر معتبر ہے۔ حدیث نبوی سے ہی پتہ چلتا ہے کہ چاند اپنے وجود کے بعد کسی عارض کے باعث تمہاری نظروں سے مستور ہوجائے تو تیس دن مکمل کرو.
"فان غمّ علیکم" غُمّ کا مفہوم لغوی یہ ہے کہ موجود ہوتے ہوئے. اگر چاند نہ دکھ سکے، کذا فی تاج العروس، تو اب تیس روز مکمل کئے جائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کو فوق الافق موجود مانتے ہوئے تیس روز مکمل کرنے کی ہدایت فرمائی ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ چاند کا وجود محض معتبر نہیں، وقوع رویت کا اعتبار ہے، فلکیات وریاضی کے ماہرین کی ساری تگ ودو وجود محض تک محدود ہے، پھر چوتھی صدی ہجری کے ممتاز اسلامی فلاسفر علامہ ابو ریحان بیرونی نے اپنی مایہ ناز کتاب "الآثارالباقیہ" میں علماے فلکیات کا اجماع نقل کردیا ہے کہ یہ لوگ جو کچھ بھی تحدید کرتے ہیں وہ ظن وتخمین سے زیادہ کچھ بھی نہیں، ان کی تخمینات کسی بھی متفق علیہ ومنضبط قطعی اصول پہ مبنی نہیں ہے.“ تو پھر بھلا ایسی موہوم چیزوں پہ ہلال رمضان وفطر کے اثبات میں کیسے بھروسہ کرلیا جائے؟ طول البدل وعرض البدل کے اختلاف کے باعث فقہاء کے یہاں مسئلہ اتفاقی ہے کہ دنیا کے تمام علاقوں کے مطالع ایک نہیں ہوسکتے، اختلاف مطالع کی حقیقت ہر ایک کے یہاں مسلم ہے، اسی لیے نمازوں کے اوقات سے لیکر دنوں تک میں اختلاف ہے؛ البتہ اختلاف اس میں ہے کہ ثبوت ہلال میں یہ اختلاف مطالع موثر ہے یا نہیں ؟ یعنی اگر دنیا کے ایک کنارے میں رویت ہوگئی تو دوسرے کنارے والوں پر بھی یہ رویت نافذ ہوجائے گی یا ان کے یہاں جب دوسرے روز رویت ہوگی تب ان کی اپنی رویت کا اعتبار ہوگا؟ تو اس بابت فقہاء حنفیہ کا اختلاف ہے، ظاہر مذہب یہ ہے کہ ایک جگہ کی رویت دنیا کے دوسرے کنارے والوں کے لئے بھی رویت قرار پائے گی اور سب کے لئے ایک روز ہی ہلال ثابت ہوگا؛ کیونکہ "صومو لرویتہ" والا حکم سب کے لئے علی الاطلاق عام ہے۔ جبکہ علامہ کاسانی، امام زیلعی، صاحب فتاوی تاتار خانیہ، علامہ شبیر احمد عثمانی، علامہ انور شاہ کشمیری، علامہ سید محمد یوسف بنوری اور مفتی محمد شفیع صاحب عثمانی جیسے علمائے محققین قدرے تفریق کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
بلادِ قریبہ میں اختلافِ مطالع معتبر نہیں ہے، یعنی ایک جگہ رویت ثابت ہوجانے سے سب کے لئے ثابت ہوجائے گی ۔قریب کی حد یہ ہے کہ اس جگہ کی معتبر خبرکو مان لینے سے اپنے یہاں کا مہینہ ۲۹؍ دن سے کم یا ۳۰؍ دن سے زیادہ لازم نہ آتا ہو۔ جبکہ بلادِ بعیدہ میں اختلافِ مطالع کا شرعاً اعتبار ہے، یعنی ایک جگہ کی رویت سب کے لئے لازم نہ ہوگی۔ بعیدہ کی حد یہ ہے کہ وہاں کی رؤیت تسلیم کرنے سے اپنے یہاں کا مہینہ ۲۹؍دن سے کم یا ۳۰؍دن سے زیادہ کا لازم آجاتا ہو، ایسی جگہوں کی خبریں تسلیم نہیں کی جائیںگی، اگرچہ کتنے ہی وثوق کے ساتھ کیوں نہ آئیں، اس لئے کہ شریعت کی نظر میں کوئی مہینہ نہ تو ۲۹؍ دن سے کم ہوسکتا ہے اور نہ ۳۰؍ دن سے زیادہ ہوسکتا ہے۔ مکہ معظمہ اور خلیجی ممالک کی رؤیت پوری دنیا کے لئے اسی اصول پہ معتبر نہیں ہے. بلکہ مکہ معظمہ کی رؤیت صرف انہی علاقوں تک مانی جاسکتی ہے جہاں اس رؤیت کو تسلیم کرلینے سے ان علاقوں کا مہینہ ۲۹؍ دن سے کم یا ۳۰؍ دن سے زیادہ کا ماننا لازم نہ آتا ہو، اور مکہ معظمہ سے دور دراز کے وہ علاقے جہاں مکہ معظمہ کی رؤیت تسلیم کرنے سے مہینہ میں کمی بیشی ماننی پڑتی ہو تو ان میں مکہ معظمہ کی رؤیت کا اعتبار نہیں ہوگا۔ سلسلہ خطاب جاری رکھتے ہوئے مفتی صاحب نے فرمایا کہ جب رؤیت عام نہ ہو تو عیدین (اور دیگر مہینوں) کے چاند کے ثبوت کے لئے ضروری ہے کہ درج ذیل چار ذرائع میں سے کوئی ذریعہ پایا جائے:
(۱) شہادۃ علی الرؤیۃ: یعنی چاند دیکھنے والے دو عادل شخص خود قاضی یا کمیٹی کے روبرو چاند دیکھنے کی گواہی دیں۔
(۲) شہادۃ علی شہادۃ الرؤیۃ: یعنی چاند دیکھنے والے خود تو حاضر نہ ہوں، لیکن ان میں سے ہر ایک کی گواہی پر دو دو عادل شخص گواہی دیں کہ ہمارے سامنے فلاں فلاں شخص نے چاند کی گواہی دی ہے۔
(۳) شہادۃ علی القضاء: یعنی کسی جگہ قاضی یا کمیٹی شرعی ثبوت پر چاند کا فیصلہ کردے پھر اپنے فیصلہ کو دو گواہوں کے سامنے مہربند کرکے دوسرے شہر کی کمیٹی یا قاضی کو بھیجے۔
(۴) استفاضہ: یعنی کسی جگہ سے چاند کی خبر یا قاضی کے فیصلہ کے بعد اس کی خبر دوسرے شہر تک اس تواتر سے پہنچے کہ اس سے چاند کے ثبوت کا علم یقینی ہوجائے۔
ان میں سے اگر ایک ذریعہ بھی متحقق ہوجائے تو عید کے چاند کا ثبوت ہوجائے گا۔
اگر مطلع بالکل صاف ہو تو اس وقت تک رمضان یا عیدین کے چاند کا ثبوت نہ ہوگا جب تک کہ ایک بڑی معتد بہ جماعت چاند نہ دیکھ لے، یا اطراف سے متواتر ناقابلِ انکار خبریں استفاضہ کے طور پر نہ آجائیں؛ لہٰذا ایسی صورت میں اگر دو ایک آدمی گواہی دیں تو ان کی گواہی معتبر نہ ہوگی۔ اگر مطلع ابر آلود یا غبار آمیز ہو تو رمضان کے چاند کے ثبوت کے لئے ایک شخص کی خبر کافی ہے جس میں گواہی کے الفاظ کو کہنا ضروری نہیں۔
مفتی صاحب نے فرمایا کہ جن ملکوں میں اقتدارِاعلیٰ مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو وہاں چاند کا اعلان وہی معتبر ہوگا جو حکومت کی طرف سے مقرر کردہ افراد یا کمیٹی کی طرف سے کیا جائے، اپنے طور پر عوام کو روزہ رکھنے یا عید منانے کا اختیار نہ ہوگا۔ مسلم اقلیتوں والے ممالک میں چاند کے اعلان کا اختیار معتمد علیہ رؤیت ہلال کمیٹیوں یا علاقہ کے بااثر ائمہ اور علماء کو ہوگا، انہی کے سامنے چاند کی شہادتیں پیش کی جائیںگی، اور انہی کے اعلان پر روزہ یا عید کا فیصلہ ہوگا، اور جس کمیٹی اور عالم کا جتنا دائرۂ اثر ہے اسی حد تک اس کا فیصلہ نافذ العمل ہوگا۔ اس کے علاوہ بھی فاضل محاضر نے اثناء خطاب بیش بہا وچشم کشا علمی نکات کی طرف اشارے فرمائے، اختصار کے خاطر انہیں شامل نہیں کیا گیا، یہ محاضرہ انتہائی اور وقیع تھا، دریا کو کوزے میں بند کردینے کا مظہر جمیل تھا، اللہ تعالی حضرت مفتی صاحب کے علوم سے امت کو مستفید ہونے کی توفیق ارزانی فرمائے، آمین۔
رپورٹ: بندہ محمد شکیل قاسمی بھرت پوری (حال مقیم راجستھان) s_a_sagar#
http://saagartimes.blogspot.com/2022/04/blog-post_3.html?m=1
No comments:
Post a Comment