نعت خوانی پہ اجرت لینا؟
---------------------------------
----------------------------------
سوال: اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
مفتی صاحب!
نعت خواں نعت خوانی کے پیسے لیتے ہیں اور کہتے ہیں ہم ٹاٸم کا اجارہ کرتے ہیں کیا یہ ٹاٸم کا اجارہ کہہ لاۓ گا نعت خوانوں نے اپنے ایسسٹنٹ رکھے ھوۓ ہیں وہ پیسے مانگتے ہیں. اس کا کیا حکم ھوگا مفتی صاحب تفصیل سے اس کا جواب دے دیجٸے نوازش ہوگی بہت بہت آپ کی!
محمد رضا، کراچی. پاکستان
————-
الجواب وباللہ التوفیق:
فقہاء حنفیہ کا اصل مسلک یہ ہے کہ کسی بھی طاعت وعبادت (وہ عمل جس کے ذریعے اللہ کا قرب و ثواب حاصل کیا جاتا ہو) کو کسب معاش کا ذریعہ بنانا اور اس پہ اجرت وصول کرنا جائز نہیں ہے۔ کتاب وسنت میں اس پہ سخت وعید آئی ہے؛ لیکن وسیع تر دینی اور شرعی مصالح کے پیش نظر بعد کے فقہاء حنفیہ (متاخرین احناف) نے دینی تعلیم، امامت، اذان اور افتاء وغیرہ کی خدمات پہ معاوضہ لینے کو بر بنائے مصالح واحوال زماں استثنائی طور پہ جائز قرار دیا ہے ۔۔ صرف تلاوت قرآن مجید کی اجرت؛ خواہ کسی بھی شکل میں (قرآن خوانی برائے ایصال ثواب کی شکل میں ہو یا تراویح کی شکل میں) ہو، کو اصل مسلک کے موافق ناجائز ہی رکھا گیا ہے.*(شامی۔ مطلب فی الاستئجار علی الطاعات 55/6۔ سعید)
امت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق میں ایک اہم حق آپ سے ایسی محبت کرنا بھی ہے جو مال و دولت، آل اولاد؛ بلکہ خود اپنی جان و جہاں سے بھی بڑھ کر ہو، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی محبت کمال ایمان کی شرط لازم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف و اخلاق اور عادات و شمائل کو حد شرع میں رہتے ہوئے بیان کرنا نہ صرف جائز؛ بلکہ افضل عبادت اور بے انتہاء ثواب کا موجب عمل ہے ہاں! غیرواقعی چیزوں پہ، یا تعریف میں مبالغہ آرائی اور ممدوح کی جانب ایسی چیزیں منسوب کرنے سے منع کیا گیا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود نہیں. جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب، حاضر وناظر یا اختیار کلی وغیرہ سے منسوب کردینا کہ یہ چیزیں صرف اللہ کی خصوصیات ہیں' حضور صلی اللہ علیہ وسلم باوجود جملہ خصوصیات کے لوگوں کے ان دعاوی محضہ سے متصف نہیں. جیسے ابن مریم جملہ معجزات کے علی الرغم ابنیتِ خداوندی سے متصف نہیں ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں بیجا مدح سرائی اور تعریف وتوصیف میں حدود سے تجاوز کرجانے سے منع فرمایا ہے: عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ سَمِعَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: عَلَى الْمِنْبَرِ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ، فَقُولُوا: عَبْدُاللَّهِ وَرَسُولُهُ.
ترجمه: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے میرے مرتبے سے زیادہ نہ بڑھاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو نصاریٰ نے ان کے رتبے سے زیادہ بڑھا دیا ہے۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں، اس لئے یہی کہا کرو (میرے متعلق) کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں. (صحیح البخاری: ٣٤٤٥)
جو چیزیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے احادیث ودلائل سے ثابت ہیں ان میں توصیف وتعریف کرنا ممنوع نہیں؛ بلکہ ممدوح و مستحسن عبادت ہے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدحت، تعریف و توصیف، شمائل و خصائص کے نظمی اندازِبیاں کو ہماری زبان میں نعت یا نعت خوانی یا نعت گوئی کہا جاتا ہے۔ عربی زبان میں نعت کے لئے لفظ "مدحِ رسول" استعمال ہوتا ہے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں بہت سے صحابہ کرام نے نعتیں لکھیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تشجیع وتحسین فرمائی، چنانچہ حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ جو اسلام کے ابتدائی دور کے شاعر ہیں، انہیں ان کی مشہور نعت پہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بطورانعام چادر عطا فرمائی تھی۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی تعریف وتوصیف و دفاع نبوی کے بدلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعائیں دیں اور لکڑی کا ممبر عطاء فرمایا جس پر وہ اپنا کلام پیش فرماتے اور دفاعی کارروائی انجام دیتے:
قال ابن أبي الزناد، عن أبيه، عن أبي هريرة عن عائشة: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وضع لحسان ابن ثابت منبرا في المسجد فكان ينافح عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللهم أيد حسان بروح القدس كما نافح عن نبيك». ((صحيح. رواه البخاري تعليقا (1/ 123، 4/ 127، 8/ 45) وأبوداؤد في (الفضائل، باب «151، 152») والنسائي في (المساجد، باب «24») وأحمد (5/ 222) وإتحاف (6/ 507) والطبراني في «الصغير» (2/ 4) والمنثور (5/ 100) وابن سعد في «الطبقات» (3/ 1/ 194) ))
(حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لئے مسجد میں منبر رکھا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کیا کرتے تھے ۔۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! حسان کی جبرائیل کے ذریعے مدد فرما کیونکہ انھوں نے آپ کے نبی کا دفاع کیا)
اصنافِ سخن اور اظہارِبیان کے ذرائع میں شروع سے ہی "شعر" سب سے مؤثر اور طاقتور ذریعۂِ اظہار رہا ہے۔ مختصر لفظوں میں شعر کے ذریعہ انسان اپنے مخاطب وسامع کو جتنا متاثر وگرویدہ کرسکتا ہے وہ نثر سے ممکن نہیں ہے؛ اسی لئے شروع سے ہی شعر کی اثرانگیزی، تفوق و برتری کو تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔ طرززندگی، تمدن اور جغرافیائی آب وہوا کی وجہ سے عربوں کو شعر و شاعری کا ذوق فطری طور پر ملا تھا، عربوں کا رشتہ عربی شاعری سے "چولی دامن" کا رہا ہے۔ مذہب اسلام سے پہلے عربوں کا یہی "سرمایۂِ فکر ونظر" اور پیمانۂِ "فخر ومباہاۃ" تھا۔ عکاظ کے بازار میں جاہلی شعراء جمع ہوتے اور "نابغہ ذبیانی" کی زیر صدارت اپنا اپنا کلام پیش کرتے، یوں وہاں شعر و شاعری کی محفلیں آراستہ ہوتیں، صدر مجلس کے فیصلے کے بعد سب سے عمدہ اور اوّل آنے والے قصیدے کو پذیرائی واعتراف کے بطور سونے کے پانی سے لکھ کر خانہ کعبہ میں آویزاں "معلق" کرتے، ان لٹکائے گئے اشعار کو "مُعَلَّقَہ" کہا جاتا تھا۔ امرؤالقیس، النابغہ الذبیانی، زہیر بن ابی سلمیٰ، عنترہ بن شداد العبسی، الأعشیٰ قیس، طرفۂ بن العبد، عمرو بن کلثوم لبید بن ربیعہ جیسے نامور جاہلی شعراء کے کلام خانہ کعبہ میں لٹکائے گئے تھے۔ ان شعراء کو "اصحاب معلقات" کہتے ہیں۔ ان جاہلی اشعار میں قبائل کی خوبیوں، شجاعت و بہادری، اونٹ، گھوڑے، ہرن، جنگ وجدال، محبوبہ، ماں، بیوی، باندی، شراب وکباب اور مورتیوں کی خوبیاں بیان کی جاتیں اور ہیجان انگیز عشقیہ اشعار کہے جاتے تھے۔ اسلام نے اپنے آنے کے بعد شعر وسخن میں مناسب حال تعدیل و تطہیر کی، شرک وبت پرستی، شراب وکباب اور فحاشی وعریانیت، شہوت انگیز بدگوئی اور فضولیات پہ مشتمل اشعار کو ناجائز وحرام قرار دیا گیا۔ اعتقادات و اخلاقیات کو خراب وفاسد کردینے والی حیاء باختہ و گمراہ کُن منفی شاعری پہ بندش لگائی گئی، اسے وسیلۂِ تخریب قرار دیتے ہوئے شیطانی عمل سے تعبیر کیا، جبکہ اچھی، معیاری، مثبت، تعمیری، بامقصد شاعری، اور علم، حکمت اور دانائی پہ مشتمل کلام کی پذیرائی کی گئی اور ہر مسلمان مرد و عورت، بوڑھے اور جوان کے لئے ایسی شاعری کو مباح قرار دیا گیا۔ (إِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِکْمَةً۔۔۔۔ بے شک کچھ اشعار حکمت سے پُر ہوتے ہیں۔ بخاري، رقم: 5793)۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شاعری کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
هُوَ کَلَامٌ فَحَسَنُهٗ حَسَنٌ وَقَبِیْحُهُ قَبِیْحٌ ۔۔۔۔ یہ کلام ہے چنانچہ اچھا شعر، اچھا کلام اور برا شعر، برا کلام ہے ۔۔۔ مسند أبویعلی: رقم: 4760، سنن دارقطني، 4: 155، رقم: 1، بیروت: دارالمعرفۃ)۔
نبیوں اور رسولوں (علہیم الصلوۃ والسلام) کی باتیں چونکہ وحی خداوندی والہامات ربانی پہ مبنی ہوتی ہیں؛ جبکہ شعراء کی باتیں شعور وآگہی، تخیل، پروازیِ فکر اور بسا اوقات حد درجہ مبالغہ آرائی پر مبنی ہوتی ہیں؛ اس لئے شعر وشاعری نبیوں اور رسولوں (علہیم الصلوۃ والسلام) کے مقام نبوت کی شایان شان قرار تو نہیں دی گئی، لیکن رسولوں سے مطلقاً اس کی نفی نہیں کی گئی، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اگرچہ شعر کہنا تو ثابت نہیں ہے؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگی ترانے (رجز) خود بھی پڑھے ہیں، اپنی سریلی آواز کے ذریعہ اونٹ کو مست کردینے اور اسے تیز رفتار کردینے والے نوجوان صحابی "انجشہ" کی حدی خوانی کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعریف کی ہے. (رُوَیْدَكَ یَا اَنْجَشَةْ ! سَوْقَكَ بِالْقَوَارِیْر!) اے انجشۃ! آہستہ پڑھ، ذرا ٹھہرٹھہر کے پڑھ، تم آبگینے لے کر سفر کررہے ہو۔ یعنی اونٹ زیادہ تیز دوڑے گا تو یہ شیشے جیسی عورتیں جو اونٹ پر سوار ہیں ٹوٹ جائیں گی۔ بخاری 6149)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں اشعار پڑھے جاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم داد وتحسین سے نوازتے تھے۔ غزوہ احزاب کے بعد جب کفار ومشرکین ہر جنگی محاذ پہ ہزیمت کے شکار ہوگئے اور انہیں مسلمانوں سے جنگی محاذ آرائی اور تلوار سے لڑائی کی طاقت نہ بچی تو انہوں نے اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعہ زبانی جنگ کی ٹھانی، اور نبی اسلام کے خلاف ہجو و بدگوئی شروع کردی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعر و شاعری کی اس جنگ میں اپنے تین نامور انصاری شعراء اصحاب: حسان بن ثابت، عبداللہ بن رواحہ اور کعب بن مالک رضی اللہ عنہم کو اس دفاعی مہم کے لئے منتخب فرمایا، حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں مدحیہ اشعار کہتے، اور کفار ومشرکین کی ہجو بیان کرتے، حضرت عبداللہ بن رواحہ جنگی انداز کے اشعار (رجزیہ ورمزیہ) اشعار کہتے، جبکہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی خوبیوں اور محاسن اسلام پہ اشعار سناتے تھے. یوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید، ودعاء واستحسان سے اچھے اور بامقصد تعمیری اشعار دفاعی ہتھیار کے طور پہ کام آئے۔ اسی سے تعمیری ومثبت اشعار کے حوالے سے اسلامی وشرعی موقف بھی جانا جاسکتا ہے۔
نعت گوئی؛ خواہ جس زبان میں بھی ہو، شاعری کا نگینہ کہلاتا ہے، اصناف سخن میں صنف نعت گوئی آسان بھی ہے اور مشکل تر بھی! بقول شاہ معین الدین ندوی رحمہ اللہ: ’’نعت کہنا آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔ محض شاعری کی زبان میں ذات ِپاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عامیانہ توصیف کردینا بہت آسان ہے، لیکن اس کے پورے لوازم و شرائط سے عہدہ برآ ہونا بہت مشکل ہے۔ حُبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نبوت کے اصلی کمالات اور کارناموں، اسلام کی صحیح روح، عہدرسالت کے واقعات اور آیات و احادیث سے واقفیت ضروری ہے، جو کم شعرا کو ہوتی ہے۔ اس کے بغیر صحیح نعت گوئی ممکن نہیں۔ نعت کا رشتہ بہت نازک ہے۔ اس میں ادنیٰ سی لغزش سے نیکی برباد، گناہ لازم آجاتا ہے۔ اس پل ِصراط کو عبور کرنا ہر شاعر کے بس کی بات نہیں۔ یہ وہ بارگاہ اقدس ہے جہاں بڑے بڑے قدسیوں کے پاؤں لرز جاتے ہیں.‘‘ (ادبی نقوش صفحہ 284)
نعت گو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعداد درجنوں بلکہ سینکڑوں کو پہنچتی ہے (حافظ ابن البر اور حافظ ابن سیدالناس رحمہما اللہ نے اس بابت تفصیل سے چشم کشا وسیر حاصل بحث سپرد قلم کی ہے)
مدح رسول وثناخوانی مصطفی اعلی وارفع عبادت ہے، اسے جذبہ عقیدت واحترام سے آداب و حدود کی از بس رعایت کے ساتھ عبادت سمجھتے ہوئے انجام دینا چاہئے، نعت خوانی جیسی مہتم بالشان عبادت کو حصول سیم وزر کا ذریعہ بنانا، نعت خوانی پہ اجرت طلب کرنا یا نعت خوانی میں صرف کردہ وقت کی اجرت میں پیسے مانگنا عبادت مقصودہ پہ اجرت لینا ہے جو باتفاق احناف جائز نہیں ہے۔
احادیث ودلائل سے ثابت توصیف وثناخوانی سنجیدہ اشعار کے ذریعے ہو، ترنم، گانے اور عشقیہ اشعار کے مشابہ نہ ہو، پڑھنے والے کی صورت، ہیئت اور آواز موجبِ فتنہ نہ ہو تو ایسے نعت خواں کو کچھ طے کئے بغیر، طیب خاطر سے تشجیعاً دیدیا جائے تو اس کی گنجائش ہے؛ حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ کے نعت پڑھنے پر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے چادر پیش فرمائی تھی:
وکان رسول اﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم قد أعطاہ بردۃ له۔ (أسدالغابة، دارالفکر ١٧٧/٤)
لیکن اگر صرف نعت خوانی کے لئے ہی مدعو کیا جائے اور باقاعدہ اجرت نصاً، عرفاً یا اشارۃً طے کرلیا جائے تو یہ شرعاً جائز نہیں ہے، پیسہ بھی برباد جائے گا اور نعت خوانی پہ ثواب سے بھی محرومی رہے گی:
﴿مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ * أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ [هود: 15- 16]
وعلی هذا الحداء وقراءۃ الشعر وغیرہ ولا أجر في ذلك، هذا کله عند أئمتنا الثلاثة۔ (ہندیۃ، کتاب الإجارۃ، الباب السادس عشر في مسائل الشیوع …
زکریا، جدید ٤/ ٤٨٦، البنایۃ، أشرفیہ ۱۰/ ۲۸۳، حاشیۃ چلپی، إمدادیہ ملتان ۵/ ۱۲۵)
وفي المحیط: إذا أخذ المال من غیر شرط یباح له؛ لأنه عن طوع من غیرعقد۔ (مجمع الأنہر، کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، دارالکتب العلمیة بیروت ۳/ ۵۳۳)
واللہ اعلم
شکیل منصور القاسمی
بیگوسرائے/ بہار. منگل 3 ربیع الثانی 1443ھ 9 نومبر 2021ء (صححہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/11/blog-post_9.html
No comments:
Post a Comment