شرعی ضوابط اور فقہ الاقلیات کی روشنی میں
غیرمسلموں کے تہوار پر مبارک باد پیش کرنا
بقلم: عمر عابدین قاسمی مدنی
انسان ایک سماجی حیوان ہے، وہ اپنے گرد و پیش سے بے تعلق نہیں ہوسکتا، اس کی ضرورتیں باہمی لین دین سے پوری ہوتی ہیں۔ اسی تعامل سے خاندان، قبیلہ اور سماج کی تشکیل عمل میں آتی ہے۔
قدیم زمانے میں لوگ محدود پیمانہ پر یہ رشتہ استوار کرتے تھے، اسلام نے قبائلی، علاقائی، جغرافیائی اور نظریاتی حدبندیوں سے بلند ہوکر عالم گیر انسانی سماج کی تشکیل دی، تمام انسانوں کو انسانی اخوت کے رشتہ سے باندھ دیا، پرامن بقائے باہم کے منظم و مستحکم ضابطے عطا کئے، نیز مختلف سماجی و مذہبی اکائیوں کے ساتھ سماجی، معاشرتی، معاشی اور اخلاقی رابطوں کے اصول بھی واضح کردیئے گئے۔
غیرمسلم بھائیوں کے ساتھ تعامل کے حوالے سے ایک اہم فقہی مسئلہ ان کی خوشی و غم اور عید و تہوار کی مناسبت سے اظہار غمگساری یا مبارکبادی پیش کرنا ہے، اس میں دو بنیادی گوشے ہیں:
۱۔ انسای مناسبتیں: جیسے موت و پیدائش، کامیابی و خسارہ، صحت و بیماری و دیگر، ایسے مواقع پر مبارکباد پیش کرنا، یا اظہار یگانگت کرنا نہ صرف جائز ہے، بلکہ مطلوب ہے۔
۲۔ مذہبی مناسبتیں: خالص دینی تصورات و نظریات پر مبنی مناسبتوں پر خوشی کا اظہار کرنا، یا مبارکباد کا تبادلہ کرنا؛ فقہی ناحیہ سے قابل غور ہے، اس مسئلہ کی بنیاد اس نکتہ پر ہوگی کہ یہ عمل ان کے عقیدہ و نظریہ سے ہم آہنگی کا اظہار ہے، یا محض عید و تہوار کی خوشی پر خیرسگالی کا اظہار؟!
اگر عقیدہ سے اظہار و ہم آہنگی کا خیال بھی ہو تو یہ عمل سخت گناہ اور بسا اوقات کفر کے مترادف ہوگا۔ علامہ ابن تیمیہ و دیگر فقہا نے غالبا اسی بنیاد پر شدت برتی ہے اور اسے ناجائز قرار دیا ہے۔
لیکن اگر عرف و رواج کے مطابق، محض خوشی کی مناسبت کی وجہ کر اظہار خوشی ہو؛ تو اس میں گنجائش نظر آتی ہے۔
تأصيل المسألة:
واضح رہے کہ اس مسئلہ کی بنیاد اس نکتہ پر ہے کہ یہ مبارکبادی ان کے عقیدہ سے ہم آہنگی کا اظہار ہے یا نہیں؟!
جن فقہا نے حرام قرار دیا وہ اسے غیرمسلموں کے عقیدہ کے اعتراف کے برابر تصور کرتے ہیں، اور جو فقہاء اس عمل کو جائز قرار دیتے ہیں وہ اسے عام انسانی عرف کے مطابق عقیدہ کے اقرار کے بجائے حسن تعامل کے درجہ میں رکھتے ہیں۔
یہ نکتہ بھی پیش نظر رہنا چاہئے کہ اسلامی عید و تہوار (عید و بقرعید) کی مناسبت سے غیرمسلم بھائی تہنیتی پیغام کا تبادلہ کرتے ہیں، اور اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ وہ ان کے پس منظر میں جو بنیادی تصورات اور تاریخی واقعات ہیں اس پر ایمان رکھتے ہیں، گویا یہ ایک دینی و مذہبی عمل نہیں، بلکہ تہذیبی و ثقافتی عمل ہے اور حسن اخلاق کا اظہار ہے۔
اسی طرح ہم اگر انہیں عید و تہوار پر مبارک باد پیش کریں تو یہ ان کے تصورات و عقیدہ سے اتفاق نہیں بلکہ "حسن تعامل" کا اظہار ہوگا۔
مجموعی طور اس مسئلہ میں فقہا کی دونوں رائے موجود ہے، اور کسی بھی فریق کے پیش نظر کوئی "صریح و صحیح" دلیل موجود نہیں ہے، اس لئے یہ ایک مجتہد فیہ مسئلہ شمار ہوگا، جس میں یکساں طور پر دونوں رائے کی گنجائش ہوگی۔
یہاں اس بات کا ذکر بےجا نہیں ہوگا کہ فقہا نے مجتہد فیہ مسائل کے تئیں یہ ضابطہ طئے کیا ہے:
"لا إنكار في مسائل الخلاف"
(اختلافی مسائل میں کسی پر نکیر کی گنجائش نہیں ہے)
یعنی وہ مسائل جن میں دلیل صریح یا صحیح، یا اجماع نہ ہونے کی وجہ سے اختلاف پیدا ہوا ہو؛ تو ان میں ایک سے زائد رائے کہ گنجائش بھی ہوگی، نیز کسی رائے پر نکیر کا حق نہ ہوگا، ہاں یہ ضرور ہے کہ بحث و تحقیق اور اختیار و ترجیح کے دروازے وا رہیں گے، ان پر بندش نہیں لگائی جاسکتی ہے۔
کاش علامہ ابن تیمیہ کا یہ چشم کشا اقتباس علما کا سرمہ چشم ہوتا:
إن مثل هذه المسائل الاجتهادية لا تنكر باليد، وليس لأحد أن يلزم الناس باتباعه فيها، ولكن يتكلم فيها بالحجج العلمية، فمن تبين له صحة أحد القولين: تبعه، ومن قلد أهل القول الآخر فلا إنكار عليه " انتهى من "مجموع الفتاوى" (30/80) .
بیشک ان جیسے اجتہادی مسائل میں طاقت و قوت سے نکیر نہیں کی جائے گی، اور نہ کسی کو یہ حق ہوگا کہ وہ لوگوں کو اپنی اس رائے کا پابند بنائے، ہاں ان مسائل میں علمی دلیلوں کی بنیاد پر گفتگو کی جائے گی، اور جس کسی کو ایک جہت پر انشراح ہوجائے تو اس پر عمل کرلے، اور جو لوگ دوسری رائے پر عمل پیرا ہوں ان پر نکیر کی گنجائش نہیں ہوگی۔
"یوروپی افتا کونسل" اجتماعی اجتہاد کا ایک مؤقر بین الاقوامی ادارہ ہے، امام یوسف القرضاوی (حفظه الله و رعاه) اس کے روح رواں اور میرکارواں ہیں، نیز جہان فقہ و اجتہاد کے آفتاب و ماہتاب اس سے وابستہ ہیں۔ اس ادارہ نے سنہ ۲۰۰۰ء میں اس مسئلہ کو بحث و تحقیق کا موضوع بنایا اور ایک مناسب فیصلہ کیا۔ علما و اصحاب افتا اس تحریر کا ضرور مطالعہ کریں، یہ عربی اور اردو میں دستیاب ہے۔
فقہ اسلامی کی امتیازی خوبی ذکر کرتے ہوئے باحثین نے یہ بات بھی ذکر کی ہے کہ اس کی بنیاد جہاں کتاب و سنت میں پیوست ہے، وہیں اس میں زمانہ و حالات کی رعایت اور لچک و "مرونت" بھی پائی جاتی ہے۔ چنانچہ ہندوستان کے تناظر میں بھی یہ فقہی اجتہاد اہمیت کا حامل ہے، اب حالات اس بات کا تقاضا کر رہے ہیں کہ یہاں "فقہ الاقلیات" کے اصول و ضابطوں کو پیش نظر رکھ اپنی اسلامی شناخت اور ثقافتی اقدار کی حفاظت کی جائے۔
غیرمسلم بھائیوں کے عید و تہوار پر مبارک باد دینے کے حوالے سے ان ضابطوں کا خیال رکھا جائے تو اس کی گنجائش ہوگی:
1. مبارک بادی کے الفاظ و تعبیر میں کوئی ایسا لفظ نہ ہو جو اسلامی عقائد کے خلاف ہو۔
2. تہنیت اور خیرسگالی کے ایسے جملے استعمال کئے جائیں جو خوشی کی عام مناسبتوں کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں۔
3. تعزیت کے موقع پر دعا رحم و مغفرت نہ کی جائے۔
4. ان کی جانب سے دی گئی ایسی شیرینی یا اشیا خورد و نوش جو چڑھاوے کی نوعیت کے ہوں؛ کو بالکل استعمال نہ کیا جائے۔ ہاں ان کی دل شکنی سے بچنے کے لئے بظاہر قبول کرلیا جاسکتا ہے مگر بذات خود استعمال کرنا حرام ہوگا۔
5. جائز چیزوں پر مشتمل تحفے، پھولوں کے گلدستوں کا تبادلہ کیا جاسکتا ہے۔
عمر عابدین ١٠ اکتوبر ۲۰۱۹ (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/11/blog-post.html
No comments:
Post a Comment