عنوان: قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول ہونے کی وجہ سے اللہ تعالی سے اپنی ضروریات کا سوال نہ کرنے سے متعلق حدیث شریف کی تشریح
سوال: السلام عليكم، مفتی صاحب! حدیث کی رو سے زیادہ قرآن شریف کی تلاوت کرنے والے کو عام دعا مانگنے والوں سے زیادہ ملتا ہے، تو اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے افطار کے وقت قرآن کی تلاوت کرنا بہتر ہے یا دعاء مانگی جائے؟
جواب: عن ابي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "يقول الرب عز وجل: من شغله القرآن وذكري عن مسالتي اعطيته افضل ما اعطي السائلين، وفضل كلام الله على سائر الكلام كفضل الله على خلقه. (سنن ترمذی حدیث نمبر: 2926)
ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ عزوجل فرماتا ہے: جس کو قرآن نے اور میری یاد نے، مجھ سے سوال کرنے سے مشغول رکھا، میں اسے اس سے زیادہ دوں گا جتنا میں مانگنے والوں کو دیتا ہوں، اللہ کے کلام کی فضیلت دوسرے سارے کلام پر ایسی ہے جیسے اللہ کی فضیلت اس کی اپنی ساری مخلوق پر ہے“۔
تشریح: محدثین کرام نے اس حدیث شریف کی تشریح میں لکھا ہے کہ جو شخص قرآن کی تلاوت میں اس قدر مشغول ہوکہ اس کو دعاء مانگنے کی فرصت نہ ملتی ہو، تو اللہ تعالی اس شخص کو ان لوگوں سے بہتر اور زیادہ عطا کرتا ہے، جو اللہ تعالی سے اپنی ضروریات کو مانگتے ہیں، یعنی قرآن کریم کی تلاوت کرنے والا یہ گمان نہ کرے کہ میں نے قرآن کریم کی مشغولیت کی وجہ سے اللہ تعالی سے اپنی ضروریات نہیں مانگی ہیں تو شاید وہ نہیں دے گا، بلکہ اللہ تعالی اس کو بہتر و کامل طور پر عطاء کرےگا، کیونکہ جو اللہ تعالی کا ہوجاتا ہے، اللہ تعالی اس کا ہوجاتا ہے۔
لیکن واضح رہے کہ جن اوقات میں کوئی خاص ذکر و دعا وارد ہے، جیسے اذان و اقامت کا جواب، نمازوں کے بعد پڑھی جانے والی دعائیں، صبح وشام کی دعائیں اور جمعہ کے دن جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درودشریف، ان مخصوص مواقع پر یہ اذکار و دعائیں قرآن کریم کی تلاوت سے زیادہ افضل ہیں، البتہ عام اوقات میں قرآن پاک کی تلاوت زیادہ افضل ہوگی۔
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی. نمبر 104218 (صححہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/11/blog-post_23.html
No comments:
Post a Comment