قلیل حرام پر مشتمل غذائی مصنوعات (پہلی قسط)
مفتی شعیب عالم
بعض غذائی مصنوعات جو کسی غیرمسلم ملک سے درآمد کی جاتی ہیں یا مقامی طور پر تیار کی جاتی ہیں، ان میں کوئی بنیادی یا اضافی ایسا جزء یاعنصر بھی شامل ہوتا ہے جو شرعاً ممنوع ہوتا ہے، مگر وہ جزء اتنا معمولی اور مقدار میں اتنا کم ہوتا ہے کہ پورے پروڈکٹ کے مقابلے میں اس کی نسبت بہت کم بالکل نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے، مثلاً: ہزار لیٹر محلول میں ایک لیٹر الکحل ہو تو اس کی نسبت ہزارواں حصہ بنتی ہے، گویا کہ ہزار قطروں میں ایک قطرہ اور ہزار دانوں میں ایک دانہ حرام کا ہے۔ مجموعے کے مقابلے میں اس قلیل تناسب کی وجہ سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی مصنوعات کا خوردنی استعمال جائز ہے یا ناجائز؟ یہی اس تحریر کا موضوع ہے۔ دو متضاد نقطہ ہائے نظر اگر مقدار کی اس کمی کو مدنظر رکھیں اور اس کے ساتھ کچھ اور عقلی و نقلی دلائل کا اضافہ کرلیں تو بنظر ظاہر ایسے پروڈکٹ کا خوردنی استعمال جائز ہونا چاہیے، مثلاً:
۱:۔۔۔۔۔ شراب جب بدل کر سرکہ بن جائے تو بالاتفاق وہ حلال ہوجاتی ہے، حالانکہ ماہرین کے بقول اس میں پھر بھی دو فیصد شراب کے اجزاء باقی رہتے ہیں، مگر شریعت اس مقدار کو خاطر میں نہیں لاتی اور اس کو حلال تصور کرتی ہے، لہٰذا کوئی پروڈکٹ قلیل حرام پر مشتمل ہو تو اُسے حلال ہونا چاہیے، جیسا کہ سرکہ حلال ہے۔
۲:۔۔۔۔۔ اگر کسی پروڈکٹ میں کسی جائز یا ناجائز عنصر کی آمیزش بہت کم مقدار میں ہو تو علاوہ صانع کے کسی اور کے لیے اس کا علم بہت مشکل قریباً ناممکن ہے، اس لیے صارف اپنی لاعلمی کی وجہ سے معذور ہے اور بعض صورتوں میں مجبور بھی ہے۔
۳:۔۔۔۔۔ صانع کو اس قلیل عنصر کے اظہار پر مجبور بھی نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ بین الاقوامی قوانین کے تحت اگر کسی پروڈکٹ میں کسی عنصر کی مقدار دو فیصد یا اس سے کم ہے تو لیبل پر اس کا اظہار ضروری نہیں۔
۴:۔۔۔۔۔ جس چیز کو صارف حرام سمجھتا ہو‘ ضروری نہیں کہ وہ شریعت میں بھی حرام ہو، مثلاً: الکحل اگر چار حرام شرابوں میں کسی ایک سے کشید نہیں کیا گیا ہے اور اتنی کم مقدار میں شامل کیا گیا ہے کہ نشہ کی حد تک نہیں پہنچتا تو شرعاً اس کے استعمال کی اجازت ہے۔ امریکہ میں بھی ایک حلال تصدیقی ادارے ’’افانکا‘‘ نے کسی پروڈکٹ میں صفر اعشاریہ ایک فیصد الکحل کی اجازت دی ہے۔
۵:۔۔۔۔۔ صارفین کا عمومی رویہ کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ وہ زیادہ کھوج کرید، چھان پھٹک اور گہرائی میں جانے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے، خصوصاً تحریر کو تو بہت ہی کم ملاحظہ کرتے ہیں۔ بجلی اور گیس وغیرہ کے بلوں پر متعلقہ محکموں نے ضروری قوانین درج کیے ہوتے ہیں، جان بچانے والی ادویات کے ساتھ ضروری ہدایات پر مشتمل پرچہ ساتھ ہوتا ہے، مگر لاکھوں میں شاید گنتی کے چند ہی اس کو پڑھنے کی زحمت گوارہ کرتے ہیں اور اگر کوئی استثنائی مثال ایسی ہوکہ کوئی صارف احتیاط پر عمل پیرا ہوتے ہوئے حقیقت حال معلوم کرنے کی کوشش کرے تو بھی اس کے لیے حقیقت تک رسائی مشکل ہے، کیونکہ ہمارے ہاں ابھی صارفین کے حقوق کے لیے یہ قانون نافذ نہیں ہوا ہے کہ پروڈکٹ پر اجزاء کا اندراج لازم ہے، اس لیے متعلقہ قانون کی عدم موجودگی یا اس کی عدم تعمیل کا یہ اثر ہے کہ کمپنیاں مبہم اور مجمل قسم کے الفاظ پروڈکٹ پر درج کردیتی ہیں، مثلاً: فلیور یا مصنوعی رنگ بھی شامل ہے، مگر وہ فلیور اور رنگ کس چیز سے بنا ہے؟ کمپنی اس کو ابہام کے دبیز پردوں میں چھپالیتی ہے۔ اگر کسی پروڈکٹ پر تمام اجزائے ترکیبی درست انداز میں درج ہوں تو خود صارف کے لیے اس کا سمجھنا مشکل ہے اور جب مینوفیکچرر کسی قلیل حرام جزء کے اظہار کا پابند ہی نہیں تو صارف کے لیے باوجود خواہش و جستجو کے اصل حقیقت کا جاننا متعذر ہوجاتا ہے۔ بالفرض اگر وہ تمام اجزاء ترکیبی معلوم کرلے تو ایک جزء کئی اجزاء پر مشتمل ہوتا ہے۔ وہ اجزاء جس سے ایک جزء مرکب ہے، کیا ہیں؟ اس کی تحقیق ایک حلال تصدیقی ادارے کے لیے تو ممکن ہے، مگر صارف کے لیے نہیں اور حلال تصدیقی ادارے بھی ابھی اپنے سن طفولیت اور عہد ِآغاز میں ہیں، چنانچہ کسی پروڈکٹ کے حلال یا حرام ہونے کے متعلق معلومات ابھی اتنی آسان نہیں جتنی اور مسائل کے متعلق آسان ہیں۔ حلال تصدیقی ادارے بھی پروڈکٹ کے اضافی مشمولات کے متعلق یا تو اپنی سابقہ معلومات اور تجربات کی بنا پر یا پھر اصل صانعین سے براہِ راست رابطہ کرکے جواب دینے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ اصل صانعین یورپی ممالک ہیں۔ اٹلی، جرمنی، فرانس، ہالینڈ وغیرہ ایسے ممالک ہیں جو بڑے پیمانے پر اجزائے ترکیبی اور اضافی غذائی مشمولات تیار کرتے اور برآمد کرتے ہیں اور وہی جانتے ہیں کہ کون سی شئے کن اشیاء سے مرکب ہے۔ ہمارے جوڑیا بازار کا تاجر ہزاروں غذائی اجزاء درآمد ضرور کرتا ہے، مگر پنساری کی طرح ہر ایک کے خواص اور حقیقت اسے بھی معلوم نہیں ہوتی۔ ۶:۔۔۔۔۔ اگر کوئی شخص یا ادارہ کسی پروڈکٹ کے تمام اجزاء ترکیبی معلوم کرنا چاہے تو ایسا اس پروڈکٹ کے کیمیائی تجزیے کے بغیر ممکن نہیں اور کیمیائی تجزیہ وتحلیل صارف تو درکنار کسی حلال سرٹیفیکیشن باڈی کے لیے بھی ایک مستقل نظم کے طور پر ممکن نہیں، کیونکہ مصنوعات کی کثرت، وسائل کی قلت اور مطلوبہ آلات کی عدم دستیابی سمیت بے شمار وجوہات ایسی ہیں کہ کسی حلال اتھارٹی کے لیے بھی اس معیار پر پروڈکٹ کا جانچنا ممکن نہیں۔ اسلامی ممالک میں سے ملائیشیاکے متعلق شنید ہے کہ اس نے مشکوک پروڈکٹ کے ڈین اے ٹیسٹ کو لازم قرار دیا ہے۔ یہ اقدام شرعی لحاظ سے کیا حکم رکھتا ہے اور اس کے اثرات ومضمرات کیا ہوں گے؟ اگر ہم گفتگو کا رخ اس جانب موڑ دیں تو موضوع سے دور جانکلیں گے۔ سردست مقصد یہ ہے کہ اگر ہم اس رخ سے دیکھیں سرکہ میں قلیل الکحل ہوتا ہے، مگر اس کا استعمال جائز ہے، نیز جو چیز قلیل مقدار میں شامل کی گئی ہو تو اس کا ظاہر کرنا ضروری نہیں ۔مزید یہ کہ صارف کے لیے ازخود تحقیق بہت ہی مشکل ہے اور عام علماء اوراہل افتاء کو ابھی فقہ الحلال میں اتنی ممارست نہیں کہ پوچھتے ہی چھوٹتے جواب دے دیں۔ اس کے علاوہ شریعت میں قلیل ومغلوب معاف ہوتا ہے اور شریعت کا عمومی مزاج بھی یسر وسہولت کا ہے۔ ان پہلوؤں پر سوچنے سے ذہن یہ بنتا ہے کہ کسی چیز میں حرام جزء بہت کم بالکل نہ ہونے کے برابر استعمال کیا گیا ہو تو اس کے استعمال کی اجازت ہونی چاہیے۔
دوسرا نقطہ نظر: عدم جواز کا پہلو
۱:۔۔۔۔۔ اگر ایک دوسرے پہلو سے دیکھیں تو ایسی مصنوعات کا استعمال جائز نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ حرام حرام ہے، اگر چہ مقدار میں کم ہواور تھوڑا حرام بقیہ حلال کو بھی حرام بنادیتا ہے، جیساکہ سو قطرے گلاب کو ایک بوند پیشاب کا ناپاک کردیتا ہے یا درسی زبان میں یوں کہہ لیں کہ نتیجہ اخص واَرذل کے تابع ہوتا ہے۔
۲:۔۔۔۔۔ ہم ایسی مصنوعات کے استعمال پر مجبور بھی نہیں ہیں۔ حرام کا شیوع ضرور ہے، مگر حلال بھی دنیا سے معدوم نہیں ہوا ہے اور اگر مجبور ہوئے تو شریعت کا قانونِ ضرورت موجود ہے۔ قانونِ ضرورت کے تحت مجبور حضرات کو تو گنجائش مل سکتی ہے، مگر عام لوگوں کو اجازت نہیں ہوسکتی۔
۳:۔۔۔۔۔ قلت و کثرت اور غالب و مغلوب کی دلیل بھی زیادہ معقول نہیں، کیونکہ مدار قلت اور کثرت پر نہیں بلکہ اہمیت اور ضرورت پر ہونا چاہیے۔ بسا اوقات کوئی چیز مقدار میں کم مگر کردار میں بہت اہم ہوتی ہے، جیسا کہ نمک کی مقدار کم ہوتی ہے، مگر ذائقے کا مدار اس پر ہوتا ہے اور کبھی کوئی جزء قلیل ہوتا ہے، مگر وہی اہم عنصر، پروڈکٹ کی جان اور استعمال سے مطلوب ہوتا ہے، تو کیا ایسی صورت میں بھی اس فلسفے پر عمل کیاجائے گا کہ جس جزء کا تناسب بہت کم ہو اس کے استعمال کی اجازت ہے؟ جواز کی حقیقی علت ان اختلافی دلائل اور متضاد پہلوؤں کے بعد ہم حل کی طرف بڑھتے ہیں۔ اگر ہم غالب اور مغلوب کے اصول کو لیں اور یوں کہیں کہ جب حلال کو غلبہ اور اکثریت حاصل ہو تو غالب اور اکثر کا اعتبار کرتے ہو ئے پروڈکٹ کو حلال ہونا چاہیے تو شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی، کیونکہ جب حلال اور حرام جمع ہوتے ہیں تو غلبہ حرام کو حاصل ہوتا ہے:
’’إذا اجتمع الحلال والحرام غلب الحرام‘‘
مشہور قاعدہ ہے۔ لہٰذا غالب اور مغلوب کا قاعدہ اس بحث میں مفید نہیں ہوسکتا، البتہ ایک دوسرے پہلو سے ایسی مصنوعات کے استعمال کی گنجائش نکل سکتی ہے۔ وہ پہلو یہ ہے کہ شریعت کا عمومی مزاج یسر اور سہولت کا ہے۔ جب تنگی اور مشقت عمومی نوعیت کی ہو اور اس میں ابتلاء عام اور بچنا مشکل ہو تو پھر شریعت بڑی وسعت اور سخاوت کے ساتھ اور بہت فیاضی اور کشادہ دلی سے گنجائش پر گنجائش دیتی ہے۔ اس کے ساتھ شریعت کایہ بھی قاعدہ ہے کہ: ’’القلیل مغتفر‘‘ یعنی ’’قلیل مقدار معاف ہے۔‘‘(۱) متذکرہ قاعدہ کے ہم معنی یہ قواعد بھی ہیں: ’’القلیل کالمعدوم‘‘ یعنی ’’تھوڑا گویا نہ ہونا ہے۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔ ’’الیسیر تجری المسامحۃ فیہ‘‘ یعنی ’’تھوڑے سے چشم پوشی کی جاتی ہے اور اِغماض برتا جاتا ہے۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’الیسیر معفو عنہ‘‘ یعنی ’’تھوڑا نظر انداز کردیا جاتا ہے۔‘‘ ان ملتے جلتے قواعد کے علاوہ مختلف فقہی ابواب میں بھی شریعت قلیل مقدار کو نظر انداز کردیتی ہے، مثلاً:
۱:- کپڑوں پر سوئے کے ناکے کے برابر پیشاب کی چھینٹیں لگی ہوں تو وہ معاف ہیں۔
۲:- نماز کے دوران قبلہ سے معمولی انحراف ہوجائے تو نماز ہوجاتی ہے۔
۳:- دورانِ نماز ستر معمولی طور پر کھل جائے تو نماز فاسد نہیں ہوتی۔
۴:- معمولی تاخیر سے سجدۂ سہو واجب نہیں ہوتا۔
۵:- عمل قلیل نماز میں معاف ہے۔
۶:- روزے میں اگر بہت معمولی چیز حلق میں چلی جائے تو روزہ ٹوٹتا نہیں۔
۷:- زکوٰۃ میں دو نصابوں کے درمیان کی مقدار معاف ہوتی ہے۔
۸:- بیع میں اگر ایجاب اور قبول میں معمولی وقفہ ہو تو شریعت پھر بھی ایجاب کا قبول کے ساتھ اتصال مانتی ہے۔
۹:- یمین سے استثنا کرتے وقت اگر کھانسی وغیرہ کے عذر سے معمولی تاخیر ہوجائے تو شریعت اس تاخیر کو تاخیر نہیں سمجھتی۔
۱۰:- مبیع ،ثمن اور مدت میں معمولی جہالت معاف ہے۔
۱۱:- اجارہ میں اگر مدتِ اجارہ کے اندر معمولی جہالت ہو اور عام طور پر گوارہ کرلی جاتی ہو تو اس سے عقد ِاجارہ فاسد نہیں ہوتا۔
۱۲:- مبیع میں اگر معمولی عیب ہو تو اس کا اعتبار نہیں۔
۱۳:- غبن یسیر اور غررِ یسیر بھی معاف ہے۔
۱۴:- قربانی کے جانور میں معمولی عیب معاف ہوتا ہے۔
۱۵:- مردوں کے لیے ریشم کی قلیل مقدار کا استعمال جائز ہے۔ ۱۶:- جانور ذبح کرتے وقت اگر تسمیہ اور ذبح میں معمولی فصل آجائے تو اس سے جانور مردار نہیں ہوتا۔
۱۷:- وقف جائیداد کو اجرتِ مثل پر دینا ضروری ہے، لیکن اجرتِ مثل سے معمولی کمی جائز ہے۔ ان تمام مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ شریعت کا مزاج یہ ہے کہ وہ قلیل مقدار معاف کردیتی ہے، اس لیے غذائی مصنوعات میں اگر بہت قلیل مقدار میں غیر شرعی عنصر شامل ہو تو اُسے معاف ہونا چاہیے۔ قلیل سے متعلق ضروری تنقیحات ۱:۔۔۔۔۔اگر اس نظریے کو درست تسلیم کرلیا جائے کہ مصنوعات میں قلیل مقدار حرام کی شمولیت معاف ہے، تو پھر سوال یہ پیدا ہوگا کہ قلیل سے مراد کیا ہے اور کس قدر قلیل معاف ہے؟ کیونکہ قلیل کا کوئی لگا بندھا اور طے شدہ معیار نہیں۔ معاملات میں قلیل کچھ ہے تو ماکولات و مشروبات میں کچھ اور۔ فعل اور عمل کے لیے قلیل کی جو کسوٹی ہے وہ قدر اور مقدار کے لیے نہیں۔ حقوق العباد میں قلیل کا معیار جتنا سخت اور کڑا ہے، حقوق اللہ میں اتنا ہی نرم اور لچک دار ہے۔ پھرایک ہی مقدار ایک معاملہ میں قلیل سمجھ کر نظرانداز کی جاتی ہے تو دوسرے معاملے میں اس سے چشم پوشی نہیں کی جاتی، مثلاً: لوہے اور مٹی وغیرہ کے لین دین کے وقت کلو اور من کو بھی کم سمجھ کر نظرانداز کردیا جاتا ہے، لیکن سونے کی خرید و فروخت ہو تو رَتی رَتی کا حساب کیا جاتا ہے، خود شریعت نے کسی جگہ چوتھائی اور کبھی تہائی اور بعض اوقات نصف سے کم کو قلیل کہا ہے۔ جب قلیل کا کوئی ایسا متعین اور لگا بندھا معیار نہیں جو تما م ہی مسائل میں اصل اور بنیاد کا کام دے سکے تو سب سے پہلے ہمیں غذائی مواد کے سلسلے میں قلیل کا معیار طے کرنا چاہیے۔
۲:۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ شریعت کسی چیز کے داخلی اور خارجی استعمال میں فرق کرتی ہے۔ عین ممکن ہے بلکہ امر واقعہ ہے کہ ایک ہی شئے کا خوردنی اور داخلی استعمال تو ناجائز ہو، مگراس کا بیرونی اور خارجی استعمال جائز اور حلال ہو، جیسا کہ حشرات الارض سمیت ایسی اشیاء جو پاک ہوں مگر حلال نہ ہوں تو ان کا خوردنی استعمال ناجائز اور خارجی استعمال جائز ہوتا ہے، لہٰذا ہمیں داخلی اور خارجی استعمال کافرق بھی روا رکھنا ہوگا۔
۳:۔۔۔۔۔ یہ سوال کہ حرام کے امتزاج اور آمیزش کے بعد کسی چیز کا استعمال جائز ہے یا نہیں؟ صرف اور صرف صارف کے نقطہ نظر سے ہے۔ صانع کے پہلو سے مسئلے کی مختلف صورتیں ہوں گی جن کے احکام علیحدہ ہوں گے، البتہ ایک عمومی اصول کے طور پر حرام کی قصداً آمیزش جائز نہیں۔
۴:۔۔۔۔۔ یہ تمام بحث اس بنیاد پر ہے کہ کسی چیز میں حرام موجود ہو، لیکن بہت کم مقدار میں ہو، لیکن اگر حرام‘حرام نہ رہے، بلکہ بدل کر حلال ہوجائے، جیسا کہ انقلابِ ماہیت کی صورت میں ہوتا ہے تو قلیل وکثیر کی ساری بحث ہی ختم ہوجاتی ہے، لہٰذا اگر کیمیائی عمل کے نتیجے میں غذائی مواد کے ماہرین اور اہل فتویٰ حضرات قرار دیں کہ قلب ماہیت کے باعث مصنوع میں شامل کوئی حرام جزء بدل گیا ہے تو وہ پورا پروڈکٹ حلال کہلائے گا۔ ۵:۔۔۔۔۔ آخری نکتہ جو آگے بڑھنے سے پہلے ملحوظ رکھنا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ شریعت کے قانونِ ضرورت کے تحت اگر کسی مجبور یا بیمار شخص کو حرام استعمال کرنے کی اجازت مل جائے تو وہ صورت ہماری گفتگو سے خارج ہے، کیونکہ ضرورت کے اصول کچھ اور ہیں۔ حواشی ومراجع ۱:…’’القلیل مغتفر‘‘ کی مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجئے: ’’التطبیقات الفقہیۃ لقاعدۃ الیسیر مغتفر فی البیوع‘‘ مؤلف ھاکی بن محمد کانوریتش۔ موضوع کے متعلق مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجئے: مفتی سفیر الدین ثاقب صاحب کا مقالہ:’’وہ مصنوعات جن میں قلیل مقدار میں حرام شامل ہو‘‘ متذکرہ مقالہ راقم کے پیش نظر رہا ہے اور اس سے بھرپور استفادہ کیا ہے، جس پر احقر اس کے مؤلف کا شکرگزار ہے۔ (جاری ہے) شعبان المعظم 1436 ھ - جون 2015ء (صححہ: #ایس_اے_ساگر)
--------------------------------------------------
قلیل حرام پر مشتمل غذائی مصنوعات (دوسری قسط)
مفتی شعیب عالم
قلیل کا معیار جیسا کہ اوپر مذکور ہوا کہ شریعت جس قلیل سے چشم پوشی کرتی ہے، اس قلیل کا تعین ہونا چاہیے۔لیکن جس طرح فقہ کے تمام ابواب میں قلیل کی کوئی ایک مقدار متعین نہیں، اسی طرح خاص غذائی اجناس اور ماکولات ومشروبا ت کے بارے میں بھی قلیل کی کوئی خاص مقدار متعین نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو اشیاء حرام ہیں وہ مختلف اسباب کی بنا پر حرام ہیں اور جب اسباب مختلف ہیں تولا محالہ مقدار بھی مختلف ہوگی۔ وہ اسباب جن کی بنا پر شریعت کسی چیز کو حرام قرار دیتی ہے،علماء شریعت نے استقراء کے بعد قرار دیا ہے کہ پانچ ہیں:
۱:- ضرر،
۲:- سکر،
۳:- خبث،
۴:- کرامت اور
۵:- نجاست۔
ان اسباب میں سے ہر سبب کا دائرہ مختلف ہے، مثلاً: کوئی چیز مضر ہو تو ضروری نہیں کہ وہ نجس بھی ہو اور جو نجس ہو تو لازم نہیں کہ وہ مسکر بھی ہو اورجومکرم ومحترم ہو تو اس کا مضر ومسکر اورخبیث ونجس ہونا لازم نہیں۔ مزید یہ کہ اشیاء مختلف ہیں،کبھی کسی شئے کا ایک جزء پاک تو دوسرا ناپاک ہوتاہے، ایک خاص مقدار میں خبث ہوتاہے تو اس سے کم مقدار خبث سے خالی ہوتی ہے،ایک ہی شئے ایک شخص کے لیے بوجہ ضررحرام تو دوسرے کے لیے بوجہ عدم ضررحلال ہوتی ہے۔ لہٰذا قلیل کی مقدار کو اسی وقت معلوم کیا جاسکتاہے جب یہ معلوم ہو کہ اس کی حرمت مذکورہ اسبابِ حرمت میں سے کس کی بنا پرہے؟ مضرت اگر حرمت کا سبب مضرت ہو تو اس کی اتنی مقدار کا استعمال جائز ہوگا جو مضرت کا باعث نہ ہو، کیونکہ حرمت کی علت مضرت ہے اور جب مضرت نہ ہو تو پھر حرمت بھی نہیں۔ جب علت کسی شئے کا ضرر رساں ہونا ہو تو اگر کوئی چیز مفرد حیثیت سے مضر نہ ہو، لیکن مجموعہ میں جاکر وہ مضر بن جاتی ہو تو ضرر کی علت کی وجہ سے اس کااستعمال ناجائز ہوگا۔ اس کے برعکس اگر ایک چیز مفرد حیثیت سے نقصان دہ ہو، لیکن خلط و ترکیب اور امتزاج وآمیزش سے اس کا نقصان دور ہوجاتا ہو تو اس کا استعمال جائز ہوگا:
’’أما المعادن فہی أجزاء الأرض وجمیع ما یخرج منہا فلا یحرم أکلہٗ إلا من حیث أنہ یضر بالآکل۔‘‘ (۱)
’’اگر مضر چیز کا نقصان کسی طرح جاتا رہے یامنشی میں نشہ نہ رہے تو ممانعت بھی نہ رہے گی۔‘‘ (۲) اور اسی کتاب کے دوسرے مقام پر ہے: ’’جب مضر اورغیر مضر مل جائیں اور تو اگر ملانے سے نقصان جاتا رہے تو ممانعت بھی جاتی رہے گی۔‘‘ کرامت کرامت سے مراد یہ ہے کہ وہ شئے باعثِ تکریم وتعظیم ہو۔ کائنات میں حق تعالیٰ شانہ نے انسان کو کرامت اور عزت بخشی ہے، اس لیے انسان کا کوئی جزء براہ راست کھانا یا کسی چیز میں ملاناحرام ہے اور جس شئے میں انسانی اعضاء میں سے کسی کی آمیزش ہو تو قلیل وکثیر کی تفریق کیے بغیر اس کا استعمال حرام ہے، چاہے وہ انسانی جزء خود پاک ہو، جیسے: بال ،ناخن اور ہڈی یا خود ناپاک ہو، جیسے: خون اور فضلہ وغیرہ:
’’لو وقع جزء من آدمی میت فی قدر ولو وزن دانق حرم الکل لا لنجاستہٖ فإن الصحیح أن الآدمی لا ینجس بالموت ولکن لان أکلہٗ محرم احترامًا لا استقذارًا۔‘‘
(۳) سکر سکر سے مراد نشہ ہے اور نشہ سے مراد یہ ہے کہ عقل مغلوب اورہذیان غالب ہوجائے اور بہکی بہکی باتیں کرنے لگے۔ اگر نشہ آور شئے جامد ہے تو اس کی اتنی مقدار کا استعمال جائز ہے جس سے نشہ نہ ہو، خواہ یہ مقدار پورے پروڈکٹ میں دو تین فیصد ہو یا اس سے کم زیادہ ہو، کیونکہ علت نشہ ہے اور جب نشہ نہیں تو حرمت بھی نہیں۔ اگر نشہ آور جزء سیال ہے اور چار حرام شرابوں میں سے کوئی ایک نہیں تو اس کے قدر غیر مسکر کا استعمال بھی جامد نشہ آور اشیاء کی طرح جائز ہے، البتہ دونوں میں فرق یہ ہے کہ اشربہ اربعہ کے علاوہ دیگر مسکرات کاخارجی استعمال جائز ہے اور داخلی استعمال صرف اس حد تک جائز ہے کہ نشہ کی حد تک نہ ہو اور استعمال سے کوئی معتد بہ غرض ہو۔ اگر نشہ آور شئے چار حرام شرابوں میں سے کوئی ایک ہے تو اس کا مطلقاً استعمال ناجائز ہے، خواہ اس کی مقدار کم ہو یا زیادہ اور اس سے نشہ ہوتا ہو یانہ ہوتا ہو۔ جس طرح صارف کے لیے ایسی مصنوعات کا استعمال حرام ہے جس میں اشربہ اربعہ میں سے کوئی ایک شراب شامل ہو، ایسے ہی صانع کے لیے بھی اس حرام شراب کا ملانا حرام ہے۔
’’وأما النبات فلا یحرم منہ إلا ما یزیل العقلَ أو یزیل الحیاۃَ أو الصحۃَ فمزیل العقل: البنج و الخمر وسائر المسکرات۔ ومزیل الحیاۃ: السموم۔ ومزیل الصحۃ: الأدویۃ فی غیر وقتہا۔ وکأن مجموع ہذا یرجع إلی الضرر إلا الخمر و المسکرات، فإن الذی لا یسکر منہا أیضًا حرام مع قلتہٖ لعینہٖ ولصفتہٖ وہی الشدۃ المطربۃ۔‘‘
(۴) خبث خبث سے مراد یہ ہے کہ ایک سلیم الفطرت انسان اس کو طبعی طور پر ناپسند کرے اور اس کا مزاج اس سے گھن کھائے اور طبیعت نفرت کرے۔ طبیعت کا کسی شئے سے گھن کھانا بعض اوقات مقدار کی کمی بیشی کے بغیر مطلق ہوتاہے، مثلاً: ایک صحیح فطرت انسان کو خبر ملے کہ بھرے مٹکے میں ایک قطرہ پیشاب کا مل گیا ہے تو اس کی طبیعت استعمال پر آمادہ نہ ہوگی ۔ کبھی مقدار کا کم یا زیادہ ہونا خبث کے ہونے یا نہ ہونے میں اثر رکھتا ہے، مثلاً: پورے دیگ میں ایک مکھی کے گرنے سے طبیعت گھن نہیں کھاتی، اس لیے علاوہ مکھی کے دیگ کا استعمال جائز ہوگا، لہٰذا جن اشیاء کی حرمت خبث کی بنا پر ہو اگر وہ شئے خود یا اس سے بنا ہوا کوئی جزء ِ ترکیبی کسی پروڈکٹ میں ملایا گیا ہو، مگر مقدار میں اتنا کم ہو کہ طبیعت کو اس سے گھن نہ آئے تو پروڈکٹ کا استعمال جائز ہوگا۔ مگر اس پر اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فقہاء نے اس سلسلے میں جو مثالیں دی ہیں وہ عام طور وہ ہیں جن سے بچنا مشکل ہے، مثلاً: دیگ میں مکھی گر جائے یا شوربے میں چیونٹی پک جائے یا کسی چیز میں خود ہی کیڑا نکل آئے، بالفاظِ دیگر مچھر یا چیونٹی خود گرکر مرجائے تو محلول یا مطعوم کا کھانا اور بات ہے اور خود کیڑے مار مار کر شامل کرنا دوسری بات ہے۔ آج کل یہی دوسری صورت اختیار کی جاتی ہے، کیونکہ کیڑوں مکوڑوں کی باقاعدہ صنعت قائم ہوگئی ہے، ان کی افزائش کی جاتی ہے اور پھر ان سے رنگ کشید کرکے میک اپ کے سامان، ادویہ اور غذائی مواد میں ڈالا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کوچنیل کیڑے سے کارمائن اور لیک نامی کیڑے سے شیلاک نکالا جاتاہے اور پھر مختلف مصنوعات میں شامل کیا جاتا ہے تو کیا صرف اس بنا پر کیڑوں مکوڑوں کے استعمال کی اجازت ہوگی کہ مجموعے میں جاکر اس کا خبث معلوم نہیں ہوتا اور استقذار ختم ہوجاتا ہے؟ اگر اس پہلو سے غور کیا جائے تو صانع کے لیے مستخبث اشیاء کو مصنوعات میں ملانا جائز معلوم نہیں ہوتا۔ دوسری طرف اگر کوئی خبث رکھنے والی شئے مثلاً:مکھی وغیرہ دیگ میں گرجائے تو فقہاء اس بنا پر اس کا استعمال جائز قرار دیتے ہیں کہ اتنی مقدار میں استخباث نہیں ہوتا، اس طرح کی تعلیل سے معلوم ہوتاہے کہ جب کوئی شئے استخباث کی حد سے نکل جائے تو اس کا استعمال جائز ہونا چاہیے، مگر حق بات یہ ہے کہ مکھی وغیرہ کے گرنے سے خود مکھی کا نہیں بلکہ سالن کے استعمال کاجائز ہونا مراد ہے، کیونکہ مکھی پاک ضرور ہے، مگر حلال نہیں،اس میں خبث کی علت بھی ہے اور خون بھی ہے اور مکھی کاخون اگر چہ سائل نہیں مگر کھانا اس کا بھی جائز نہیں:
’’وما لم یذبح ذبحًا شرعیًا أو مات فہو حرام ولا یحل إلا میتتان السمک والجراد وفی معناہما ما یستحیل من الأطعمۃ کدود التفاح والخل والجبن، فإن الاحترازَ منہما غیر ممکن فأما إذا أفردت وأکلت فحکمہا حکم الذباب والخنفساء والعقرب وکل ما لیس لہٗ نفس سائلۃ لا سبب فی تحریمہا إلا الاستقذار ولو لم یکن لکان لا یکرہ فإن وجد شخص لا یستقذرہٗ لم یلتفت إلٰی خصوص طبعہٖ فإنہٗ التحق بالخبائث لعموم الاستقذار فیکرہ أکلہٗ کما لو جمع المخاط وشربہ کرہ، ذٰلک ولیست الکراہۃ لنجاستہا فإن الصحیح أنہا لاتنجس بالموت إذ أمر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم بأن یمقل الذباب فی الطعام إذا وقع فیہ، حدیث الأمر بأن یمقل الذباب فی الطعام إذا وقع فیہ، رواہ البخاری من حدیث أبی ہریرۃؓ ۔‘‘
(۵) بہشتی زیور میں ہے: ’’اسی طرح سرکہ کو مع کیڑوں کے کھانا یا کسی معجون وغیرہ کو جس میں کیڑے پڑگئے ہوںمع کیڑوں کے یامٹھائی کومع چیونٹیوں کے کھانا درست نہیں اور کیڑے نکال کر درست ہے۔‘‘ فتاویٰ مظاہرعلوم میں ہے: ’’مکھی غیر ذی دم مسفوح ہے، لہٰذا جب سالن میں گر جاتی ہے تو اس کے مرنے سے سالن ناپاک نہیں ہوتا، لہٰذا اس سالن کا کھانا شرعاً جائز قرار پایا ،اور چونکہ مکھی منجملہ خبائث کے ہے اور تمام خبائث کا کھانا حرام ہے، لہٰذا مکھی کا کھانا اور کھلانا حرام ہوگا۔‘‘ (۶) نجاست: پروڈکٹ میں کوئی نجس چیزملانا نہ تو صانع کے لیے جائز ہے اور نہ ہی صارف کے لیے اس کا استعمال جائز ہے، کیونکہ نجس چیز کے ملنے سے مجموعہ نجس ہوتا ہے، اس لیے یہ نہیں کہاجاسکتا کہ حرام مقدار کم اور نہ ہونے کے برابر ہے۔ نجس جزء پر مشتمل پروڈکٹ کا داخلی استعمال منع ہے، البتہ اس حکم سے استثنا ء صرف اس صورت میں مل سکتا ہے جب نجس چیز نہ چاہتے ہوئے بھی کسی شئے میں شامل ہوجائے اور اس سے بچنا بھی مشکل ہو اور خود نجس چیز مقدار میں بہت معمولی ہو، مثلاً: چوہے کی مینگنی گندم میں پس جائے یا دودھ دوہتے وقت ایک دو مینگنیاں دودھ میں گرجائیں اور ٹوٹنے سے پہلے نکال دی جائیں اور دودھ میں اس کا کوئی اثر بھی ظاہر نہ ہو۔ (۷) حاصل بحث حاصل یہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی شئے مضرت یا خبث کی وجہ سے حرام ہو، مگر مجموعے میں جاکر اس کا خبث دور ہوجائے اور مضرت نہ رہے تو اس کا استعمال جائز ہوگا۔ اگر کسی چیز میں چار حرام شرابوں میں سے کوئی ایک شامل ہو تو وہ پروڈکٹ نجس ہونے کی بنا پر حرام ہے، اگر چہ شراب کی مقدار نشہ کی حد تک نہ پہنچتی ہو اور اگرنشہ کی حد تک چار حرام شرابوں میں سے کوئی ایک شامل ہے تو سکر کی وجہ سے بھی اس کا استعمال حرام ہے۔ اگرچار شرابوں کے علاوہ کوئی شراب شامل ہو اور پروڈکٹ مسکر نہ ہو تو اس کا استعمال جائز ہے۔ اگر پروڈکٹ میں انسان کاکوئی جزء یا اس سے ماخوذ کوئی جزء شامل ہے یا کوئی نجس شئے شامل ہے تو اس کا داخلی استعمال جائز نہیں۔
--------------------------------
حواشی ومراجع نوٹ: اس موضوع پر مزید دیکھیں: ’’وہ مصنوعات جن میں قلیل مقدار میں حرام شامل ہو‘‘ از مفتی سفیرا لدین ثاقب ۱:…إحیاء علوم الدین ،ج:۲، ص:۹۲ ۲:…بہشتی زیور، حصہ نہم، ص: ۹۸ ۳:…إحیاء علوم الدین ،ج:۲،ص:۹۳ ۴:…إحیاء علوم الدین ،ج:۲،ص:۹۲ ۵:…إحیاء علوم الدین ،ج:۲،ص:۹۲-۹۳ ۶:…کتاب الحظر والإباحۃ، باب الأکل والشرب،ج:۱، ص:۲۹۸،ط:مکتبۃ الشیخ ۷:…’’مبحث فی بول الفأرۃ وبعرہا وبول الہرۃ (قولہٗ: وکذا بول الفأرۃ إلخ) اعلم أنہ ذکر فی الخانیۃ أن بول الہرۃ والفأرۃ وخرأہا نجس فی أظہر الروایات یفسد الماء والثوب ولو طحن بعر الفأرۃ مع الحنطۃ ولم یظہر أثرہ یعفٰی عنہ للضرورۃ. وفی الخلاصۃ: إذا بالت الہرۃ فی الإناء أو علٰی الثوب تنجس ، وکذا بول الفأرۃ ، وقال الفقیہ أبو جعفر: ینجس الإناء دون الثوب الخ۔ قال فی الفتح: وہو حسن لعادۃ تخمیر الأوانی، وبول الفأرۃ فی روایۃ لا بأس بہ، والمشایخ علی أنہ نجس لخفۃ الضرورۃ بخلاف خرئہا ، فإن فیہ ضرورۃ فی الحنطۃ الخ۔ والحاصل أن ظاہر الروایۃ نجاسۃ الکل . لکن الضرورۃ متحققۃ فی بول الہرۃ فی غیر المائعات کالثیاب ، وکذا فی خرء الفأرۃ فی نحو الحنطۃ دون الثیاب والمائعات۔ وأما بول الفأرۃ فالضرورۃ فیہ غیر متحققۃ إلا علٰی تلک الروایۃ المارۃ التی ذکر الشارح أن علیہا الفتوی ، لکن عبارۃ التتارخانیۃ : بول الفأرۃ وخرؤہا نجس، وقیل بولہا معفو عنہ وعلیہ الفتوی . وفی الحجۃ الصحیح أنہٗ نجس الخ۔ ولفظ الفتوی وإن کان آکد من لفظ الصحیح إلا أن القول الثانی ہنا تأید بکونہٖ ظاہر الروایۃ، فافہم ۔ لکن تقدم فی فصل البئر أن الأصح أنہٗ لا ینجسہ وقد یقال: إن الضرورۃ فی البئر متحققۃ ، بخلاف الأوانی؛ لأنہا تخمر کما مرّ فتدبر۔‘‘ (رد المحتار،ج:۲، ص: ۴۷۶) رمضان المبارک 1436ھ - جولائی 2015 (صححہ: #ایس_اے_ساگر)
---------------------------------
گوشت کے علاوہ ماکولات ومشروبات کے احکام
مفتی شعیب عالم
زندگی آمد برائے بندگی
کھانا پینازندگی کے لیے ہے اورزندگی بندگی کے لیےہے۔ارشاد باری تعالی ہے کہ جن وانس کی پیدائش کا مقصدعبادت ہے۔
ضرورت اورعبادت
کھانا پینا انسان کی ضرورت ہے لیکن اگرانسان اپنی اس طبعی ضرورت کو پوراکرنے میں حلال وحرام کاخیال رکھے تو یہی ضرورت اس کی عبادت بن جاتی ہے۔
بندے کے حق کی برتری
انسان کی غذائی ضرورت كا شريعت كو اس قدرلحاظ ہے كہ جب اسے مردار کے علاوہ كچھ ميسرنہ ہواوربھوک سےجان جانے كا خوف ہوتواسے بقدرضرورت مردار كھانالازم ہے یوں شریعت اپنے حق کے مقابلے میں بندے کی ضرورت کو فوقیت دے دیتی ہے۔
لطیف انسانی جذبات کی رعایت
غذا انسانی ضرورت ہے مگرانسانی طبیعت چاہتی ہے کہ غذا لذید اورمزیدار ہو،پانی شیریں اورخوش گوار ہو،شریعت نےانسان کے ان لطیف جذبات اورباریک احساسات کا بھی بھرپورخیال رکھا ہے چنانچہ غذاؤں میں عمدہ اورمرغوب اشیاء کو حلال کیا ہے جن کو طیبات کہاجاتا ہےتاکہ غذائی ضرورت کے ساتھ ساتھ انسا ن کی فطری جذبات کی رعایت اورجمالیاتی ذوق کی تسکین ہو۔
فلسفہ شریعت سے آگاہی
جن اشیاء کو شریعت نے حلال یا حرام کیا ہے ان کے پس پشت فلسفے کو بھی شریعت نے بیان کردیا ہے جن کو مقاصد شریعت کہا جاتا ہے تاکہ انسان پوری بصیرت کے ساتھ حکم شریعت پر عمل پیراہوسکے۔
حلال وحرام حق شریعت
حلال کاوہ ہے جس کی شریعت نے اجازت دی ہے اورحرام وہ ہے جس سےشریعت نے منع کیاہے۔دونوں صورتوں میں اتھارٹی صرف شریعت کے پا س ہے،اس لیے کوئی انسان نہ اپنی عقل سے کسی چیز کو حلال قراردے سکتا ہے اورنہ اسے حرام کرسکتا ہے،اگر وہ ایسا کرتا ہے تو شریعت کے منصب کو سنبھالتا ہے۔
اباحت اصل ہے
اگر کسی شے کے متعلق حلال یا حرام کی صراحت نہ ہوتوگوشت وغیرہ چند اشیاء کو چھوڑکر وہ حلال سمجھی جائے گی ۔اس کو شریعت کی زبان میں یوں بیان کہا جاتا ہے کہ اصل اشیاء میں اباحت ہے۔
اباحت کے اصل ہونے کا مطلب
اباحت کے اصل ہونے کامطلب یہ ہے کہ اس کے لیے دلیل قائم کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اصل دلیل کا محتاج نہیں ہوتا جب کہ حرمت عارض ہے اورعارض کے لیے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔
حلت کے طرح طہارت بھی اصل ہے
جس طرح اصل اباحت ہے اورحرمت کے لیے دلیل کی ضرورت ہے اسی طرح اصل طہارت ہے اورنجاست کے لیے دلیل کی ضرورت ہے۔اس اصول کی رو سے جب تک کسی شے کی حرمت یا نجاست پر دلیل قائم نہ ہو اس وقت وہ حرام یا نجس نہیں سمجھی جائے گی ۔
حلت وطہارت کے رفع کے لیے دلیل ضرورت
جب حلت اورطہارت اصل ہیں تو ان کے رفع کے لیے بھی اتنی ہی قوی اورٹھوس دلیل کی ضرورت ہوگی چنانچہ محض شک اوروہم سے کسی چیز کو حرام یا نجس نہیں قراردیاجاسکےگا۔
بے جاکھود کرید کی ممانعت
بعض لوگ اپنے گمان میں احتیاط اس میں سمجھتےہیں کہ کسی چیز کو حرام قراردے دیا جائے، جب کہ اصول یہ ہے کہ اگرکسی شے کے متعلق دلائل متعارض ہوں تو احتیاط پرعمل ہوگا مگراحتیاط یہ نہیں کہ کسی چیز کو حرام قرار دے دیا جائے بلکہ احتیاط یہ ہے کہ اصل پرعمل کیا جائے اور اصل اباحت اورطہارت ہے۔اگرچہ بحیثیت مسلمان ہمیں محتاط زندگی گزارنی ہےخصوصاغذائی مصنوعات میں بے احتیاطی ہمارےدین اورصحت دونوں کے لیے سخت مضر ہے مگر اس کے باوجود جب تک کوئی دلیل یا ظاہر ی علامت کسی شے کی حرمت یا نجاست کے متعلق موجود نہ ہواس وقت ہمیں زیادہ چھان پھٹک اورگہرائی میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
حلال اشیاء
اوپر گزراکہ حلال وہ ہے جس کی شریعت نے اجازت دی ہو۔اس کی مختصروضاحت یہ ہے کہ جمادات سب کے سب حلال اور پاک ہیں البتہ کسی جامد چیز کا اتنی مقدار میں استعمال جائز نہیں جو مسکر ہو یا مضر ہو۔ مضر میں ممانعت کی وجہ ضرر اور مسکر میں سکر ہے اس لیے اگر ضرر اور سکر دور کردیا جائے تو ممانعت بھی نہ رہے گی ۔جو حکم جمادات کا ہے وہی نباتات کا بھی ہے۔
حیوانات میں سے انسان اپنی حرمت کی وجہ سے اور اس کا فضلہ نجاست کی وجہ سے اور خنزیر نجس العین ہونے کی وجہ سے اور کیڑے مکوڑے خبث کی وجہ سے حرام ہیں۔ بحری حیوانات میں سوائے مچھلی کے سب حرام ہیں۔جو مچھلی مرکر پانی کے اوپر الٹی تیرنے لگے جسے سمک طافی کہتے ہیں اس کاکھانا بھی حرام ہے۔
حرام اشیاء
1:۔مچھلی کے علاوہ پانی کے تمام حیوانات اور ان کے اجزاء ،۲:۔کیڑے مکوڑے، ۳:۔خشکی کے وہ تمام جانور جن میں دم سائل نہ ہو، ۴:۔وہ تمام جانور جن کو شرعی ذبح کیاجائے ان کے تمام اعضاء سوائے دم مسفوح کے سب پاک ہوجاتے ہیں، ۵:۔مردار کے بال، ناخن، سینگ، پر، وغیرہ، ۶:۔مردار کی کھال اور اعضاء جلدی، جیسے: مثانہ، اوجھ،پتہ،پوست،سنگدانہ وغیرہ دباغت سے پاک ہوجاتے ہیں، ۷:۔سانپ اور چھپکلی جب کہ بالشت بھر سے چھوٹے ہوں، ۸:۔وہ غیر مسفوح خون جو رگوں ،گوشت یا جلد میں رہ جائے، ۹:۔حلال پرندوں کے فضلات، ۱۰:۔ایسے حیوانات کا فضلہ جس سے احتراز بہت مشکل ہو اور اس میں عموم بلویٰ ہو جیسے: مکھی کی بیٹ اور ریشم کے کیڑے کا فضلہ، ۱۱:۔حلال پرندوں کا لعاب، پسینہ اور میل، ۱۲:۔ انسان کا لعاب، پسینہ، میل، آنسو اور قے قلیل، ۱۳:۔ کیڑوں کا لعاب جن سے گھن نہ آتی ہو، ۱۴:۔ جامد شئے بقدر نشہ، ۱۵:۔ نباتات بقدر نشہ، ۱۶:۔ غیر ماکول زندہ جانور سے الگ کیا ہوا ایسا عضو جس میں حس نہ ہو ، ۱۷:۔ الکحل جوانگور وکھجور کے علاوہ کسی اور شئے سے کشید کیا گیا ہو، ۱۸:۔ عورت کا دودھ علاوہ شیرخوار کے کسی اور کے لیے،اگر شوہر خود شیرخوارگی کی عمر میں ہو اور بیوی کا دودھ پی لے تو حرمت کے ساتھ نکاح کے فسخ کا باعث ہے، ۱۹:۔ ذبح کے بعد جو خون رگوں اور جلد میں رہ جاتا ہے اور دم کبد وطحال کے علاوہ جو خون غیر مسفوح ہو وہ بھی پاک ہے، مگر حلال نہیں۔
ناپاک اشیاء
۱:۔ جو جانور شکار کرکے کھاتے رہتے ہیں، ۲:۔جو جانور شرعی طریقہ سے ذبح نہ کیا گیا ہو، ۳:۔حرام شرابیں، ۴:۔زندہ جانور سے جدا کیا ہوا ایسا عضو جس میں حس ہو، ۵:۔مردار سوائے چنداعضاء کے، ۶:۔خنزیر، ۷:۔ ان جانوروں کا دودھ جن کا گوشت کھانا حرام ہے، ۸:۔مردار کا انڈا اگر چہ اُسے ذبح کیا گیا ہو، ۹:۔ حلال جانور کا گندا انڈا جب خون بن جائے ۔
اسباب حرمت
شریعت جن وجوہات کی بناپرکسی چیز کو حرام قراردیتی ہے وہ درج ذیل ہیں :
1۔ کرامت 2۔ نجاست 3۔ اسکار4۔ استخباث 5۔ اضرار
کرامت
کوئی انسانی عضو یا انسانی عضو سے ماخوذ کوئی جزء کسی مصنوع میں شامل ہو تو احترام آدمیت کی وجہ سے اس کا استعمال حرام ہے، خواہ وہ انسانی عضو بذات خود پاک ہو یا ناپاک ہو۔
نجاست
جو چیز گندی اور پلید ہے اس کا کھانا جائز نہیں جیسے پیشاب، بہتا خون، پیپ، جو جانور شرعی طریقہ سے ذبح نہ کیا گیا ہو، حرام شرابیں، زندہ جانور سے جدا کیا ہوا ایسا عضو جس میں حس ہو، خنزیر، ان جانوروں کا دودھ جن کا گوشت کھانا حرام ہے، مردار کا انڈا اگرچہ اسے ذبح کیا گیا ہو، حلال جانور کا گندا انڈا جب خون بن جائے۔ ہر جانور کی قے کا وہی حکم ہے جو اس کی بیٹ کا ہے، اگر بیٹ پاک ہے تو قے بھی پاک ہے اوراگر بیٹ نجاست غلیظہ ہے جیسے مرغی تو قے بھی نجاست غلیظہ ہے اور اگر بیٹ نجاست خفیفہ ہے جیسے کوا تو قے بھی نجاست خفیفہ ہے۔ جس چیز کے اندر کیڑا ریزہ ریزہ ہوگیا ہو وہ پاک ہے مگر اس کا خوردنی استعمال جائز نہیں البتہ اس اصول سے ٹڈی مستثنیٰ ہے۔ بڑی دیگ میں اگر مکھی گرجائے تو دیگ ناپاک نہیں ہوتی، مگر مکھی کا کھانا پھر بھی جائز نہیں رہتا۔ پھلوں کےاندراگر کیڑے پڑگئے ہوں مگر ان میں روح نہ پڑی ہو اور انہیں نکالنا مشکل ہو تو پھل کی تبعیت میں انہیں کھانا جائز ہے۔ جس پروڈکٹ میں کارمائن شامل ہواس کا خوردنی استعمال جائز نہ ہوگا کیونکہ کیڑے سے حاصل کردہ رنگ ہے البتہ شیلک کا استعمال جائز ہے کیونکہ کیڑے کے ریزش ہے البتہ شرط ہے کہ قلیل مقدارمیں ہواوراس سے گھن نہ آتی ہے۔
اسکار
اسکار سے مراد یہ ہےکہ کوئی چیز نشہ آور ہو۔ جواشیاء نشہ آور ہیں، وہ دوقسم پر ہیں:1:۔سیال2:۔غیرسیال ،جو سیال ہیں،ان کی پھر دو قسمیں ہیں:۱:۔چار حرام شرابیں۲:۔چار حرام شرابوں کے علاوہ اور شرابیں۔جو چار شرابیں حرام ہیں وہ نجس بھی ہیں اور حرام بھی ہیں اور اس کے علاوہ جو دیگر شرابیں ہیں،وہ پاک ہیں۔جو خشک اشیاء ہیں اور نشہ آورہیں، جیسے: افیون اور بھنگ وغیرہ وہ پاک ہیں اور نشہ سے کم مقدار ان کااستعمال جائز ہے۔الکحل اگر انگوریا کھجور سے کشید کردہ نہ ہوتو پاک ہے اوراتنی مقداراس کا استعمال جائز ہو جو نشے کی حدتک نہ ہو۔جو گیس الکحل سے کشید کی جاتی ہے وہ بھی پاک ہے کیونکہ ایک تو وہ چارحرام شرابوں میں سے کسی ایک سے کشید نہیں جاتی اوردوسرے یہ کہ فقہاء نے نجاست کے دھویں پاک قراردیا ہے۔ مائع اشیاء جیسے تیل،شہد اور شراب کی تہہ میں جو تلچھٹ رہ جاتی ہے جسے دردی کہتے ہیں،یہ عام شرابوں کی طرح حرام اورنجس ہےاوراس سے فائدہ اٹھانا ناجائز وحرام ہے اور جس پروڈکٹ میں دردی خمر شامل ہو اس کا استعمال جائز نہیں ۔
خبث
کبھی کوئی شے خبث کی وجہ سے حرام ہوتی ہے۔خبث کا مطلب ہے جن سے ایک سلیم الطبع انسان کوگھن آتی ہو۔جملہ حشرات الارض اس علت کی بنا پر حرام ہیں کہ ان میں خبث ہوتا ہے۔ خبیث ہونے کے ساتھ کوئی شئ پاک بھی ہوسکتی ہے جیسا کہ مچھلی کے علاوہ دیگر دریائی جانوروں میں خبث ہے مگر وہ پاک بھی ہیں۔پاک ہونے کی وجہ سے ان کا خارجی استعمال جائز ہے اور حلال نہ ہونے کی وجہ سے ان کاکھانا جائز نہیں۔الغرض خبث اور حلت جمع نہیں ہوسکتے مگر خبث اور طہارت جمع ہوسکتےہیں۔جس چیز کے اندر کیڑاریزہ ریزہ ہوگیا ہووہ پاک ہے مگر اس کاخوردنی استعمال جائز نہیں البتہ اس اصول سے ٹڈی مستثنیٰ ہے۔ بڑی دیگ میں اگر مکھی گر جائے تو دیگ ناپاک نہیں ہوتی، مگر مکھی کا کھانا پھر بھی جائز نہیں رہتا۔پھلوں کےاندراگر کیڑے پڑگئے ہوں مگر ان میں روح نہ پڑی ہواورانہیں نکالنامشکل ہوتو پھل کی تبعیت میں انہیں کھاناجائز ہے۔ جس پروڈکٹ میں کارمائن شامل ہواس کاخوردنی استعمال جائز نہ ہوگا کیونکہ کیڑے سےحاصل کردہ رنگ ہے البتہ شیلک کااستعمال جائز ہے کیونکہ کیڑے کے ریزش ہے البتہ شرط ہے کہ قلیل مقدارمیں ہواوراس سے گھن نہ آتی ہے۔
مضرت
آخری اصول جس کی وجہ سے کوئی چیز حرام ہوتی ہے وہ مضرت ہے۔مضرت سے مراد ان کانقصان دہ اورضرررساں ہونا ہے۔ ضرر رساں اشیاء میں اصل حرمت ہے۔ضررسے مراد یہ یہ ہے کہ دین ،عقل ،مال اور نسل کے لیے نقصان دہ ہو۔اگر مضر اشیاء کا ضرر دور کردیا جائے تو وہ حرام بھی نہیں رہتی ،مگرجن چیزوں کو شریعت نے صراحت کے ساتھ حرام کردیا ہے وہ حرام ہی رہیں گی خواہ اس کے استعمال سے ظاہری اور فوری نقصان ہو یا نہ ہو۔یہ بھی ضروری نہیں کوئی شی بہرصورت مضر ہو بلکہ عام طبائع کے لیے اس کا مضر ہونا کافی ہے اور ضرر کا بھی صرف غلبہ ظن ضروری ہے ۔یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شی ایک شخص کے لیے مضر ہونے کی بنا پر حرام ہو اور دوسرے کے لیے مضر نہ ہونے کی بنا پر حرام نہ ہواور جو اشیاء مفید اور مضر دونوں پہلو رکھتی ہوں ان میں غالب کا اعتبار ہوگا۔
اسباب حرمت کے مابین نسبت
جو چیز ناپاک ہے اس کا کھانا حرام ہے، مگر جو پاک ہے ضروری نہیں کہ اس کا کھانا حلال ہو جیسے: مچھلی کے علاوہ سمندری اشیاء اور زہر بقدرغیر مضر، مٹی اور کیڑے مکوڑے وغیرہ پاک ہیں، مگر حلال نہیں۔ ہرنجس حرام ہے مگر ہر حرام نجس نہیں، جیسے پیشاب نجس بھی ہے اور حرام بھی، مگردم غیر مسفوح حرام ہے مگر نجس نہیں۔
مرکبات کاحکم
نجس اور غیر نجس مل جائیں تو وہ نجس ہوتے ہیں ۔ اگر نجاست غالب ہوتو اس کا حکم نجس العین کا ہےاور اگر نجاست مغلوب ہو تو وہ نجس تو ہے مگر خارجی استعمال اس کا جائز ہے۔اگر مضر اور غیر مضر مل جائیں اور ضرر جاتا رہے یا خبیث اورغیرخبیث مل جائیں اور خبث جاتا رہے تو ضرر اور خبث کی بنا پر پائی جانے والی حرمت بھی ختم ہوجاتی ہے۔اگرمضر کا ضرر،مسکر کا سکر اور خبیث کا خبث دور ہوجائے تو حرمت بھی دور ہوجاتی ہے۔نجس چیز اگر نجس العین ہے تو سوائے تبدیل ماہیت کے طہارت کا اور کوئی طریقہ نہیں اور اگر متنجس ہے توانقلاب ماہیت سے بھی پاک ہوسکتا ہے اور نجاست کے اجزاء الگ کرنے سے بھی پاک ہوسکتا ہے۔
قلیل حرام پر مشتمل غذائی مصنوعات کاحکم
بعض ملکی یا غیرملکی غذائی مصنوعات میں قلیل مقدار میں کوئی ناجائز عنصر یا جزء بھی شامل ہوتاہے، مگر وہ جزء مقدار میں اتنا کم ہوتا ہے کہ پورے پروڈکٹ کے مقابلے اس کی نسبت نہ ہونے کی برابر ہوتی ہے، ایسی مصنوعات کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اگر کوئی شئ مضرت یا خبث کی وجہ سے حرام ہو مگر مجموعے میں جاکر اس کا خبث دور ہوجائے اور مضرت نہ رہے تو اس کا استعمال جائز ہوگا۔اگر کسی چیز میں چار حرام شرابوں میں سے کوئی ایک شامل ہو تو وہ پروڈکٹ نجس ہونے کی بنا پر حرام ہے، اگر چہ اس میں نشہ نہ ہو۔اگر پروڈکٹ میں انسان کاکوئی جزء یا اس سے ماخوذ کوئی جزءشامل ہے یا کوئی نجس شئ شامل ہے تو اس کا داخلی استعمال جائز نہیں۔اگر تبدیل ماہیت کی وجہ سے حرام تبدیل ہوگیاہو تو اس کااستعمال جائز ہے ،اگر چہ صانع کے لیے بالقصدکوئی حرام چیز کسی مصنوع میں شامل کرنا جائز نہیں۔( )
غیر شرعی نام یا شکل والے مصنوعات
ایسے حلال پروڈکٹ کوحلال تصدیقی شہادت فراہم نہیں کی جانے چاہیے جس کانام غیر شرعی ہوجیسے ہاٹ ڈاگ یا جو صلیب ،بت یا جان دار کی شکل میں ہو۔
داخلی اور خارجی استعمال
شریعت اشیاء کے داخلی اور خارجی استعمال میں فرق کرتی ہے۔۱:۔نجس کا داخلی اور خارجی استعمال ناجائز ہے۔۲:۔متنجس کا خارجاً استعمال جائز ہے، بشرطیکہ نجاست غالب نہ ہواور اگر نجاست کا غلبہ ہو تو وہ نجس العین کے حکم میں ہے۔۳:۔ جو چیز سیال نہ ہو اور نشہ آور ہو، جیسے افیون اور بھنگ وغیرہ ان کی اتنا مقدار کھالینا جو نشہ نہ کرے اور مقصد لہو ولعب نہ ہوجائز ہے اور اس دوا کا لگانا بھی جائز ہے جس میں یہ چیزیں شامل ہوں اور اتنا کھانا کہ نشہ ہوجائے حرام ہے۔۴:۔چارحرام شرابوں کے علاوہ اور شرابوں کا خارجی استعمال جائز ہے اور داخلی استعمال بھی کسی معتد بہ غرض کے لیے جائز ہے۔۵:۔جمادات اور نباتات کا خارجی استعمال جائز ہے۔۶:۔حشرات الارض کا خارجی استعمال جائز ہے۔۷:۔ غیر ماکول اللحم جانور بھی اگر ذبح کردیا جائے تو پاک ہوجانے کی وجہ سے اس کا خارجی استعمال جائز ہوجاتا ہے، البتہ خنزیر اس قاعدہ سے مستثنیٰ ہے۔ ایک ضمنی اختلاف یہ بھی ہے کہ ذبح سے مراد ذبح شرعی ہے یا مطلق ذبح کافی ہے۔۸:۔ مردار کے بعض اعضاء جیسے بال، ہڈی، ناخن وغیرہ کا بھی بیرونی استعمال جائز ہے، اسی طرح مردار کی کھال اور آنتوں اور جھلیوں وغیرہ کا دباغت کے بعد خارجی استعمال جائز ہے۔۹:۔ حلال جانور اگر مرجائے تو اس کے تھنوں کا دودھ پاک اور حلال ہے۔۱۰:۔ حرام جانور جو دم سائل رکھتا ہو وہ اگر چہ ذبح سے پاک ہوجاتا ہے، مگر اس کا انڈا پھر بھی ناپاک رہتا ہے۔اسی طرح ذبح کے مقام پر جو خون لگا رہ جاتا ہے وہ بھی دم مسفوح ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔
غیرمسلموں کی خشک خوردنی اشیاء اوربرتنوں کا حکم:
ذبیحہ تو صرف مسلمان اور کتابی کا حلال ہے، مگرذبیحہ کے علاوہ اور خشک خوردنی اشیاء مثلاً: پھل فروٹ،اجناس وغیرہ ہر کافر ومشرک کے ہاتھ کے جائز وحلال ہیں۔جن اشیاء میں صنعت کی ضرورت پڑتی ہے، ان میں چونکہ ان کے ہاتھ اور برتن کا استعمال ہوتا ہے، اس لیے بلاضرورت شدیدہ استعمال نہ کرے، البتہ اگر طہارت کا اورکسی حرام چیز کی عدم شمولیت کا یقین ہو تو پھر استعمال میں حرج نہیں۔
عموم بلوی ٰ
عموم بلویٰ جس طرح طہارت اور نجاست میں باعث تخفیف ہے، اسی طرح حلت وحرمت میں بھی باعث تخفیف ہے پھلوں کی بیع اورمخابرہ کے مسئلہ میں اسی عموم بلوی کی وجہ سے جواز کا فتوی دیاجاتا ہے۔
افواہوں کاحکم
بے بنیاد خبروں، جھوٹی افواہوں،غیر مصدقہ اطلاعات اور محض عوامی شہرت کا کوئی اعتبار نہیں، جب کہ پس پشت کوئی سند اور دلیل نہ ہو۔ (لنک) (صححہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/11/blog-post_13.html