چھترول برائے دیسی لبرل و ملحدین
کیا اسلام نے زانی بندر کو سنگسار کرنے کا حکم دیا ہے؟
بخاری کی ایک حدیث پہ منکرین حدیث و ملحدین کا اعتراض اور اس کا جواب
تحریر: احید حسن
حدیث میں ہے:
عن عمرو بن ميمون قال رايت فى الجاھلية قردة اجتمع عليھا قردة قد زنت فرجموھا فرجمتھا معھم۔
”عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ جاہلیت میں مَیں نے دیکھا کہ ایک بندریا جس نے زنا کیا تھا دوسرے بندروں نے اکٹھے ہوکر اسے سنگسار کیا، میں نے بھی ان کے ساتھ اس بندریا کو سنگسار کیا۔“
اب یہ حدیث پڑھیں اور بتائیں اس میں ایک واقعہ بیان ہورہا ہے یا بندروں کے رجم یعنی زانی بندر کو سنگسار کرنے کا حکم دیا گیا ہے؟
بخاری میں ایک صحابی نے اپنا زمانہ جاہلیت کا ایک واقعہ بیان کیا ہے اور بس جس سے منکرین حدیث و ملحدین کو غلط فہمی ہوگئی کہ بندروں کو رجم کرنے کا حکن نازل ہوگیا ہے۔
وہ جاہل بندر بھی مار دیتے تھے اگر زنا کرتا دیکھ لیں۔ اس لئے جگہ دی ہے اسے امام بخاری نے بخاری میں۔
منکرین حدیث اس حدیث کو بھی اپنے اعتراض کا موضوع بناتے ہیں اور حدیث کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیا بندروں کے یہاں بھی نکاح و طلاق اور حدود و تعزیرات کا نظام لاگو ہے؟
پہلا جواب تو یہ ہے کہ بندروں کی شکل میں وہ جن تھے اور وہ بھی شریعت کے مکلف ہیں ۔ تورات میں رجم کا حکم تھا اور نص قرآنی سے ثابت ہے کہ جنوں کی ایک جماعت شریعت موسوی کی پابند تھی۔ (دیکھئے الاحقاف: ۲۶) یہاں محض ایک صحابی نے اپنا واقعہ بیان کیا۔ لیکن یہاں یہ حکم تو نہیں دیا گیا کہ بندر کو بھی سنگسار کردو.
دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر بندروں نے کسی بندریا کو اُس کی آوارگی پر پتھروں سے ہلاک کردیا تو اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں یہ کون سی عجیب بات ہوگئی جسے عقل و مشاہدہ قبول نہیں کرسکتے۔ جبکہ ماہر عمرانیات کی تصریحات موجود ہیں کہ بندر کے جسم کے ساتھ ساتھ اس کی سوچ بھی انسانوں سے مشابہت رکھتی ہے۔ جانوروں میں غیرت کا پایا جانا ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے، لہٰذا اُنھیں بھی غیرت آتی ہے۔
اس واقعہ میں نصیحت یہ ہے کہ انسان کے اندر غیرت ہونی چاہئے کیوں کہ اس معاملے میں جانور بھی پیچھے نہیں ہیں اور سزائے رجم فطری سزا ہے کہ ایک حیوان اپنی نفسیاتی پاکیزگی کے لیے رجم کرسکتا ہے تو کیا انسان کے لئے یہ سزا نامناسب ہے؟
تیسرا جواب یہ ہے کہ امام بخاری رحمه الله نے اس واقعہ کا ذکر حیوان کو مکلف ٹھہرانے کے لیے نہیں کیا بلکہ یہ ثابت کرنے کے لئے کیا ہے کہ عمرو بن میمون مخضرم تابعی ہیں۔ اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ امام بخاری رحمه الله نے زیربحث روایت کو التاریخ الکبیر میں عمرو بن میمون کے ترجمے کے تحت ذکر کیا ہے اور اہل فن اس سے بخوبی واقف ہیں کہ تراجم کی کتابوں میں احادیث و روایات کے ذکر سے ترجمہ ہی کے متعلق کوئی اطلاع بہم پہنچانا مقصود ہوتا ہے۔
بخاری میں ایک واقعہ بیان ہوا آپ نے اس کو شرعی حکم بنادیا؟ منکرین حدیث و ملحدین جو اسلام کا حکم ہے ہی نہیں اسے حکم کہتے ہے۔ جو حدیث زمانہ جاہلیت کا ایک واقعہ بیان کررہی ہے اسے شریعت کا حکم بنا کے اس کو اسلام پہ اعتراض کے لیے پیش کرتے ہیں۔
قرآن کی کسی آیت یا صحیح حدیث یا کسی صحابی رضی اللہ تعالی عنہ کے قول یا کسی امام کی فقہ یا کسی مستند عالم دین نے آج تک زانی بندر کو سنگسار کرنے کا حکم نہیں دیا۔ لیکن بخاری میں بیان ہونے والے محض ایک واقعے کو منکرین حدیث و ملحدین نے عوام کو دھوکا دے کر اسے اسلام کا حکم بناکر پیش کیا حب کہ اسلام میں جنسی عمل پہ کسی جانور کو سنگسار کرنے کا کوئی حکم موجود نہیں ہے۔ لہذا منکرین حدیث و ملحدین کا حدیث اور اسلام پہ یہ اعتراض اسلام پہ بہتان اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ایک کوشش ہے اور کچھ بھی نہیں۔ (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/09/blog-post_11.htm
No comments:
Post a Comment