Wednesday 9 August 2017

اب ایک ہونے کی راہ کھلی

ایس اے ساگر
کیا دارالعلوم دیوبند حق اور باطل میں فرق کرنے سے قاصر ہے؟ تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں پر مکمل پابندی نے قائم کئے سوالیہ نشان! کیا اب دارالعلوم دیوبند، جمعیت اور مظاہر العلوم کے ہر دو گروپوں کے ساتھ بھی یہی رویہ اختیار کیا جائے گا جبکہ ذمہ داران کی جانب سے کہا گیا ہے کہ تشکیل کرنے کی صورت میں پکڑے جانے پر سخت کاروائی کا انتباہ، دارالعلوم کو 'انتشار' سے بچانے کیلئے فیصلہ لیاگیا ہے. میڈیا کی خبر سے عوام پر سکتہ طاری ہوگیا جب یہ معاملہ منظر پر آیا کہ دارالعلوم دیوبند کے اہتمام میں منعقد اساتذہ کی میٹنگ میں گزشتہ روز ایک بڑا فیصلہ لیا گیا، موصولہ اطلاعات کے مطابق دارالعلوم کی انتظامیہ نے دارالعلوم کی چہار دیواری کے اندر جماعتِ تبلیغ کی مکمل سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی ہے، اس فیصلے کی تائید و توثیق کرتے ہوئے مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ یہ فیصلہ جماعتِ تبلیغ کی مخالفت میں نہیں لیا گیا بلکہ دارالعلوم دیوبند کو کسی انتشار سے بچانے، اور اس کے تحفظ کیلئے یہ فیصلہ لیا گیا ہے، مولانا نے مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے اکابر نے جو دنیا میں انقلابی کام کیا ہے ان میں ایک انقلابی کام جماعتِ تبلیغ بھی ہے، اکابر کا اس میں کوئی اختلاف نہیں تھا اور نہ رہا ہے، اختلاف اس سلسلے میں ہے کہ طالب علم زمانہ طالب علمی میں دعوت و تبلیغ کی سرگرمیوں میں مشغول نہ رہے اور ہم اس شخص کی مخالفت کرتے ہیں جو طلباء کے لئے جمعیت کی ممبر سازی کرتا ہے، ہم نے کبھی طلبہ کے درمیان جمعیت کی ممبر سازی نہیں کی، تاکہ وہ جس مقصد کے لئے یہاں آئے ہیں اسی میں منہمک رہیں، دیگر سرگرمیوں میں ملوث ہوکر اپنی استعداد خراب نہ کرلیں، باقی تبلیغی جماعت کے ساتھ دارالعلوم کا کوئی اختلاف نہیں ہے، بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جماعت تبلیغ میں پھوٹ پڑگئی، دونوں فریق کے درمیان مصالحت کی بھی کوشش کی گئی لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوسکا، دونوں فریق کے آپسی اختلاف کی وجہ سے تبلیغی جماعت کا نظام پوری دنیا میں اتھل پتھل ہوگیا،
مولانا نے فرمایا کہ ہم ابھی حال ہی میں مغربی ممالک کے دورے پر تھے تو ہم کناڈا میں گئے وہاں تبلیغی جماعت کا آپسی اختلاف، انگلینڈ میں گئے وہاں اختلاف، واشنگٹن میں گئے وہاں اختلاف، الغرض جہاں گئے وہاں ہم نے تبلیغی جماعت کے آپسی اختلاف کو پایا، جماعت دو حصوں میں بٹی اور بٹ کر انتہائی متشدد ہوگئی، یہاں تک کے دنیا کے بیشتر ممالک میں دونوں فریقین کے باہم دست و گریباں ہونے کی خبریں اخبار کی زینت بننے لگیں، اور یہ تشدد ہندوستان اور بنگلہ دیش میں تیزی سے پھیل تا جارہا ہے، اس تشدد اور غلو پسندی کی آنچ دارالعلوم کے اندر بھی پہنچ سکتی ہے، اگر خدانخواستہ تبلیغی جماعت کے دونوں فریق کے نظریات رکھنے والے طلبہ احاطہ دارالعلوم میں باہم دست و گریباں ہوگئے تو یہ دارالعلوم کے لئے بڑا خراب وقت ہوگا اور اس کی وجہ سے دارالعلوم کسی بھی وقت انتشار و خلفشار کا شکار ہوسکتا ہے، موجودہ حکومت نے فرقہ پرست طاقتوں کو کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے، دارالعلوم دیوبند اور مدارس اسلامیہ کیلئے یہ وقت انتہائی گھٹن کا وقت ہے اگر یہاں انتشار برپا ہوتا ہے تو یہ اکابر کی مقدس امانت ضائع ہوسکتی ہے، اس صورتحال میں دارالعلوم کو سنبھل کر چلنا بھت ضروری ہے، اسی لئے انتظامیہ نے یہ فیصلہ لیا ہے کہ دارالعلوم کی حفاظت کی خاطر تبلیغی جماعت کی مکمل سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی جائے، کمرے میں جاکر تشکیل کرنے، عصر کے بعد مسجد چھتہ میں مشورہ کرنے، نیز دونوں فریقین میں سے کسی کی حمایت اور دوسرے کی مخالفت کرنے پر مکمل قد غن لگا دیا جائے، اگر کوئی طالب علم تبلیغی جماعت کی کسی بھی سرگرمی میں ملوث پایا گیا تو اس پر سخت تادیبی کاروائی کی جائے گی ، عدم تعمیل کی صورت میں سخت کارروائی کو یقینی بنانے کے لئے انتظامیہ بڑے اقدام کی تیاری میں ہے. اس لئے طلباء کو پہلے ہی متنبہ کیا جارہا ہے وہ تمام تر سرگرمیوں کو ترک کرکے تعلیم کے حصول پر دھیان دیں، انتظامیہ کے لئے آزمائش کا سبب نہ بنیں۔"
صاف ظاہر پے کہ اس موقع پر ہر مسئلے میں امت کی رہبری کرنے والے اس ادارے سے امت متوقع تھی کہ وہ کسی ایک کا ساتھ دیتے ہوئے اپنی حق پرستی کی روایت کو برقرار رکھتی!
لیکن اس کا کیا کیجئے کہ سوشل میڈیا پر اشکال کئے جارہے ہیں کہ؛
"تو پھر خود دارالعلوم دیوبند، جمعیت العلماء، مظاہر العلوم کےتعلق سے دارالعلوم دیوبند کے طلباءو اساتذہ کےدرمیان اختلاف ہے تو ان دونوں دارالعلوم دیوبند، جمعیت اور مظاہر کے پروگراموں اور جلسےجلوس میں جانے پر پابندی کیوں نہیں عائد گئی ہے؟
نیز یہ بھی کہا جارہا ہے کہ؛
"دعوت و تبلیغ میں پاکستان کی شوری کے نام پر برپا کیا گیا فتنہ و اختلاف آخر کار بڑے بڑے علماء کرام کے قابو سے بھی نکل گیا، پہلے دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم صاحب دامت برکاتہم نے مولانا سعد صاحب کے خلاف فتوی جاری کرکے امت مسلمہ کو پاکستانی شوری پر جمع کرنے کی کوشش کی، جو بری طرح ناکام ہو گئی، اور امت مسلمہ کے اذھان کو نظام الدین جانے سے متاثر نہ کرسکے، پھر طلبہ دارالعلوم دیوبند کو مرکز نظام الدین سے روکدیا گیا، لیکن اس سے بھی پورے عالم تو دور کی بات خود دارالعلوم دیوبند کے اندرونی نظام دعوت و تبلیغ کو بھی قابو نہ کیا جاسکا، یہاں تک کہ ناظم دارالافتا دارالعلوم دیوبند حضرت اقدس مفتی اسعد اللہ صاحب دامت برکاتہم سلطان پوری کو صرف اس وجہ سے مہتمم صاحب نے نکال دیا کہ مفتی صاحب نے موجود اختلاف میں اپنے نظریات کو تابع سنت و سیرت یعنی امارت کے پابند رکھا، پھر مہتمم دارالعلوم دیوبند نے کچھ نظام الدین سے وابستہ افراد کے مسجد چھتہ مشورہ میں آنے پر پابندی عائد کردی، لیکن نتیجہ لا حاصل، پھر دارالافتا کے فائق ترین، پابند درس و تکرار، اخلاقیات میں نمبر اول مفتی نعمان بمبئی کو ممنوع الداخلہ قرار دے دیا، اور جب مفتی ابوالقاسم صاحب سے معلوم کیا گیا، تو کہنے لگے کہ اس کے نمبر کم تھے،
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جس کے نمبر کم ہوتے ہیں اس کو کوئی بھی بد سے بدتر نظام والا ادارہ بھی ممنوع الداخلہ قرار دیتا ہے؟؟لیکن حکمت کے نور کی کمی کا شکوہ کس سے کرے کوئی؟ جبکہ غیر مستحق طلبہ کو دارالافتا میں داخلہ مل جاتا ہے، اس نظام غیر عدل و انصاف ہی کی وجہ سے مخلص اہل دل کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں، چنانچہ مولانا یوسف تاولوی دامت برکاتہم نے نظامت تعلیمات کی ذمہ داری سے استعفاء دے دیا، کہ میں ناجائز کام ہوتا دیکھ کر چپ نہیں رہ سکتا، جبکہ یہ بات بھی تحقیق سے سامنے آئی ہے کہ دانیال نامی سابق طالب علم دارالعلوم دیوبند مقیم حال و متعلم دارالافتا جامعہ امروہہ مولانا یوسف صاحب تاولوی کے ساتھ بطور جاسوس کے مولانا سعد صاحب کے پاس گذشتہ سال گیا تھا، جب سے اس نے کارگزاری سنائی ہے کہ مولانا یوسف صاحب تاولوی ناظم تعلیمات دارالعلوم دیوبند مولانا سعد صاحب سے متعلق غیر متشدد مثبت ذہن رکھتے ہیں اسی وقت سے ان سے استعفی کی تمنا اور دعائیں ہونے لگی تھیں، جبکہ مصعب ابن پروفیسر عبدالمننان علی گڑھ جیسے جھوٹے اور مکار بلکہ دارالعلوم دیوبند کی فکروں کے دشمن لوگ یہاں کے دارالافتا میں معین مفتی ہیں، مفتی مزمل بدایونی جیسے آزاد مزاج لوگ استاد بنے ہوئے ہیں، مفتی عبداللہ معروفی صاحب جیسے بڑے عالم لوگ کھلے عام دارالعلوم دیوبند کے موقف کی دھجیاں اڑارہے ہیں، مفتی افضل کیموری جیسے لوگ مولانا سعد صاحب کو باعتبار نظریات کے کافر و مرتد کہہ کر طلبہ کو جہاد کی ترغیب دیتے ہیں، شوری کی جانبداری میں کیا کچھ نہیں کرنا پڑ رہا ہے، خیر دارالعلوم دیوبند کے داخلی نظام غیر عدل و انصاف کو بہر حال ملت اسلامیہ کا نقصان تو کہا جاسکتا ہے، لیکن امت مسلمہ کے لئے بجائے مایوس ہونے کے اللہ تعالٰی کی طرف توجہ کرنے کی سخت ضرورت ہے، چلے تھے مولانا سعد صاحب اور مرکز نظام الدین کے نظام کو درست کرنے، خود کا حال بے قابو ہو گیا، اور مجبورا یہ اعلان مولانا ارشد مدنی دامت برکاتہم کے ذریعہ مفتی ابوالقاسم صاحب دامت برکاتہم نے کروادیا کہ دارالعلوم دیوبند کے طلبہ کے لئے گشت و ملاقات مشورہ کرنا ایسا ہی قابل اخراج جرم ہوگا جیسا کہ فلم، ٹی وی اور دیگر قصوروں پر ہوتا ہے، اس طرح اب یہ بات اچھی طرح سے واضح ہوگئی ہے کہ پڑوس کے ملک میں شوری کا لگایا ہوا فتین درخت اتنا منحوس ہے کہ دارالعلوم دیوبند کی تاریخ میں وہ کام کروادیا جو کہ غیر مسلم بلکہ اسلام دشمن ممالک بھی نہ کرواسکے، "تبلیغ پر پابندی" پوری امت مسلمہ سے درخواست یہ ہے کہ اس نازک موقع پر دارالعلوم دیوبند کے داخلی نظام کی شفافیت کی دعا کریں،
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر ۔
فقط والسلام
یکے از طالبان علوم نبوت،
مقیم جگر دیوبند،
9 اگست 2017"
دارالعلوم کی کہانی
میں انہیں جانتا ہوں وہ دین کی خدمت نہیں کر رہے ہیں بلکہ آگ لگا رہے ہیں، دارالعلوم دیوبند کے ہی کچھ علماء مرکز پر آگ لگا رہے ہیں.
مولانا ارشد مدنی صاحب.
تفصیلی بات 
دارالعلوم کے موجودہ فیصلے  سے مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی کیوں کہ میں نے اپنے قیام دارالعلوم کے زمانے (2000/2006) میں اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ اساتذہ کرام کا ایک طبقہ اس کام پر پابندی لگانے کے لئے پر عزم ہے لیکن اس وقت ماحول سازگار نہ ہونے کی وجہ سے اس پر عمل ۔۔ ممکن نہیں ہو سکا
اور مقدر سے یہی طبقہ آج بر سر اقتدار یا انتظامیہ میں مؤثرکردار اداکر رہا ہے جب کہ اس وقت حضرت مہہتم صاحب رح شیخ نصیر احمد خان صاحب رح حضرت شیخ عبدالحق رحمہ اللہ حضرت مولانا نعمت اللہ اعظمی دامت برکاتہم کام کی تائید میں تھے اور طلبہ میں کام کا دفاع کرتے تھے
اس سلسلے میں ناچیز کے بے شمار تجربات ومشاہدات ہیں جنہیں آئندہ بیان کروں گا
ان حضرات کا خیال تھا کہ طلبہ کی تربیت اور امت کے موجودہ دینی احوال کے پیش نظر طلبہ میں کام بہت مفید ہے
ایک بار رابطہ مدارس کے جلسے کے موقع پر بعد عصر مختلف علاقوں کے علماء شیخ نصیر احمد خان صاحب رح کی خدمت میں حاضر تھے ای صاحب نے سوال کیا کہ حضرت دارالعلوم تعلیمی ترقی کا فارمولہ (روایت بالمعنی) تو پیش کرتا ہے مگر تربیتی خاکہ نہیں پیش کرتا جب کہ طلبہ کی بے راہ روی دنبدن بڑھتی جارہی ہے.
حضرت نے فرمایا ہمارے یہاں تربیت کا ایک مفید نظام موجود ہے آپ بھی اسے اپنالیں لوگوں نے حیرت سے پوچھا،
کون سا نظام ؟فرمایا طلبہ جمعرات کو جماعتوں میں جاتے ہیں جس سے ان میں عملی پختگی پیدا ہوتی ہے اورگاؤں والوں کی بھی اصلاح ہوتی ہے.
شیخ ثانی رحمہ اللہ کام کرنے والے طلبہ سے بہت محبت فرماتے، ہمت بڑھاتے اور کام  کے ذمہ داروں کو جمعہ کی صبح بلا کر ناشتہ کرواتے
جب کہ حضرت الاستاذ مولانا ارشد مدنی دامت برکاتہم سے بارہا سنا کہ اگر میرا بس چلے تو میں دارالعلوم میں کام پر پابندی لگادوں
کچھ ایسا ہی خیال استاد گرامی مفتی سعید صاحب کاتھا،
ایک بار طلبہ حضرت کے محلہ کی مسجد میں بعد عصر گشت کرنے گئے تو اعلان کرتے ہی حضرت نے بھگادیا.
جب کہ حضرت بحرالعلوم کا خیال تھا کہ اس کام سے طلبہ میں سنجیدگی پیدا ہوئی ہے 'عمومی طور پر عملی ترقی ہوئی اور یہ کہ'جب سے یہ کام ہورہا ہے اسٹرائک وغیرہ کے واقعات بہت کم ہو گئے ہیں."
الفاظ شاید یہی تھے ویسے بھی حضرت باحیات ہیں رجوع کیا جا سکتا ہے.
ایک بار تقسیم انعام کے جلسے میں "ایک مؤقر استاد نے اس کام کو فتنہ قرار دیتے ہوئے طلبہ سے اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے پر ابھارا تو حضرت بحرالعلوم فورا تخت سے اتر کر گھر چلے گئے اور پھر جب ہمارے ایک ساتھی نے گھر جا کر ملاقات کی تو فرمایا بیان کرنے والے مالیخولیا ہوگیا ہے
ایک بار ایک مکان میں چھاپا مارا گیا 'امتحان کا زمانہ تھا، بہت سے طلبہ فلم دیکھتے ہوئے پکڑے گئے جس کا اساتذہ پر بہت اثر تھا '
مہتمم صاحب نے تبلیغی ذمہ داروں کو طلب کیا، ناچیز بھی حاضر تھا مہتمم صاحب نے پوچھا کتنے مشوروں میں بیٹھتے ہیں اور تبلیغی محنت میں لگےہیں بتایا گیا کہ تین سو کے قریب - حضرت نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
اوروں کو بھی لگاؤ کیوں  کہ جو طلبہ تبلیغ میں حصہ لیتے ھیں وہ ان خرافات سے دور رہتے ہیں.
شوری کی میٹنگ تھی ایک صاحب نے (غالباتفریح طبع کے طور پر) اس کام پر پابندی لگانے کی پر زور وکالت فرمائی،
حضرت مفتی منظور صاحب نے مخالفت فرمائی جس کی وجہ سے پابندی نہ لگ سکی یہ تبلیغ کے اتفاق کا زمانہ تھا
دارالعلوم کے طلبہ آپس میں سر پھٹول کریں گے اس لئے کام پر ہی پابندی لگادیں کچھ سمجھ سے بالاتر ہے.
اب تک پچھلے دو سال میں ایسا ایک بھی چھوٹا یا بڑا واقعہ پیش نہیں آیآ
اگر پیش آتا تو واقعے کے بعد تادیبی کاروائی کا موقع تو تھا ہی ادنی واقعے پر اخراج جیسی بڑی سزا دی جاسکتی تھی.
ممبئی وغیرہ کے واقعات پر دارالعلوم کے طلبہ کو قیاس کرنا قیاس مع الفارق کی بہترین مثال ہے.
کہاں ممبئی جیسی کروڑوں کی بے لگام آبادی اور کہاں دارالعلوم دیوبند کا ایک منظم ومحدود سخت نظام ؟
اور پھر دارالعلوم کے علاوہ دیوبند واطراف میں چھوٹے بڑے بہت سے مدارس ہیں سب میں تبلیغی کام ہوتا ہے انھیں اب تک کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی اور نہ ان کے طلبہ میں سر پھٹول کا خطرہ ہے.
تمام مدارس سے شعبان میں جماعتیں نکلی ہیں،
نظام الدین گئیں اور آج بھی وہ پابندی لگانے پر نہیں سوچ رہے ہیں،
مظاہر قدیم وجدید ۔دارالعلوم وقف شاہی مرادآبآد ندوة العلماء لکھنؤ وغیرہ اس لئے جماعت کے اختلاف سے متاثر نہ ہوے کیوں کہ یہ ادارےاختلاف سے اپنادامن بچاکر اپنے سابقہ معمول پر باقی رہے.
جب کہ دارالعلوم غیر جانب داری کے اعلان و اظہار کے باوجود بعض کم عمر وکم عاقبت اندیشوں کی کارستانیوں
کی وجہ  سے شوری کی حمایت  کا الزام سہتا رھا
جس کے جووں سے چھٹکارا پانے کے لئے سر منڈانے کا فیصلہ کیا گیا
دارالعلوم میں دو حضرات تبلیغی اختلاف کی علامت تھے.
ایک مفتی مصعب علی گڑھی جو شوری کے حامی ہی نہیں داعی اور وکیل بھی ہیں.
دوسرے مفتی اسعد اللہ سلطان پوری مولانا سعد صاحب کے حامی اور وکیل دارالعلوم نے مفتی اسعداللہ کو قضیہ شروع ہونے کے چند ماہ کے اندر سبک دوش کر دیا جب مصعب علی گڑھی صاحب اپنے تشدد اور شوری کی کھلی حمایت اور دارالعلوم کے پلیٹ فارم کو اپنے مقاصد کے لیے کھلے عام۔استعمال کرنے کے باوجود دارالعلوم میں معین مفتی ہے نہیں انتظامیہ کے مقرب بھی  ہیں کہ
دارالعلوم نے غیر جانب دار رہنے کے لئے جماعتوں کو نظام الدین کے بجائے چھتہ مسجد سے روانہ کرنے کا فیصلہ کیا
مگر اسی دارلعلوم (زادھا اللہ قبولا واقبالا) کے بعض جدید اساتذہ نے دارالعلوم کے اطراف کے مدارس میں جا کر طلبہ کو نظام الدین جانے سے روکنے کی محنت شروع کردی ;شاید انھیں یقین تھا کہ انتظامیہ اگر ہمارے اس  عمل پر خوش نہیں ہو گی تو کم ازکم مفتی اسعد اللہ کی طرح ایکشن بھی نہیں لے گی.
لیکن مفتی مصعب علی گڑھی نے کہا تھا کہ اگر میں تبلیغ کی شورے کو دارالعلوم کے دعوتی کام پر غالب کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا تو کام پر پابندی لگوادوں گا
اسی قول کا عملی نفاذ ہے
ان سارے معاملات میں مفتی علی گڑھی کی کاوشیں جگ ظاہر ہیں ثبوت بھی موجود ہے
یہ بحث تو ختم ہوگئی۔ مگر احباب ہی بار بار چھیڑ دیتے ہیں
دیوبند میں کچھ ایسے افراد موجود ہے جو اکابر علماء دیوبند کے منہاج سے الگ ہوگئے ان کا دو طرفہ معاملہ
1 ہر سال شعبان میں نظام الدین  سے ہر سال آنے والی جماعت کو بیان کرنے سے مانا کیا گیا اور خود اس امور  کو انجام دئے 
2 رمضان المبارک سے نکلنے والی جماعتوں کو مرکز نظام ادین نہیں بھیجا گیا اور نہ ہی وہاں کے رخ پر جماعت بھیجی گئی
3 مفتی اسد اللّه کو معزول کیا گیا
4 مفتی نعمان کو تدریس افتاء میں داخلہ ممنوع ہوا جو  بے بنیاد وجوہ سے
4  مفتی یوسف تاؤلی عہد تعلیمات سے استعفی دیا جو ایک تحقیق  پور امور ہے
5 پورے ہندوستان و دیگر ممالک میں نظام الدین سے جانے والا طبقہ نے  دیوبند کے موقف کو اپنے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا اور ہر جگہ دیوبند کا نام لے کر شوری کی تائید  کروانا اور دیوبند کا اس پر خاموش رہنا
6 طلبہ کو دعوت و تبلیغ سے نہ جڑنے کی ہدایات دی گئیں اور خود کو شوری و نظام الدین سے لگ تھلگ کا اظہار کیا گیا جبکہ مفتی مصب ابن عبدالمنمان جو خود عالمی شوری رائیونڈ کے حامی کا فرزند ہے اور بطور معین مفتی بڑے آرام سے دارالافتاء میں اپنا کام انجام دے رہا ہے اگر دیوبند سے الگ ہے توہ اس کا دارالافتاء میں رہنا کافی مشکوک قرار دیا جائے گا.''
بریکنگ نیوز 
کل جیسے ہی دارالعلوم کی جانب سے تحریر تیار کی گئی، کسی خفیہ رابطہ نے شوری کے سر غنہ مولوی شاھد سکریٹری مظاھر علوم کو اطلاع پہنچائی جس پر وہ فورا متحرک ہوگئے اور فورا مولانا ارشد مدنی کے در پر جھک کر بھیک مانگنے لگے کہ اس تحریر سے یہ اقتباس اور پیرا گراف حذف کرکے ایسی تحریر عام کی جائے جس میں ہماری تائید شامل ہو مگر مولانا نے ایک لمبے وقت تک ان کی باتیں مان کر جو چوک کی تھی اب وہ اس کو دوہرانے کے لئے ہر گز تیار نہ ہوئے اور لکھ ہی دیا کہ ..ایک طبقہ (شوری والے) کی جانب سے مسلسل یہ باور کروانے کی کوشش جارہی ہے کہ دارالعلوم دیو بند اس اختلاف میں ایک خاص فریق (شوری والوں) کا ہمنوا ہے .... 
اب اس انکار اور واضح تردید کے بعد وہ اپنا لٹکا ہوا منھ لے کر الٹے پیروں واپسی پر مجبور ہوئے. ناکامی کے سیاہی ان کے چہرہ پر کوئی بھی بابصیرت دیکھ سکتا ہے . .حدیث پر یقین رکھئے  جیت ھمیشہ سچائی کی ہوتی ہے.  
عبد اللہ سلیم قاسمی
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا!
کیا اب دارالعلوم دیوبند، جمعیت اور مظاہر العلوم کے ہر دو گروپ ایک ہوجائیں گے؟

No comments:

Post a Comment